"اسماعیلیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(ایک دوسرے صارف 5 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 19: سطر 19:
[[شیعہ]] فرقوں میں وقتا فوقتا امامت کے تعین سے اختلاف ہوتا گیا جو جدا گانہ مسلک کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ اس طرح اسماعیلیہ میں خطابیہ کے باقیات بھی شامل ہو گئے۔ چونکہ خطابیہ فرقہ نے کچھ مخصوص عقائد اور ایک نہایت موثر طریقہ کار اپنا لیا تھا۔ اس طرح خطابیہ کی شمولیت اسماعیلیہ فرقہ کی تقویت کا سبب ہوگئی ۔ خطابیہ اور اسماعیلیہ کے روابط کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابومحمد حسن بن موسیٰ نوبختی نے جو تیسری صدی کے ایک معتبر شیعہ مصنف تھے اپنی ایک کتاب فرق الشیعہ میں اسماعیلیہ اور خطابیہ کو باہم متحد قرار دیا ہے۔ اس طرح خطابیہ کا ایک فرقہ محمد بن اسماعیل کے فرقہ میں داخل ہو گیا۔ خطابیہ اور اسماعیلیہ  کی آمیزش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا فرقہ بنا جو بعد میں اسماعیلیہ کے نام سے موسوم ہوا <ref>سید قاسم محمود ، اسلامی انسائیکلو پیڈیا، اردو بازار لاہور</ref>۔
[[شیعہ]] فرقوں میں وقتا فوقتا امامت کے تعین سے اختلاف ہوتا گیا جو جدا گانہ مسلک کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ اس طرح اسماعیلیہ میں خطابیہ کے باقیات بھی شامل ہو گئے۔ چونکہ خطابیہ فرقہ نے کچھ مخصوص عقائد اور ایک نہایت موثر طریقہ کار اپنا لیا تھا۔ اس طرح خطابیہ کی شمولیت اسماعیلیہ فرقہ کی تقویت کا سبب ہوگئی ۔ خطابیہ اور اسماعیلیہ کے روابط کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابومحمد حسن بن موسیٰ نوبختی نے جو تیسری صدی کے ایک معتبر شیعہ مصنف تھے اپنی ایک کتاب فرق الشیعہ میں اسماعیلیہ اور خطابیہ کو باہم متحد قرار دیا ہے۔ اس طرح خطابیہ کا ایک فرقہ محمد بن اسماعیل کے فرقہ میں داخل ہو گیا۔ خطابیہ اور اسماعیلیہ  کی آمیزش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا فرقہ بنا جو بعد میں اسماعیلیہ کے نام سے موسوم ہوا <ref>سید قاسم محمود ، اسلامی انسائیکلو پیڈیا، اردو بازار لاہور</ref>۔


== خطابیہ فرقے ==
== خطابیہ فرقہ ==
خطابیہ فرقے کا بانی ابو الخطاب محمد بن ابی زینب الاسدی ہے۔ بعض لوگوں  کا عقیدہ  تھا کہ امام جعفر صادق کی روح ابوالخطاب میں حلول کرگئی تھی اور ابوالخطاب کے بعد وہی روح محمد بن اسماعیل اور ان کی اولاد میں حلول کرگئی ۔ ابوالخطاب کے فرقے کو خطابیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ خطابیہ کہتے ہیں کہ الٰہیت نور ہے۔ عالم نبوت اور امامت ان انوار سے کبھی خالی نہیں رہتا۔ خطابیہ ہر مومن کی گواہی کو حلف کر کے سچا جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مومن کبھی جھوٹا حلف نہیں کرتا ۔ بعض اشخاص جو اس نواع کے عقائد رکھتے تھے اس فرقے سے علیحدہ ہو گئے اور ایک نیا فرقہ قائم کیا اسی فرقے کو قرامطہ کہتے ہیں۔ ابوالخطاب کو بعض مورخین نے قرامطہ کے معتقدین میں شمار کیا ہے۔ان کے اقوال و تصانیف قرامطہ اور اسماعیلیہ میں عام طور پر رائج تھیں۔ ان کو بعض شیعہ فرقے مستند خیال کرتے تھے ۔شیعہ محدثین نے ان کی بعض روایات اس سے نقل کی ہیں لیکن سنی محد ثین اس کو ساقطہ الاعتبار قرار دیتے ہیں۔
خطابیہ فرقے کا بانی ابو الخطاب محمد بن ابی زینب الاسدی ہے۔ بعض لوگوں  کا عقیدہ  تھا کہ امام جعفر صادق کی روح ابوالخطاب میں حلول کرگئی تھی اور ابوالخطاب کے بعد وہی روح محمد بن اسماعیل اور ان کی اولاد میں حلول کرگئی ۔ ابوالخطاب کے فرقے کو خطابیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ خطابیہ کہتے ہیں کہ الٰہیت نور ہے۔ عالم نبوت اور امامت ان انوار سے کبھی خالی نہیں رہتا۔ خطابیہ ہر مومن کی گواہی کو حلف کر کے سچا جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مومن کبھی جھوٹا حلف نہیں کرتا ۔ بعض اشخاص جو اس نواع کے عقائد رکھتے تھے اس فرقے سے علیحدہ ہو گئے اور ایک نیا فرقہ قائم کیا اسی فرقے کو قرامطہ کہتے ہیں۔ ابوالخطاب کو بعض مورخین نے قرامطہ کے معتقدین میں شمار کیا ہے۔ان کے اقوال و تصانیف قرامطہ اور اسماعیلیہ میں عام طور پر رائج تھیں۔ ان کو بعض شیعہ فرقے مستند خیال کرتے تھے ۔شیعہ محدثین نے ان کی بعض روایات اس سے نقل کی ہیں لیکن سنی محد ثین اس کو ساقطہ الاعتبار قرار دیتے ہیں۔


سطر 87: سطر 87:
* ماذون :مستجیب سے عہد و میثاق لیتا ہے۔
* ماذون :مستجیب سے عہد و میثاق لیتا ہے۔
* مکاسر: ان کے باطل مذہبوں کو رد کر کے اپنا مذہب بتاتا ہے۔ مکاسر کے معنی توڑنے والے کے ہیں کیونکہ وہ باطل مذہبوں کو توڑتا ہے۔
* مکاسر: ان کے باطل مذہبوں کو رد کر کے اپنا مذہب بتاتا ہے۔ مکاسر کے معنی توڑنے والے کے ہیں کیونکہ وہ باطل مذہبوں کو توڑتا ہے۔
== عيادات کے احکام کی چند تا ویلیں: ==
== عبادات کے احکام کی چند تا ویلیں: ==
* وضو کی تاویل :گناہوں سے نفس کو پاک کرنا، حضرت علی کا اقرار کرنا کیونکہ وضو اور حضرت علی ہر ایک لفظ میں تین حروف ہیں۔
* وضو :گناہوں سے نفس کو پاک کرنا، حضرت علی کا اقرار کرنا کیونکہ وضو اور حضرت علی ہر ایک لفظ میں تین حروف ہیں۔
* کلی کرنے کی تاویل: امام کا اقرار اور اس کی اطاعت کرنا۔
* کلی کرنا: امام کا اقرار اور اس کی اطاعت کرنا۔
* منہ دھونے کی تاویل: امام اور سات ناطقوں اور سات اماموں کا اقرار کرنا کیونکہ انسان کے چہرے میں سات سوراخ ہیں ۔
* منہ دھونا: امام اور سات ناطقوں اور سات اماموں کا اقرار کرنا کیونکہ انسان کے چہرے میں سات سوراخ ہیں ۔
* سیدھا ہاتھ دھونے کی تاویل:نبی یا امام کی اطاعت کرنا ۔
* سیدھا ہاتھ دھونا:نبی یا امام کی اطاعت کرنا ۔
* بایاں ہاتھ دھونے کی تاویل: وصی یا حجت کی اطاعت کرنا۔
* بایاں ہاتھ دھونا: وصی یا حجت کی اطاعت کرنا۔
* سر کا سح کرنے کی  تاویل: رسول خدا کا اقرار کرنا اُن کی شریعت پر چلنا۔
* سر کا سح کرنا: رسول خدا کا اقرار کرنا اُن کی شریعت پر چلنا۔
* سیدھے پاؤں کا مسح کرنے کی  تاویل: امام یا داعی کا اقرار کرنا۔
* سیدھے پاؤں کا مسح کرنا: امام یا داعی کا اقرار کرنا۔
* بائیں پاؤں کا مسح کرنے کی  تاویل: حجت یا ماذون کا اقرار کرنا۔
* بائیں پاؤں کا مسح کرنا: حجت یا ماذون کا اقرار کرنا۔
* دھونا  یعنی طاعت کرنا۔
* دھونا  یعنی طاعت کرنا۔
* مسح کرنا یعنی اقرار کرنا <ref>نعیم اختر سندھو،ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا،برائٹ بکس اردو بازارلاہور</ref>۔
* مسح کرنا یعنی اقرار کرنا <ref>نعیم اختر سندھو،ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا،برائٹ بکس اردو بازارلاہور</ref>۔
سطر 138: سطر 138:


=== بہشت ===
=== بہشت ===
بہشت حقیقت میں عقل کل ہی ہے یا عقل کل ہی در حقیقت بہشت ہے ۔اور بہشت کا دروازہ اپنے زمانے میں رسول  ہیں اور ان کے وصی اپنے مرتبے میں اسی حیثیت سے ہیں اور امام زمان اپنے عصر میں یہی درجہ رکھتے ہیں ۔اور بہشت کے دروازہ کے کلید کمہ لا الہ الا الله حمد رسول اللہ ہے ۔ پس جو شخص شہادت اخلاص ( بے رہائی ) سے کہتا ہے تو گویا اسے بہشت کا درواز و یعنی رسول مل چکا ہے پس رسول بہشت کے دروازو کی حیثیت سے ہیں اور بہشت کا دروازہ کھولنے والا ان کے دیسی علی علیہ اسلام) ہیں ۔ نیز ہر زمانے میں ) سارے مومنوں کے لئے ( دروازہ جنت کھولنے والا ) امام زمان ہیں۔
بہشت حقیقت میں عقل کل ہی ہے یا عقل کل ہی در حقیقت بہشت ہے ۔اور بہشت کا دروازہ اپنے زمانے میں رسول  ہیں اور ان کے وصی اپنے مرتبے میں اسی حیثیت سے ہیں اور امام زمان اپنے عصر میں یہی درجہ رکھتے ہیں ۔اور بہشت کے دروازہ کی کلید کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ہے ۔ پس جو شخص شہادت اخلاص ( بے ریائی ) سے کہتا ہے تو گویا اسے بہشت کا درواز یعنی رسول مل چکا ہے۔ پس رسول بہشت کے دروازو کی حیثیت رکھتے ہیں اور بہشت کا دروازہ کھولنے والے ان کے دصی( علی علیہ اسلام) ہیں ۔ نیز ہر زمانے میں سارے مومنوں کے لئے دروازہ جنت کھولنے والا امام زمان ہیں۔
حکیم سید ناصر خسرو کہتے ہیں حق تعالی نے انسان کو خوف اور امید کے لئے پیدا کیا ہے چنانچہ خُدا نے اس کو بہشت کے ذریعہ اُمید دلائی اور دوزخ کے ذریعہ ڈرایا ہے انسان کے نفس میں جو خوف پایا جاتا ہے وہ دوزخ کا نشان ہے اور انسان میں جو امید پائی جاتی ہے وہ بہشت کا اثر ہے یہ دونوں چیزیں ( یعنی جزوی خوف اور جزوی اُمید ) جو انسانی فطرت میں پوشیدہ ہیں وہ دوزخ اور بہشت ہیں۔ وجہ دین میں لکھا ہے کہ ہمیشہ دنیا سے آخرت اور آخرت سے دنیا پیدا ہوتی رہتی ہے اور دین کے نظریات کا مدار و محمود یہی ہے۔
 
