اہل حدیث اسلامی علوم، حدیث وفقہ اور تاریخ وتراجم وغیرہ موضوعات پر لکھی گئی کتابوں میں اصحابِ حدیث، اہل حدیث، علمائے حدیث، جیسے الفاظ طلبہٴ حدیث اور حدیث کی روایت اور درس وتصنیف کے ذریعہ اس کی خدمت میں مشغول رہنے والوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں، نیز قدیم مصنَّفات میں امام مالک، امام شافعی کے مذہب ومسلک کی پیروی کرنے والے علما کا تعارف بھی اہلِ حدیث کے لقب سے کیاگیا ہے۔ اسی طرح اہل السنہ والجماعہ کا ذکر بھی اہلُ الحدیث کے عنوان سے کتابوں میں ملتا ہے۔

اہل حدیث
ناماہل حدیث
بانی
  • مالک
  • شافعی
نظریہقرآن اور حدیث کی پیروی

اہل حدیث

لفظ اہل حدیث دولفظوں سے مرکب ہے پہلا لفظ "اہل“ ہے دوسرا لفظ " الحدیث ہے اس کا ترجمہ حدیث والا بنتا ہے اہل حدیث اللہ کے پاک کلام قرآن مجید فرقان حمید کا نام ہے پھر حدیث حضور کے اقوال وافعال کا نام ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اہل الحدیث کے معنی قرآن وحدیث والے کے ہیں پس مسلک اہل الحدیث کی بنیاد اولین قرآن مجید ہے اور اس کے بعد احادیث رسول۔ قرآن مجید اور حدیث نبوی صرف یہی دو چیزیں مسلک اہل حدیث کی بنیاد ہیں اور یہ دونوں چیزیں جدید نہیں بلکہ اسلام کی ابتدائی بنیاد ان ہی پر رکھی گئی ہے۔ اہل حدیث اپنے آپ کو عملاً اہل سنت کہلاتے ہیں اور مذہب اہل الحدیث ۔ ان کے اصول سنت یہ ہے کہ صحابہ کرام کے طریقے کو لازم پکڑیں اور ان کی اقتداء کریں اور بدعت ترک کردیں کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے [1]۔

تعریف اہل سنت

اہل سنت ، اہل حدیث اور محمدی وغیرہ ناموں سے اتباع رسول اور تعلق بالرسول کا اظہار ہوتا ہے اہل حدیث کا نام اس لئے بھی زیادہ جامع ہے کہ لفظ " حدیث قرآن کو بھی شامل ہے اس لئے اہل حدیث سے مراد وہ جماعت جو قرآن و حدیث پر عمل کرے۔ اہل حدیث کا نظریہ ہے کہ ہم کوئی فرقہ نہیں بلکہ اہل حدیث تو عین اسلام ہے اسلام نام، نبی کی پیروی کا ہے۔ طور کے بعد کسی کو نہیں پکڑتے کہ اس کی تقلید کر کے فرقہ نہیں بلکہ حضور کی حدیثوں پر عمل 15 ہیں اسلام سُنتِ رسول کا نام ہے۔ اہلِ حدیث وہ جماعت ہے جو حضرت محمد کو کافی سمجھتی ہے اور آپ کے مقابلہ میں کسی اور کو امام نہیں بنائی ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور کو چھوڑ کر کسی اور کو امام بنانا محمد رسول اللہ سے غداری کے مترادف ہے۔ مذہب اہل الحدیث حضور کی تمام سنتوں اور حدیثوں کا محافظ ہے اور سلفی مسلک کا واحد علمبردار ہے[2]۔

