"اسرائیل" کے نسخوں کے درمیان فرق

161 بائٹ کا اضافہ ،  20 نومبر 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: Manual revert
(2 صارفین 3 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 20: سطر 20:
اسرائیل کا کل رقبہ  بشمول مقبوضہ علاقوں کے 22145 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ دنیا کا 149واں بڑا ملک ہے۔
اسرائیل کا کل رقبہ  بشمول مقبوضہ علاقوں کے 22145 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ دنیا کا 149واں بڑا ملک ہے۔
== بالفور  اعلامیہ ==
== بالفور  اعلامیہ ==
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ  آرتھر جیمس بالفور نے '''بالفور اعلامیہ'''  پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ازم کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔1922ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔اس وقت تک علاقے کی 28 فیصد ارا  ضی ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ  آرتھر جیمس بالفور نے '''بالفور اعلامیہ'''  پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ازم کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔1922ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔اس وقت تک علاقے کی 28 فیصد ارا  ضی صہیونی تنظیموں اور  یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آ چکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔
عربوں نے ابتدائی مدت کے دوران انتداب اور اعلان بالفور کے خلاف سخت مہم جاری رکھی۔ عرب جذبات کا پہلا ملک گیر احتجاج اپریل 1920ء کو ہوا اسی طرح دوسرا 1921ء اور تیسرا 1929ء کو ہوا۔ پھر 1936ء اور 1939ء کے دوران بغاوت رونما ہوئی۔ جس کے تحت چھ ماہ کی ہڑتال کی گئی۔ عربوں نے تین مطالبات پر زور طریقے سے پیش کئے:  
عربوں نے ابتدائی مدت کے دوران انتداب اور اعلان بالفور کے خلاف سخت مہم جاری رکھی۔ عربوں  کا پہلا ملک گیر احتجاج اپریل 1920ء کو ہوا اسی طرح دوسرا 1921ء اور تیسرا 1929ء کو ہوا۔ پھر 1936ء اور 1939ء کے دوران بغاوت رونما ہوئی۔ جس کے تحت چھ ماہ کی ہڑتال کی گئی۔ عربوں نے تین مطالبات پر زور طریقے سے پیش کئے:  
یہودیوں کی فلسطین آمد فوری روکی جائے
یہودیوں کی فلسطین آمد فوری روکی جائے
عرب زمین یہودیوں کو الاٹ نہ کی جائے
عرب زمین یہودیوں کو الاٹ نہ کی جائے
سطر 27: سطر 27:


== زیر زمین یہودی گروپ ==
== زیر زمین یہودی گروپ ==
جب مقامی عربوں اور باہر سے آکر آباد ہونے والے یہودیوں میں کشیدگی بڑھی اور انگریزوں کی حمایت میں قدرے کمی آئی تو یہودیوں نے '''ہگاناہ''' کے نام سے دفاعی گروپ بنا لیا۔ بعد از اں ہگاناہ کے چند اراکین نے عسکری گروپ ارگن بنالیا۔ اس کے بعد اوراہام سٹرن نے ارگن سے الگ ہو کر ایک زیادہ انتہا پسند گروپ لیہی بنالیا، جسے عرف عام میں  '''سٹرن گینگ''' کہا جاتا تھا۔ 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ چھڑنے میں ان گروپوں کا بڑا اہم کردار تھا۔ اس کے علاوہ یورپ سے یہودیوں کی نقل مکانی، اسرائیلی دفاعی افواج کی تشکیل، فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء اور اسرائیل کی بہت سی موجودہ سیاسی پارٹیوں کے قیام میں بھی ان زیر زمین یہودی گروپوں نے اساسی کردار ادا کیا ہے۔
جب مقامی عربوں اور باہر سے آکر آباد ہونے والے یہودیوں میں کشیدگی بڑھی اور انگریزوں کی حمایت میں قدرے کمی آئی تو یہودیوں نے '''ہگاناہ''' (Haganah)کے نام سے دفاعی گروپ بنا لیا۔ بعد از اں ہگاناہ کے چند اراکین نے عسکری گروپ ارگن(Irgun) بنالیا۔ اس کے بعد اوراہام سٹرن نے ارگن سے الگ ہو کر ایک زیادہ انتہا پسند گروپ لیہی(Lehi) بنالیا، جسے عرف عام میں  '''سٹرن گینگ“(Stern Gang)''' کہا جاتا تھا۔ 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ چھڑنے میں ان گروپوں کا بڑا اہم کردار تھا۔ اس کے علاوہ یورپ سے یہودیوں کی نقل مکانی، اسرائیلی دفاعی افواج کی تشکیل، فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء اور اسرائیل کی بہت سی موجودہ سیاسی پارٹیوں کے قیام میں بھی ان زیر زمین یہودی گروپوں نے اساسی کردار ادا کیا ہے۔
== ریاست اسرائیل کی تشکیل ==
== ریاست اسرائیل کی تشکیل ==
بڑھتے ہو‎‎ۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے '''1947ء کا یو این پارٹیشن پلان''' منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہونا طے پایا۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوربان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب نے اسے مسترد کردیا۔  