حکیم سید ناصر خسرو کہتے ہیں حق تعالی نے انسان کو خوف اور امید کے لئے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ خدا نے اس کو بہشت کے ذریعہ اُمید دلائی اور دوزخ کے ذریعہ ڈرایا ہے۔ انسان کے نفس میں جو خوف پایا جاتا ہے وہ دوزخ کا نشان ہے اور انسان میں جو امید پائی جاتی ہے وہ بہشت کا اثر ہے۔ یہ دونوں چیزیں ( یعنی جزوی خوف اور جزوی اُمید ) جو انسانی فطرت میں پوشیدہ ہیں وہ دوزخ اور بہشت ہیں۔ "وجہ دین" میں لکھا ہے کہ ہمیشہ دنیا سے آخرت اور آخرت سے دنیا پیدا ہوتی رہتی ہے اور دین کے نظریات کا مدار و محور یہی ہے۔
== امام مہدی ==
== امام مہدی ==
امام مہدی: اسماعیلیوں کے ہاں حضرت علی کی نسل سے قیامت تک آئمہ قائم ہوں گے آخری امام قائمہ القیامہ ہوگا جو دور کشف کا پہلا امام ہوگا۔ اسماعیلیوں کے ہاں ” مہدی“ کا ظہور ہو چکا ہے۔ اور ان کی نسل سے قیامت کے روز جو امام ظاہر ہونگے وہ قائم القیامتہ ہوں گے۔ اسماعیلیوں کے لحاظ سے مہدی کی ولادت ۲۶۰ھ میں عسکر مکرم میں ہوئی پھر اس کا باپ اسے سلمیہ لے گیا جو ائمہ مستور ین کا مستقر تھا ( استنار الامام ص ۵۹) امام عبدالله بن الحسین المستورہی ” مہدی“ ہیں۔ جو گیارہویں امام اور فاطمین کے ظہور کے پہلے خلیفہ ہیں اسماعیلیوں کے مطابق ہر زمانے میں ایک امام کا وجود ضروری ہے زمین کبھی امام سے خالی نہیں رہ سکتی ورنہ وہ منزل ہو جائے ۔  
اسماعیلیوں کے ہاں حضرت علی کی نسل سے قیامت تک آئمہ قائم ہوں گے آخری امام قائم القیامہ ہوگا جو دور کشف کا پہلا امام ہوگا۔ اسماعیلیوں کے ہاں ” مہدی“ کا ظہور ہو چکا ہے۔ اور ان کی نسل سے قیامت کے روز جو امام ظاہر ہوں گے وہ قائم القیامۃ ہوں گے۔ اسماعیلیوں کے لحاظ سے مہدی کی ولادت ۲۶۰ھ میں عسکر مکرم میں ہوئی۔ پھر ان کا باپ انہیں سلمیہ لے گیا جو ائمہ مستور ین کا مستقر تھا ( استنار الامام ص ۵۹) امام عبدالله بن الحسین المستورہی ” مہدی“ ہیں جو گیارہویں امام اور فاطمیین کے ظہور کے پہلے خلیفہ ہیں۔ اسماعیلیوں کے مطابق ہر زمانے میں ایک امام کا وجود ضروری ہے۔ زمین کبھی امام سے خالی نہیں رہ سکتی ورنہ وہ متزلزل ہو جائے ۔  
اماموں کا سلسلہ روز قیامت تک حضرت فاطمہ ہی کی نسل میں جاری رہے گا باپ کے بعد بیٹا خواہ وہ عمر مں بڑا ہو یا چھوٹا بالغ ہو یا نا بالغ امام ہوتا رہے گا۔ سنی عقیدہ یہ ہے کہ ایک شخص قریش یا بنی فاطمہ میں سے ہوگا جس کا نام محمد جس کے والد کا نام عبداللہ ہوگا اور جو قیامت سے قبل نمودار ہوگا ۔ قرامطہ محمد بن اسماعیل کو زندہ خیال کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہی امام مہدی کی حیثیت میں دوبارہ نمودار ہونگے کیسانیہ حضرت محمد ابن حنفیہ کے متعلق اس قسم کا اعتقاد رکھتے تھے۔ امامیہ اثنا عشری کے مطابق امام حسن عسکری کے فرزند (امام محمد مہدی ) جو وفات سے قبل دشمنوں کے خوف سے مستور ہو گئے تھے امام مہدی ہیں۔
اماموں کا سلسلہ روز قیامت تک حضرت فاطمہ ہی کی نسل میں جاری رہے گا۔ باپ کے بعد بیٹا خواہ وہ عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا، بالغ ہو یا نا بالغ، امام ہوتا رہے گا۔  
دولت فاطمیہ کا پہلا امام مہدی محمد بن اسماعیل کی نسل سے ہے اسما عیلیہ عبداللہ کو مہدی جانتے ہیں ۔ مہدی کا نسب نامہ چونکہ عبداللہ امام مہدی کا مسئلہ اسما عیلیہ عقیدہ کی اصل بنیاد سے تعلق رکھتا ہے ان کے خاندان میں ایک شخص عبداللہ نامی تھے جن کو اسماعیلی محمد بن اسماعیل اور ان کے مخالفین میمون قداح کا فرزند بتاتے ہیں اسماعیلی اعتقاد کے لحاظ سے امام عبداللہ بن حسین المستور ہی مہدی ہیں جو دور ظہور کے پہلے امام ہیں ۔ مہدی کی ولادت ۲۶۰ ھ میں عسکر مکرم میں ہوئی ( نوٹ : عسکر مکرم جگہ کا نام ہے ) عبداللہ المہدی حضرت محمد بن اسماعیل کے ایک بیٹے عبداللہ جو اسماعیلی روایت کے مطابق اپنے والد کے جانشین ہوئے ان کے بیٹے احمد بن عبد اللہ اسماعیلی جماعت کے پیشوا ہوئے پھر حسین ابن احمد کے انتقال کے بعد ان کے فرزند عبد اللہ جو بعد میں مہدی کے لقب سے ملقب ہوئے اس وقت بالغ نہ تھے ان کی پروش کی سیادت حضرت حسین کے بھائی محمد الحبیب کے حصہ میں آئی جب  عبد اللہ بالغ ہو گئے تو باپ کی وصیت کے مطابق امامت ان کو منتقل ہوگئی <ref>شیخ محمد اکرام ، آب کوثر ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ۲۔ کلب روڈ لاہور</ref>۔  
 
سنی عقیدہ یہ ہے کہ ایک شخص قریش یا بنی فاطمہ میں سے ہوگا جس کا نام محمد اور جس کے والد کا نام عبداللہ ہوگا اور جو قیامت سے قبل نمودار ہوگا ۔ قرامطہ محمد بن اسماعیل کو زندہ خیال کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہی امام مہدی کی حیثیت سے دوبارہ نمودار ہوں گے ۔کیسانیہ حضرت محمد ابن حنفیہ کے متعلق اسی قسم کا اعتقاد رکھتے تھے۔ امامیہ اثنا عشری کے مطابق امام حسن عسکری کے فرزند،امام محمد مہدی جو وفات سے قبل دشمنوں کے خوف سے مستور ہو گئے تھے امام مہدی ہیں۔
دولت فاطمیہ کا پہلا امام مہدی محمد بن اسماعیل کی نسل سے ہے ۔اسما عیلی حضرات عبداللہ کو مہدی سمجھتے ہیں ۔ امام مہدی کا مسئلہ اسما عیلیہ عقیدہ کی اصل بنیاد سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے خاندان میں ایک شخص عبداللہ نامی تھا جس کو اسماعیلی محمد بن اسماعیل اور ان کے مخالفین میمون قداح کا فرزند بتاتے ہیں۔ اسماعیلی اعتقاد کے لحاظ سے امام عبداللہ بن حسین المستور ہی مہدی ہیں جو دور ظہور کے پہلے امام ہیں ۔ مہدی کی ولادت ۲۶۰ ھ میں عسکر مکرم میں ہوئی ( نوٹ : عسکر مکرم جگہ کا نام ہے )۔  حضرت محمد بن اسماعیل کے ایک بیٹے عبداللہ جو اسماعیلی روایت کے مطابق اپنے والد کے جانشین ہوئے ان کے بیٹے احمد بن عبد اللہ اسماعیلی جماعت کے پیشوا ہوئے پھر حسین ابن احمد کے انتقال کے بعد ان کے فرزند عبد اللہ جو بعد میں مہدی کے لقب سے ملقب ہوئے اس وقت بالغ نہ تھے ان کی پروش کا شرف حضرت حسین کے بھائی محمد الحبیب کے حصہ میں آیا۔ جب  عبد اللہ بالغ ہو گئے تو باپ کی وصیت کے مطابق امامت ان کو منتقل ہوگئی <ref>نعیم اختر سندھو،ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا،برائٹ بکس اردو بازارلاہور</ref>۔  
== ائمه مستورین ==
== ائمه مستورین ==
ائمه مستورین: اسماعیل بن جعفر صادق کے بعد جو ائمہ گزرے وہ ہمیشہ بنوعباس خوف سے اپنے آپ کو چھپایا کرتے تھے یہاں تک کے محمد بن اسماعیل کا نام جیسا کہ ابن خلدون نے بیان کیا بنو عباس کے خوف سے اپنے آپ کو اتنا پوشیدہ رکھا کہ ان کا نام ” محمد مکتوم“ پڑ گیا۔ میمون القداح امام محمد بن اسماعیل کا فرضی نام تھا جو صرف عباسیوں کے ڈر سے بچنے کے لئے اختیار کیا تھا میمون القداح کوئی علیحدہ شخص نہ ہے عوام الناس محمد بن اسماعیل کو میمون القداح سمجھتے ہیں لفظ قداح محمد بن اسماعیل کا بیٹا عبد اللہ نے اپنا پیشہ آنکھوں کا معالجہ اختیار کیا اس لئے یہ قداح کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ (نوٹ : مختلف فرضی ناموں کا اختیار کرنا اسماعیلیوں کے ہاں کوئی نئی بات نہیں اکثر اوقات ائمہ مستورین نے ایسا کیا ہے ) محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق اور عبد اللہ بن میمون القداح ( یعنی غیب دان کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے ) دونوں کا وجود تاریخ سے ثابت ہے اکثر مورخین نے مہدی کو عبد اللہ بنمیمون القداح کی طرف منسوب کیا ہے۔
اسماعیل بن جعفر صادق کے بعد جو ائمہ گزرے وہ ہمیشہ بنوعباس کے خوف سے اپنے آپ کو چھپایا کرتے تھے۔ یہاں تک کے محمد بن اسماعیل نے  جیسا کہ ابن خلدون نے بیان کیا، بنو عباس کے خوف سے اپنے آپ کو اتنا پوشیدہ رکھا کہ ان کا نام ” محمد مکتوم“ پڑ گیا۔ میمون القداح امام محمد بن اسماعیل کا فرضی نام تھا جو صرف عباسیوں کے ڈر سے بچنے کے لئے اختیار کیا تھا۔ میمون القداح کوئی علیحدہ شخص نہیں ہے۔ عوام الناس محمد بن اسماعیل کو میمون القداح سمجھتے ہیں۔  محمد بن اسماعیل کے بیٹے عبد اللہ نے آنکھوں کے معالجہ کا پیشہ  اختیار کیا اس لئے وہ قداح کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ مختلف فرضی ناموں کا اختیار کرنا اسماعیلیوں کے ہاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اکثر اوقات ائمہ مستورین نے ایسا کیا ہے۔ محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق اور عبد اللہ بن میمون القداح ( جنہیں  غیب دان کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے ) دونوں کا وجود تاریخ سے ثابت ہے۔ اکثر مورخین نے مہدی کو عبد اللہ بن میمون القداح کی طرف منسوب کیا ہے۔


