"اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 5: سطر 5:
اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام ۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت عمل میں لایا گیا تھا جو ممتاز ماہرینِ قانون اور جید علماء کرام پر مشتمل ایک آئینی ادارہ ہے۔ اور دستور کی دفعہ ۲۳۰ کے تحت اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ اپنی تشکیل کے بعد سات سال کے اندر ملک میں رائج قوانین کا جائزہ لے کر انہیں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے سفارشات مرتب کرے۔ آئین کی رو سے ہر سال قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا پیش ہونا اور ان کے مطابق قانون سازی ضروری ہے <ref>اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کا مقصد اور کارکردگی، [http://zahidrashdi.org/4365 http://zahidrashdi.org]</ref>۔ اس وقت اس ادارے کا نام '''اسلامی مشاورتی کونسل''' رکھا گیا۔  
اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام ۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت عمل میں لایا گیا تھا جو ممتاز ماہرینِ قانون اور جید علماء کرام پر مشتمل ایک آئینی ادارہ ہے۔ اور دستور کی دفعہ ۲۳۰ کے تحت اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ اپنی تشکیل کے بعد سات سال کے اندر ملک میں رائج قوانین کا جائزہ لے کر انہیں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے سفارشات مرتب کرے۔ آئین کی رو سے ہر سال قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا پیش ہونا اور ان کے مطابق قانون سازی ضروری ہے <ref>اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کا مقصد اور کارکردگی، [http://zahidrashdi.org/4365 http://zahidrashdi.org]</ref>۔ اس وقت اس ادارے کا نام '''اسلامی مشاورتی کونسل''' رکھا گیا۔  
1973ء کے آئین کے مطابق اس ادارے کا نام تبدیل کر کے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ دیا گیا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 228 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈھانچے کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 228 کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران آٹھ سے کم نہیں ہوں گے اور 20 سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ممبران کا تقرر صدر [[پاکستان]] کی صوابدید پر ہو گا اور وہ ایسے افراد کو نامزد کریں گے جو اسلامی قوانین اور فلسفے کو [[قرآن]] پاک اور سنت نبوی ص کے تحت سمجھتے ہوں اور انھیں پاکستان کے اقتصادی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی معاملات کے زمینی حقائق کے بارے میں مکمل آگاہی ہو <ref>سید ذکی عباس، اسلامی نظریاتی کونسل تعارف، ڈھانچہ اور ذمہ داریاں، [https://www.islamtimes.org/ur/article/109083/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%86%D8%B8%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%D9%84-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81-%DA%88%DA%BE%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B0%D9%85 islamtimes.org]</ref>۔
1973ء کے آئین کے مطابق اس ادارے کا نام تبدیل کر کے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ دیا گیا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 228 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈھانچے کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 228 کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران آٹھ سے کم نہیں ہوں گے اور 20 سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ممبران کا تقرر صدر [[پاکستان]] کی صوابدید پر ہو گا اور وہ ایسے افراد کو نامزد کریں گے جو اسلامی قوانین اور فلسفے کو [[قرآن]] پاک اور سنت نبوی ص کے تحت سمجھتے ہوں اور انھیں پاکستان کے اقتصادی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی معاملات کے زمینی حقائق کے بارے میں مکمل آگاہی ہو <ref>سید ذکی عباس، اسلامی نظریاتی کونسل تعارف، ڈھانچہ اور ذمہ داریاں، [https://www.islamtimes.org/ur/article/109083/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%86%D8%B8%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%D9%84-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81-%DA%88%DA%BE%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B0%D9%85 islamtimes.org]</ref>۔
== فرائض ==
کونسل کے اہم فرائض حسب ذیل ہیں:
مجلس شوری اور صوبائی اسمبلیوں کو ایسی سفارشات پیش کرنا جن پر عمل پیرا ہوکر مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال سکیں۔
مجلس شوری اور صوبائی اسمبلیوں کی رہنمائی کے لئے کسی مناسب شکل میں ایسے اسلامی اصولوں کو جمع کرنا جنہیں قانونی شکل دی جا سکے۔
صدر، گورنر، مجلس شوری ( قومی اسمبلی اور سینٹ) اور صوبائی اسمبلیوں کو مشورہ طلب کرنے پر مشورہ فراہم کرنا اور انہیں کسی مخصوص بل کے بارے میں مطلع کرنا کہ بل اسلام کے اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں <ref>محمد اعظم چوہدری، جدید حکومتیں، 2002م، ص518</ref>۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ:پاکستان]]
[[زمرہ:پاکستان]]
confirmed
2,384

ترامیم