مندرجات کا رخ کریں

غدیر؛ وحدت اسلامی کا محور کانفرنس

ویکی‌وحدت سے
غدیر؛ وحدت اسلامی کا محور کانفرنس
واقعہ کی معلومات
واقعہ کا نامغدیر؛ وحدت اسلامی کا محور کانفرنس
واقعہ کی تاریخ2025ء
واقعہ کا دنیکم دسمبر
واقعہ کا مقام
  • قم ، ایران، تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز
عواملعالمی مرکز برای تقریب مذاهب اسلامی ، امامت بین الاقوامی مرکز

غدیر؛ محورِ وحدتِ اسلامی ، یہ علمی نشست “غدیر، وحدتِ اسلامی کا محور"کے عنوان سے، تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز کی کاوش اور انجمنِ علمیِ امامتِ حوزہ کے تعاون سے، بروز پیر 10 آذر 1404ھ ش کو، تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز کے تقریب ہال کے افتتاح کے موقع پر منعقد ہوئی۔ اس نشست میں حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حمید شہریاری (سیکریٹری جنرل، مجمعِ عالمیِ تقریبِ مذاہبِ اسلامی) اور حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر محمدتقی سبحانی (سربراہ، انجمنِ امامتِ حوزہ اور مرکزُ الحضارۃ لبنان) نے خصوصی مقررین کی حیثیت سے شرکت کی۔ نشست کی نظامت حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر مرتضیٰ علیزادہ نجار (استاد و محقق، بین الاقوامی ادارۂ امامت) نے انجام دی۔

مجمعِ تقریب کے سیکریٹری جنرل کی تقریر

غدیر؛ وحدت کے لیے ایک تمدنی صلاحیت

قرآنِ مجید کی تین ہدایات—«تواصی بالحق»، «تواصی بالصبر» اور «تفرقہ سے اجتناب»—کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ تفرقہ اس وقت شروع ہوا جب رسولِ اعظم ﷺ کی حضرت امیرالمؤمنین علیؑ کی ولایت کے بارے میں کی گئی سفارشات کو نظرانداز کیا گیا۔ واقعۂ غدیر اپنی اصل میں متواتر، مسلّم اور ناقابلِ انکار ہے۔ اہلِ سنت کے مصادر نے بھی، شیعہ مصادر کی طرح، حدیثِ غدیر کو وسیع پیمانے پر نقل کیا ہے۔ اہلِ سنت کے اکابر علما—جیسے طبری، سیوطی، ذہبی اور ابنِ کثیر—نے حدیثِ غدیر پر مستقل تصانیف تحریر کیں، اگرچہ ان میں سے بعض آثار آج دستیاب نہیں ہیں۔

غدیر؛ ایک نمایشی واقعہ، نه که محض ایک روایت

حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شہریاری نے اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: «غدیر صرف ایک روایت نہیں بلکہ ایک عملی اور علانیہ مظاہرہ ہے»۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ہزاروں افراد کے سامنے حضرت امام علیؑ کا ہاتھ بلند فرمایا۔ یہ منظر ایک مکمل اور عوامی مظاہرہ تھا جس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ انہوں نے غدیر کے اسی «نمایشی پہلو» کو اس کی امتیازی خصوصیت قرار دیا، اس معنی میں کہ سب لوگوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس واقعے کے وقوع پر اتفاق ہے؛ اختلاف صرف اس کے مفہوم اور تفسیر میں ہے، اصل واقعے میں نہیں۔

حضرت علیؑ کی ۲۵ سالہ خاموشی کا راز

انسانی علوم کی توسیع اور تحقیقاتی مرکز کے علمی گروه کے رکن نے مزید کہا: رسولِ اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد عرب کے ایک بڑے حصے میں ارتداد پھیل گیا۔ متعدد داخلی جنگیں شروع ہو گئیں اور اسلامی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ ابوبکر نے اپنے پورے دورِ خلافت کو ارتداد سے مقابلے میں صرف کیا۔ ایسے نازک حالات میں اگر امام علیؑ اس نزاع میں داخل ہو جاتے تو اسلام کی اصل بنیاد کو خطرہ لاحق ہو جاتا۔ لہٰذا امام کی خاموشی ایک حکمتِ عملی پر مبنی فیصلہ تھا، جس کا مقصد اسلام کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کرنا تھا۔