== کتامہ ==
== کتامہ ==
کتامہ: "کتامہ قبیلے کا نام ہے جس کے معنی چھپانے کے ہیں یہ لوگ اپنے مذہب کو بہت چھپاتے تھے کتامہ کتماں سے مشتق نہیں ہے صرف ایک قبیلے کا نام ہے جس کے اکثر افراد حلوانی فرقے کے زیر اثر اسماعیلیت اختیار کر چکے تھے۔ اسماعیلیہ کے تین ائمہ مستورین مشہور ہیں حضرت امام محمد ( المکتوم ) کے انتقال کے بعد (۱) عبد اللہ ( الرضی ) (۲) احمد ( الونی ) (۳) حسین (المتقی ) ۔ یہ تینوں ائمہ مستورین کہلاتے ہیں ان کے مستور ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ان تینوں نے بہت پوشیدہ طور پراپنی زندگی بس کی حسین تین ائمہ مستور ین کے آخری بار مستورین کہلاتے ہیں ۔ حسین نے اپنے انتقال کے وقت یہ پیشین گوئی کی تھی کہ میرا لڑکا ( عبد اللہ ) مہدی موعود ہو گا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنادین ظاہر کرے گا۔ اسماعیلیوں کی دوسری جماعت : آغا خانی خوجوں کی نسبت ان کے نظام و عقائد خاص طور پر غیر اسلامی ہیں اس جماعت کا دائرہ بڑا وسیع ہے اور ان میں کئی ایسے طبقے شامل ہیں جن کا اسلام سے بہت دور کا تعلق ہے۔ شاہ شمس سبز واری خوجوں کے دوسرے مبلغ شاہ شمس تھے جو ملتان میں مدفون ہیں انہیں عام طور پر شاہ شمس تبریز کہا جاتا ہے خواجہ روایات کے مطابق وہ ایران کے شہر سبزوار سے تشریف لائے بعض ملتان کے خوجے امام آغا خان کو اپنادیو تا تسلیم کرتے ہیں اور اپنے آپ کو شاہ شمس کے نام پر کسی کہلاتے ہیں۔
کتامہ قبیلے کا نام ہے جس کے معنی چھپانے کے ہیں ۔یہ لوگ اپنے مذہب کو بہت چھپاتے تھے ۔کتامہ کتمان سے مشتق نہیں ہے صرف ایک قبیلے کا نام ہے جس کے اکثر افراد حلوانی فرقے کے زیر اثر اسماعیلیت اختیار کر چکے تھے۔ اسماعیلیہ کے تین ائمہ مستورین مشہور ہیں ۔حضرت امام محمد ( المکتوم ) کے انتقال کے بعد (۱) عبد اللہ ( الرضی ) (۲) احمد ( الوفی ) (۳) حسین (التقی ) ۔ یہ تینوں ائمہ مستورین کہلاتے ہیں۔ ان کے مستور ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان تینوں نے بہت پوشیدہ طور پراپنی زندگی بسر کی۔ حسین تین ائمہ مستور ین کے آخری امام  مستور کہلاتے ہیں ۔حسین نے اپنے انتقال کے وقت یہ پیشین گوئی کی تھی کہ میرا لڑکا ( عبد اللہ ) مہدی موعود ہو گا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنادین ظاہر کرے گا۔  
== اسماعیلی خوجہ جماعت ==
 
اسماعیلی خوجہ جماعت کے سب سے بڑے داعی جنہوں نے عام نزاری عقائد کو ہندوستانی ماحول کے مطابق نئے سرے سے ترتیب دیا پیر صدرالدین جو خراسان سے پاکستان آئے اور اب ریاست بہاول پور کے ایک گاؤں ترنڈہ گور گنج میں مدفون ہیں اور وہیں پر ان کا مزار تعمیر ہوا قریب ہی پیر صدرالدین کے بیٹے پیر غیاث الدین مدفون ہیں بہاولپور میں پیر صدرالدین کو چوراسی روضہ والا بھی کہتے ہیں مشہور یہ ہے کہ ان کی اولاد میں سے چوراسی اولیاء ہوئے ۔ پیر صدرالدین کی نسبت آغا خانیوں کے مطابق آغا خان کے ایک مورث اعلیٰ شاہ اسلام نے پیر صدر الدین کو داعی بنا کر ایران سے بھیجا تھا اور بہت لوگ ان کے یا ان کی اولاد کے ہاتھوں اسماعیلی ہوئے ۔ پیر صدالدین نے ایران سے آکر ہندوستان میں  اسماعیلیوں کی تین جماعتیں منظم کیں۔
== اسماعیلیوں کی دوسری جماعت ==
پنجاب میں بھی ۔ میں مکھی سیٹھ شام داس لاہوری ۲۔ کشمیر میں لکھی سیٹھ جیسی داس سندھ میں مکھی تریکیم تھے سندھ اور مغربی پنجاب میں نجاب میں لوہا نہ قوم کے بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بعیت کی۔
آغا خانی خوجوں کی نسبت ان کے نظام و عقائد خاص طور پر غیر اسلامی ہیں۔ اس جماعت کا دائرہ بڑا وسیع ہے اور ان میں کئی ایسے طبقے شامل ہیں جن کا اسلام سے بہت دور کا تعلق ہے۔خوجوں کے دوسرے مبلغ شاہ شمس تھے جو ملتان میں مدفون ہیں۔ انہیں عام طور پر شاہ شمس تبریز کہا جاتا ہے۔ خوجہ روایات کے مطابق وہ ایران کے شہر سبزوار سے تشریف لائے۔ ملتان کے بعض خوجے امام آغا خان کو اپنادیو تا تسلیم کرتے ہیں اور اپنے آپ کو شاہ شمس کے نام پر شمسی کہلاتے ہیں۔
اسماعیلیوں کا پہلا جماعت خانہ سندھ کے گاؤں ہاڑہ میں پیر صدرالدین کے ہاتھوں قائم ہوا۔ پیر صدالدین اپنا سلسلہ امام حسین سے تیسویں (۲۳) پشت سے ملاتے ہیں۔ پیر صدرالدین اور ان کے بیٹے سید کبیر الدین حسن نے اسماعیلیوں میں نئی روح پھونک دی اور اشاعت مذہب کے لئے یادگار چھوڑی۔
اسماعیلی خوجہ جماعت کے سب سے بڑے داعی جنہوں نے عام نزاری عقائد کو ہندوستانی ماحول کے مطابق نئے سرے سے ترتیب دیا پیر صدرالدین ہیں جو خراسان سے پاکستان آئے اور اب ریاست بہاول پور کے ایک گاؤں ترنڈہ گور گنج میں مدفون ہیں اور وہیں پر ان کا مزار تعمیر ہوا۔ قریب ہی پیر صدرالدین کے بیٹے پیر غیاث الدین مدفون ہیں۔ بہاولپور میں پیر صدرالدین کو چوراسی روضہ والا بھی کہتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ ان کی اولاد میں چوراسی اولیاء ہوئے ۔ آغا خانیوں کے مطابق آغا خان کے ایک مورث اعلیٰ شاہ اسلام نے پیر صدر الدین کو داعی بنا کر ایران سے بھیجا تھا اور بہت سے لوگ ان کے یا ان کی اولاد کے ہاتھوں اسماعیلی ہوئے ۔ پیر صدالدین نے ایران سے آکر ہندوستان میں  اسماعیلیوں کی تین جماعتیں منظم کیں۔1۔پنجاب میں مکھی سیٹھ شام داس لاہوری ۲۔ کشمیر میں مکھی سیٹھ تلسی داس 3۔سندھ میں مکھی تریکم تھے۔ سندھ اور مغربی پنجاب میں لوہا نہ قوم کے بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔اسماعیلیوں کا پہلا جماعت خانہ سندھ کے گاؤں ہاڑہ میں پیر صدرالدین کے ہاتھوں قائم ہوا۔ پیر صدالدین اپنا سلسلہ امام حسین سے تیئیسویں (۲۳) پشت سے ملاتے ہیں۔ پیر صدرالدین اور ان کے بیٹے سید کبیر الدین حسن نے اسماعیلیوں میں نئی روح پھونک دی اور اشاعت مذہب کے لئے یادگار چھوڑی۔
پیر صد الدین نے ایک کتاب دس او تار کے نام سے لکھی یا رائج کی اس کتاب میں رسول اکرم کو برہما کہا حضرت علی کو وشنو اور حضرت آدم علیہ سلام کو شنو سے تعبیر کیا ہے یہ کتاب خوجہ قوم کی مقدس کتاب کبھی جاتی ہے اور مذہبی تقریبوں پر اور نزاع کے وقت مریض کے بستر کے قریب پڑھی جاتی ہے ۔ موجوں کی ایک اور مقدس کتاب گنان ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کو پیر صدرالدین کے بیٹے نے مرتب کی۔ اگرچہ بعض خوبے اس کتاب کو ان کے والد پیر صدرالدین سے منسوب کرتے ہیں ) پیر صدرالدین کے پانچ بیٹے تھے حسن کبیر الدین ، ظہر الدین، غیاث الدین رکن الدین ، تاج الدین، سندھی خوبے پیر صدرالدین کے بڑے بیٹے حسن کبیر الدین کے بڑے معتقد ہیں اور انہیں ان کے والد کی طرح پیر کا خطاب دے رکھا ہے۔ پیر کبیر الدین حسن کا نام حسن دریا بھی مشہور ہے ۔ سندھی فوجوں میں اثنا عشری اور اسماعیلی رسوم پر اختلاف ہے وہاں بعض خوبے تعزیے نکالتے  ہیں آغا خان اول نے اس کی مخالفت کی اس بنا پر وہاں ایک حصہ جماعت سے اگلہ ہو گیا ان کے دو بڑے مرکز شمالی پنجاب اور چترال اور دوسرے کچھ کالی داز اور مغربی ہندوستان میں بھی ہیں ۔ پیر صدرالدین اور ان کا بیٹا پیر حسن کبیر الدین دونوں خوجے فرقے کے بانی تھے۔ پیر صدرالدین وہ واحد آدمی تھے جنہوں نے خوبہ کمیونٹی کو ایک نام دیا خوجگان دراصل، آغا خانی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آغا خان جماعت نے کئی فلاحی ادارے قائم کئے آغا خان میڈیکل کالج ، آغا خان یونیورسٹی اور آغا خان ہسپتال قابلِ ذکر ہیں، شمالی علاقہ جات میں بھی فلاحی ادارے کھولے ہیں۔
 