عقائد اہل حدیث

  • جولوگ قال دیکھتے یا شگون مانتے یا مزارات کی تعظیم کرتے یا مزارات کو آراستہ کرتے یا مسکرات کو استعمال کرتے یا ریشمی کپڑے پہنتے اُن کو اچھا نہیں کہتے کہ یہ باتیں شریعت رسول کے خلاف ہیں۔
  • اہل حدیث کے نزد یک جادو کرنا کفر ہے پس جس نے جادو کیا یا اس سے رضا مند ہوا وہ کفر کا مرتکب ہو گیا۔ جو نجومی کے پاس آیا اور اس نے اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو اس کی چالیس دن نماز قبول نہ کی جائے گی۔
  • دنیا کے مسلمان بھٹک گئے ہیں جو پیر اور اولیاء کے اقوال کی پیروی کرتے ہیں اور یہ رواج اُنہوں نے اپنے فائدے کی غرض سے دیئے ہیں۔
  • اہل حدیث صرف قرآن مجید اور احادیث نبوی کو اپنا بادی اور راہنما اقرار دیتے ہیں ۔ اور اُس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا اُس شخص کو پکا رہتا ہے جو اُس کو قیامت تک جواب نہ دے گا۔ مردوں سے دُعائیں مانگنا ان کی دہائی
  • دینا ان کے لئے نذریں ماننا اور قربانی پیش کرنا اس میں شرک داخل ہے۔ یعنی اللہ کے سوا اُس چیز کو مت پکارو جو نہ تجھ کو نفع دے اور نہ تجھ کو ضرر پہنچا سکے محمد بن عبد الوہاب نے کہا جو شخص بنی یا ولی یا صالح کو پکارے یا اُس سے شفاعت کا سوال کرے سو وہ مشرکین کی طرح ہے۔ شفا کے حصول کے لئے دھاگہ کڑایا چھلا وغیرہ ایسی دیگر اشیا بھی شفا کے لئے ہرگز نہیں پہن سکتے ۔
  • انبیاء و اولیاء و صالحین کی زیارت کو جانا بھی شرک قرار دیا اور کہا کہ کسی بھی یا ولی کو وسیلہ سمجھ کر پکارنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ جس نے اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ واسطے بنا لیے اور اُن سے دُعائیں مانگیں ان سے شفاعت طلب کی اور اسی پر بھروسہ کیا تو بالا جماع کفر کا ارتکاب کیا ۔ [3] ۔ اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ رحمن اور رحیم ہے۔ اور جو کسی کام کو سوائے اللہ کے کسی دوسرے کی طرف منسوب کرئے جو بطور مجاز عقلی کے ہو یہ بھی غلط ہے جیسے مجھے اس دوا نے نفع پہنچایا یا اس ولی کی وجہ سے میرا یہ کام ہو گیا۔
  • جو شخص سوائے اللہ کے کسی اور سے یا اُس کی مخلوق میں سے دُعا کرتا ہے اور اُسے پکارتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ان کے پکارنے سے مجھے نفع ہو گا یہ بہت بڑا گناہ ہے ایسا شخص مشرک ہے [4]۔
  • یہ جو قبروں پر گنبد بنائے جاتے ہیں یہ اس زمانے میں برابر بت پرستی کے ہو گیا اس سے یہ غرض ہوتی ہے۔ کہ صاحب مقبرہ سے حاجت طلب کریں گے اور اس کے سامنے گریہ زاری کریں گے اور وہ ہماری مشکلات کو حل کرے گا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا ۔
  • اہل حدیث کے مطابق یونانی فلسفہ تصوف نے بدعات ، شرک تقلید رسم و رواج وغیرہ نے دین اسلام کے صاف و شفاف چہرے کو دھندلا کر رکھ دیا ہے ۔ اہل حدیث کے عقائد میں ایک اہم عقیدہ عدم وجوب تقلید شخصی کا ہے۔ تقلید اور شرک کو چولی دامن کا ساتھ جانتے ہیں اور ہر مشرک پہلے مقلد ہوتا ہے پھر شرک۔ اگر تقلید نہ ہوتو شرک کبھی پیدانہ ہو تقلید ہمیشہ جاہل بے عقل کرتا ہے اور شرک بھی وہیں پایا جاتا ہے۔ جہاں جہالت اور بے عقلی ہو ان دونوں کے لئے ایسی فضا کی ضرورت ہے جہاں عقل کا فقدان اور عقیدت کا زور ہو ۔ ان دونوں کی بنیاد کسی کو حد سے زیادہ بڑا جاننے اور اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو چھوٹے سے چھوٹا سمجھنے پر ہے اور یہیں عبادت کا مفہوم ہے عبادت کہتے ہیں دوسرے کو بڑے سے بڑا جان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلے میں چھوٹے سے چھوٹا سمجھنا۔
  • اہلِ سنت الجماعت مسلمان فقہ کے چار بڑے اماموں امام ابو حنیفہ، امام شافعی ، امام مالک، امام احمد بن حنبل میں سے کسی ایک کے پیروکار اور اُن کے طے کردہ مسائل فقہ میں سے کسی ایک کے مقلد ہوتے ہیں۔ لیکن اہل حدیث اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں اور فقہی اماموں کی بجائے احادیث کی پیروی کرتے ہیں۔ اہل حدیث نماز میں ہاتھوں کو زیر ناف یا بالائے ناف باندھنے آمین آہستہ آہستہ کہنے پر حنفیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔
  • اہل حدیث تصوف کو بھی ٹھیک نہیں سمجھتے اور اس کی مخالفت کرتے ہیں مسلمانوں کی فضول رسموں سے مثلاً گانے بجانے بیاہ شادی ، ختنے اور تجہیز وتکفین کی فضول خرچیوں سے روکتے ہیں اور پیر پرستی و قبر پرستی کے نقائض دور کرنے میں بھی اس جماعت نے بڑا کام کیا ہے۔ اہل حدیث کہتے ہیں جو لوگ مسجد کوفہ میں بیٹھے ہوئے تسبیحات دانوں پر شمار کر رہے تھے یاذ کر ہی کر رہے تھے وہ مشروع عمل ہے۔ چونکہ اس کی ہیبت و کیفیت رسول اللہ سے ثابت نہ تھی اس لئے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے منع کر دیا [5]۔
  • اہل حدیث حلالہ کو صحیح نہیں سمجھتے اس لئے اہل حدیث حلالہ کے قائل نہیں یہ صرف حنفی فقہ کے لوگ ہیں۔ جو حلالہ کو جائز تصور کرتے ہیں اہل حدیث کے مطابق حلالہ اور متعہ تقریبا دونوں ایک جیسا ہی فعل ہے متعہ اور حلالہ دونوں صورتوں میں طے شدہ مدت کے لئے نام نہاد نکاح کیا جاتا ہے اور دونوں صورتوں میں بدکاری

