"انصار اللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2: سطر 2:
اس تحریک کا مرکزی دفتر صعدہ میں ہے۔ وہ یمن کی حکومت کو مغرب پر منحصر حکومت سمجھتے تھے اور 2003 سے یمن کی حکومت کی مخالفت شروع کردی تھی۔ 2003 سے یمنی فوج نے اس گروہ کو دبانے اور تباہ کرنے کے لیے صعدہ پر متعدد بار حملے کیے ہیں۔ اسلامی بیداری کی لہر کے پھیلنے کے بعد، انصار اللہ تحریک نے، عوامی رضا کار فورسز کے ساتھ، 2014 میں متعدد فوجی کارروائیوں کے ذریعے اس ملک کے بعض علاقوں اور فوجی مراکز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
اس تحریک کا مرکزی دفتر صعدہ میں ہے۔ وہ یمن کی حکومت کو مغرب پر منحصر حکومت سمجھتے تھے اور 2003 سے یمن کی حکومت کی مخالفت شروع کردی تھی۔ 2003 سے یمنی فوج نے اس گروہ کو دبانے اور تباہ کرنے کے لیے صعدہ پر متعدد بار حملے کیے ہیں۔ اسلامی بیداری کی لہر کے پھیلنے کے بعد، انصار اللہ تحریک نے، عوامی رضا کار فورسز کے ساتھ، 2014 میں متعدد فوجی کارروائیوں کے ذریعے اس ملک کے بعض علاقوں اور فوجی مراکز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
یمن کے صدر کے مستعفی ہونے اور 2015 میں ملکی پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد تحریک انصار اللہ نے عبوری حکومت کی ذمہ داری سنبھالی جس کے بعد سعودی عرب نے دعویٰ کیا کہ انصار اللہ کی سیاسی حکمرانی ناجائز ہے، سعودی عرب کے لیے اس کا خطرہ ہے اور اس کی حمایت کی ہے۔ منصور ہادی کی اقتدار میں واپسی یمن نے حملہ کر کے ہزاروں افراد کو ہلاک اور زخمی کیا اور ملک کے بہت سے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔
یمن کے صدر کے مستعفی ہونے اور 2015 میں ملکی پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد تحریک انصار اللہ نے عبوری حکومت کی ذمہ داری سنبھالی جس کے بعد سعودی عرب نے دعویٰ کیا کہ انصار اللہ کی سیاسی حکمرانی ناجائز ہے، سعودی عرب کے لیے اس کا خطرہ ہے اور اس کی حمایت کی ہے۔ منصور ہادی کی اقتدار میں واپسی یمن نے حملہ کر کے ہزاروں افراد کو ہلاک اور زخمی کیا اور ملک کے بہت سے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔
== انصار اللہ؛ یمن ==
ستمبر 1962 میں عبداللہ سلال کی قیادت میں یمن میں زیدی اماموں کا 1000 ہزار سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوتا ہے اور "جمہوری" حکومت کا قیام ہوتا ہے۔ 1967 میں "قحطان الشعبی" کی قیادت میں جنوبی یمن مستقل حکومت کا اعلان کردیا جاتا ہے اور یوں جنوب اور شمال یمن میں جدائی ہوجاتی ہے۔ جنوب یمن "عوامی ڈیموکریٹک یمن" اور شمال میں "جمہوری عربی یمن" کا اعلان کردیتے ہیں۔ اکتوبر 1978 میں جمہوری عربی یمن، فوجی جنرل علی عبداللہ صالح کو 5 سال کیلئے اپنا صدر بنادیتے ہیں۔ 1983 میں اس مدّت کو 5 سال کیلئے اور بڑھا دیا جاتا ہے۔ صالح اور جنوب یمن کے حاکم ایک معاہدے کے تحت دوبارہ متحد ہونے کا اعلان کرتے ہیں کہ جس میں صنعاء کو دار الحکومت قرار دیا جاتا ہے اور یوں 1990 میں دونوں حصے دوبارہ ایک ہوجاتے ہیں۔ متحد یمن کا "جمہوری یمن" نام رکھا جاتا ہے جس کا صدر علی عبداللہ صالح کو بنایا جاتا ہے۔ صالح کی امریکا سے خاص قربت تھی جس کی وجہ سے یمن کی حکومت نے ان غربی ممالک سے دفاعی معاہدے بھی کئے۔
ایک اہم بات جو زیدی شیعوں کے دوبارہ کھڑے ہونے کا باعث بنی وہ سعودی عرب کی طرف سے وہابییت کی ترویج تھا کہ جس کی وجہ سے یمنی شیعہ شدید دبائو میں زندگی گزار رہے تھے۔ اس کے ساتھ عبداللہ صالح سعودی عرب کے سامنے مکمل غلام بنا ہوا تھا جس کو غیرت مند یمنی بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔
الحوثی تحریک ایک مذہبی، نظریاتی اور سیاسی تحریک ہے کہ جس کا مقصد یمن سے استکباری تسلّط اور وہابیت کے اثرات کو ختم کرنا ہے۔ اس کے پہلے سربراہ سید حسین الحوثی تھے کہ جو سید بدر الدین الحوثی کے فرزند تھے۔ سید بدر الدین الحوثی انقلاب اسلامی ایران سے بہت زیادہ متاثر تھے اور 80 کی دھائی میں تن تنہا وہابی افکار کی خلاف کھڑے ہوئے کہ جس کی وجہ سے ان کو یمن سے جلاوطن کردیا گیا اور انہوں نے ایران میں پناہ لی۔ سید بدر الدین نے پہلے "الحق" نامی تحریک کا آغاز کیا کہ جس کی یمنی علماء نے مخالفت کی اور یوں سید بدر الدین نے یمن کے جوانوں کو اپنا مخاطب قرار دینا شروع کیا اور ایک اور تحریک "شباب المومن" کے نام سے شروع کی۔ یمن کے نوجوان اور جوان تیزی سے اِس تحریک کا حصہ بننے لگے، اس تحریک کا اصلی مقصد یمن میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہی تحریک آج "انصار اللہ" کی شکل میں موجود ہے۔
سید حسین حوثی نے 1991 میں یمن میں مسلحانہ جدوجہد کا آغاز کیا تو سید بدر الدین نے اتحاد کی خاطر اس تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور سب کو اس تحریک کا حصہ بننے اور سید حسین الحوثی کی بیعت کرنے کی تاکید کی۔
امریکا میں 11 ستمبر کے حملے کے بعد یمن میں عبداللہ صالح کی حکومت نے دہشت گردی سے جنگ کے بہانے مختلف ممالک سے دفاعی معاہدے کئے۔ 2004 میں حکومت سید حسین الحوثی سے اتنی زیادہ خوفزدہ ہوچکی تھی کہ ان کے سر کی قیمت 55 ہزار ڈالر مقرر کردی تھی۔
سید حسین الحوثی نے امریکی اور اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کا اعلان کیا کہ جس کو عوام نے بہت پسند کیا۔ اور یہ عوامی مقبولیت اس قدر بڑھتی گئی کہ صنعاء میں نماز جمعہ کے اجتماع "اللہ اکبر، مرگ بر امریکا، مرگ بر اسرائیل" کے نعروں سے گونجنے لگے۔ اسی وجہ سے امریکی پشت پناہی کے ساتھ یمنی حکومت نے اس تحریک کو سختی سے کچلنے کا اعلان کردیا اور 2004 میں سید حسین الحوثی کو شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی عبدالملک الحوثی اس تحریک کے قائد بنے جو آج تک کامیابی سے اس تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ سارے یمن پر انصار اللہ کا پرچم لہرا رہا ہوگا <ref>یمن اور یمنیوں کا اسلام میں کردار، [https://ur.hawzahnews.com/news/377551/%DB%8C%D9%85%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%8C%D9%85%D9%86%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1 hawzahnews.com]</ref>۔
== تاریخی پس منظر ==
== تاریخی پس منظر ==
1990 میں متعدد یمنی زیدی نوجوانوں نے الشباب المومن تنظیم کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس کے پہلے جنرل سیکرٹری محمد یحییٰ اذان تھے، اور بعد میں حسین حوثی اس گروپ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب ہوئے۔ انہوں نے زیدی نوجوانوں کو 1986 میں واپس لایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ سرگرمیاں جن کی ابتدا میں زیدی نوجوانوں کی نظریاتی تعلیم پر توجہ دی گئی تھی۔ صلاح احمد فلیتہ نام کے زیدی علماء میں سے ایک کی طرف سے اتحاد شباب المؤمن کے نام سے ایک تنظیم کی شکل میں قائم کی گئی تھی۔   
1990 میں متعدد یمنی زیدی نوجوانوں نے الشباب المومن تنظیم کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس کے پہلے جنرل سیکرٹری محمد یحییٰ اذان تھے، اور بعد میں حسین حوثی اس گروپ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب ہوئے۔ انہوں نے زیدی نوجوانوں کو 1986 میں واپس لایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ سرگرمیاں جن کی ابتدا میں زیدی نوجوانوں کی نظریاتی تعلیم پر توجہ دی گئی تھی۔ صلاح احمد فلیتہ نام کے زیدی علماء میں سے ایک کی طرف سے اتحاد شباب المؤمن کے نام سے ایک تنظیم کی شکل میں قائم کی گئی تھی۔   
confirmed
2,360

ترامیم