"انصار اللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(2 صارفین 19 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
'''انصاراللہ''' تحریک [[یمن]] کے زیدی شیعوں سے ماخوذ ایک تحریک ہے، جو بدر الدین حوثی، اس کے فکری رہنما حسین بدر الدین حوثی کے افکار سے متاثر ہے۔ حسین حوثی سے منسوب ہونے کی وجہ سے اسے یمن کے حوثی بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ تحریک شباب مؤمن تنظیم الشباب المومن تنظیم کے نام سے ایک تنظیم کی شکل میں چلتی تھی۔ عبدالمالک حوثی کی قیادت میں اس تحریک کو یمنی عوام کی عام مقبولیت حاصل ہوگئی اور یہ یمن میں ایک جامع اور بڑی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ انصاراللہ تحریک اس ملک کی سب سے زیادہ بااثر سیاسی دھاروں میں سے ایک ہے۔
{{خانہ معلومات پارٹی
| عنوان = انصار اللہ
| تصویر = انصارالله.jpg
| نام = انصار اللہ یمن
| قیام کی تاریخ = 1990 ء
| بانی =  حسین بدر الدین حوثی
| رہنما = [[سید عبد الملک حوثی]]
| مقاصد = امامت کی بنیاد پر اسلامی حکومت کا تشکیل
}}
 
'''انصاراللہ''' تحریک [[یمن]] کے زیدی شیعوں سے ماخوذ ایک تحریک ہے، جو بدر الدین حوثی، اس کے فکری رہنما حسین بدر الدین حوثی کے افکار سے متاثر ہے۔ حسین حوثی سے منسوب ہونے کی وجہ سے اسے یمن کے حوثی بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ تحریک شباب مؤمن تنظیم '''الشباب المومن'''  کے نام سے ایک تنظیم کی شکل میں چلتی تھی۔ عبدالمالک حوثی کی قیادت میں اس تحریک کو یمنی عوام کی عام مقبولیت حاصل ہوگئی اور یہ یمن میں ایک جامع اور بڑی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ انصاراللہ تحریک اس ملک کی سب سے زیادہ بااثر سیاسی دھاروں میں سے ایک ہے۔
اس تحریک کا مرکزی دفتر صعدہ میں ہے۔ وہ یمن کی حکومت کو مغرب پر منحصر حکومت سمجھتے تھے اور 2003 سے یمن کی حکومت کی مخالفت شروع کردی تھی۔ 2003 سے یمنی فوج نے اس گروہ کو دبانے اور تباہ کرنے کے لیے صعدہ پر متعدد بار حملے کیے ہیں۔ اسلامی بیداری کی لہر کے پھیلنے کے بعد، انصار اللہ تحریک نے، عوامی رضا کار فورسز کے ساتھ، 2014 میں متعدد فوجی کارروائیوں کے ذریعے اس ملک کے بعض علاقوں اور فوجی مراکز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
اس تحریک کا مرکزی دفتر صعدہ میں ہے۔ وہ یمن کی حکومت کو مغرب پر منحصر حکومت سمجھتے تھے اور 2003 سے یمن کی حکومت کی مخالفت شروع کردی تھی۔ 2003 سے یمنی فوج نے اس گروہ کو دبانے اور تباہ کرنے کے لیے صعدہ پر متعدد بار حملے کیے ہیں۔ اسلامی بیداری کی لہر کے پھیلنے کے بعد، انصار اللہ تحریک نے، عوامی رضا کار فورسز کے ساتھ، 2014 میں متعدد فوجی کارروائیوں کے ذریعے اس ملک کے بعض علاقوں اور فوجی مراکز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
یمن کے صدر کے مستعفی ہونے اور 2015 میں ملکی پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد تحریک انصار اللہ نے عبوری حکومت کی ذمہ داری سنبھالی جس کے بعد سعودی عرب نے دعویٰ کیا کہ انصار اللہ کی سیاسی حکمرانی ناجائز ہے، سعودی عرب کے لیے اس کا خطرہ ہے اور اس کی حمایت کی ہے۔ منصور ہادی کی اقتدار میں واپسی یمن نے حملہ کر کے ہزاروں افراد کو ہلاک اور زخمی کیا اور ملک کے بہت سے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔
یمن کے صدر کے مستعفی ہونے اور 2015 میں ملکی پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد تحریک انصار اللہ نے عبوری حکومت کی ذمہ داری سنبھالی جس کے بعد سعودی عرب نے دعویٰ کیا کہ انصار اللہ کی سیاسی حکمرانی ناجائز ہے، سعودی عرب کے لیے اس کا خطرہ ہے اور اس کی حمایت کی ہے۔ منصور ہادی کی اقتدار میں واپسی یمن نے حملہ کر کے ہزاروں افراد کو ہلاک اور زخمی کیا اور ملک کے بہت سے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔
== انصار اللہ؛ یمن ==
ستمبر 1962 میں عبداللہ سلال کی قیادت میں یمن میں زیدی اماموں کا 1000 ہزار سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوتا ہے اور "جمہوری" حکومت کا قیام ہوتا ہے۔ 1967 میں "قحطان الشعبی" کی قیادت میں جنوبی یمن مستقل حکومت کا اعلان کردیا جاتا ہے اور یوں جنوب اور شمال یمن میں جدائی ہوجاتی ہے۔ جنوب یمن "عوامی ڈیموکریٹک یمن" اور شمال میں "جمہوری عربی یمن" کا اعلان کردیتے ہیں۔ اکتوبر 1978 میں جمہوری عربی یمن، فوجی جنرل علی عبداللہ صالح کو 5 سال کیلئے اپنا صدر بنادیتے ہیں۔ 1983 میں اس مدّت کو 5 سال کیلئے اور بڑھا دیا جاتا ہے۔ صالح اور جنوب یمن کے حاکم ایک معاہدے کے تحت دوبارہ متحد ہونے کا اعلان کرتے ہیں کہ جس میں صنعاء کو دار الحکومت قرار دیا جاتا ہے اور یوں 1990 میں دونوں حصے دوبارہ ایک ہوجاتے ہیں۔ متحد یمن کا "جمہوری یمن" نام رکھا جاتا ہے جس کا صدر علی عبداللہ صالح کو بنایا جاتا ہے۔ صالح کی امریکا سے خاص قربت تھی جس کی وجہ سے یمن کی حکومت نے ان غربی ممالک سے دفاعی معاہدے بھی کئے۔
ایک اہم بات جو زیدی شیعوں کے دوبارہ کھڑے ہونے کا باعث بنی وہ سعودی عرب کی طرف سے وہابییت کی ترویج تھا کہ جس کی وجہ سے یمنی شیعہ شدید دبائو میں زندگی گزار رہے تھے۔ اس کے ساتھ عبداللہ صالح سعودی عرب کے سامنے مکمل غلام بنا ہوا تھا جس کو غیرت مند یمنی بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔
الحوثی تحریک ایک مذہبی، نظریاتی اور سیاسی تحریک ہے کہ جس کا مقصد یمن سے استکباری تسلّط اور وہابیت کے اثرات کو ختم کرنا ہے۔ اس کے پہلے سربراہ سید حسین الحوثی تھے کہ جو سید بدر الدین الحوثی کے فرزند تھے۔ سید بدر الدین الحوثی انقلاب اسلامی ایران سے بہت زیادہ متاثر تھے اور 80 کی دھائی میں تن تنہا وہابی افکار کی خلاف کھڑے ہوئے کہ جس کی وجہ سے ان کو یمن سے جلاوطن کردیا گیا اور انہوں نے ایران میں پناہ لی۔ سید بدر الدین نے پہلے "الحق" نامی تحریک کا آغاز کیا کہ جس کی یمنی علماء نے مخالفت کی اور یوں سید بدر الدین نے یمن کے جوانوں کو اپنا مخاطب قرار دینا شروع کیا اور ایک اور تحریک "شباب المومن" کے نام سے شروع کی۔ یمن کے نوجوان اور جوان تیزی سے اِس تحریک کا حصہ بننے لگے، اس تحریک کا اصلی مقصد یمن میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہی تحریک آج "انصار اللہ" کی شکل میں موجود ہے۔
سید حسین حوثی نے 1991 میں یمن میں مسلحانہ جدوجہد کا آغاز کیا تو سید بدر الدین نے اتحاد کی خاطر اس تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور سب کو اس تحریک کا حصہ بننے اور سید حسین الحوثی کی بیعت کرنے کی تاکید کی۔
امریکا میں 11 ستمبر کے حملے کے بعد یمن میں عبداللہ صالح کی حکومت نے دہشت گردی سے جنگ کے بہانے مختلف ممالک سے دفاعی معاہدے کئے۔ 2004 میں حکومت سید حسین الحوثی سے اتنی زیادہ خوفزدہ ہوچکی تھی کہ ان کے سر کی قیمت 55 ہزار ڈالر مقرر کردی تھی۔