کو خوب فروغ ملتا ہے۔

  • شعبان کی پندرہویں ( شب برات ) کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور اس کے متعلق وارد حدیثیں صحیح نہیں ہیں پندرہویں تاریخ کی رات کو محفل منعقد کرنا اور اس میں قربت الہی کی غرض سے بہت سارے کام کرنا کہ یہ ثواب کا کام ہے اس سلسلے میں جامع قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ عبادت جسے لوگوں نے رائج کر لیا ہو اور حضور نے اس کو کرنے کا حکم نہ دیا ہو اور نہ خود کیا ہو اور نہ ثابت رکھا ہوتو وہ بدعت ہے۔ ربیع الاول کی بارھویں تاریخ کو کچھ لوگ محفل عید میلادالنبی منعقد کرتے ہیں نہ تو حضور نے اور نہ ہی صحابہ اور نہ ہی آپ کے خلفائے راشدین نے اسے کیا ہے اور نہ ہی دوسری اور تیسری صدی والوں نے کیا ہے بلکہ یہ دین میں ایک نئی ایجاد کر دہ ہے۔ محفل میلاد میں رسول اللہ کو پکارنا آپ سے فریادری کرنا اور مدد طلب کرنا ہو تو یہ اللہ کے ساتھ شرک ہو جائے گا اور ایسے ہی ان کا پکارنا یا رسول اللہ ! ہماری مد فرما مدد مدد یا رسول اللہ یا رسول اللہ تو ہماری فریادرسی کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ بعض لوگ ما صفر کے بارے میں اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس مہینے میں سفر نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ اس مہینے صفر نامی ایک کیڑا ہوتا ہے جو پیٹ میں تکلیف دیتا ہے تو لوگ اس سے بدشگونی لیتے ہیں یہ جہالت اور گمراہی ہے۔

نبی کریم کا ارشاد گرامی : تم لوگ اپنے اوپر میری سنت اور میرے بعد ہونے والے خلفائے راشدین کی سنت کو ( اختیار کرنا لازم کر لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو" بلکہ اللہ کی شریعت کو پکڑے رہنا اس کے راستے پر چلنا اس کی حدود پر رک جانا اور لوگوں کی ایجاد کردہ بدعتوں کو چھوڑ دینا واجب و ضروری ہے [6]۔

مولوی اسمعیل دہلوی

  • اپنی کتاب تقویتہ الایمان ص (۱۵) میں لکھتے ہیں:
  • جو مسلمان کسی بھی یا ولی کی پکی قبر کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی نبی یا ولی کی پکی قبر کی زیارت کے لئے دور دور سے سفر کر کے جائے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی نبی ولی کی قبر پر روشنی کرے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی نبی کے مزار پر خلاف ڈالے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی، نبی پر چادر چڑ ھائے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی نبی ، ولی کے مزار سے رخصت ہوتے وقت ادب کے لئے آئے
  • جو مسلمان کسی ولی ، نبی کی قبر کو چوم لے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی ، نبی کی قبر کو مور چھل جھلے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی ، نبی کی قبر پر شامیانہ کھڑا کرے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی نبی ، ولی کی چوکھٹ کو بوسہ دے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی بنی ، ولی کی قبر پر ہاتھ باندھ کر کچھ عرض کرے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی بنی ، ولی کی قبر پر کسی طرح کی مراد مانگے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی ، نبی کی قبر کی خدمت کے لئے مجاور بن کر رہے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی، نبی کے مزار کے ارد گرد کے جنگل کا ادب کرے وہ مشرک ہے [7]۔

