پیغمبر اعظم كى سیرت طیبہ اور اتحاد امت (مضمون)

ویکی‌وحدت سے

پیغمبر اعظم ۖ کی سیرت طیبہ اور اتحاد امت پیغمبر اعظم ﷺ کی سیرت طیبہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور واجب الاتباع ہے۔ اگر آپ ان کی الٰہی سیرت اٹھا کر دیکھیں تو ان کی زندگی کے ہر قدم پر وحدت کے سینکڑوں نمونے نظر آتے ہیں جو نہ صرف ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے بلکہ تمام بشر یت کے لئے تا قیام قیامت نمونہ عمل ہے ۔آپ ﷺ کی پاک سیرت میں وحدت واتحاد امت کے ایسےانمول نمونے پائے جاتے ہیں جس کی مثال سابقہ امتوں میں نہیں ملتی، یہاں ہم اختصار کی بنا پر صرف رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ سے وحدت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو جاے کہ انھوں نے وحدت کی راہ میں کیا کیا قربانیاں دی ہیں اور ہم جو ان کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ؛ وحدت کی راہ میں کیا قدم اٹھائے ہیں ۔

پیغمبر اعظم ۖ کی سیرت طیبہ اور اتحاد امت

یہاں ہم اختصار کی بنا پر صرف رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ سے وحدت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو جاے کہ انھوں نے وحدت کی راہ میں کیا کیا قربانیاں دی ہیں اور ہم جو ان کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ؛ وحدت کی راہ میں کیا قدم اٹھائے ہیں ۔ آنحضرت ۖکی سیرت طیبہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور واجب الاتباع ہے۔ اگر آپ ان کی الٰہی سیرت اٹھا کر دیکھیں تو ان کی زندگی کے ہر قدم پر وحدت کے سینکڑوں نمونے نظر آتے ہیں جو نہ صرف ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے بلکہ تمام بشر یت کے لئے تا قیام قیامت نمونہ عمل ہے ۔آپ کی پاک سیرت میں وحدت واتحاد کے ایسےانمول نمونے پائے جاتے ہیں جس کی مثال سابقہ امتوں میں نہیں ملتی۔ حد یہ ہے کہ آپ نے مدینہ تشریف لانے کے فورا بعد چند اہم اور بنیادی اقدامات انجام دىے، ان میں سے اىک قدم مختلف گروہوں ، امتوں اور قوموں کے درمیان وحدت اور اتحاد و اتفاق ایجاد کرنا تھا جو اپنی جگہ بے سابقہ ہے ہم یہاں چند نمونے ذکرکرتے ہیں ۔

امت واحدہ کی تشکیل میں تاریخی دستاویز

اسلام کا نورانی پیام مدینہ آنے کے بعد اس شہر میں مختلف مکاتب سے وابستہ لوگ بسنے لگے تھے ۔ نو مسلموں کے ساتھ ساتھ یہودی بھی چند قوموں کی شکل میں رہتے تھے ۔ بت پرست اور مشرک اقوام بھی آباد تھیں ۔جب سرور کائنات مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہ احساس کیا کہ اس شہر کی اجتماعی زندگی ٹھیک نہیں ہے ، نا منظم ہے اور ہر گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے ،مختلف قبیلوں کے درمیان سخت قسم کے اختلافات اور تنازعے پائے جاتے ہیں ؛ سب سے بڑے دو قبیلے اوس وخزرج کے درمیان دیرینہ خونی دشمنی پائی جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ؛ اب اس حالت میں ہر لمحہ ممکن تھا کہ کوئی نا گوار واقعہ پیش آے ۔ چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نے مدینہ میں رہنے والے تمام گروہوں کے درمیان باہمی تعاون اور یکجہتی کی وہ عظیم دستاویز پیش کی جو بعد میں اسلام کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی دستاویز کہلائی ؛ اور مورخین کے مطابق یہ قرارداد آپ نے اپنے پہلے خطبے کے فورا بعد پاس کی۔ رسالت مآب نے اس قرار داد میں مدینہ شہر میں رہنے والے مختلف گروہوں کے حقوق معین کىے اور یہ قرارداد مسالمت آمیز زندگی گزارنے اور ہر طرح کے ہنگامے اور اختلافات کے جنم لینے اور ان کے درمیان نظم وعدالت کو بر قرار رکھنے کی ضامن بنی ۔اس تاریخی قرارداد کے چند اہم نکات یہ تھے :

  • مسلمان اور یہود ایک امت ہیں
  • مسلمان اور یہود اپنے دین کی پیروی میں آزاد ہیں
  • اس عہد نامہ پر دستخط کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ سب مل کر شہر مدینہ کا دفاع کریں
  • مدینہ ایک مقدس شہر ہے جس میں ہر طرح کا خون خرابہ حرام ہو گا
  • اس عہد نامہ پر دستخط کرنے والوں میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں حل وفصل کرنے والے محمد ﷺ ہوں گے ۔ اس قرارداد کی تفصیلات کے لىے (سيره ابن هشام) کی طرف رجوع کریں۔[1].