سید حسین الحوثی نے امریکی اور اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کا اعلان کیا کہ جس کو عوام نے بہت پسند کیا۔ اور یہ عوامی مقبولیت اس قدر بڑھتی گئی کہ صنعاء میں نماز جمعہ کے اجتماع "اللہ اکبر، مرگ بر امریکا، مرگ بر اسرائیل" کے نعروں سے گونجنے لگے۔ اسی وجہ سے امریکی پشت پناہی کے ساتھ یمنی حکومت نے اس تحریک کو سختی سے کچلنے کا اعلان کردیا اور 2004 میں سید حسین الحوثی کو شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی عبدالملک الحوثی اس تحریک کے قائد بنے جو آج تک کامیابی سے اس تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ سارے یمن پر انصار اللہ کا پرچم لہرا رہا ہوگا <ref>یمن اور یمنیوں کا اسلام میں کردار، [https://ur.hawzahnews.com/news/377551/%DB%8C%D9%85%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%8C%D9%85%D9%86%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1 hawzahnews.com]</ref>۔
== تاریخی پس منظر ==
== تاریخی پس منظر ==
1990 میں متعدد یمنی زیدی نوجوانوں نے الشباب المومن تنظیم کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس کے پہلے جنرل سیکرٹری محمد یحییٰ اذان تھے، اور بعد میں حسین حوثی اس گروپ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب ہوئے۔ انہوں نے زیدی نوجوانوں کو 1986 میں واپس لایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ سرگرمیاں جن کی ابتدا میں زیدی نوجوانوں کی نظریاتی تعلیم پر توجہ دی گئی تھی۔ صلاح احمد فلیتہ نام کے زیدی علماء میں سے ایک کی طرف سے اتحاد شباب المؤمن کے نام سے ایک تنظیم کی شکل میں قائم کی گئی تھی۔   
1990 میں متعدد یمنی زیدی نوجوانوں نے الشباب المومن تنظیم کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس کے پہلے جنرل سیکرٹری محمد یحییٰ اذان تھے، اور بعد میں حسین حوثی اس گروپ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب ہوئے۔ انہوں نے زیدی نوجوانوں کو 1986 میں واپس لایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ سرگرمیاں جن کی ابتدا میں زیدی نوجوانوں کی نظریاتی تعلیم پر توجہ دی گئی تھی۔ صلاح احمد فلیتہ نام کے زیدی علماء میں سے ایک کی طرف سے اتحاد شباب المؤمن کے نام سے ایک تنظیم کی شکل میں قائم کی گئی تھی۔   
سطر 20: سطر 40:
2011 میں یمن کی اسلامی بیداری کا نتیجہ سعودی عرب کی قیادت میں خلیج فارس تعاون کونسل یا المباردہ الخلیجہ کا منصوبہ بنا۔ اس منصوبے میں، تمام یمنی جماعتوں اور دھاروں کے درمیان قومی مکالمے منعقد کیے جانے تھے تاکہ سال 2011 سے 2013 میں نئے آئین اور حکومت کے مسودے کے لیے ایک جامع معاہدے تک پہنچ سکیں۔
2011 میں یمن کی اسلامی بیداری کا نتیجہ سعودی عرب کی قیادت میں خلیج فارس تعاون کونسل یا المباردہ الخلیجہ کا منصوبہ بنا۔ اس منصوبے میں، تمام یمنی جماعتوں اور دھاروں کے درمیان قومی مکالمے منعقد کیے جانے تھے تاکہ سال 2011 سے 2013 میں نئے آئین اور حکومت کے مسودے کے لیے ایک جامع معاہدے تک پہنچ سکیں۔
ان مذاکرات کے نتیجے میں یمن کئی علاقوں میں تقسیم ہو گیا۔ لیکن عملی طور پر یہ تقسیم چھ خطوں میں بدل گئی، جسے تحریک انصار اللہ اور بعض یمنی گروہوں نے قبول نہیں کیا۔ آئینی مسودے کے منصوبے کی ناکامی، حکومتی بدعنوانی کا تسلسل اور عوام کی ضروریات کی فراہمی میں حکومت کی ناکامی اور خلیج فارس تعاون کونسل کے منصوبے کی ناکامی یمن میں اسلامی بیداری کی دوسری لہر کی بنیاد بن گئی۔ . تحریک انصاراللہ نے بہت سے زیدی قبائل اور عمائدین کو شامل کرکے اپنے انقلاب کو وسعت دی۔
