"اسرائیل" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 16: سطر 16:
== اسرائیل کا رقبہ ==
== اسرائیل کا رقبہ ==
اسرائیل کا کل رقبہ 22145 مربع کلومیٹر ہے، بشمول مقبوضہ علاقوں کے۔ یہ دنیا کا 149 واں بڑا ملک ہے۔
اسرائیل کا کل رقبہ 22145 مربع کلومیٹر ہے، بشمول مقبوضہ علاقوں کے۔ یہ دنیا کا 149 واں بڑا ملک ہے۔
== بالفور ڈیکلریشن ==
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ جے بالفور نے '''بالفور ڈیکلریشن''' پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ام کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔ 1992ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔ اس وقت تک صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آ چکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔

نسخہ بمطابق 09:40، 10 نومبر 2023ء

تاریخی پس منظر

لفظ اسرا‏ئیل کا مفہوم

تاریخی اعتبار سے لفظ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم کو بنی اسرائیل یا اسرائیلی کہا جانے لگا۔ جدید ریاست اسرائیل کے شہریوں کو بھی اسرائیلی کہا جاتا ہے۔

ارض موعود

بائبل کے مطابق خداوند نے ارض اسرائیل کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ارض موعود کہا جاتا ہے۔

ارض اسرائیل کا محل وقوع

تناکا یعنی عبرانی بائبل میں ارض اسرائیل کی حدود کے حوالے سے متعدد بیانات ملتے ہیں، تاہم ان کے مطابق ارض اسرائیل مصر کے دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقے پر محیط ہے۔ گویا اس میں موجودہ دور کی ریاست اسرائیل غربی کنارہ، غزہ کی پٹی، شام اور لبنان شامل ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ جزیرہ نما سیناء کو بھی ارض اسرائیل میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مصر سے بنی اسرائیل کی ملک بدری اسی راستے سے ہوئی تھی۔ یہودی مقدس صحائف کے مطابق دریائے اردن کی مشرقی جانب علاقہ بھی، جس میں بیشتر اردن شامل ہے، ارض اسرائیل کا حصہ ہے۔ یہودی مقدس صحا‏ئف کے مطابق خداوند نے مصر سے نکلتے والے بنی اسرائیل کو ارض کنعان عطا کردی تھی [1]۔

ارض اسرائیل اور ریاست اسرائیل

29نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کی رو سے فلسطین کے برطانوی انتداب کو ریاست اسرائیل قرار دیا گیا۔ عبرانی زبان میں ریاست اسرا‏ئیل کو مدینات یسرایئل کہا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں دولۂ الاسرائیل کہتے ہیں۔

ریاست اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت فرار دیا گیا ہے لیکن اس کی حیثیت متنازعہ ہے چنانچہ بہت سے ملکوں نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ نظام حکومت کے اعتبار سے ریاست اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ یہ دنیا کی واحد یہودی ریاست ہے، تاہم اس کی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی پس منظروں کی حامل ہے۔

ایلیاہ اور اسرائیل

یہودی دنیا کے مختلف حصوں میں آباد تھے۔ سب سے پہلے 1881ء میں وہ عیسائیوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے ان علاقوں میں پناہ گزين ہوئے جہیں آج اسرائیل کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کی اس نقل مکانی کو عبرانی میں ایلیاہ کہا جاتا ہے۔ ایلیاہ کی دوسری وجہ موشے ہیس کے سوشلسٹ صہیونی نظریات تھے۔ یہودیوں نے عثمانی حکومت کے کارپردازوں اور عرب زمینداروں سے اراضی خرید لی اور بستیاں بساکر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ جس کے بعد مقامی عربوں کے ساتھ ان کی کشیدگی بھی رونما ہوئی۔

ایک اسٹریائی یہودی تھیوڈور ہرزل نے صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس نے 1896ء میں یہودی ریاست کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں ایک قومی یہودی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1897ء میں اس نے پہلی عالمی صہیونی کانگرس منعقد کی۔ صہیونی تحریک کے نتیجے میں 1904ء سے 1914ء کے دوران ایلیاہ کی دوسری لہر امڈی اور تقریبا چالیس ہزار یہودی ان علاقوں میں جا بسے جنہیں آج ریاست اسرائیل کہا جاتا ہے۔

اسرائیل کا رقبہ

اسرائیل کا کل رقبہ 22145 مربع کلومیٹر ہے، بشمول مقبوضہ علاقوں کے۔ یہ دنیا کا 149 واں بڑا ملک ہے۔

بالفور ڈیکلریشن

1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ جے بالفور نے بالفور ڈیکلریشن پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ام کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔ 1992ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔ اس وقت تک صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آ چکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔

  1. محمد حسن بٹ، جدید اسرائیل کی تاریخ، لاہور علی فرید پرنٹرز، 2007م، ص9-10