"ارشد مدنی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 22: سطر 22:
=== تعلیم ===
=== تعلیم ===
سید ارشد مدنی نے تعلیم کی ابتدا حسین احمد مدنی کے معتمد و خلیفہ اصغر علی سہسپوری کے پاس کی، جن کے پاس انھوں نے 8 سال کی عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل کی، اس کے بعد دار العلوم دیوبند ہی میں فارسی کا 5 سالہ نصاب مکمل کیا، پھر سنہ 1955 سے دار العلوم دیوبند ہی میں عربی تعلیم کا آغاز کیا اور 1963 کو دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ ان کے شرکائے دورۂ حدیث میں [[سید حسین احمد عارف گیاوی]] بھی شامل تھے۔
سید ارشد مدنی نے تعلیم کی ابتدا حسین احمد مدنی کے معتمد و خلیفہ اصغر علی سہسپوری کے پاس کی، جن کے پاس انھوں نے 8 سال کی عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل کی، اس کے بعد دار العلوم دیوبند ہی میں فارسی کا 5 سالہ نصاب مکمل کیا، پھر سنہ 1955 سے دار العلوم دیوبند ہی میں عربی تعلیم کا آغاز کیا اور 1963 کو دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ ان کے شرکائے دورۂ حدیث میں [[سید حسین احمد عارف گیاوی]] بھی شامل تھے۔
 
=== استاذ ===
انھوں نے دار العلوم دیوبند میں صحیح البخاری؛ [[سید فخر الدین احمد]] سے، جامع ترمذی جلد اول اور صحیح مسلم؛ محمد ابراہیم بلیاوی سے، جامع ترمذی جلد ثانی، شمائل ترمذی اور سنن ابی داؤد؛ [[سید فخر الحسن مراد آبادی]] سے، صحیح مسلم (از کتاب الطہارۃ تا ختم کتاب) اور سنن ابن ماجہ؛ نصیر احمد خان بلند شہری سے، سنن نسائی؛ ظہور احمد دیوبندی سے، شرح معانی الآثار؛ مہدی حسن شاہجہاں پوری سے، موطأ امام مالک؛ [[محمد طیب قاسمی]] سے اور موطأ امام محمد؛ عبد الاحد دیوبندی سے پڑھی <ref>ہردوئی، محمد طیب قاسمی. دار العلوم ڈائری: تلامذۂ فخر المحدثین نمبر (ایڈیشن 2017). دیوبند: ادارہ پیغامِ محمود. صفحہ 35.</ref>
انھوں نے دار العلوم دیوبند میں صحیح البخاری؛ [[سید فخر الدین احمد]] سے، جامع ترمذی جلد اول اور صحیح مسلم؛ محمد ابراہیم بلیاوی سے، جامع ترمذی جلد ثانی، شمائل ترمذی اور سنن ابی داؤد؛ [[سید فخر الحسن مراد آبادی]] سے، صحیح مسلم (از کتاب الطہارۃ تا ختم کتاب) اور سنن ابن ماجہ؛ نصیر احمد خان بلند شہری سے، سنن نسائی؛ ظہور احمد دیوبندی سے، شرح معانی الآثار؛ مہدی حسن شاہجہاں پوری سے، موطأ امام مالک؛ [[محمد طیب قاسمی]] سے اور موطأ امام محمد؛ عبد الاحد دیوبندی سے پڑھی <ref>ہردوئی، محمد طیب قاسمی. دار العلوم ڈائری: تلامذۂ فخر المحدثین نمبر (ایڈیشن 2017). دیوبند: ادارہ پیغامِ محمود. صفحہ 35.</ref>