اس تاریخی قرارداد سے دو اہم نکتے ہمارے ذہن میں آتے ہیں جو کسی قوم یا جماعت کے درمیان اتحاد برقرار رکھنے اور یکجہتی پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں

مذہبی آزادی

امت مسلمہ کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لئے اہم ترین چیز مذہبی آزادی ہے خواہ اسلامی فرقوں کے درمیان ہو یا اس سے بھی زیادہ وسیع سطح پر مختلف ادیان کے درمیان ہو کہ جس کا خوبصورت ترین نمونہ پیغمبر اکرم ۖ کی سیرت طیبہ میں ہمیں نظر آتا ہے ۔ چونکہ ایک دین میں مختلف فکری مذاہب ، شریعت کے فکری اور عملی احکام میں علماء کے اجتہادات اور قرآن وسنت سے استنباط کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں کہ جس کی ہم سب اجازت دیتے ہیں ،اب اس صورت میں ایک مسلمان کو کامل طور پر یہ اختیار حاصل ہونا چاہئے کہ وہ اپنی مرضی سے ان اسلامی فرقوں اور مذاہب میں سے اپنی نظر میں جو سب سے افضل ہو اور بروز قیامت پروردگار عالم کے حضور میں جواب گو ہو ؛ اسی مذہب کی پیروی کرے اور کسی کو یہ حق نہیں ہو گا کہ اسے کسی خاص مذہب کے انتخاب پر برا بھلا کہے یا اس کی مذمت کرے ؛ اسی طرح کسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ کسی دوسرے شخص کوکسی خاص مذہب کے انتخاب پر مجبور کرے چونکہ مذہب کا انتخاب ایمان اور قلبی اطمینان کے حصول کے ساتھ وابستہ ہے جو صرف اور صرف حجت اور دلیل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اور اسی طرح ہر مذہب کو اپنی آراء و نظریات خواہ عقیدتی میدان میں ہو یا فقہی اور عملی میدان میں ؛ پیش کرنے اور اس پر دلیل قائم کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور یہ اس وقت تک مطلوب ہے جب تک بے فائدہ جدل ودشمنی اور ایک دوسرے کی اہانت کى سبب نه بنے ۔

قومی انسجام

پہلے بھی عرض کیا کہ وحدت انسانیت اور اسلامیت کی بقا ء کا ضامن ہے یہ کسی خاص قوم یا کسی خاص زمان ومکان تک محدود نہیں بلکہ انسانی معاشرے کی بقاء کے لئے ایک دائمی اصل ہے ۔جس طرح اسلام اور مسلمانوں کی بقا ء وتحفظ اور ترقی وتمدن کے لئے اسلامی اتحاد کی ضرورت ہے ، اسی طرح کسی قوم وملک کی بقاء کے لئے اسکی ترقی و تمدن کے لئے بھی اس ملک کے اندر بسنے والے مختلف گروہوں قوموں اور مختلف طبقات اور مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان قومی اور ملی انسجام واتحاد شہ رگ کی مانند ہے ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ استعماری اور طاغوتی ایجنڈے اسلامی مالک میں نہ صرف مسلم فرقوں ،گروہوں کو آپس میں لڑوانے کے پیچھے ہیں بلکہ مختلف قوموںاور نژادوںکو قومیت اور نژادیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جدا کر کے ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کی بھر پور کوشش میں ہیں ۔ چنانچہ پیغمبر اکرم نے بھی اسی اہم نکتے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک معاشرتی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل اور اسلامی حکومت کی بنیاد رکھنے سے پہلے ہی مدینہ شہر کے رہنے والے مختلف مکاتب فکر سے وابستہ لوگوں کے درمیان قومی اور ملی اتحاد واتفاق کی قرار داد پاس کی کہ جس عہد نامے میں مسلمانوں اور یہودیوں کو ایک ملت قرار دیا گیا ، ان سب کی جان و مال کو محترم شمار کیا گیا اور سب پر مدینہ شہر کے دفاع کی ذمہ داری ڈالی گئی اس طرح مدینہ کی اجتماعی زندگی میں رونق آ گئی اور سب کے حقوق محفوظ ہوگئے۔

