"اخوان المسلمین شام" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 36: سطر 36:
1996ء کے بعد  اور  "علی صدرالدین البیانونی" کے اخوان کے سربراہ کے طور پر منتخب ہونے کے بعد، حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں بشار الاسد برسراقتدار آنے کے بعد اخوان کے سینکڑوں ارکان کو رہا کر دیا گیا۔ تاہم اخوان کے اور بھی مطالبات تھے، جیسے کہ اخوان کے تمام قیدیوں کی رہائی، جلاوطنوں کی واپسی، اور اخوان کی سرگرمیوں پر سے پابندی اٹھانا، جو پورے نہیں ہوئے۔
1996ء کے بعد  اور  "علی صدرالدین البیانونی" کے اخوان کے سربراہ کے طور پر منتخب ہونے کے بعد، حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں بشار الاسد برسراقتدار آنے کے بعد اخوان کے سینکڑوں ارکان کو رہا کر دیا گیا۔ تاہم اخوان کے اور بھی مطالبات تھے، جیسے کہ اخوان کے تمام قیدیوں کی رہائی، جلاوطنوں کی واپسی، اور اخوان کی سرگرمیوں پر سے پابندی اٹھانا، جو پورے نہیں ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ جب بشار الاسد برسر اقتدار  آئے تو ملک میں سیاسی اصلاحات  کے حصول کے لیے ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا۔ مئی 2001ء میں، اخوان نے شام میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے اپنے نام نہاد "قومی معاہدے" کے منصوبے کی نقاب کشائی کی اور اسے اگست 2002ء میں لندن میں ہونے والی کانفرنس میں پیش کیا۔ اگرچہ اس دستاویز کا،  حزب اختلاف کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا لیکن شامی حکومت کو یہ پسند نہیں آیا۔
کہا جاتا ہے کہ جب بشار الاسد برسر اقتدار  آئے تو ملک میں سیاسی اصلاحات  کے حصول کے لیے ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا۔ مئی 2001ء میں، اخوان نے شام میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے اپنے نام نہاد "قومی معاہدے" کے منصوبے کی نقاب کشائی کی اور اسے اگست 2002ء میں لندن میں ہونے والی کانفرنس میں پیش کیا۔ اگرچہ اس دستاویز کا،  حزب اختلاف کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا لیکن شامی حکومت کو یہ پسند نہیں آیا۔
2006ء میں، اخوان کے رہنماؤں نے "پرامن طریقے سے" حکومت کا تختہ الٹنے اور ایک سول اور جمہوری نظام قائم کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ اس سال اخوان نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والے نائب صدر  عبدالحلیم خدام کی حمایت سے نیشنل لبریشن فرنٹ (جبہة الخلاص الوطنی) تشکیل دیا۔ دوسری طرف ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے سے اخوان کو مزید حمایت کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع ملا۔
2006ء میں، اخوان کے رہنماؤں نے "پرامن طریقے سے" حکومت کا تختہ الٹنے اور ایک سول اور جمہوری نظام قائم کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ اس سال اخوان نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والے نائب صدر  عبدالحلیم خدام کی حمایت سے نیشنل لبریشن فرنٹ (جبہة الخلاص الوطنی) تشکیل دیا۔ دوسری طرف ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے سے اخوان کو مزید حمایت کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع ملا۔