اثنا عشری شیعہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں لیکن اسماعیلی جماعتوں نے امامت کو صرف سات اماموں تک محدود نہیں کیا۔ بلکہ اس سلسلہ کو جاری رکھا ہوا ہے کہ ہر زمانہ میں حاضر امام کا ہونا لازمی ہے۔ پیر صدرالدین کی ایک مذہبی کتاب جس کا نام انہوں نے دسا اوتار ( دس اوتار ) رکھا۔ اس مذہبی کتاب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دسواں اوتار مانا ۔ اسماعیلی خوجوں نے اس کتاب کو ابتداء ہی سے بطور آسمانی کتاب کے مانا اور مرنے کے وقت وہ کتاب ہمیشہ برکت کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ اس طرح بہت سے دستورات میں اُس کو پڑھتے ہیں خوجوں نے آغا خان کو اسما عیلی خاندان کا امام اور اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا ہے آغا خان خود اسماعیلی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے ان کو امام تسلیم کیا گیا ہے جب مصر میں سلاطین اسماعیلیہ کی حکومت کو زوال آیا تو آغا خان کے آباؤ اجداد ایران کے مشرقی حصہ میں آباد ہو گئے ۔ بہر صورت ایران میں سکونت اختیار کرنے کے بعد عرصہ دراز تک آغا خان کے اسلاف کے خاندان کی تاریخی حالات کا پتہ کہیں چلتا ۔ حسن علی شما و جب ہندوستان میں آئے رودی جرگے اُن کی سرعنائی کو تسلیم کرتے تھے۔
پیر صد الدین نے ایک کتاب دس او تار کے نام سے لکھی یا رائج کی۔ اس کتاب میں رسول اکرمؐ کو برہما کہا۔ حضرت علی کو وشنو اور حضرت آدم علیہ سلام کو شنو سے تعبیر کیا ہے۔ یہ کتاب خوجہ قوم کی مقدس کتاب سمجھی جاتی ہے اور مذہبی تقریبوں پر اور نزاع کے وقت مریض کے بستر کے قریب پڑھی جاتی ہے ۔ خوجوں کی ایک اور مقدس کتاب گنان ہے۔ اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کو پیر صدرالدین کے بیٹے نے مرتب کیاہے۔ اگرچہ بعض خوبے اس کتاب کو ان کے والد پیر صدرالدین سے منسوب کرتے ہیں ۔ پیر صدرالدین کے پانچ بیٹے تھے حسن کبیر الدین ، ظہر الدین، غیاث الدین، رکن الدین ، تاج الدین۔ سندھی خوجے  پیر صدرالدین کے بڑے بیٹے حسن کبیر الدین کے بڑے معتقد ہیں اور انہیں ان کے والد کی طرح پیر کا خطاب دے رکھا ہے۔ پیر کبیر الدین حسن کا نام حسن دریا بھی مشہور ہے ۔ سندھی خوجوں میں اثنا عشری اور اسماعیلی رسوم پر اختلاف ہے۔وہاں  بعض خوبے تعزیے نکالتے  ہیں۔ آغا خان اول نے اس کی مخالفت کی۔ اس بنا پر وہاں ایک حصہ جماعت سے الگ ہو گیا۔ ان کے دو بڑے مرکز شمالی پنجاب اور چترال اور دوسرے کچھ کاٹھیاواڑ اور مغربی ہندوستان میں بھی ہیں ۔ پیر صدرالدین اور ان کا بیٹا پیر حسن کبیر الدین دونوں خوجے فرقے کے بانی تھے۔ پیر صدرالدین وہ واحد آدمی تھے جنہوں نے خوجہ کمیونٹی کو ایک نام دیا۔ خوجگان دراصل آغا خانی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آغا خان جماعت نے کئی فلاحی ادارے قائم کئے۔ آغا خان میڈیکل کالج ، آغا خان یونیورسٹی اور آغا خان ہسپتال قابلِ ذکر ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں بھی فلاحی ادارے کھولے ہیں۔
والا شخص سے مراد امام حق ہے اس واحد شخص سے دنیا ہرگز خالی نہیںکیونکہ اس دارد مشخص (امام) حق کے بغیر مخلوق قائم نہیں رہ سکتی اور صرف واحد شخص ( امام ) حق حقوق کی معہداشت اور حفاظت کر سکتا ہے اگر وہ واحد شخص اس جہان سے چلا جائے تو لان ما تمام مخلوق کی بہتری بھی ختم ہو جائے گی امام حق درخت کے میووں کی دلیل ہے کہ میرے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں اور اس کی آئیندو نوع کو بھی باتی ہیجاری رکھ سکتے ہیں امام آل رسول ( یعنی علی ابن ابو طالب اور فاطمہ زہرا کی اولاد) سے ہونا چاہئے اور وہ امام دیتی امور کے لئے زندہ اور حاضر ہونا چاہئے۔ اگر چہ ہر امام اپنے زمانے میں روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جاہلانہ صورت میں مرتا ہے اور ایسا شخص دوزخ میں جا گرتا ہے پس جو شخص امام کو پہچانے تو اس پر امام کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔ پیس مومن پر فرض ہے کہ اپنے امام زمان کو پہنچانے تا کہ امام کی اطاعت کرنا لازمی ہو۔ اے ایمان والوں خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان قرمان کی اطاعت کرو جو خدا کی طرف سے تمہارے درمیان ہیں۔ موت الصلاح دنیا کم ونجات اخر تحکمہ میں تمہاری دنیاوی بہتری اور آخروی
 
نجات کے لئے مامور ہوا ہوں۔" آغا خان اول تا چهارم : اسماعیلی فرقے کے امام کا اعزازی لقب جو سب سے پہلے آقائے حسن علی شاہ کو ملا سلسلہ امامت میں اب تک چار آغا خان ہو چکے ہیں <ref>نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسا‏ئیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 2009ء</ref>۔
اثنا عشری شیعہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔ لیکن اسماعیلی جماعتوں نے امامت کو صرف سات اماموں تک محدود نہیں کیا۔ بلکہ اس سلسلہ کو جاری رکھا ہے ۔ ہر زمانہ میں حاضر امام کا ہونا لازمی ہے۔ پیر صدرالدین کی ایک مذہبی کتاب جس کا نام انہوں نے دسا اوتار ( دس اوتار ) رکھا۔ اس مذہبی کتاب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دسواں اوتار مانا ۔ اسماعیلی خوجوں نے اس کتاب کو ابتداء ہی سے بطور آسمانی کتاب کے مانا اور مرتے وقت وہ کتاب ہمیشہ برکت کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح بہت سے مواقع پر  اُس کتاب کو پڑھا جاتا ہے۔ خوجوں نے آغا خان کو اسماعیلی خاندان کا امام اور اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا ہے۔ آغا خان کو اسماعیلی نسل سے ہونے کی وجہ سے امام تسلیم کیا گیا ہے۔ جب مصر میں سلاطین اسماعیلیہ کی حکومت کو زوال آیا تو آغا خان کے آباؤ اجداد ایران کے مشرقی حصہ میں آباد ہو گئے ۔ بہر صورت ایران میں سکونت اختیار کرنے کے بعد عرصہ دراز تک آغا خان کے اسلاف کے تاریخی حالات کا پتہ نہیں چلتا ۔ حسن علی شاہ  جب ہندوستان میں آئے تو سرحدی جرگے اُن کی سربراہی کو تسلیم کرتے تھے۔
 
== واحد شخص ==
واحد شخص سے مراد امام حق ہے۔ اس واحد شخص سے دنیا ہرگز خالی نہیں ۔کیونکہ اس واحد شخص (امام حق) کے بغیر مخلوق قائم نہیں رہ سکتی اور صرف واحد شخص ( امام حق ) مخلوق کی نگہداشت اور حفاظت کر سکتا ہے ۔اگر  واحد شخص اس جہان سے چلا جائے تو لازماً تمام مخلوق کی بہتری بھی ختم ہو جائے گی۔ امام حق درخت کے میووں کی دلیل ہے کہ میوے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں اور اس کی آئندہ  نوع کو بھی باتی و جاری رکھ سکتے ہیں۔ امام آل رسول ( یعنی علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا کی اولاد) سے ہونا چاہئے اور وہ امام دینی امور کے لئے زندہ اور حاضر ہونا چاہئے۔ اگر چہ ہر امام اپنے زمانے میں روئے زمین پر خدا کا خلیفہ ہے ۔جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جاہلانہ موت  مرتا ہے اور ایسا شخص دوزخ میں جا گرتا ہے۔ پس جو شخص امام کو پہچانے تو اس پر امام کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔ پس مومن پر فرض ہے کہ اپنے امام زمان کو پہچانے تا کہ امام کی اطاعت کرسکے۔ اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان فرمان کی اطاعت کرو جو خدا کی طرف سے تمہارے درمیان ہیں۔ "امرت لصلاح دنیا کم ونجاۃ آخر تکم" یعنی میں تمہاری دنیاوی بہتری اور اخروی نجات کے لئے مامور ہوا ہوں۔
 
== آغا خان اول تا چهارم ==
آغا خان  اسماعیلی فرقے کے امام کا اعزازی لقب ہے  جو سب سے پہلے آقائے حسن علی شاہ کو ملا۔ سلسلہ امامت میں اب تک چار آغا خان ہو چکے ہیں <ref>نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسا‏ئیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 2009ء</ref>۔