اشرف علی تھانوی

مولوی اشرف علی تھانوی بہشتی زیور حصہ اول ص ۶ - ۴۵ پر مندرجہ ذیل لکھا ہوا ہے :

  • کسی کو ڈور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کو خبر ہو گئی ۔ کسی سے مرادیں مانگنا کسی کے سامنے جھکنا سہرا باندھنا علی بخش، حسین بخش ، عبدالنبی و غیر ہ نام رکھنا شرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی کے سامنے جھک گیا وہ مشرک ہے۔
  • جس مسلمان نے کسی سے مراد مانگی وہ مشرک ہے [8]۔

اہل حدیث کی معتبر کتابیں

اہل حدیث پر ہیز گار مسلمان ہیں وہ سنیوں کی مرتب کردہ احادیث کی چھ کتب (صحاح ستہ ) کو قبول اور بعد کی شرعوں کو مستر د کرتے ہیں۔ اہل حدیث حدیث کی کتابوں کو تین درجوں سے مانتے ہیں۔ اعلی درجے کی تین حدیث کی کتابیں بخاری ،مسلم، موطا امام مالک، درمیانے درجے میں ترندی، ابوداؤد، نسائی، اور مسند احمد وغیرہ تیسرے درجے میں طحاوی ، طبرانی بیہقی وغیرہ کتا بیں ہیں [9]۔

آزادی اور اجتہاد

اہل حدیث آزادی ضمیر اور اجتہاد کے حامی ہیں وہ خُدا کی وحدانیت پر زور دیتے ہیں۔ اللہ کی الوہیت پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ معبود برحق ہے اور اس کے علاوہ سارے معبود باطل ہیں اسماء وصفات اسماء حسنی عالی مرتبہ صفات ہیں۔ اللہ تعالے اپنی مخلوقات کے ساتھ زمین پر موجود ہے کا عقیدہ رکھنے والے کو گمراہ سجھتے ہیں کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کو نا مناسب اور بری صفات سے متصف کیا ہے۔ مسلمانوں سے جب پوچھا جائے اللہ کہاں ہے تو اکثر لوگ جواب دیتے ہیں اللہ ہر جگہ ہے یاد رکھئے یہ عقیدہ مسلمانوں کا نہیں۔ جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ ہے وہ ہرگز مسلمان نہیں بلکہ مشرک ہیں ۔ قرآن اور حدیث یہ بتاتے ہیں کہ اللہ آسمانوں کے اوپر یعنی عرش پر ہے البتہ اللہ کا علم و قدرت ہر زمان و مکاں اور ہر شے کو محیط ہے [10]۔

حیات برزخی

اہل حدیث حضور کی برزخی حیات کے قائل ہیں دنیوی حیات کے قائل نہیں۔ دنیا میں آپ خود زندہ نہیں بلکہ آپ کی نبوت زندہ ہے برزخ میں اللہ کے ہاں آپ خود زندہ ہیں ۔ حیات کے متعلق اہل حدیث کا عقیدہ ہے کہ حضور صرف سلام سننے کے لئے کیا حیات ہیں یہ حیات کیسی کہ اُن کے عاشق اُن کی آنکھوں کے سامنے شرک و بدعت کریں اور وہ چپ پڑے اُن کو گمراہ ہوتے دیکھتے رہیں اور سلام سنتے رہیں ۔ آپ سلام سننے کے لئے دنیا میں نہیں آئے تھے بلکہ شرک و بدعت کو مٹانے اور دین سیکھانے کے لئے آئے تھے [11]۔

زیارت اولیاء

اہل حدیث اماموں اور اولیاء کے احترام کو بھی تو حید کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور کسی بھی پیغمبر بزرگ یا ولی کے توسط سے دُعا مانگنے کے خلاف ہیں۔ دُعا کسی انسان کے واسطہ کی محتاج نہیں بلکہ دُعا براہ راست اللہ تعالی سے مانگی جائے ۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت کرنا شرک اکبر کہلاتا ہے ۔ مثلاً غیر اللہ کو پکارنا مردوں سے فریاد کرتا مدد مانگنا یا ان لوگوں سے مدد مانگتا جو ہیں تو زندہ لیکن موقع پر موجود نہیں [12]۔ اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو مت پکا رو جو تمہیں نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تم ایسا کرو گے تو ظالموں (مشرکوں ) میں سے ہو گے۔ اہل حدیث کے مطابق درگاہوں پر حاضری دینا جائز نہیں صرف بیت اللہ شریف کے علاوہ کسی درگاہ کا طواف جائز نہیں ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک تمباکو نوشی اور تسبیح ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں امید ہے کہ امام مہدی کے ظہور پر دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اہل حدیث کے مطابق ایسا شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جوان واجب الاحترام شخصیات کو گالی دے جو عشرہ مبشرہ میں سے ہے۔ سیاسی لحاظ سے ان کی سب سے اہم اور قابل مذمت رائے یہ ہے کہ تمام کافروں کے خلاف جہاد کرنا چاہئے [13]۔