انصارومہاجرین کے درمیان ا خوت کامعاہدہ

پیغمبر اعظم نے ہجرت کے بعد اتحاد کی راہ میں جو دوسرا قدم اٹھایا وہ مہاجرین اور انصار کے درمیان رشتہ اخوت اور بھائی چارگی بر قرار کرنا تھا ۔ چونکہ اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں دو بڑے گروہوں میں پیشہ اور نسل کے لحاظ میں تفاوت کے سبب کشمکش پائی جاتی تھی ؛ کیونکہ انصار جنوب عرب (یمن )سے ہجرت کر کے آئے تھے اور نسب کے اعتبار سے ان کا تعلق قحطان سے تھا جبکہ مہاجرین شمالی حصے سے آئے تھے اور ان کا تعلق عدنانی نسل سے تھا اور دوسری طرف انصار کا مشغلہ کاشتکاری و باغبانی تھا ؛ جبکہ مہاجرین اور اہل مکہ تجارت کرتے تھے اور کاشکاری کو ایک پست پیشہ سمجھتے تھے ؛ اس سے قطع نظر یہ دونوں گروہ الگ ماحول کے پروردہ تھے ؛ لیکن اب نوراسلام کی بدولت آپس میں بھائی بھائی ہو گئے تھے.[2].

لیکن ان دونوں گروہوں میں گزشتہ افکار و خیالات اور کلچر کے اثرات ابھی بھی بعض لوگوں کے ذہنوں میں رہ گئے تھے اور ہر لحظہ یہ اندیشہ تھا کہ کہیں قدیمی عصبیت بھڑک نہ اٹھے ،اب ان اختلافات کے ہوتے ہوئے ایک عالم گیر الٰہی حکومت کی بنیاد ڈالنا نا ممکن تھا اور مکتب اسلام کو دوسرے مکاتب فکر اور مشرکین کے مقابلے میں مضبوط بنانے کے لئے آپ نے اپنی حکمت با لغہ سے ان کے درمیان( تآخوا فی اللہ اخوین) کا نعرہ بلند کر کے اخوت اور بھائی چارگی کا رشتہ برقرار کیا اور ہر مہاجر و انصار میں سے ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا اور علی علیہ السلام کو اپنا بھائی بنا یا اور فرمایا : انت اخی فی الدنیا والآخرة…[3].[4]. جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان اخوت و برادری اور وحدت ویکجہتی کی ایک نئی لہر دوڑ اٹھی ایک دوسرے کے درمیان سالہا سال پرانی دشمنی دوستی اور اخوت میں تبدیل ہو گئی کہ جس کی کوئی نظیر سابقہ امتوں میں نہیں ملتی ۔

اتحاد ووحدت کی راہ میں اس جیسے سینکڑوں نمونے آپ کی با برکت زندگی میں دیکھنے میں آتے ہیں اور آپ ۖ اپنے آخری دم تک لوگوں کو اتفاق و وحدت کے ساتھ زندگی گزارنے کی دعوت دیتے رہے اور فرمایا کرتے تھے ايها الناس عليکم بالجماعة واياکم والفرقة[5][6]. لوگو! خبردار تفرقہ بازی اور گروہ بندی سے بچو اور ہمیشہ متحد ہو کے رہو،اسی طرح کسی اور مقام پر آپ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کون ایسا عقلمند ہے جو اتحاد اور انسجام کی ضرورت کا احساس نہ کرے ؟ لیکن اسکے باوجود یہ سننے میں آتا ہے کہ بعض تنگ نظر جاہل ومقدس مآب اور متعصب افراد مختلف اسلامی فرقوں اور گروہوں کے درمیان وحدت برقرارکرنے کو پسند نہیں کرتے اورکھلم کھلا وحدت کی ضرورت کا انکا ر کرتے ہیں یقینا اس کی علت سیرت رسول اعظم ۖ سے لا علمی و دوری اور اپنے من گھڑت عقائد وافکار پر اصرار کر نے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ خدایا ! ہم سب کو سرور کائنات کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما آمین !

حوالہ جات

  1. ابن ہشام : السیرة النبوی :ج 2 ص 147-150
  2. ابن ہشام : السیرہ النبویة ؛ج 2 ص 150
  3. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 19 ص 130۔
  4. محمد تقی ہندی : کنز العمال، ج1 ص 206حدیث نمبر 1028.
  5. مجلسي، محمد باقر، بحارالانوار ج8، ص1.
  6. عسقلانی، ابن حجر، الاصابة؛ ج2 ص 507