بڑھتے ہو‎‎ۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے '''1947ء کا یو این پارٹیشن پلان''' منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہوta۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوریان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب لیگ نے اسے مسترد کردیا۔  
== ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ ==
== ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ ==
14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک پہلے تل ابیب میں واقع '''تل ابیب میوزیم آف آرٹ''' میں منعقدہ '''واد لیومی''' (یہودی قومی کونسل) کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور منظور کیا گیا۔ منظوری سے پہلے اس کی تیاری پر کئی ماہ غور و غوض کیا گیا تھا۔
14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب(British Mandate  of  Palestine) میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک دن  پہلے تل ابیب میں واقع '''تل ابیب میوزیم آف آرٹ''' میں منعقدہ '''واد لیومی''' (یہودی قومی کونسل) کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور منظور کیا گیا۔ منظوری سے پہلے اس کی تیاری پر کئی ماہ غور و غوض کیا گیا تھا۔
12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل  کے  دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔
12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل  کے  دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔
اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔
اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔
== قیام اسرائیل کے اسباب اور نقصانات ==  
== قیام اسرائیل کے اسباب اور نقصانات ==  
انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بیسویں صدی کے وسط سے قبل دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی مملکت موجود نہ تھی جو کسی مذہبی نظر‏ئیے یا تفریق کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہو۔ دنیا میں موجود ممالک نسل، زبان اور علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کی بنیاد پر قائم ہوئے ۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا دوسری عالمگیر جنگ سے نبرد آزما ہوکر زندہ رہنے کے نئے اصول مرتب کر رہی تھی  تو اسی وقت  ایک ایسی سازش نے جنم لیا جو اب تک عالم انسانیت اور بالخصوص عرب دنیا کو بے چین کیے ہو‎ئے ہے۔ کیونکہ یہ بے چینی ایک ایسے خطہ زمین کے تقدس کے حوالے سے ہے جو انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے پوری امت مسلمہ مضظرب ہے اور وہ مسئلہ ہے اسرائیلی ریاست جو خالصتا مذہبی تفریق کی بنیاد پر قائم ہوئی اور اس کا کوئی قوی پہلو دنیا کے سامنے موجود نہیں۔ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل اپنی سرحدی حدبندیوں ( جو تسلیم شدہ نہیں) کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم اور بربریت کے سب ہتکھنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ عرب علاقے میں قا‏ئم حزب اللہ میلیشیا  جو ایک عسکری تنظیم ہے۔یہ بھی  مذہب کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے تحفظ اور اس کے حصول کے لیے جس پر اسرا‏ئیل نے قبضہ کر رکھا ہے، اسرائیل سے بر سر پیکار ہے <ref>محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء، ص77-87</ref>۔
انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بیسویں صدی کے وسط سے قبل دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی مملکت موجود نہ تھی جو کسی مذہبی نظر‏ئیے یا تفریق کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہو۔ دنیا میں موجود ممالک نسل، زبان اور علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کی بنیاد پر قائم ہوئے ۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا دوسری عالمگیر جنگ سے نبرد آزما ہوکر زندہ رہنے کے نئے اصول مرتب کر رہی تھی  تو اسی وقت  ایک ایسی سازش نے جنم لیا جو اب تک عالم انسانیت اور بالخصوص عرب دنیا کو بے چین کیے ہو‎ئے ہے۔ کیونکہ یہ بے چینی ایک ایسے خطہ زمین کے تقدس کے حوالے سے ہے جو انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے پوری امت مسلمہ مضظرب ہے اور وہ مسئلہ ہے اسرائیلی ریاست جو خالصتا مذہبی تفریق کی بنیاد پر قائم ہوئی اور اس کا کوئی قوی پہلو دنیا کے سامنے موجود نہیں۔ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل اپنی سرحدی حدبندیوں ( جو تسلیم شدہ نہیں) کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم اور بربریت کے سب ہتکھنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ عرب علاقے میں قا‏ئم حزب اللہ میلیشیا  جو ایک عسکری تنظیم ہے۔یہ بھی  مذہب کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے تحفظ اور اس کے حصول کے لیے جس پر اسرا‏ئیل نے قبضہ کر رکھا ہے، اسرائیل سے بر سر پیکار ہے <ref>محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء، ص77-87</ref>۔