2010ء میں استنبول میں اخوان کی جنرل کونسل نے "محمد ریاض الشافقہ" کے انتخاب کے بعد ترک حکومت سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کے لیے کہا اور یہاں تک کہ یہ تجویز بھی دی کہ اگر اخوان کو شام واپس جانے کی اجازت دی جائے تو وہ  پارٹی  کا نام بھی تبدیل کرنے کے لئے تیار هیں۔ 2011ء میں شام میں  بدامنی کے آغاز کے ساتھ، اخوان  نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ پچھلی دہائیوں کے طرز عمل میں تبدیلی آئی ہے اور ان صورت حال کے بارے میں پر امن رویه اختیار کریں گے  لیکن بعد میں انهوں نے قدامت پسند موقف اپنا یا  اور اپریل کے آخر تک کسی سرکاری  بیان کا اظہار نہیں کیا۔ . تاہم، اسلامی بیداری (عرب بہار) کی پیش رفت اور اخوان کی عالمی تحریک کے عروج نے شامی اخوان المسلمین کو مہم میں شامل کیا۔ اخوان، جو سمجھتا تھا کہ یہ کھیل کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتا ہے، اب نہ صرف پابندی کی منسوخی پر راضی نهیں بلکہ وہ نظام کے مکمل خاتمے  کا خوهاں هے۔
2010ء میں استنبول میں اخوان کی جنرل کونسل نے "محمد ریاض الشافقہ" کے انتخاب کے بعد ترک حکومت سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کے لیے کہا اور یہاں تک کہ یہ تجویز بھی دی کہ اگر اخوان کو شام واپس جانے کی اجازت دی جائے تو وہ  پارٹی  کا نام بھی تبدیل کرنے کے لئے تیار هیں۔ 2011ء میں شام میں  بدامنی کے آغاز کے ساتھ، اخوان  نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ پچھلی دہائیوں کے طرز عمل میں تبدیلی آئی ہے اور ان صورت حال کے بارے میں پر امن رویه اختیار کریں گے  لیکن بعد میں انهوں نے قدامت پسند موقف اپنا یا  اور اپریل کے آخر تک کسی سرکاری  بیان کا اظہار نہیں کیا۔ . تاہم، اسلامی بیداری (عرب بہار) کی پیش رفت اور اخوان کی عالمی تحریک کے عروج نے شامی اخوان المسلمین کو مہم میں شامل کیا۔ اخوان، جو سمجھتا تھا کہ یہ کھیل کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتا ہے، اب نہ صرف پابندی کی منسوخی پر راضی نهیں بلکہ وہ نظام کے مکمل خاتمے  کا خوهاں هے۔
اکتوبر 2011ء میں محمد الشفقه کی کوششوں سے اخوان نے شام کی قومی کونسل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تاکہ مصر اور تیونس کی طرح عالمی برادری کے سامنے اخوان کا ایک طاقتور اور سیاسی امیج پیش کیا جا سکے۔ مارچ 2012 میں اخوان کی طرف سے پیش کردہ "معاہدہ  عہد و میثاق "  کے دستاویز میں، مستقبل کے شامی نظام کا خاکہ اس طرح تیار کیا گیا تھا: "ایک سول، جدید، جمہوری اور تکثیری ریاست۔"
اکتوبر 2011ء میں محمد الشفقه کی کوششوں سے اخوان نے شام کی قومی کونسل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تاکہ مصر اور تیونس کی طرح عالمی برادری کے سامنے اخوان کا ایک طاقتور اور سیاسی امیج پیش کیا جا سکے۔ مارچ 2012 میں اخوان کی طرف سے پیش کردہ "معاہدہ  عہد و میثاق "  کے دستاویز میں، مستقبل کے شامی نظام کا خاکہ اس طرح تیار کیا گیا تھا: "ایک سول، جدید، جمہوری اور تکثیری ریاست۔"
شام کی رائے عامہ، حزب اختلاف کی تحریکوں اور مسلح گروہوں میں اخوان کے اثر و رسوخ اور حقیقی پوزیشن کا تعین کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہاں تک کہ قومی اپوزیشن اتحاد کی سرکاری ویب سائٹ  میں اخوان المسلمون کا نام ذیلی گروپوں  میں بھی  نہیں ملتا۔ میدان میں ہونے والی پیش رفت میں ہمیں کوئی ایسا گروہ نہیں ملے گا جو کہے کہ یہ اخوان کی عسکری شاخ ہے، جب کہ یہ بات سب پر واضح ہے کہ ان میں سے بہت سے گروہ یا تو اخوان کے افکار سے متاثر تھے یا پھر  اخوان کے ساتھ رابطے میں تھے  اور ان کے حلقوں میں حاضر تھے۔
شام کی رائے عامہ، حزب اختلاف کی تحریکوں اور مسلح گروہوں میں اخوان کے اثر و رسوخ اور حقیقی پوزیشن کا تعین کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہاں تک کہ قومی اپوزیشن اتحاد کی سرکاری ویب سائٹ  میں اخوان المسلمون کا نام ذیلی گروپوں  میں بھی  نہیں ملتا۔ میدان میں ہونے والی پیش رفت میں ہمیں کوئی ایسا گروہ نہیں ملے گا جو کہے کہ یہ اخوان کی عسکری شاخ ہے، جب کہ یہ بات سب پر واضح ہے کہ ان میں سے بہت سے گروہ یا تو اخوان کے افکار سے متاثر تھے یا پھر  اخوان کے ساتھ رابطے میں تھے  اور ان کے حلقوں میں حاضر تھے۔