ان مذاکرات کے نتیجے میں یمن کئی علاقوں میں تقسیم ہو گیا۔ لیکن عملی طور پر یہ تقسیم چھ خطوں میں بدل گئی، جسے تحریک انصار اللہ اور بعض یمنی گروہوں نے قبول نہیں کیا۔ آئینی مسودے کے منصوبے کی ناکامی، حکومتی بدعنوانی کا تسلسل اور عوام کی ضروریات کی فراہمی میں حکومت کی ناکامی اور خلیج فارس تعاون کونسل کے منصوبے کی ناکامی یمن میں اسلامی بیداری کی دوسری لہر کی بنیاد بن گئی۔ . تحریک انصاراللہ نے بہت سے زیدی قبائل اور عمائدین کو شامل کرکے اپنے انقلاب کو وسعت دی۔
== جنگ کا آغاز ==
2015 سے سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور بحرین کے ساتھ مل کر یمن پر ہوائی حملوں کا آغاز کیا۔ سومالیہ نے بھی اپنے ہوائی اڈے ان حملوں میں استعمال کیلئے دیئے۔
کس دلیل کے تحت یہ حملے کئے جارہے ہیں ابھی تک واضح نہیں ہوا۔ کہتے ہیں کہ منصور ہادی کی حکومت نے درخواست کی تھی کہ حوثی مجاہدین کو ختم کرنے میں مدد کی جائے کیونکہ اگر میزبان حکومت اجازت دے تو ایسا کیا جاسکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ منصور ہادی کی حکومت تو ختم ہوچکی ہے تو پھر کس قانون اور درخواست کے تحت یہ حملے کئے جارہے ہیں؟!؟! منصور ہادی خود استعفی دے چکا ہے۔
درحقیقت سوال یہ ہے کہ سعودی حکومت کے پاس اتنا اسلحہ آیا کہاں سے؟ کہ جو 7 سال سے مسلسل یمن کے مظلوم عوام پر مظالم ڈھائے جارہا ہے! 2015 سے 2019 تک سعودی عرب امریکا کی طرف سے اس مدّت میں فروخت کئے جانے والے 73٪ اسلحہ کا خریدار بنا۔ مشرق وسطی میں اسلحے کی فروخت میں 2010 سے 2019 تک 62٪ اضافہ ہوا ہے۔ امریکا نے صرف 2018 میں سعودی عرب کو 550 عرب اور 600 کروڑ ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔
ان اعداد و شمار سے واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ یمن کے مظلوم عوام کا اصلی دشمن امریکا ہی ہے جس نے پوری دنیا میں جگہ جگہ اپنی بربریت کی نشانیاں چھوڑ رکھی ہیں۔
حقوق بشر کی تنظیم "عین الانسانیة" کے تحت 2400 دنوں میں کہ جو تقریبا ساڑھے چھ سال کا عرصہ بنتا ہے، ۱۷ هزار اور ۲۹۰ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ۲۶ هزار اور ۹۳۱ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مارے جانے والے افراد میں ۴۲۷۰ بچے اور ۲۸۵۰ خواتین بھی شامل ہیں۔
ان حملوں میں ۱۵ ایئرپورٹ، ۱۶ بندرگاہیں، ۳۱۲ بجلی گھر، ۵۵۸ ٹیلفون ایکسچینج، ۱۹۹۴ حکومتی ادارے اور ۵۷۴۹ سڑکیں اور پلوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسی طرح اب تک ۳۹۸ کارخانے، ۳۶۵ تیل کے ٹینکر، ۱۱ هزار اور ۸۴۸۳ ٹرانسپورٹ کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔
اس کے علاوہ ۴۰۵ پیٹرول پمپ، ۶۸۹ بازار، ۵۷۹ هزار اور ۹۵۴ گھروں، ۱۸۰ یونورسٹیوں، 1128 اسکولوں ۱۴۷۸، مسجدوں، ۳۹۲ ہسپتالوں کو تباہ کرچکا ہے <ref>یمن اور یمنیوں کا اسلام میں کردار، [https://ur.hawzahnews.com/news/377551/%DB%8C%D9%85%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%8C%D9%85%D9%86%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1 hawzahnews.com]</ref>۔
== تحریک انصاراللہ؛ انقلاب کے پھیلاؤ سے لے کر سعودی عرب کی جارحیت کے خلاف دفاع تک ==
== تحریک انصاراللہ؛ انقلاب کے پھیلاؤ سے لے کر سعودی عرب کی جارحیت کے خلاف دفاع تک ==
