اسلامی فرقے (تہتر فرقے)حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نے پیشن گوئی کی تھی کہ میرے بعد میری قوم 72فرقوں میں بٹ جائے گی۔ حدیث میں عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور پاک نے کہا :" میری امت کے لوگوں کا وہی حال ہوگا جو بنی اسرائیل کا ہوا تھا بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئی تھی اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ وہ ایک فرقہ جو بچ جائے گا کونسا ہوگا آپ نے فرمایا وہ جو میرے طویق کے پیرو اور میرے دوست ہیں [1]۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان فرقوں کی مجموعی تعداد 73 سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر ایک فرقہ اپنے کو ناجی اور دوسرے فرقے کو ناری کہے گا مطلب ایک فرقہ جنتی ہے اور بہتر (۷۲) فرقے دوزخی ہونگے۔ علامہ عبد الکریم شہرستانی مصنف کتاب الملل دانحل میں تہتر فرقوں کی تفصیل درج کی ہے دوسری کتاب غنیہ الطابیں میں ہے۔ ۷۳ فرقے: (۱) اہل سنت (۲) خوارج ۱۵ (۳) شیعه ۳۲ (۴) معتزله ۲ (۵) مرجبیه ۱۲ (۶) مثبه ۳ (۷) جہمیہ ضرار یہ، نجاریہ اور کلابیہ کا ایک ایک فرقہ ۴ کل

73 فرقے

  • اہل سنت 1،
  • خوارج 15،
  • شیعہ 32، معتزلہ 6،
  • مرجیہ 12، مثبتہ 7،
  • جہمیہ ضراریہ، نجاریہ اور کلابیہ کا ایک ایک فرقہ 4 کل 73 فرقے

سنی الاعتقاد

سنی راسخ الاعتقاد فرقہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں کہ سنی وہ ہے جو سنت رسول یعنی طریق حضرت محمد ﷺ کا پیرو ہے اور چاروں خلفا، کو و حضور کے جائز جانشین مانتا ہے احادیث کی چھ کتب جو صحاح ستہ کہلاتی ہیں کو قبول کرتا ہے اور چار مذاہب حنفی، مالکی، شافعی حنبلی میں کسی ایک کا وہ مقلد ہو اور چاروں اماموں کے اجماع کی تقلید کوضروری سمجھتا ہے ۔ سب سے بڑا طبقہ ان لوگوں کا ہے جنہیں ہیں اہل سنت و جماعت یاسنی مسلمان کہتے ہیں سوائے ایران کے باقی تقریبا تمام اسلامی ممالک میں زیادہ ترسنی ہیں اور اکثریت حنفی مذہب کے پیروکار ہیں۔

مسئلہ امامت اور اس کا مفہوم

شیعہ سنی اختلاف کا دائرہ بہت وسیع ہے بنیادی طور پر تین مسائل اختلافات کا سبب ہیں:

اسلامی فرقوں کی تکوین ( مطلب پیدا کرنا ) میں مسئلہ امامت کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ابتدا میں شیعہ امامت کے مسئلہ پر کسی حد تک متفق و متحد تھے۔ حضور کی وفات کے بعد جانشین کے انتخاب کے بارے میں مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ ہر ایک جماعت یہ خیال کرتی تھی کہ حضور کی خلافت کے سب سے زیادہ وہ مستحق ہیں اور اس جماعت کے عقیدہ کو ان عقائد کی بنیاد اور نقطہ آغاز تصور کرنا چاہئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ خلافت اور امامت صرف حضرت فاطمہ کی اولاد کا حق ہے۔ دوسرا گروہ کا خیال کا تھا کہ حضور کے بعد خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافت جائز ہے۔ اہل تشیع خیال کرتے ہیں کہ امامت صرف حضور کے خاندان کا حق ہے اس لئے شیعہ آئمہ اہل بیت کو مامور خیال کرتے ہیں۔ عقیدہ اہل تشیع یہ ہے کہ رسول اللہ کے بعد خلافت کے حقدار صرف حضرت علی تھے۔ اوائل اسلام میں اسلام کے چار بڑے گروہ تھے:

  • یک اہل سنت و جماعت جن میں مرجیہ بھی شامل ہیں۔
  • دوسرے شیعہ جو بے شمار فرقوں میں منقسم ہیں۔
  • تیسرے خوارج۔
  • چوتھے معتزلہ۔

ان چار گروہوں کے علاوہ ایک اور جماعت ہے جو کچھ عرصہ بعد پیدا ہوئی وہ صوفیہ یا متصوفیہ کے لقب سے ملقب ہوئی ایک ہی شخص صوفیہ اور اہل سنت و جماعت یا شیعہ دونوں میں شمار ہوتا ہے لیکن صوفیہ میں سے بعض اپنے آپ کو گروہ بندی سے الگ خیال کرتے ہیں۔ فرقہ بندی کا آغاز عربوں کے درمیان سیاسی اسباب کی وجہ سے ہوا۔ آپ دیکھئے اذان واقامت اور تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک کون سا رکن ہے جس میں اختلاف نہیں۔ نماز کی حدیثوں میں اختلاف ہے آج شیعہ جنفی مالکی، شافعی اور حنبلی کی نمازوں کو دیکھئے کسی قدر با ہم مختلف ہیں اس لیئے رسول اللہ نے ایک فرقے کے سوا باقی فرقوں کو دوزخی قرار دیا۔ مسلمانوں کے پیشواؤں نے عبادات میں طرح طرح کے اضافے کرکے یا ان میں مطلب کی تبدیلیاں کر کے فرقوں کو جنم دیا ہے۔