== آغا خان اول ==
== آغا خان اول ==
[[فائل:آقا خان اول.jpg|200px|تصغیر|بائیں|آغا خان اول]]
[[فائل:آقا خان اول.jpg|200px|تصغیر|بائیں|آغا خان اول]]
آغا خان اول : ۱۸۰۰ تا ۱۸۸، پورا نام حسن علی شاہ ہے فتح علی شاہ کا چار کے منظور نظر داماد تھے ان کے والد شاہ جلیل صوبہ کرمان کے گورنر تھے ان کی وفات کے بعد شہنشاہ ایران فتح علی شاہ نے آغا حسن علی شاہ کو کرمان کا گورنر مقرر کیا اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی ۔ اس وقت سے دربار ایران میں ان کے خاندان کا نام آغا خان پڑ گیا جو آگے چل کر خاندانی لقب بن گیا آغا خان کا لقب نہ تو امام یا پیر کی مانند کوئی مذہبی لقب ہے اور نہ ہی اسم معرفہ بلکہ محض ایک عرف ہے جو ان کے خاندان کے لئے مخصوص ہوا ۱۸۳۸ء میں کرمان میں بغاوت ہوگئی اور آغا حسن علی شاہ سندھ چلے آئے۔ آغا خان دوم: آغا خان اول کے بعد اُن کے بیٹے آغا علی شاوان کے جانشین ہوئے وہ اپنی خُدا ترسی اور علمیت کی وجہ سے اپنے وقت کے ایک مشہور شخصیت تھے آغا علی شاہ ۱۸۸۵ء میں فوت ہوئے انہوں نے صرف چار برس اسماعیلی
آغا خان اول : 1800ء تا 1881ء پورا نام حسن علی شاہ ہے۔ فتح علی شاہ قا چار کے منظور نظر داماد تھ۔ے ان کے والد شاہ جلیل صوبہ کرمان کے گورنر تھ۔ے ان کی وفات کے بعد شہنشاہ ایران فتح علی شاہ نے آغا حسن علی شاہ کو کرمان کا گورنر مقرر کیا اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی ۔ اس وقت سے دربار ایران میں ان کے خاندان کا نام آغا خان پڑ گیا جو آگے چل کر خاندانی لقب بن گیا۔ آغا خان کا لقب نہ تو امام یا پیر کی مانند کوئی مذہبی لقب ہے اور نہ ہی اسم معرفہ بلکہ محض ایک عرف ہے جو ان کے خاندان کے لئے مخصوص ہوا۔ ۱۸۳۸ء میں کرمان میں بغاوت ہوگئی اور آغا حسن علی شاہ سندھ چلے آئے۔


== آغا خانی فرقے کی امامت کی ==
== آغا خان دوم ==
آغا خان سوم : سلطان محمد شاہ ۲۰ نومبر ۱۸۷۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے جو تاریخ میں سر آغا خان کے لقب سے مشہور ہوئے اسماعیلیہ فرقے کے اڑتالیسویں امام ہوئے ۱۹۴۹ء میں حکومت ایران نے انہیں ایرانی قومیت عطا کی اور " والا حضرت ہمایوں“ کا اعزار بخشا ۱۹۵۱ء میں حکومت شام نے انہیں " شان بنوامیہ " عطا کیا ۱۹۵۳ء میں انڈو نیشیا نے گل سرخ و گل سفید سے نواز ا سر آغا خان فرقہ اسما عیلیہ کے پہلے امام تھے جو اپنے مریدوں میں ہیرے، جواہرات ، سونے، اور پلاٹینم میں تو لے گئے ۔ ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۴۵ ء میں ان کی قیمت ایک کروڑ ۶۵ لاکھ روپے کے  قریب تھی ۔ پہلی شادی ۲۸ برس میں چازاد بہن سے ہوئی دوسری شادی تھر یا میلیانو اور تیسری آندرے جوزفین لیونی کاغوں سے ہوئی۔ ان کا اسلامی نام ام حبیبہ تھا اور عام طور پر ما تا سلامت" کے لقب سے مشہور تھیں سر آغا خان ( جولائی ۱۹۵۷ ، کو سوئٹزر لینڈ میں درسوا کے مقام پر فوت ہوئے اسوان ( مصر ) میں دفن ہوئے سلطان محمد شاہ اسما عیلیه آغا خانی فرقے کے ۴۸ ویں امام ہوئے ہیں۔ آغا خان چهارم: شہزاده کریم آغا خان ۱۳ دسمبر ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوئے ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء کو دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں حاضر امام چنے گئے امامت پر فائز ہونے کی پہلی رسم ( ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء ) کو جینوا میں ادا ہوئی (۲۶ اکتوبر ) کو نیروبی میں ( ۲۳ جنوری ) کو کراچی میں (۲۱ مارچ ) کو بمبئی میں ان کی گدی نشینی کی رسوم ادا کی گئی۔
آغا خان اول کے بعد اُن کے بیٹے آغا علی شاہ ان کے جانشین ہوئے۔ وہ اپنی خُدا ترسی اور علمیت کی وجہ سے اپنے وقت کی ایک مشہور شخصیت تھے۔ آغا علی شاہ ۱۸۸۵ء میں فوت ہوئے۔ انہوں نے صرف چار برس اسماعیلی(آغا خانی) فرقے کی امامت کی۔
نزاری خوجے اور شمسی ہندو ان کو اپنا معبود تصور کرتے ہیں اور مختلف ناموں حاضر امام، خداوند ، شاه پیر، گور پیر ) وغیرہ سے اپنی دُعاؤں میں مخاطب کرتے ہیں پرنس کریم آغا خان چہارم دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں (۴۹) حاضر امام ہیں پرنس کریم آغا خان کے تین بچے ہیں شہزادہ رحیم، شہزادی ذہرہ اور شہزادہ حسن ہیں اب موجودہ آغا خان کے پیروکار امامی اسماعیلی اور عرف عام میں آغا خانی کہلاتے ہیں ہندو پاک میں دس لاکھ سے زیادہ ہیں ۔ گلگت چترال میں اسما عیلیہ فرقے کی کافی آبادی موجود ہے چوغان کے نواح میں اور افغانستان ، ترکستان کوہ پامیر کی وادیوں میں اب بھی موجود ہیں ۔ اسماعیلیہ بوہروں اور خوجوں سے زیادہ منظم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں <ref>اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص ۴۸</ref>۔
(1) پہلے فرقے نے امام موسی کاظم کو امام مانا جو امام جعفر کے بیٹے تھے۔
۲) دوسرے فرقے نے جان لیا کہ حضرت اسماعیل ضرور فوت ہو گئے ہیں امام


جعفر کے بیٹے محمد امام ہیں اور امامت اُن کی ہے۔
== آغا خان سوم ==
سلطان محمد شاہ ۲۰ نومبر ۱۸۷۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے جو تاریخ میں سر آغا خان کے لقب سے مشہور ہوئے۔وہ اسماعیلیہ فرقے کے اڑتالیسویں امام ہوئے۔ ۱۹۴۹ء میں حکومت ایران نے انہیں ایرانی قومیت عطا کی اور " والا حضرت ہمایوں“ کا اعزار بخشا۔۱۹۵۱ء میں حکومت شام نے انہیں " شان بنوامیہ " عطا کیا۔ ۱۹۵۳ء میں انڈو نیشیا نے" گل سرخ و گل سفید" سے نوازا۔ سر آغا خان فرقہ اسما عیلیہ کے پہلے امام تھے جو اپنے مریدوں میں ہیرے، جواہرات ، سونے، اور پلاٹینم میں تو لے گئے ۔ ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۴۵ ء میں ان کی قیمت ایک کروڑ ۶۵ لاکھ روپے کے  قریب تھی ۔ پہلی شادی ۲۸ برس میں چچازاد بہن سے ہوئی۔ دوسری شادی تھرسیا میلیانو اور تیسری آندرے جوزفین لیونی کاغوں سے ہوئی۔ ان کا اسلامی نام ام حبیبہ تھا اور عام طور پر "ماتا سلامت" کے لقب سے مشہور تھیں۔ سر آغا خان 11 جولائی ۱۹۵۷ ، کو سوئٹزر لینڈ میں درسوا کے مقام پر فوت ہوئے۔ اسوان ( مصر ) میں دفن ہوئے۔


(۳) تیسرا فرقہ حضرت اسماعیل کی حیات کا کہ وہ زندہ ہے پچھلے دونوں فرقے اسماعیلیہ کہلاتے ہیں اور پہلا فرقہ امامیہ میں شمار ہوتا ہے۔ اسماعیلیہ کہتے ہیں کہ اسماعیل کی اولاد میں قیامت تک امامت بنی رہے گی ۔ اسماعیلیہ بھی امام کی موت کے بعد امام کا دُنیا میں لوٹ آنے کے قائل ہیں ۔ اسماعیلیہ کا لقب محمد بھی ہے اور اس لقب کی وجہ معیت ( مردہ ) میں سرخ لباس پہننا اختیار کیا تھا۔
== آغا خان چهارم ==
شہزاده کریم آغا خان ۱۳ دسمبر ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء کو دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں حاضر امام چنے گئے۔ امامت پر فائز ہونے کی پہلی رسم ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء کو جینوا میں ادا ہوئی۔۲۶ اکتوبر  کو نیروبی میں ، ۲۳ جنوری  کو کراچی میں  اور۲۱ مارچ  کو بمبئی میں ان کی گدی نشینی کی رسوم ادا کی گئی۔
 
