اشرف علی تھانوی

ویکی‌وحدت سے

پیدائش وطن اور خاندان

مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کا وطن مالوف و مقام پیدائش تھانہ بھون ضلع مظفرنگر یوپی ہندوستان تھا ۔ آپ کا یوم ولادت چہار شنبہ 5 ربیع الاول 1280 ھجری ہے۔ قصبہ میں آپ کے آباؤ اجداد کا خاندان نہایت معزز وممتاز تھا ۔ آپ کے والد منشی عبدالحق بڑے صاحب وجاھت، صاحب منصب اور صاحب جائیداد رئیس تھے اور بڑے اہل دل بزرگ بھی تھے اور آپ حکیم الامت سے معروف تھا [1]۔ اور ۱۵/ رجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۳۰/ جولائی ۱۹۴۳ء میں وفات پائی۔ ان کی قبر شریف تھانہ بھون (ضلع مظفرنگر، یوپی، ہند) میں ایک کنارے ان کے ذاتی باغ میں ہے [2]۔

تعلیم وتربیت

تھانوی نسباً فاروقی، مذھباً حنفی تھے اور مسلکاً سلسلہ امدادیہ صابریہ چشتیہ سے وابستہ ہوکر منصب خلافت و رشد وہدایت پر فائز ہوئے۔ آپ کا بچپن وطن میں ہی گزرا اور آپ کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم کی تعلیم سے ہوا۔ ابتدائی چند پارے تو کھتولی ضلع میرٹھ کے رہنے والے آخون جی سے پڑھے اس کے بعد میرٹھ کے رہنے والے حافظ حسین علی سے میرٹھ میں ہی پورا قرآن کریم حفظ کیا[3]۔

اس کے بعد فارسی کی ابتدائی کتب بھی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھیں اس کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے لیا جہاں فارسی کی انتہائی کتب پنج رقعہ، قصائد عرفی اور سکندر نامہ وغیرہ مولانا منفعت علی دیوبندی سے پڑھ کر فارسی کی تکمیل کی اور عربی کتب مشکوۂ شریف، مختصر المعانی، نور الانوار اور ملا حسن وغیرہ سے باقاعدہ تعلیم شروع کی۔ پھر پانچ سال تک دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم حاصل کی۔ اور علوم دینیہ کی تکمیل کے لئے ایک ہزار دو سو پچانوے ہجری میں دارالعلوم دیوبند میں تشریف لے گئے اور جید علماء اور مدرسین سے فیضان علوم حاصل کرکے ایک ہزار تین سو ایک ہجری میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ گویا اُدھر چودھویں صدی کا آغاز ہورہا تھا اور اِدھر احیاء وتجدید دین مبین کے لئے یہ مجدد العصر تیار ہورہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فضل عظیم تھا کہ آپ کو مدرسہ دارالعلوم دیوبند ایسی شہرہ آفاق اور مستند درس گاہ میں تحصیل علوم اور تکمیل درسیات کا موقع نصیب ہوا جہاں خوش قسمتی سے اُس وقت بڑے منتخب اور یگانہ عصر وجامع کمالات وصفات اہل اللہ اور اساتذہ کا مجمع تھا جن کے فیوض و برکات علمی وایمانی کا آج بھی عالم اسلام معترف ہے ۔ ان میں سے اکثر حضرات حاجی امداد اللہ شاہ مہاجر مکی کے سلسلہ سے وابستہ اور بعد انکے خلفائے راشدین میں تھے ایسے نورانی ماحول میں اور اُن حضرات کے فیض صحبت سے آپ کی باطنی صلاحیت واستعداد بھی تربیت پذیر ہوتی رہی ۔

روحانی تربیت

زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کا رحجان روحانیت اور تصوف کی طرف ہو گیا تھا اور تصوف کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔ آپ کا ذکر و فکر، مساوات حسنہ اور اخلاق عالیہ دیکھ کر آپ کے لیے کسی خاص مربی کی ضرورت پیش نہ آئی بلکہ آپ کی خداداد فطری صلاحیتیں خود بخود آپ کی تربیت کر رہی تھیں حکیم الامت تھانوی نے 12 سال کی عمر ہی سے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے کا معمول بنایا تھا [4]۔