(۱) آج اہل تشیع کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور بخشش ہماری ہی ہے۔ کیونکہ ہمارے امام معصوم ہیں اسی لفظ معصوم سے شیعہ سنی کا جھگڑا ہے سنی کہتے ہیں امام معصوم نہیں ہوتے صرف نبی رسول معصوم ہوتے ہیں لیکن شیعہ کہتے ہیں نہیں ہمارے امام معصوم ہیں ۔

(۲) اہل سنت کے دونوں فریق ( دیوبندی اور بریلوی ) کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں بخشش ہوگی تو ہماری ہی ہوگی۔

(۳) اہل قرآن کہتے ہیں کہ بخش صرف ہماری ہے کیونکہ ہم اپنا راہنما اور ہر صرف قرآن کو سمجھتے ہیں۔

(۴) اہل طریقت کہتے ہیں کہ بخشش صرف ہماری ہے کیونکہ ہم نے مراقبوں اور چلوں سے اللہ کی معرفت حاصل کر رکھی ہے۔

(۵) اہل تصوف ( قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی) کہتے ہیں کہ بخش ہماری ہوگی کہ ہمارے پیر کامل اور قرابت دار خُداوند ہیں۔

(6) اہل فقه (حنفی حنبلی ، مالکی ، شافعی ) کہتے ہیں کہ بخش ہماری ہوگی کیونکہ ہم اپنے ائمہ مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں۔

(۷) اہل حقیقت کہتے ہیں کہ بخشش ہماری ہوگی کیونکہ ہم توحید پر کاربند ہیں ہمارا کسی فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہم فرقہ بندی کو شرک سمجھتے ہیں۔ بعض روایات مثلا مزارات پر جانا ، قبر سے مدد مانگنا، کرامات اولیاء، گیارہویں شریف، آخری چہار شنبه، عید میلا دالبنی، نعت خوانی، مزارات پر قوالی اور غرس قرآن خوانی وغیرہ کو خلاف اسلام سمجھتے ہیں۔ ان معروضی حالات میں یہ فیصلہ کرنا کون صحیح ہے اور کون غلط ہے بہت مشکل ہے اسی وجہ سے مسلمانوں میں فرقہ بندی ہے ۔ سنی اور شیعہ یہ دو ایسے فرقے مسلمانوں میں ہیں جنہیں اس سلسلے میں واقعی اہمیت حاصل ہے ان دونوں فرقوں کے اختلافات یقیناً ایسے ہیں۔ جیسے مسئلہ امامت، مسئلہ اجتہاد، شرعی دلائل، دوسرے فرقہ مذہبی اصول و فروغ عبادت اور معاملات وغیرہ۔ جن کی بنیاد پر کسی اُمت کا ایک فرقہ نہ سے جُدا ہو سکتا ہے۔ اہل سنت و جماعت کی تعداد کی کثرت کا مقابلہ اگر شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی تعداد سے کیا جائے تو شیعہ بہت کم ہے شیعہ طبقہ کے مسلمانوں کی تعداد کاصحیح اعدادو شمار نہیں ہوسکتا صرف چند ایک ممالک میں اکثریت ہے۔ مثلا ایران، عراق اور چند دوسرے ملکوں میں مثلا ہند و پاک میں لیکن شیعہ کے فرقوں کے حساب سے کسی ایک فرقہ کی تعداد نہیں بتائی جاسکتی کیونکہ آگے شیعہ میں بہت سے فرقے ہیں۔

خوارج یا خارجی

حضرت عثمان کی وفات کے بعد جب حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا ہو گئے تو اُس دوران خوارج کے نام سے ایک فرقہ وجود میں آیا جو حضرت علی اور امیر معاویہ دونوں کے مخالف تھا۔ خارجی معاویہ اور حضرت علی دونوں کو قتل کرنا چاہتے تھے خارجیوں نے حضرت علی اور امیر معاویہ دونوں کے در میان اختلافات پیدا کئے اگر چہ خارجیوں کا منصوبہ تھا کہ پہلے امیر معاویہ کو قتل کیا جائے پھر حضرت علی کو لیکن قدرت کو یہ منظور تھا کہ پہلے حضرت علی شہید ہو گئے۔ بحر المندہب میں لکھا ہے کہ خوارج کو محکمہ بھی کہتے ہیں اس وجہ سے کہ انہوں نے دونوں حکم یعنی ابو موسی اشعری و عمرو بن العاص کا انکار کیا تھا اور مشہور یہ ہے کہ محکمہ ایک قسم ہے خوارج کی زائد ان سات فرقوں پر اور محکمہ اُن کو اس لئے کہتے ہیں کہ انہوں نے جناب امیر معاویہ سے یہ بات کہی کہ حکم ( ثالث ) اس کو مقرر کرنا چاہئے جو حکم کتاب اللہ میں ہو۔