نزاری خوجے اور شمسی ہندو ان کو اپنا معبود تصور کرتے ہیں اور مختلف ناموں حاضر امام، خداوند ، شاه پیر، گور پیر  وغیرہ سے اپنی دُعاؤں میں مخاطب کرتے ہیں۔ پرنس کریم آغا خان چہارم دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں (۴۹) حاضر امام ہیں۔ پرنس کریم آغا خان کے تین بچے  شہزادہ رحیم، شہزادی زہرہ اور شہزادہ حسن ہیں۔اب موجودہ آغا خان کے پیروکار امامی اسماعیلی اور عرف عام میں آغا خانی کہلاتے ہیں۔ ہندو پاک میں ان کی تعداد  دس لاکھ سے زیادہ ہیں ۔ گلگت چترال میں اسما عیلیہ فرقے کی کافی آبادی موجود ہے۔ چوغان کے نواح میں اور افغانستان ، ترکستان، کوہ پامیر کی وادیوں میں اب بھی موجود ہیں ۔ اسماعیلیہ بوہروں اور خوجوں سے زیادہ منظم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں <ref>اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص ۴۸</ref>۔
== اسماعیلی خوجے ==
== اسماعیلی خوجے ==
اسماعیلی خوجے: یہ فرقہ امامی اسماعیلی بھی کہلاتا ہے اور بمبئی و مدراس وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔ خاص کر کاٹھیاواڑ کے جزیرہ نما میں زیادہ رہتے ہیں اور انہوں نے اپنی تجارتی نو آبادیاں افریقہ کے مشرقی کنارے پر قائم کی ہیں ۔ بمبئی میں بہت کم تعداد میں سنی خوجوں کی جماعت ہے باقی تمام اسماعیلی خوبے آغا خانی ہیں اور سر ہائی نس آغا خان کو اپنا حاضر امام اور اپنا روحانی پیشوائے مذہب تسلیم کرتے ہیں۔
یہ فرقہ امامی اسماعیلی بھی کہلاتا ہے اور بمبئی و مدراس وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔ خاص کر کاٹھیاواڑ کے جزیرہ نما میں زیادہ رہتے ہیں ۔انہوں نے اپنی تجارتی نو آبادیاں افریقہ کے مشرقی کنارے پر قائم کی ہیں ۔ بمبئی میں بہت کم تعداد میں سنی خوجوں کی جماعت ہے۔ باقی تمام اسماعیلی خوجے آغا خانی ہیں اور سر ہائی نس آغا خان کو اپنا حاضر امام اور اپنا روحانی پیشوائے مذہب تسلیم کرتے ہیں۔
 
مگر فروری ۱۹۰۰ ء سے آغا خانی جماعت کے دو حصے ہو گئے ۔
مگر فروری ۱۹۰۰ ء سے آغا خانی جماعت کے دو حصے ہو گئے ۔
ا ایک وہ جو آغا خانی یعنی امامی اسماعیلی ہیں۔
دوسرے خوجے وہ ہیں جو اثنا عشری مذہب پر ایمان رکھتے ہیں ۔


اثنا عشری خوجوں نے اپنی ایک بڑی مسجد امام باڑہ اور مدرسہ و غیرہ تعمیر کیے ہیں ان میں بھی کافی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ہندوستان میں اسماعیلی فرقہ کے لیے صدرالدین تقریبا چار سو برس پہلے ہندوستان آئے اور انہوں نے اسماعیلی فرقے کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان میں سب سے پہلے خوجوں کو اسماعیلی بنانے کے لیئے بے صعدہ الدین ہی آئے تھے ۔ اور یہ مضمون سلطان محمد شاہ آغا خان کے بیان سے ماخود
1۔ ایک وہ جو آغا خانی یعنی امامی اسماعیلی ہیں۔
 
2۔دوسرے خوجے وہ ہیں جو اثنا عشری مذہب پر ایمان رکھتے ہیں ۔اثنا عشری خوجوں نے اپنی ایک بڑی مسجد ،امام باڑہ اور مدرسہ و غیرہ تعمیر کیے ہیں۔ ان میں بھی کافی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔
 
ہندوستان میں اسماعیلی فرقہ کے پیر صدرالدین تقریبا چار سو برس پہلے ہندوستان آئے اور انہوں نے اسماعیلی فرقے کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان میں سب سے پہلے خوجوں کو اسماعیلی بنانے کے لئے پیر صدر الدین ہی آئے تھے ۔ یہ مضمون سلطان محمد شاہ آغا خان کے بیان سے ماخودہے۔ (انسائیکلو پیڈیا آف انڈیا کی دوسری جلد کے صفہ نمبر ۱۳۵ میں لکھا ہے )
 
خوجوں نے آغا خان کو اسماعیلی خاندان کا امام اور اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا۔ آنا خان خاندان نزاریہ میں سے ہیں نہ کہ مستعلویہ میں سے۔ یہی وجہ ہے کہ بوہرے جو مستعلو یہ عقیدہ پر ہیں آغا خان کی امامت کے منکر ہیں۔
 
== اسماعیلی ( آغا خانی) ==
اس  فرقے کے چند فروعی و شرعی مسائل جو زباں  زدعام ہیں  وہ اس طرح ہیں ( واللہ عالم بالصواب ) کہ اسما عیلیہ فرقہ کا کلمہ طیبہ کچھ یوں ہے - اشهد ان لا اله إلا الله و اشهد ان محمد رسول الله واشهدان على ولى اللہ۔ نماز کی جگہ وہ تین وقت کی دُعا جماعت خانہ میں پڑھتے ہیں۔ اسماعیلی اپنی عبادت کو دُعا کا نام دیتے ہیں۔ ان کی عبادت میں اٹھارہ رکعتیں شامل ہوتی ہیں۔ اسماعیلی بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح جمعہ کو عبادت کے لئے جماعت خانہ میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ بیشتر جماعت خانوں میں ایک مکھی ہوتا ہے جو عہدے میں بڑا ہوتا ہے اور چھوٹا کماد یہ جسے اس کا نائب جانا جاتا ہے جماعتی فرائض انجام دیتے ہیں۔ جماعت خانوں میں مرد اور عورتیں علیحدہ علیحدہ قطاروں میں بیٹھتے ہیں۔ مردوں کی سر براہی کا فریضہ مکھی اور کماد یہ صاحبان انجام دیتے ہیں۔ دعا میں قیام و سجدے کرتے ہیں اور اپنا رخ قبلہ (امام) کی طرف کرتے ہیں۔ ان کے جماعت خانہ  میں محراب اور ممبر نہیں ہوتے۔ ان کی ہاں اذان نہیں ہوتی۔ حج حاضر امام کا دیدار ہے۔ سلام علیکم کی جگہ یا علی مدد، مولاعلی مدد کہتے ہیں۔ اسماعیلی آمدنی کا ساڑھے بارہ فیصد حصہ زکوۃ  کے طور پر  دیتے ہیں ۔ان کا بولتا قرآن حاضر امام کی صورت میں موجود ہے۔ روزہ نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ روز ہ در اصل  کان، آنکھ اور زبان کا ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں ان کا امام اس زمین پر خدا کا مظہر ہے۔
 
== اسماعیلی عقائد ==
اسماعیلی خوجوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آغا خان فرقہ اسماعیلیہ کے حاضر امام ہیں اور ان کو حضرت علی سے روشنی ملتی ہے ۔یہ لوگ  سارے اماموں  کا سلسلہ حضرت علی تک پہنچاتے ہیں۔
 
1۔امامی اسماعیلی ایران میں اللہ عطائی کہلاتے ہیں۔


ہے۔ (انسائیکلو پیڈیا آف انڈیا کی دوسری جلد کے صفہ نمبر ۱۳۵ میں لکھا ہے ) خوجوں نے آغا خان کو اسماعیلی خاندان کا امام اور اپنا دھانی چایو تسلیم کیا آنا خان خاندان نزاریہ میں سے ہیں نہ مستعلویہ میں سے یہی وجہ ہے کہ بوہرے جو مستعلو یہ عقیدہ پر ہیں آغا خان کی امامت کے منکر ہیں۔ اسماعیلی ( آغا خانی): فرقے کے بارے چند فروعی و شرعی مسائل جو زبان زدعام میں وہ اس طرح ہیں ( واللہ عالم بالصواب ) کہ اسما عیلیہ فرقہ کا کلمہ طیبہ کچھ یوں ہے - اشهد ان لا اله إلا اللهو أشهد أن محمد الرسول الله والشهدان على ولى اللہ، نماز کی جگہ وہ تین وقت کی دُعا جماعت خانہ میں پڑھتے ہیں۔ اسماعیلی اپنی عبادت کو دُعا کا نام دیتے ہیں ان کی عبادت میں اٹھارہ رکھا تیں شامل ہوتی ہیں۔ اسماعیلی بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح جمعہ کو عبادت کے لئے جماعت خانہ میں اکٹھے ہوتے ہیں بیشتر جماعت خانوں میں ایک بھی ہوتا ہے جو عہدے میں ہوا ہوتا ہے اور چھوٹا کماد یہ جسے اس کا نائب جانا جاتا ہے جماعتی فرائض انجام دیتے ہیں۔ جماعت خانوں میں مرد اور عورتیں علیحدہ علیحدہ قطاروں میں بجھتے ہیں۔ مردوں کی سر براہی کا فریضہ مکھی اور کماد یہ صاحبان انجام دیتے ہیں۔ دعا میں قیام، سجدے کرتے ہیں اور اپنا رخ قبلہ (امام) کی طرف کرتے ہیں ان کے جماعت مادر میں محراب اور ممبر نہیں ان کی ہاں اذان نہیں۔ حج حاضر امام کا دیدار ے اسلام میکنی جگہ یا علی مدد مولاعلی مدد کہتے ہیں۔ اسماعیلی آمدن کا ساڑھے بارہ فیصد حصہ کے ہم اپنی آمدنی زکوۃ میں دیتے ہیں ۔ ۵۰. ۱۲ فیصد جو دس وند کہلاتی ہے اس ہند کو اس میں فرقے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے جسے فرض سمجھ کر جماعت خانے میں دیتے ہیں۔ ان کا بولتا قرآن حاضر امام کی صورت میں موجود ہے روزہ نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ روز واصل میں کان، آنکھ اور زبان کا ہوتا ہے ان کے خیال میں ان کا امام اس زمین پر خدا کا مظہر ہے۔ اسماعیلی عقائد : اسماعیلی خوجوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آغا خان فرقہ اسماعیلیہ کے حاضر امام ہیں اور ان کو حضرت علی سے روشنی ملتی ہے اور سب آئمہ کا سلسلہ حضرت علی تک پہنچاتے ہیں۔
2۔ایشیائے متوسط اور چینی ترکستان میں مولائی کہلاتے ہیں۔
امامی اسماعیلی ایران میں اللہ عطامی کہلاتے ہیں۔
ایشیائے متوسط اور چینی ترکستان میں مولائی کہلاتے ہیں۔
شام اور مصر اور شمالی افریقہ میں اسماعیلیہ کہلاتے ہیں شام میں اُن کو دروں بھی کہتے ہیں افغانستان میں مولائی بھی کہلاتے ہیں۔
۴۔ ہندوستان میں بول چال میں بدخشانی کہلاتے ہیں یہ تمام معتقدین آغا خان کو نذریں دیتے ہیں۔
دسواں: آغا خانی لوگ اپنی نذریں آغا خان کو دیتے ہیں یہ اپنی آمدنی میں سے بارہ فیصد حصہ آغا خان کو دیتے ہیں اور اس نذر کو دو سونگ ( پیداوار کا دسواں حصہ یا
عشر) کے نام سے اپنی آمدنی کا آٹھواں حصہ آغا خان کو ادا کرنے کے پابند ہیں دو سونگ کو ان کے مذہب میں کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اُن کی مقدس کتاب گنان میں اس کی ہدایت ہے یہ خوجوں کا فرض ہے کہ اپنے امام کو نذریں دیں گستان میں اور بہت سے بیانات ہیں۔ آغا خانی اپنی نذریں اپنے حاضر امام کو اس لیئے دیتے ہیں کہ اس جہان میں سرسبز ہوں آغا خانی لوگ آغا خان کو خدا کا قائم مقام تصور کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن میں حضرت علی کا نور ہے جو امام زندہ اور موجود ہے اس کو حاضر امام کہتے ہیں۔ گنان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حاضر امام کی پیشکش میں کسی کو حصہ دار نہ بنایا جائے ان کے ہاں دُعا میں تمام اماموں کے نام پڑھے جاتے ہیں اور تمام پیروں کے نام لئے جاتے ہیں۔ خوبے موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو امام مانتے ہیں اور وہ دُنیا کے کئی حصوں میں پیر بھی کہلاتے ہیں ۔ ولادت اور شادی کے مواقع پر بھی نذر دی جاتی ہے نذرو نیاز کا ایک اور بھی طریقہ ہے جو سر بندی کہلاتا ہے۔ یعنی کوئی آدمی اپنی جائیداد حاضر امام کو بیہ کر دے خو جے ان رسومات بندگی کو بہت تختی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اول سفرہ : کی رسم میں چند چیزوں کا نیلام ہے جس کے لئے جماعت خانے کے ممبر بولی دیتے ہیں اور پھر بڑی بڑی قیمتوں سے وہ چیز میں خریدی جاتی ہیں پھر اس رقم سے آغا خان ( حاضر امام ) کے لئے چیزیں خریدی جاتی ہیں۔ کھادا خورا: کی رسم بھی ہے جس کا مقصد کھانے پینے کی اشیاء میں سے آنا خان (حاضر امام) کو چندے کے طور پر ادائیگی کرنا ہے دعوت جس قسم کی بھی ہو ایک حصہ آنا خان ( حاضر امام ) کے لئے مخصوص ہوتا ہے اُس خوراک کو جماعت خانہ میں لا کر نیلام ایک
کر دیا جاتا ہے اور اس سے جو آمدنی وصول ہوتی ہے و انا ان محاضرام لکھا۔