اساتذہ کی خصوصی توجہ وتکمیل تعلیم

یہ آپ خوش نصیبی تھی کہ آپ کو اساتذۂ کاملین میسر آئے یوں تمام بزرگوں اور اساتذہ کی توجہات خصوصی کی سعادت تھانوی کو حاصل تھی [5]۔ مگر مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا یعقوب نانوتوی کو خاص طور پر آپ کے ساتھ محبت وشفقت کا تعلق تھا ۔ اور ان کو بھی ان بزرگوں کےساتھ نہایت والہانہ عقیدت و محبت تھی ۔ چنانچہ اکثر و بیشتر ان حضرات کا ذکر بڑے کیف و سرور سے فرمایا کرتے تھے ۔ ان کی دستاربندی 1301 ہجری میں مولانا رشید احمد گنگوہی نے کے ہاتھوں سے ہوئی۔ اس سال مدرسہ دیوبند میں بڑا شاندار جلسہ منعقد ہوا ۔ اس موقع پر اشرف تھانوی اپنے چند رفقائے کرام کے ساتھ مولانا یعقوب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ہم میں ایسی استعداد نہیں ہے کہ ہمیں دستار کی فضیلت عطا کی جائے ۔ اس سے مدرسہ کی بڑی بدنامی ہوگی ۔ یہ سن کر مولانا کو جوش آگیا اور فرمایا تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے یہاں چونکہ تمہارے اساتذہ موجود ہیں انکے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نظر نہیں آتی اور ایسا ہی ہونا چاہئے ۔ باہر جاؤ گے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہوگی۔ خدا کی قسم جہاں جاؤ گے تم ہی تم ہوگے ۔ باقی سارا میدان صاف ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

تحریک خلافت اور مولانا اشرف علی تھانوی

مسلمانان برصغیر نے اپنی تاریخ میں کبھی بین المللی رشتۂ اخوت کی عالمگیر حقیقت کو اتنی اہمیت دی ہو جتنی تحریک خلافت کے دوران دی۔ جنگ عظیم اول کے بعد ہندوستانی سیاست میں شدید طوفان آیا جس میں بیرونی سیاست کی موجیں بھی مل گ‏ئیں۔ خلافت کے مس‏ئلے نے ہر ہندوستانی مسلمان کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ تحریک خلافت کے دوران میں تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے جو طریق کار اختیار کیے گئے اور اس تحریک پر گاندھی کے چھا جانے کے سبب مولانا اشرف علی تھانوی نے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی مانند تحریک سے علیحدگی اختیار کی۔ مولانا تھانوی کو تحریک کے اغراض و مقاصد سے قطعا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ نے خلافت کو اجتماعی مسئلہ بتلایا جس سے اختلاف ممکن نہیں۔ مولانا تھانوی کو تحریک خلافت، ملت اسلامیہ کے تحفظ مقامات مقدسہ کے تحفظ اور امداد سے کوئی اختلاف نہ تھا۔ اختلاف صرف طریق کار سے تھا چنانچہ اسی بنا پر آپ نے تحریک خلافت میں شرکت نہیں کی [6]۔

باطنی علوم

آپ کے باطنی علوم واعمال کی تکمیل و تہذیب کے لئے حاجی شاہ امداد اللہ تھانوی ثم مہاجر مکی سے شرف تعلق عطا ہوا ۔ 1299 ھجری میں جب حضرت مولانا رشید احمد حج کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو تھانوی نے اُن کے ہاتھ ایک عریضہ حضرت حاجی کی خدمت میں روانہ کیا جس میں استدعا کی کہ مولانا سے بیعت فرما لینے کے لئے سفارش فرمادیں۔ حاجی صاحب نے مولانا سے اس کا تذکرہ فرمایا اور پھر خود ہی ارشاد فرمایا اچھا میں خود ہی اُنکو بیعت کئے لیتا ہوں اور حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کو بھی تحریر فرمایا میں نے خود آپکو بیعت کرلیاہے مطمئن رہیں [7]۔