نواصب

خوارج کو تواصب بھی کہتے ہیں مگر فتاوئی عزیزی میں مذکور ہے کہ نواصب فرقہ جدا ہے اور خوارج جدا نواصب مغرب اور شام میں بہت تھے نواصب صرف حضرت علی اور اُن کی اولاد سے بغض و عداوت رکھتے ہیں۔

مارقہ

خوارج کو مارقہ بھی کہتے ہیں خوارج کی دو قسمیں ہیں: (1) خوارج کوفہ (۲) خوارج بصرہ خوارج بصرہ کی تعداد خوارج کوفہ سے زیادہ ہے۔ خوراج بصرہ کہتے ہیں کہ امام قریش میں سے ہو چاہے کسی اورخاندان اور قبیلے کا ہو۔ خوارج کوفہ کہتے ہیں کہ ہاشمی ہو خصوصاً حضرت علی کی اولاد اور اہل بیت میں سے خارجی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی امامت کو عموما مانتے ہیں اور ان کی سیرت اور ان کے زمانہ خلافت کو سب سے اچھا جانتے ہیں خوارج کا فرقہ ان چار حالتوں میں اہل قبلہ کا خون مباح و حلال جانتا ہے:

  • جب گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے۔
  • کوئی بدعت اُس سے حادث ہو۔
  • سلطان سے بغاوت کرے۔
  • فرائض کو ترک کرے۔

خوارج کی تعداد بہت کم ہے مسقط ، عمان جیسے ساحلی علاقوں یا افریقہ کے بعض دور دراز خطوں میں رہتے ہیں خوارج یا خارجی مسلمانوں کے بھی بہت سے فرقے ہیں۔

خوارج کا عقیدہ

خوراج قیاس کے منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ عقل کے لئے ایک نظیر کو دوسری نظیر پر عمل کر سکنے کی سبیل حاصل نہیں نہ احکام شرعیہ میں اور نہ غیر احکام شرعیہ میں ۔ زکوۃ : خوارج فرضیت زکوۃ کے منکر ہیں۔ نماز : نماز کو سوائے اپنے امام کے دوسرے کے پیچھے روا نہیں رکھتے اور اُن کے نزد یک نماز کا وقت سے تاخیر کر کے پڑھنا اور روزہ رمضان کا ماہ رمضان کا چاند دیکھنے سے قبل رکھنا جائز ہے اور نکاح کرنا ولی کی موجودگی کے بغیر صحیح ہے۔ موزے پہن کر نماز پڑھنا جائز سمجھتے ہیں ان کے نزد یک موزے پر مسح کرنا درست ہے ان کے ہاں امام کا قریشی اور معصوم ہونا لازمی نہیں عادل ہونا کافی ہے عادل سے مراد متقی و پرہیز گار اور با مروت ہو گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو۔

محکمہ اولی فرقہ

اس فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ خدائی صرف اللہ سے محدود نہیں ہے بلکہ حضرت کو خدا بھی کہا اور بعد میں اس کا انکار بھی کیا۔

فرقہ ازارقہ

اس فرقہ کے لوگ نافع بن ازراق کے پیروکاروں میں سے تھے جو کہ بصرہ سے اہواز ہجرت کرکے آئے تھے۔ ازارقہ فرقے کے لوگ حضرت علی اور لوگ جو جنگ سے کنارہ کش ہوئے تھے کو اچھا نہیں گردانتے تھے علاوہ ازیں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے قتل کو جائز سمجھتے تھے۔

فرقہ نجدات

اس فرقہ کا بانی نجدہ بن عامر تھا جنہوں نے اپنے آپ کو امیر المومنین کا خطاب دیا تھا نجدات فرقے کے لوگ زمیوں کے قتل کو جائز سمجھتے تھے۔

فرقہ عماردہ

اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کا خیال تھا کہ سورۂ یوسف قرآن مجید کا حصہ نہیں ہے کیونکہ اس میں عشق کہانی ہے۔

شیعہ کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے شیعہ فرقے رونما ہوئے مثلاً سبائیہ، الحقیہ ، میمیہ، علی الہیہ، ہاشمیہ، عباسیہ، مسلمیه ، بیانیه، زیدیہ، منصوریہ، خطابیہ، غزابیہ، جعفریہ، سمعیہ، قرامطہ، نصیریہ اور امامیہ۔ یہ سب فرقے شیعہ ہی کے نام سے مشہور ہیں ان تمام شیعہ فرقوں کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان کے عقائد و نظریات دوسرے تمام مسلمانوں فرقوں سے بالکل مختلف ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ خلافت یا امامت کے حقدار صرف

  1. مشکوۃ المصابیح جلد اول باب ۶ ص۲