جاتی ہے اسماعیلی جھولی کے نام سے حاضر امام کو نذرانے پیش کرتے ہیں۔ دس اوتار : دس اوتار سے مراد ہے کہ خدا نے دس جسم اختیار کئے تھے اور گواہونے
3۔شام اور مصر اور شمالی افریقہ میں اسماعیلیہ کہلاتے ہیں۔ شام میں اُن کو دروس بھی کہتے ہیں اور افغانستان میں مولائی بھی کہلاتے ہیں۔


بھی کہا کہ میں علی اللہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ علی میں خُدا کا نور ہے اور حضرت علی دسویں اوتار ہیں ۔ حاضر امام آغا خان کا نام دُعا میں سترہ دفعہ لیا جاتا ہے اور ہر دفعہ جب اُن کا نام لیتے ہیں تو سجدہ کیا جاتا ہے۔
4۔۔ ہندوستان میں بول چال میں بدخشانی کہلاتے ہیں۔
 
=== دسواں ===
آغا خانی لوگ اپنی نذریں آغا خان کو دیتے ہیں۔ یہ اپنی آمدنی میں سے بارہ فیصد حصہ آغا خان کو دیتے ہیں اور اس نذر کو دو سونگ ( پیداوار کا دسواں حصہ یا عشر) کے نام سےجاناجاتا ہے۔ دو سونگ کو ان کے مذہب میں کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اُن کی مقدس کتاب گنان میں اس کی ہدایت موجود  ہے ۔ خوجوں کا فرض ہے کہ اپنے امام کو نذریں دیں۔ گنان میں اور بہت سے بیانات ہیں۔ آغا خانی اپنی نذریں اپنے حاضر امام کو اس لئے دیتے ہیں کہ اس جہان میں سرسبز ہوں ۔آغا خانی لوگ آغا خان کو خدا کا قائم مقام تصور کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن میں حضرت علی کا نور ہے ۔جو امام زندہ اور موجود ہے اس کو حاضر امام کہتے ہیں۔ گنان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حاضر امام کی پیشکش میں کسی کو حصہ دار نہ بنایا جائے۔ ان کے ہاں دُعا میں تمام اماموں کے نام پڑھے جاتے ہیں اور تمام پیروں کے نام لئے جاتے ہیں۔ خوجے موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو امام مانتے ہیں اور وہ دُنیا کے کئی حصوں میں پیر بھی کہلاتے ہیں ۔ ولادت اور شادی کے مواقع پر بھی نذر دی جاتی ہے۔ نذرو نیاز کا ایک اور بھی طریقہ ہے جو سر بندی کہلاتا ہے۔ یعنی کوئی آدمی اپنی جائیداد حاضر امام کو بیہ کر دے ۔خو جے ان رسومات بندگی کو بہت سختی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔
 
=== اول سفرہ ===
اس  رسم میں چند چیزوں کا نیلام ہوتا ہے جس کے لئے جماعت خانے کے ممبر بولی دیتے ہیں اور پھر بڑی بڑی قیمتوں  میں  وہ چیز یں  خریدی جاتی ہیں۔ پھر اس رقم سے آغا خان ( حاضر امام ) کے لئے چیزیں خریدی جاتی ہیں۔
 
=== کھادا خورا ===
کھادا خورا کی رسم بھی ہے جس کا مقصد کھانے پینے کی اشیاء میں سے آغا خان (حاضر امام) کو چندے کے طور پر ادائیگی کرنا ہے۔ دعوت جس قسم کی بھی ہو ایک حصہ آغا خان ( حاضر امام ) کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ اُس خوراک کو جماعت خانہ میں لا کر نیلام کر دیا جاتا ہے اور اس سے جو آمدنی وصول ہوتی ہے وہ آغا خان (حاضرامام)کو دی جاتی ہے۔ اسماعیلی جھولی کے نام سے حاضر امام کو نذرانے پیش کرتے ہیں۔
 
== دس اوتار ==
دس اوتار سے مراد ہے کہ خدا نے دس جسم اختیار کئے تھے اور گواہ نےبھی کہا کہ میں علی اللہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ علی میں خُدا کا نور ہے اور حضرت علی دسویں اوتار ہیں ۔
 
حاضر امام آغا خان کا نام دُعا میں سترہ دفعہ لیا جاتا ہے اور ہر دفعہ جب اُن کا نام لیتے ہیں تو سجدہ کیا جاتا ہے۔


(1) یہ بارہ اماموں کی زیارت نہیں پڑھتے ۔
(1) یہ بارہ اماموں کی زیارت نہیں پڑھتے ۔


(۲) حضرت علی کے لیئے دس اوتار ہوئے ہیں ۔
(۲) حضرت علی کے لئے دس اوتار کے قائل ہیں ۔


(۳) کوئی خوجہ حج کرنے اور کاظمین اور سامرہ کو نہیں جاتے۔
(۳) کوئی خوجہ حج کرنے اور کاظمین اور سامرہ کی زیارت کے لئے  نہیں جاتا۔


(۴) قرآن کو بحیثیت مسلمان ہونے کے مذہبی کتاب جانتے ہیں۔
(۴) قرآن کو بحیثیت مسلمان ہونے کے مذہبی کتاب جانتے ہیں۔
سطر 204: سطر 235:
(1) قرآن پر عمل اور تلاوت بھی کرتے ہیں۔
(1) قرآن پر عمل اور تلاوت بھی کرتے ہیں۔


(۷) نماز سال میں دو دفعہ پڑھ سکتے ہیں۔
(۷) نماز سال میں دو دفعہ پڑھتے ہیں۔
 
=== آب شفا ===
حاضر امام اپنا دست مبارک پانی میں رکھ کر دعا کرتے ہیں جس سے وہ پانی پاک ہو جاتا ہے جو عقیدت مندوں کو دیا جاتا ہے اور آغا خانی لوگ کسی دوسرے شخص کو  سوائے آغا خان کے متبرک نہیں سمجھتے۔
 
=== جماعت خانہ ===
آغا خانی فرقے کے لوگوں کی عبادت گاہ یا مسجد کو جماعت خانہ کہتے ہیں۔ مسجد بیت الاسلام"  اس  کی مثال ہے۔  جماعت خانہ عام طرز کی عمارت ہوتی ہے اور ہر بڑے شہر میں ایک بڑا جماعت خانہ ہوتا ہے  جس  کے ماتحت شہر کے تمام چھوٹے جماعت خانے ہوتے ہیں۔ چھونے جماعت خانہ کو در خانہ کہا جاتا ہے <ref>ڈاکٹر محمد یوسف میمن ، ناثر المكتبته اليوم نيته الچند باغ میر پور خاص</ref>۔


لوگ کسی آب شفا: حاضر امام اپنا ہاتھ مبارک پانی میں رکھ کر دعا کرتے ہیں جس سے وہ پانی پاک ہو جاتا ہے۔ جو عقیدت مندوں کو دیا جاتا ہے اور آغا خانی کا
=== پیر ===
اسماعیلی خوجوں میں پیر بھی ہوتے ہیں۔ پیر کا کام یہ ہے کہ امام کی عدم موجودگی میں لوگوں کو امامی اسماعیلی بنائے۔ پیر کو  حاضر امام مقرر کرتا ہے۔  


دوسرے شخص کو سوائے آغا خان کے متبرک نہیں سمجھتے۔
== آغا خانی خوجوں کی مقدس کتا بیں ==
اسماعیلی خوجوں کی کتب زیادہ تر فارسی زبان میں ہے۔ گنان اور دسا اوتار  دو  مقدس کتا ہیں ہیں۔ "دسا او تا ر"،"گنان"،" مومن چتاونی" و غیرہ  پیر صدرالدین اور حسن کبیر الدین اور دیگر اسماعیلی بزرگوں  کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔یہ کتابیں عموماً گجراتی زبان میں ہیں۔ اس لئے بمبئی کے علاؤہ دوسرے لوگ ان مضامین سے بہت کم واقف ہیں۔ کیونکہ یہ اپنی کتب اور مذہبی عقاید کو خفیہ رکھتے ہیں۔ آج کل اس جماعت کے روحانی پیشوا اور حاضر امام پرنس کریم آغا خان ہیں۔ "دعائم الاسلام" اسماعیلی فرقے کی بنیادی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے ۔اس کا تعلق ظاہری علم یعنی عملی عبادات سے ہے۔ اسماعیلیوں کو زبانی حفظ کرنے کا حکم بھی ہے۔ زبانی یاد کرنے والے کو خطیر انعامات بھی ملتے ہیں۔ دوسری کتاب "تاویل دعائم الاسلام" ہے۔ اس میں  احکامات اور فرائض کی باطنی تاویلات کا بیان ہے۔ یہ کتاب اسماعیلی تاویلات کی اہم ترین بنیاد ہے۔