قیاس

فقہ کا چوتھا ماخذ قیاس ہے جب دو چیزوں میں علت ایک ہی ہو تو ایک کا حکم شرع میں معلوم ہونے کی صورت میں دوسری کو بھی پہلی سے ملا دینے کا نام قیاس ہے۔ جن باتوں میں کتاب وسنت خاموش ہوں اور اجماع بھی موجود نہ ہو ان میں قیاس کے بغیر چارہ نہیں حنفیوں کے ہاں قیاس کے متعلق اس میں وسعت ہے مگر اہل حدیث کے نزدیک شدت ہے امام احمد بن حنبل نے حدیث ضعیف کو قیاس پر ترجیح دی ہے۔ شیعہ زیدیہ کے ہاں قیاس مقبول ہے اہل سنت میں ظاہر یہ اور شیعہ امامیہ کے نزد یک قیاس کی کوئی اصل نہیں [14]۔ ایک ایسے گروہ کا مسلک ہے جو فقہاء کے چار مکتبوں میں سے نہ تو بنیادی اصولوں کو اور نہ قانون کی باریکیوں کو تسلیم کرتا ہے اور نہ دینی اصولوں میں حنبلیوں اشعریوں یا ماتریدیوں کے نقطہ نظر کو مانتا ہے بلکہ صرف قرآن کے احکام اور نبی کریم کے قول فعل ( حدیث وسنت کا خود کو پابند سمجھتے ہیں ) اور صرف حضور کی پیروی کرتے ہیں انہی کو اپنا امام و بادی اور پیرو مرشد سمجھتے ہیں ان کے سوا کسی اور کی طرف منسوب نہیں ہوتے ۔ لفظ وہابی : لفظ وہابی کے لفظی معنی وہاب والا یا بندہ خدا ہیں مگر دو معنے اس کے بُرے ہیں ایک معنی کو تو مذہبی محاورے میں بُرا سمجھا جاتا ہے اور دوسرے معنے کو پیٹیکل اصطلاح میں بُرا سمجھتے ہیں یہ لوگ اس لقب وہابی سے کمال نفرت رکھتے ہیں اور ان کو وہابی کہنا بر الگتا ہے یہ اپنے آپ کو محمدی بھی کہتے ہیں [15]۔

حوالہ جات

  1. یاسر جواد، ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا، ، ٹاک ہوم مزنگ روڈ لاہور
  2. موسیٰ خان جلائر، ۷۳ فرقے ، کی فکشن ہاؤس مزنگ روڈلاہور ۔
  3. سورۃ البقرہ ۱۶۳/۲
  4. علامہ بدرالدین، سوانح حیات ، امام احمد افضل نو را اکیڈمی چک ساده شریف گجرات
  5. موج کوثر ص ۶۱ ۶۳۰ ۷۲
  6. ابوداؤد ح ۴۹۰۷،ترندی ج ۲۶۷۴
  7. حافظ محمد عبد اللہ، اصلی اہل سنت، مکتبہ اسلامی لاہوری عبدالله
  8. پروفیسر اشفاق ظفر لودھی، مقام حدیث اور اصلی اہل سنت، ناشر دار الاندس
  9. محمد طاہر نقاش،حسن عقیده دار الا بلاغ پلیٹر اینڈ کی ستر ھی بیوٹرز لاہور
  10. میاں منظور احمد فقہ واصول فقہ، علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ لاہور ۔
  11. مولوی محمد حجم اغنیمذاہب اسلام ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور۔
  12. سورۃ یونس ۱۰۶/۱۰
  13. محمد ضیا اللہ قادری، عقائد وهابیه ، قادری کتب خانہ تحصیل بازار سیالکوٹ
  14. الشیخ محمد بن صالح ، عقیدہ اہل سنت و الجماعت ، ، ناشر دار الاندس
  15. مفتی احمد یار خان نعیمی، جا الحق مکتبہ اسلامیہ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور