"بیت لحم" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 1: سطر 1:
'''بیت لحم'''، [[فلسطین]] کی  ایک بستی کا نام ہے  جو حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے۔ یہ بستی فصیل کے اندر سفید پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے، اور یہ گاؤں یروشلم کے قدیم شہر سے 5 میل(8کلومیٹر) جنوب کو واقع  ہوچکا ہے۔ اس مکان پر حضرت یسوع مسیح کی روایتی جائے پیدائش کے اوپر صلیب کی شکل کا ایک گرجا بنا ہوا ہے۔ جس کے نیچے ایک تہ خانہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق، حضرت داؤد  علیہ السلام کی جائے پیدائش اور مسکن تھا۔ اس بستی کے رہنے والے عام طور پر مسیحی ہیں، جن کی گزراوقات زائرین کی آمد پر ہے۔ یہ گاؤں سلطنت اردن میں شامل تھا۔ جون 1967ء کی جنگ میں اس پر [[اسرائیل]] نے قبضہ کر لیا ہے۔
'''بیت لحم'''، [[فلسطین]] کی  ایک بستی کا نام ہے  جو حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے۔ یہ بستی فصیل کے اندر سفید پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے، اور یہ گاؤں یروشلم کے قدیم شہر سے 5 میل(8کلومیٹر) جنوب کو واقع  ہوچکا ہے۔ اس مکان پر حضرت یسوع مسیح کی روایتی جائے پیدائش کے اوپر صلیب کی شکل کا ایک گرجا بنا ہوا ہے۔ جس کے نیچے ایک تہ خانہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق، حضرت داؤد  علیہ السلام کی جائے پیدائش اور مسکن تھا۔ اس بستی کے رہنے والے عام طور پر مسیحی ہیں، جن کی گزراوقات زائرین کی آمد پر ہے۔ یہ گاؤں سلطنت اردن میں شامل تھا۔ جون 1967ء کی جنگ میں اس پر [[اسرائیل]] نے قبضہ کر لیا ہے۔
== تعارف ==
== تعارف ==
بیت اللحم کا لفظی معنی تو عجیب ساہے یعنی گوشت یا روٹی کا گھر یا وہ علاقہ جہاں کثرت سے پھل اور رزق پایا جاتا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ بیت اللحم کنعانیوں کے خدا ’’لحمو‘‘ یا ’’لاخاما‘‘ کی طرف منسوب ہے۔ یاد رہے کہ آرامی خداؤں میں اس نام کا معبود ’’واؤ کی شد کے ساتھ قوت بمعنی طاقت یا قوت بمعنی روزی کا معبود سمجھا جاتا تھا …وھو الہ القوۃ … او الہ القوت (روزی) وھی کلمۃ آرامیۃ تعنی الخصب والثمار۔ عبرانی بائبل کے مطابق یہ کنعانی شہر اسرائیلی بادشاہ ’’رحبحام‘‘ کی طرف منسوب ہے۔ ہم نے بچپن میں بیت اللحم کا نام بائبل میں پڑھا تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت کے طور پر، اس لیے جب ہمیں بتایا گیا کہ آج ہم بیت اللحم کے وزٹ کیلئے جا رہے ہیں تو ذہن میں عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس شہر کی تاریخ ، کوئی ساڑھے تیرہ سو سال قبل ولادت مسیح بتائی جاتی ہے۔
بیت اللحم کا لفظی معنی تو عجیب ساہے یعنی گوشت یا روٹی کا گھر یا وہ علاقہ جہاں کثرت سے پھل اور رزق پایا جاتا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ بیت اللحم کنعانیوں کے خدا ’’لحمو‘‘ یا ’’لاخاما‘‘ کی طرف منسوب ہے۔ یاد رہے کہ آرامی خداؤں میں اس نام کا معبود ’’واؤ کی شد کے ساتھ قوت بمعنی طاقت یا قوت بمعنی روزی کا معبود سمجھا جاتا تھا …وھو الہ القوۃ … او الہ القوت (روزی) وھی کلمۃ آرامیۃ تعنی الخصب والثمار۔ عبرانی بائبل کے مطابق یہ کنعانی شہر اسرائیلی بادشاہ ’’رحبحام‘‘ کی طرف منسوب ہے۔ ہم نے بچپن میں بیت اللحم کا نام بائبل میں پڑھا تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت کے طور پر، اس لیے جب ہمیں بتایا گیا کہ آج ہم بیت اللحم کے وزٹ کیلئے جا رہے ہیں تو ذہن میں عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس شہر کی تاریخ ، کوئی ساڑھے تیرہ سو سال قبل ولادت مسیح بتائی جاتی ہے۔ان میں سے اکثر کے نزدیک وہ کھجور کا درخت جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ہے <ref>سورہ مریم/25</ref>۔ اور حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی کھجوریں کھائی تھیں وہ اسی شہر میں ہے۔


بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں جب یہ علاقہ تقسیم ہوا تو یہ علاقہ بنی بنیامین (جو یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی بنیامین کی اولاد) کے حصے میں آیا تھا۔ اسی لیے اسی علاقے میں حضرت یوسف اور بنیامین کی والدہ حضرت یعقوب نبی کی زوجہ حضرت راحیل کی قبر موجود ہے۔
بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں جب یہ علاقہ تقسیم ہوا تو یہ علاقہ بنی بنیامین (جو یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی بنیامین کی اولاد) کے حصے میں آیا تھا۔ اسی لیے اسی علاقے میں حضرت یوسف اور بنیامین کی والدہ حضرت یعقوب نبی کی زوجہ حضرت راحیل کی قبر موجود ہے۔
’’بیت اللحم‘‘ کو شہر داؤد بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی ولادت بھی بیت اللحم میں ہوئی تھی۔ شہر کے شمالی جانب حضرت داؤد کی طرف منسوب ایک کنواں بھی ہے اور انہوں نے ایک بہت بڑا محل بھی یہاں بنایا تھا۔ اسی صدی میں اس محل داؤدی کے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں۔
’’بیت اللحم‘‘ کو شہر داؤد بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی ولادت بھی بیت اللحم میں ہوئی تھی۔ شہر کے شمالی جانب حضرت داؤد کی طرف منسوب ایک کنواں بھی ہے اور انہوں نے ایک بہت بڑا محل بھی یہاں بنایا تھا۔ اسی صدی میں اس محل داؤدی کے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں۔
شہر بیت اللحم، یروشلم سے مشرقی جانب صرف چھ سات میل دور ہے، دوسری صدی میں رومی بادشاہ قیصر ہیڈریان نے اسے تباہ کر دیا تھا۔ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبیﷺ]] کی ولادت سے تین سو سال پہلے ایک اور رومی بادشاہ قنسطنطین Constanstineنے یہودیت چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ اس بادشاہ کی والدہ ہیلن بڑی مذہبی عورت تھی، اس نے 327عیسوی میں اسے دوبارہ آباد کیا اور 330عیسوی میں جائے ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر گرجا گھر ’’کنیسۃ المھد‘‘ کے نام سے تعمیر کرا دیا۔ یاد رہے کہ اسی بیگم ہیلن نے یروشلم کا کنیسۃ القیامۃ بھی تعمیر کروایا تھا۔  
شہر بیت اللحم، یروشلم سے مشرقی جانب صرف چھ سات میل دور ہے، دوسری صدی میں رومی بادشاہ قیصر ہیڈریان نے اسے تباہ کر دیا تھا۔ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبیﷺ]] کی ولادت سے تین سو سال پہلے ایک اور رومی بادشاہ قنسطنطین Constanstineنے یہودیت چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ اس بادشاہ کی والدہ ہیلن بڑی مذہبی عورت تھی، اس نے 327عیسوی میں اسے دوبارہ آباد کیا اور 330عیسوی میں جائے ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر گرجا گھر ’’کنیسۃ المھد‘‘ کے نام سے تعمیر کرا دیا۔ یاد رہے کہ اسی بیگم ہیلن نے یروشلم کا کنیسۃ القیامۃ بھی تعمیر کروایا تھا۔
 
== بیت لحم پر مسلمانوں کا قبضہ ==
== بیت لحم پر مسلمانوں کا قبضہ ==
ہجرت کے سولہویں سال637ء میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کے عہد میں اسے بھی یروشلم کے ساتھ فتح کر لیا گیا تھا۔ اس وقت یہاں یہودیوں کا داخلہ بند کیا ہوا تھا لیکن عمر فاروقؓ نے یروشلم کی طرح بیت اللحم میں بھی ہر قسم کی پابندیاں ختم کر دی تھیں۔ اس چرچ میں حضرت عمر نے نماز بھی ادا کی تھی، جس سے غیرمسلم عبادت گاہوں میں چند شرائط کے ساتھ [[نماز]] پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔ بیت اللحم میں دور عباسی یعنی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں بڑی ترقی ہوئی۔ یہاں کئی مساجد و مدارس قائم کیے گئے، گیارہویں صدی تک یروشلم کی طرح بیت اللحم بھی مسلم ریاست کا حصہ رہا۔ 1099میں صلیبیوں نے قبضہ کر کے یہاں بھی یروشلم کی طرح بڑی خونریزیاں کیں۔ یونانی آرتھو ڈوکس کو ہٹا کر لاطینی پادریوں کا تقرر کیا جنہوں نے جی بھر کر کفرو جہل پھیلایا۔ پھر سلطان صلاح الدین نے اسے فتح کرنے کے بعد یہاں سے صلیبیوں کے اثرات بد کا خاتمہ کر دیا اور اسے ایک پرامن شہر ڈکلیئر کیا جہاں تمام مذاہب کو آزادی حاصل رہی۔ 1250میں ممالیک حکمرانوں (جیسے تاریخ ہند میں خاندان غلاماں کی حکمرانی تھی، یہی صورتحال [[شام]] و نواحی علاقوں میں بھی تھی) نے اس شہر کی دیواریں تباہ کر دیں جنہیں 16ویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یورپی ممالک کی سازشوں کی وجہ سے 1917میں یہ علاقہ برطانوی فورسز کے قبضے میں آگیا۔ عثمانیوں کا برائے نام ہی سہی، لیکن کنٹرول سمجھا جاتا تھا جو عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ان کے ہاتھوں سے بھی نکل گیا۔ 1948میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اردن کو کنٹرول مل گیا۔ لیکن 1967کی چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل اس پر قابض ہوگیا۔ 1995کے [[معاہدہ اوسلو|اوسلو معاہدے]] کے تحت بیت اللحم فلسطینی اتھارٹی کنٹرول میں دے دیا گیا۔
ہجرت کے سولہویں سال637ء میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کے عہد میں اسے بھی یروشلم کے ساتھ فتح کر لیا گیا تھا۔ اس وقت یہاں یہودیوں کا داخلہ بند کیا ہوا تھا لیکن عمر فاروقؓ نے یروشلم کی طرح بیت اللحم میں بھی ہر قسم کی پابندیاں ختم کر دی تھیں۔ اس چرچ میں حضرت عمر نے نماز بھی ادا کی تھی، جس سے غیرمسلم عبادت گاہوں میں چند شرائط کے ساتھ [[نماز]] پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔ بیت اللحم میں دور عباسی یعنی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں بڑی ترقی ہوئی۔ یہاں کئی مساجد و مدارس قائم کیے گئے، گیارہویں صدی تک یروشلم کی طرح بیت اللحم بھی مسلم ریاست کا حصہ رہا۔ 1099میں صلیبیوں نے قبضہ کر کے یہاں بھی یروشلم کی طرح بڑی خونریزیاں کیں۔ یونانی آرتھو ڈوکس کو ہٹا کر لاطینی پادریوں کا تقرر کیا جنہوں نے جی بھر کر کفرو جہل پھیلایا۔ پھر سلطان صلاح الدین نے اسے فتح کرنے کے بعد یہاں سے صلیبیوں کے اثرات بد کا خاتمہ کر دیا اور اسے ایک پرامن شہر ڈکلیئر کیا جہاں تمام مذاہب کو آزادی حاصل رہی۔ 1250میں ممالیک حکمرانوں (جیسے تاریخ ہند میں خاندان غلاماں کی حکمرانی تھی، یہی صورتحال [[شام]] و نواحی علاقوں میں بھی تھی) نے اس شہر کی دیواریں تباہ کر دیں جنہیں 16ویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یورپی ممالک کی سازشوں کی وجہ سے 1917میں یہ علاقہ برطانوی فورسز کے قبضے میں آگیا۔ عثمانیوں کا برائے نام ہی سہی، لیکن کنٹرول سمجھا جاتا تھا جو عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ان کے ہاتھوں سے بھی نکل گیا۔ 1948میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اردن کو کنٹرول مل گیا۔ لیکن 1967کی چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل اس پر قابض ہوگیا۔ 1995کے [[معاہدہ اوسلو|اوسلو معاہدے]] کے تحت بیت اللحم فلسطینی اتھارٹی کنٹرول میں دے دیا گیا۔
confirmed
2,279

ترامیم