سطر 41: سطر 41:
امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948ء میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرج مظبوط رہے ہیں۔ امریکہ یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو، ان تعلقات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ یہ تعلقات نشیب و فراز سے بھی گزرے مگر بنیادی تعلق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جو اس خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کے بھروسے کے قابل ہے۔ دونوں ممالک کو یقین ہے کہ عوام کی فلاح ، بہبود، عالمی امن، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی اس وقت ممکن ہے کہ جب امریکہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے۔
امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948ء میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرج مظبوط رہے ہیں۔ امریکہ یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو، ان تعلقات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ یہ تعلقات نشیب و فراز سے بھی گزرے مگر بنیادی تعلق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جو اس خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کے بھروسے کے قابل ہے۔ دونوں ممالک کو یقین ہے کہ عوام کی فلاح ، بہبود، عالمی امن، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی اس وقت ممکن ہے کہ جب امریکہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے۔
== فوجی حمایت ==
== فوجی حمایت ==
اسرا‏ئیل کی تشکیل کے بعد امریکہ اسرائیل کو فوجی اسلحہ کی فروخت پر پابندی کے معاہدہ کا حصہ بن گیا۔ گو کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے کئی ملین ڈالرز میں کا فوجی اسلحہ عرب ممالک کو بھی فروخت کیا مگر 1962ء تک اسرائیل کو باک ہاک اینٹی ائیر کرافٹ میزائل فروخت کیے اور امریکہ کی طرف اسرائیل کو فوجی حمایت ابھی تک جاری ہے۔
اسرا‏ئیل کی تشکیل کے بعد امریکہ اسرائیل کو فوجی اسلحہ کی فروخت کے معاہدہ کا حصہ بن گیا۔ گو کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے کئی ملین ڈالرز میں کا فوجی اسلحہ عرب ممالک کو بھی فروخت کیا مگر 1962ء تک اسرائیل کو باک ہاک اینٹی ائیر کرافٹ میزائل فروخت کیے اور امریکہ کی طرف اسرائیل کو فوجی حمایت ابھی تک جاری ہے۔
== معاشی تعاون ==  
== معاشی تعاون ==  
1951ء میں امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کو یہودیوں کی آبادکاری کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد دی۔ تین سال میں 650000 آبادی کے اسرائیل نے پوری دنیا اور یورپ سے مزید 6 لاکھ یہودی آبادکار منتقل ہوئے جس کے بعد مختلف اشکال میں یہ امداد تعلقات میں بڑھنے والی گرمجوشی کے ساتھ بڑھتی رہی۔
1951ء میں امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کو یہودیوں کی آبادکاری کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد دی۔ تین سال میں 650000 آبادی کے اسرائیل میں  پوری دنیا اور یورپ سے مزید 6 لاکھ یہودی آبادکار منتقل ہوئے جس کے بعد مختلف شکلوں  میں یہ امداد تعلقات میں بڑھنے والی گرمجوشی کے ساتھ بڑھتی رہی۔


== مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟ ==
== مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟ ==
جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو ’دی فیوچر آف فلسطین‘ تیار کیا، جسے کابینہ میں تقسیم کیا گیا، اس میں انہوں نے الحاق اور سلطنت برطانوی کی بتدریج سرپرستی میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی حمایت کی۔
جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو ’دی فیوچر آف فلسطین‘ تیار کیا، جسے کابینہ میں تقسیم کیا گیا اور جس  میں انہوں نے الحاق اور سلطنت برطانوی کی بتدریج سرپرستی میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی حمایت کی۔
1907 تک برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبے کو مضبوط کرنے کے لیے '''بفرسٹیٹ''' کی ضرورت پر غور کر رہا تھا۔ برطانوی صہیونی رہنما چائم ویزمین، جو ایک حیاتیاتی کیمیا دان تھے، نے اس وقت مقبوضہ بیت المقدس جا کر جافا کے قریب زمین خرید کر ایک کمپنی قائم بنائی۔ تین سال کے اندراندر شمالی فلسطین کے علاقے مرج بن عامر میں تقریبا 10 ہزاردونم زمین حاصل کی گئی، جو ایکڑ کے برابر زمین کی پیمائش ہے، جس کی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کو یورپ اور یمن سے آنے والے یہودیوں کو مجبوراً جگہ دینی پڑی۔ 14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ ختم ہوتے ہی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی قیادت میں اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی، جس کو امریکہ اور سوویت یونین سے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔
1907 تک برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبے کو مضبوط کرنے کے لیے '''بفرسٹیٹ''' کی ضرورت پر غور کر رہا تھا۔ برطانوی صہیونی رہنما چائم ویزمین، جو ایک حیاتیاتی کیمیا دان تھے، نے اس وقت مقبوضہ بیت المقدس جا کر جافا کے قریب زمین خرید کر ایک کمپنی قائم بنائی۔ تین سال کے اندراندر شمالی فلسطین کے علاقے مرج بن عامر میں تقریبا 10 ہزاردونم زمین حاصل کی گئی، جو ایکڑ کے برابر زمین کی پیمائش ہے، جس کی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کو یورپ اور یمن سے آنے والے یہودیوں کو مجبوراً جگہ دینی پڑی۔ 14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ ختم ہوتے ہی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی قیادت میں اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی، جس کو امریکہ اور سوویت یونین سے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔


لیکن خونی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ جس میں تین ہزار مزاحمتی جنگجو نئی قوم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سات لاکھ فلسطینی عوام کو لڑائی سے بھاگ کر اردن، لبنان، شام، مغربی کنارے اور غزہ میں پناہ لینی پڑی۔
لیکن خونی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ جس میں تین ہزار مزاحمتی جنگجو نئی قوم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سات لاکھ فلسطینی عوام کو لڑائی سے بھاگ کر اردن، لبنان، شام، مغربی کنارے اور غزہ میں پناہ لینی پڑی۔
== یوم نکبۂ ==
== یوم نکبہ ==
اس تاریخ کو فلسطینی عوام کی نقل مکانی، اب بھی ہر سال ’یوم نکبہ‘ کے طور پر منائی جاتی ہے، جسے عربی میں ’تباہی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جس دن فلسطینی تقاریر کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں اور ان گھروں کی چابیاں لہراتے ہیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور اب بھی واپسی کی امید رکھتے ہیں۔
اس تاریخ کو فلسطینی عوام کی نقل مکانی، اب بھی ہر سال ’یوم نکبہ‘ کے طور پر منائی جاتی ہے، جسے عربی میں ’تباہی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جس دن فلسطینی تقاریر کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں اور ان گھروں کی چابیاں لہراتے ہیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور اب بھی واپسی کی امید رکھتے ہیں۔
دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ فلسطینی عوام ’جو اپنے گھروں کو واپس جانا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں انہیں جلد از جلد ایسا کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔‘
دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ فلسطینی عوام ’جو اپنے گھروں کو واپس جانا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں انہیں جلد از جلد ایسا کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔‘
اسرائیل نے اس قرارداد کو نئی ریاست، خاص طور پر یہودی آبادی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا <ref>مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟[https://www.independenturdu.com/node/149676 independenturdu.com]</ref>۔
اسرائیل نے اس قرارداد کو نئی ریاست، خاص طور پر یہودی آبادی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا <ref>مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟[https://www.independenturdu.com/node/149676 independenturdu.com]</ref>۔


== اسرائیل کا فلسطین پر حملوں کا داستان ==
== فلسطین پر اسرائیلی حملوں کی داستان ==
اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟
اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟
صیہونی حملوں میں 7 مئی سے 18 مئی کی سہ پر تک 85 بچوں سمیت 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے تھے۔
صیہونی حملوں میں 7 مئی سے 18 مئی کی سہ پر تک 85 بچوں سمیت 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے تھے۔