تحریک انصار اللہ نے شروع میں صعدہ پر کنٹرول حاصل کیا، صعدہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد وہ یمن کے دارالحکومت صنعا کی طرف بڑھنے لگے اور اس راستے پر سب سے پہلے انہوں نے دماج شہر پر قبضہ کیا جو یمن اور جزیرہ نما میں سلفیتوں اور وہابیوں کے اہم مراکز میں سے ایک ہے۔ اور یمن اور جزیرہ نما میں  حوثی جنوری 2014 میں اس شہر میں داخل ہوئے۔  اور پھر اپنی انقلابی کارروائیوں کو جاری رکھتے ہوئے جولائی 2014 میں عمران صوبے پر قبضہ کر کے اس صوبے کے مرکز میں داخل ہو گئے۔
تحریک انصار اللہ نے شروع میں صعدہ پر کنٹرول حاصل کیا، صعدہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد وہ یمن کے دارالحکومت صنعا کی طرف بڑھنے لگے اور اس راستے پر سب سے پہلے انہوں نے دماج شہر پر قبضہ کیا جو یمن اور جزیرہ نما میں سلفیتوں اور وہابیوں کے اہم مراکز میں سے ایک ہے۔ اور یمن اور جزیرہ نما میں  حوثی جنوری 2014 میں اس شہر میں داخل ہوئے۔  اور پھر اپنی انقلابی کارروائیوں کو جاری رکھتے ہوئے جولائی 2014 میں عمران صوبے پر قبضہ کر کے اس صوبے کے مرکز میں داخل ہو گئے۔
سطر 46: سطر 80:


انہوں نے کہا کہ [[طوفان الاقصیٰ|طوفان الاقصی]] کے بعد صہیونی حکومت کی جانب فلسطینیوں کے خلاف حملوں کے جواب میں ہونی والی کاروائیاں اسرائیل کی مکمل نابودی تک جاری رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ [[طوفان الاقصیٰ|طوفان الاقصی]] کے بعد صہیونی حکومت کی جانب فلسطینیوں کے خلاف حملوں کے جواب میں ہونی والی کاروائیاں اسرائیل کی مکمل نابودی تک جاری رہیں گی۔
انہوں نے آبنائے باب المندب اور بحیرہ احمر میں امریکی اور اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ سے بین الاقوامی جہازرانی اور خطے کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔  
انہوں نے آبنائے باب المندب اور بحیرہ احمر میں امریکی اور اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ سے بین الاقوامی جہازرانی اور خطے کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔  
علی القحوم نے کہا کہ یمن ایک خودمختار ملک ہے جو اپنی تمام سرحدوں کی پوری طرح حفاظت کرے گا اور بین الاقوامی قوانین کے تحت سمندری حدود کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔
علی القحوم نے کہا کہ یمن ایک خودمختار ملک ہے جو اپنی تمام سرحدوں کی پوری طرح حفاظت کرے گا اور بین الاقوامی قوانین کے تحت سمندری حدود کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔


سطر 54: سطر 86:


انہوں نے انتباہ کیا کہ صہیونی حکومت کی حمایت کرنے والے اس کی قیمت ادا کریں گے۔ امریکیوں سے مخاطب ہوکر انہوں نے کہا کہ خطے کے امن سے کھیلنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اسرائیل کی موجودگی میں خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ یمن کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی صورت میں دشمنوں کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا <ref>اسرائیل کی نابودی تک حملے جاری رہیں گے، [https://ur.mehrnews.com/news/1920627/%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%AA%DA%A9-%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%B1%DB%81%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%B5%D8%A7 mehrnews.com]</ref>۔