جماعت خانہ آغا خانی فرقے کے لوگوں کی عبادت گاہ یا مسجد کو جماعت خانہ کہتے ہیں۔ مسجد بیت الاسلام" کے مکان کی مثال ہے یہ عمارت جماعت خانہ عام طرز کی عمارت ہوتی ہے اور ہر بڑے شہر میں ایک بڑا جماعت خانہ ہوتا ہے ۔ جس  کے ماتحت شہر کے تمام چھوٹے جماعت خانے ہوتے ہیں چھونے جماعت خانہ کو در خانہ کہا جاتا ہے <ref>ڈاکٹر محمد یوسف میمن ، ناثر المكتبته اليوم نيته الچند باغ میر پور خاص</ref>۔
== آغا خانی اور بوہرے ==
== پیر ==
ہندوستان میں اسماعیلی، خوجوں ( آغا خانیوں ) اور بوہروں پر مشتمل ہے۔ ان کے عقائد مرزا محمد سعید دہلوی کی کتاب "مذہب اور باطنی تعلیم " کے حوالہ سے درج کرتے ہیں۔  حضرت علی وشنو تھے تو حضرت محمد نے دید و یاس کا قالب اختیار کیا۔ جب حضرت علی اپنی معروف عام حیثیت میں نمودار ہوتے ہیں  تو و ہ  وشنو کا دسواں اوتار ( کلکی ) تھے۔ موجودہ آغاخان تک تمام نزاری ائمہ حضرت علی کا اوتار تصور کیے جاتے ہیں۔ خوجے اور شمسی ہندو انہیں اپنا معبود تصور کرتے ہیں۔ یہ یہ لوگ آواگون یا تناسخ کے بھی قائل ہیں اور قیامت، جنت اور دوزخ کے بھی۔نزار یہ فرقہ کا عموماً یہ مسلک رہا ہے۔  
پیر: اسماعیلی موجوں میں پیر بھی ہوتے ہیں پیر کا کام یہ ہے کہ امام کی عدم موجودگی میں لوگوں کو امامی اسماعیلی بنائے حاضر امام پیر کو مقرر کرتا ہے۔ آغا خانی خوجوں کی مقدس کتا بیں : اسماعیلی خوجوں کی کتب زیادہ تر فاری زبان میں ہے۔ گنان اور دسا اوتار یہ دو کتا ہمیں مقدس کتا ہیں ہیں۔ دس او تا رگنان مومن چنتاونی و غیرہ پیر صدرالدین اور حسن کبیر الدین اور دیگر اسماعیلی کی طرف منسوب کی جاتی ہیں عموماً گجراتی زبان میں ہیں اس لئے بمبئی کے علاؤہ دوسرے لوگ ان مضامین سے بہت کم واقف ہیں۔ کیونکہ یہ اپنی کتب اور مذہبی عقاید کو خفیہ رکھتے ہیں۔ آج کل اس جماعت کے روحانی پیشوا اور حاضر امام پرنس کریم آغا خان ہیں۔ دُعائے اسلام اسماعیلی فرقے کی بنیادی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے اس کا تعلق ظاہری علم یعنی عملی عبادات سے ہے۔ اسماعیلیوں کو زبانی حفظ کرنے کا حکم بھی ہے زبانی یاد کرنے والے کو خطیر انعامات بھی ملتے ہیں۔ دوسری کتاب تاویل دعائم اسلام ہے اس کے احکامات اور فرائض کی باطنی تاویلات کا بیان ہے یہ کتاب اسماعیلی تاویلات کی اہم ترین بنیاد ہے۔ آغا خانی اور بوہرے: ہندوستان میں اسماعیلی خوجوں ( آغا خانیوں ) اور ہے ان کے عقائد مرزا محمد سعید دہلوی کی کتاب مذہب اور باطنی بوہروں پر مشتمل ۔ تعلیم کے حوالے سے درج کرتے ہیں ۔ حضرت علی وشنو تھے تو حضرت محمد نے دید و یاس کا قالب اختیار کیا جب حضرت علی اپنی معروف عام حیثیت میں نمودار ہوتے تو و و وشنو کا دسواں اوتار (نئی کلنگی ) تھے۔ موجودہ آغاخان تک تمام نزاری ائمہ حضرت علی کا اوتار تصور کیے جاتے ہیں خوجے اور کسی ہندو انہیں اپنا معبود تصور کرتے ہیں۔ یہ یہ لوگ آواگون یا تناسخ کے بھی قائل ہیں اور قیامت جنت دوزخ کے بھی مزار یہ فرقہ کا عموماً یہ مسلک رہا ہے۔ اس فرقے کی روایات کی مستند ترین کتاب کا نام اصول کافی کتاب ہے۔ یہ عربی زبان میں ہے اس کا اردو میں ترجمہ سید ظفر حسن صاحب امروہوں نے الشافی کے نام سے شائع کیا ہے۔
== تصوف ==
تصوف :شیعہ حضرات تصوف کے قائل نہیں ان کے عقیدہ کی رُو سے اس قسم کا غیر مکتب اور براہ راست علم ان کے ائمہ تک محدود ہے ان کے ہاں صوفی ہوتے ہیں نہیں ۔ اہل تصوف کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ باطنی علم اللہ نے حضرت علی کو عطا فرمایا تھا اور آپ سے آگے سینہ بسینہ منتقل ہوتا چلا گیا۔ واضح رہے کہ حضرت علی سے جن حضرات کو یہ علم منتقل ہوا ان سے مراد شیعہ حضرات کے ائمہ نہیں بلکہ سنیوں کے صوفیاء بھی ہیں )<ref>سید حکیم ناصر خسرو وجه دین، ، در الحكمته الاسماعيليهته ونزولات</ref>۔
== اسماعیلی تنظیم ==
== اسماعیلی تنظیم ==
اسماعیلی تنظیم : اسماعیلیہ فرقہ کی ابتدا میں صرف تین تنظیمی مدارج تھے۔ امام ، داعی اور مستجیب بعد میں سات ہو گئے۔
اسماعیلیہ فرقہ کے ابتدا میں صرف تین تنظیمی مدارج تھے۔ امام ، داعی اور مستجیب۔ بعد میں سات ہو گئے۔(۱) امام (۲) حجت جو امام اور جماعت کے درمیان واسطہ ہوتا ہے۔نزاری عقیدہ کی روح سے پیر اور حجت ایک ہی منصب کے دو مختلف نام ہیں حجت کو وہ امام کا مظہر اور اس کی روحانی اور الہٰی صفات کا شریک تصور کرتے ہیں۔ جس طرح موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو ایک علاقہ میں امام کہتے تھے اور دوسرے میں وہ  پیر بھی کہلاتے تھے۔ (۳) ذو مصہ جو حجت سے اپنا علم حاصل کرتا ہے۔(۳) داعی  اکبر یا داعی الدعاۃ جو امور دعوت کا نگران اور سب داعیوں کا سردار خیال کیا جاتا ہے ۔ (۵) داعی  ماذون جن کو عوام الناس کی دینی تربیت اور طالبین سے میثاق لے کر جماعت میں داخل کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ دعوت جدید میں دو درجوں کا اضافہ ہو گیا ہے فدائی اور لاسک (لا سک کا مطلب نو آموز اور مبتدی ہے ۔لا سک چھٹے درجے کے لوگ ہوتے ہیں ) فدائی ساتویں درجے کے وو لوگ ہیں جو اپنے حاکموں پر اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ لا سک وہ لوگ ہیں جو فدائی بننے کے امیدوار ہوتے ۔ موجودہ دور میں  اسماعیلیہ میں امام ،داعی اورمومن کے علاوہ اور کسی درجے کا ذکر  سننے میں نہیں آتا۔


(۱) امام (۲) حجت جو امام اور جماعت کے درمیان واسطہ ہوتا ہے تزاری عقیدہ کی روح سے پیر اور حجت ایک ہی منصب کے دو مختلف نام ہیں حجت کو وہ امام کا مظہر اور اس کی روحانی اور الہی صفات کا شریک تصور کرتے ہیں جس طرح موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو ایک علاقہ میں امام کہتے اور دوسرے میں وہ
نزاری فرقے کا عموما یہ مسلک رہا ہے کہ جس ملک میں وہ سکونت پذیر ہوتے ہیں اسی ملک کی شریعت اختیار کر لیتے ہیں۔ ترکستان میں وہ حنفی فقہ کے مقلد ہیں اور ایران میں اثنا عشری فقہ کے پابند ہیں ۔ نزاری اماموں کی فہرست ۴۸ ہے اور سلطان محمد شاہ ( آغا خان سوئم ) نزاری فرقہ کے ۴۸ ویں امام ہیں ۔ ان سب کو نزاری فرقہ اپنا حاضر امام تصور کرتا ہے۔ نزاری عقیدہ یہ ہے کہ ان کے خاندان میں امامت ہمیشہ جاری رہے گی <ref>نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسا‏ئیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 2009ء</ref>۔
پیر بھی کہلاتے تھے۔ (۳) ذو مصہ جو حجت سے اپنا علم حاصل کرتا ہے۔
(۳) والی اکبر یا وافی الدعائہ جو امور دعوے کا نگران اور سب داعیوں کا سردار خیال کیا جاتا ہے ۔ (ف) راقی مازون جن کو عوام الناس کی دینی تربیت اور طالبین سے میثاق لے کر جماعت میں داخل کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ دعوت جدید میں دو درجوں کا اضافہ ہو گیا ہے خدائی اور لاسک (لا سرک کا مطلب ہے تو آموز اور میرسیدی ہے لا سک چھٹے درجے کے لوگ ہوتے ہیں ) فدائی ساتویں درجے کے دو لوگ ہیں جو اپنے حاکموں پر اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لیئے ہر وقت تیار رہتے ہیں لا سک وہ لوگ ہیں جو فدائی بنے کے امیدوار ہوتے ۔ اس موجودہ دور میں میں امام وداعی ، سوسن کے علاوہ اور کسی درجے کا ذکر نہیں سنتے۔
نزاری فرقے کا عموما یہ مسلک رہا ہے کہ جس ملک میں وہ سکونت پذیر ہوتے ہیں اس ملک کی شریعت اختیار کر لیتے ہیں ترکستان میں وہ حنفی فقہ کے مقلد ہیں اور ایران میں اثنا عشری فقہ کے پابند ہیں ۔ نزاری اماموں کی فہرست ۳۸ ہے اور سلطان حمد شاہ ( آغا خان سوئم ) نزاری فرقہ کے ۳۸ ویں امام ہیں ۔ ان سب کو نزاری فرقہ اپنا حاضر امام تصور کرتا ہے۔ نزاری عقیدہ یہ ہے کہ ان کے خاندان میں امامت ہمیشہ جاری رہے گی <ref>احمد سیدہ مذہب اور باطنی تعلیم را  ، اردو مرکز لاہور</ref>۔
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{مذاہب اور فرقے}}
[[زمرہ:مذاہب اور فرقے]]
[[زمرہ:مذاہب اور فرقے]]