تدریس

تیرہ سو ایک ہجری میں جب تھانوی علوم درسیہ سے فارغ ہوئے تھے اُسی زمانہ میں کانپور کے مدرسہ فیض عام میں ایک مدرس کی ضرورت تھی۔ آپ کو وہاں پر تدریس کے لئے بلایا گیا ۔ آپ کئی سال تک اس مدرسہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد مدرسہ کے نظم و نسق سے غیر مطمئن ہو کر تعلق منقطع کردیا ۔ پھر کچھ ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ کانپور کی جامع مسجد میں درس دینے لگے اور وہاں پر ایک مدرسہ قائم ہوگیا ۔ اس مدرسہ کا نام حضرت نے مسجد کی مناسبت سے مدرسہ جامع العلوم موسوم فرمایا یہ مدرسہ یوماً فیوماً ترقی کرتا رہا اور کچھ مدت بعد مشہور و معروف ہوگیا(اور اب تک بفضلہ تعالیٰ قائم ہے) [8]۔

خلافت و اجازت

شوال 1301ہجری کو آپ نے پہلا حج انجام دیا۔ آپ 1310 ہجری میں دوسری مرتبہ حج کے لئے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کے منشاء اور اُنکی خواہش کے مطابق وہاں پر چھ ماہ تک قیام کا ارادہ کرلیا۔ حاجی صاحب اِسی موقع کے منتظر تھے چنانچہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ اور اپنے نوخیز طالب و سالک طریق کی فطری صلاحیت و استعداد اور جوہرِ قابل کا اندازہ کرتے رہے اور تمام علوم باطنی اور اسرار و رموزِ روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب مبارک پر وارد اور القاء فرمائے تھے آپ کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہ خاص سے پ کا سینہ مبارک دولت معارف وحقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ کا اور محبت نبی الرحمۃ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوز و گداز رگ و پے میں سرایت کر گیا ۔ بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہوکر اور اپنے ذوق و مسلک سے تمام تر ہم آہنگی کے آثار نمایاں دیکھ کر اپنا جانشین بنا لیا۔ اور باذن اللہ تعالیٰ خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی رہنمائی کے لئے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ جب حضرت کا وہاں سے واپسی کا وقت آیا تو بکمال محبت و شفقت گلے لگا کر فرمایا: میاں اشرف علی! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ذالک فضل اللہ ۔ پھر ان دو وصیتوں کے ساتھ رخصت فرمایا:دیکھو! وطن پہنچ کر تم کو باطنی کیفیات میں ایک حالت پیش آئے گی ۔ گھبرانا نہیں ۔ مجھ کو مطلع کرتے رہنا ۔ دوسرا یہ کہ جب مدرسہ کی ملازمت سے دلبرداشتہ ہو تو پھر وطن پہنچ کر ہماری خانقاہ اور مدرسہ میں توکلاً علی اللہ مقیم ہوجانا، تم سے ان شاء اللہ تعالیٰ خلق کثیر کو نفع پہنچے گا [9]۔

حوالہ جات

  1. سیف الرحمن، مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات، ص1
  2. darulifta-deoband.com
  3. سیف الرحمن، مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات، ص16
  4. مولانا خلیل احمد تھانوی، ایام زندگانی سیدنا اشرف در آیات قرآنی، بیاد حکیم الامۂ مولانا اشرف علی تھانوی، ص22
  5. اختر علی قاسمی، حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی، ص11
  6. پروفیسر احمد سعید، مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی، ص22-25
  7. مولانا محمد ناصر، حضرت تھانوی کے اصول، ص45
  8. محمد رحمۂ اللہ الندوی، اشرف علی التھانوی حکیم الامۂ و شیخ مشایخ العصر فی الہند، ص93
  9. غلام محمد، سوانح عمری، حیات اشرف، ص51