انہوں نے انتباہ کیا کہ صہیونی حکومت کی حمایت کرنے والے اس کی قیمت ادا کریں گے۔ امریکیوں سے مخاطب ہوکر انہوں نے کہا کہ خطے کے امن سے کھیلنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اسرائیل کی موجودگی میں خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ یمن کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی صورت میں دشمنوں کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا <ref>اسرائیل کی نابودی تک حملے جاری رہیں گے، [https://ur.mehrnews.com/news/1920627/%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%AA%DA%A9-%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%B1%DB%81%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%B5%D8%A7 mehrnews.com]</ref>۔
== غزہ کی حمایت میں اب تک یمنی فوج نے دشمن کی کشتیوں پر 63 حملے کئے ==
انصار اللہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ [[غزہ]] کے عوام پر صہیونی جارحیت کے جواب میں یمنی فورسز نے دشمن پر شدید حملے کئے ہیں۔
یمنی مقاومتی تنظیم انصاراللہ کے سربراہ [[سید عبد الملک حوثی|سید عبدالملک الحوثی]] نے کہا ہے کہ صہیونی اپنی جارحیت سے خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں کیونکہ فلسطینی مجاہدین ان کو اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔
[[یمن]] اور خطے کی صورتحال کے بارے میں سید عبد الملک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نسل کشی اور ظلم کے بل بوتے پر فلسطینی عوام کو غلام بنانے کا دور گزر گیا ہے۔ یہ جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے اگر حد سے بڑھوگے تو سنگین نتائج بھگتنا پڑے گا۔
انصار اللہ کے سربراہ  نے کہا کہ صہیونی فوج کو غزہ میں تاریخ شکست ہونے والی ہے جس سے امریکہ اور برطانیہ میں ناامیدی پھیل جائے گی۔ امریکہ اور [[اسرائیل]] امداد لینے کے لئے جمع ہونے والوں کو نشانہ بنانے مصروف ہیں۔ صہیونی بربریت کی وجہ سے فلسطینی بے گھر لوگ کسمپرسی کی زندگی اور موت کے درمیان میں ہیں۔ اسرائیل مجاہدین کے مقابلے میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے بے گناہ اور نہتے عوام کو نشانہ بنارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ [[لبنان]] سے [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] کی کاروائیوں نے شمالی اسرائیل میں دشمن پر کاری ضرب لگائی ہے۔ ہم بھی غزہ کی حمایت میں فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں اب تک 63 کشتیوں پر حملہ کیا گیا ہے۔ صہیونی بندرگاہ ام الرشرش کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکی افسران نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ انیسویں صدی کے بعد سب سےبڑی حقارت کا سامنا کررہا ہے۔
سید عبد الملک حوثی  نے کہا کہ یمنی حملے بند ہونے کا واحد راہ حل غزہ پر جارحیت کا خاتمہ ہے۔ امریکہ اور برطانیہ ہماری مسلح افواج کے مقابلے میں مخمصے کا شکار ہیں۔ ہمارے لاکھوں جنگجووں کا مقابلہ کرنے کی ان میں سکت نہیں ہے <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1922920/ غزہ کی حمایت میں اب تک یمنی فوج نے دشمن کی کشتیوں پر 63 حملے کئے، انصاراللہ]،mehrnews.com، -شا‏ئع شدہ:29مارچ 2024ء-اخذ شدہ: 3اپریل 2024ء۔</ref>۔
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{یمن}}
[[زمرہ:یمن]]
confirmed
2,360

ترامیم