وحدت: واضح حد بندی

وحدت کا مطلب عقائد کے سامنے خاموشی اختیار کرنا نہیں ہے۔ ہم حضرت امام علیؑ کی ولایت کو حق سمجھتے ہیں اور اسے واضح انداز میں بیان بھی کرتے ہیں۔ لیکن حق کی توضیح اس طرح نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے نتیجے میں سماجی تناؤ، جنگ، تکفیر، گالی گلوچ یا مقدسات کی توہین پیدا ہو؛ کیونکہ یہ تمام امور شرعاً حرام ہیں۔

شیعه سازی کا منصوبه

عالمی مرکز برای تقریبِ مذاہبِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے عالمِ اسلام میں میدانی تجربات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بعض ممالک میں کچھ حلقے یہ تصور رکھتے ہیں کہ ایران «شیعہ سازی» کے درپے ہے۔ یہ غلط فہمی شیعہ اقلیتوں پر دباؤ کا سبب بنی ہے اور ایران کی شبیہ کو نقصان پہنچا ہے۔ دشمن اس موضوع کو نفسیاتی جنگ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہر وہ پروگرام جس سے شیعہ سازی کا شائبہ پیدا ہو، درحقیقت دشمن کے میدان میں کھیلنے کے مترادف ہے۔

گفت‌وگو میں اخلاق کی ضرورت

عالمی مرکز تقریبِ مذاہبِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے علمی مکالمے پر زور دیا، لیکن ساتھ ہی کہا: گفتگو تحقیر آمیز نہیں ہونی چاہیے، فریقِ مقابل کو شخصی بن‌بست میں دھکیلنے کا سبب نہیں بننی چاہیے، اور نہ ہی اسے صرف سامنے والے کو «لاجواب» کرنے کے لیے ترتیب دیا جانا چاہیے۔ اگر ہماری گفتگو نئے دشمن پیدا کرنے کا باعث بنے، تو درحقیقت ہم خود قومی ہم آہنگی اور انسجام کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

امامت بین الاقوامی مرکز کے سربراه کی تقریر

غدیر؛ امتِ اسلامی کی وحدت کے لیے ایک نظر انداز شدہ نظریه

استاد سبحانی نے ابتدا میں یاد دلایا کہ غدیر کو اسلامی وحدت کے ساتھ جوڑنے کا تصور، علامہ شرف‌الدین، کاشف‌الغطاء، شہید مطہری، امام خمینی اور امام خامنہ‌ایؒ کے آثار میں جڑیں رکھتا ہے۔ تاہم یہ تصور اب تک ایک «فعال اور جریان ساز گفتمان» کی شکل اختیار نہیں کر سکا تھا۔

اختلاف؛ فطری ہے، لیکن اختلاف پر رک جانا؛ خطا ہے

انجمنِ امامتِ حوزہ کے سربراه نے آیاتِ قرآن سے استناد کرتے ہوئے کہا: انسانوں کے درمیان اختلاف ایک قطعی الٰہی سنت ہے؛ لیکن اختلاف پر ٹھہر جانا اور اسے نزاع اور ٹکراؤ میں بدل دینا، سنتِ الٰہی کے خلاف ہے۔ غدیر حدیث، تاریخ اور محتوا کے اعتبار سے محلِّ اختلاف نہیں ہے؛ اختلاف صرف اس کی تفسیر میں ہے۔ انہوں نے غدیر کے لیے پانچ نمایاں اور امتیازی خصوصیات بیان کیں: تاریخِ اسلام کا سب سے بڑا رسمی اجتماع، جو خود رسولِ اکرم ﷺ کی دعوت پر منعقد ہوا؛ امت کے مستقبل سے متعلق پیغام کی ترسیل کے لیے سب سے حساس وقت؛ واقعۂ غدیر کے اصل وقوع پر تمام مسلمانوں کا اجماع؛ امت کے مستقبل کے بارے میں رسولِ اکرم ﷺ کی تشویش کا واضح اظہار؛ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کا دس اہم اور حساس تاریخی مواقع پر بارہا واقعۂ غدیر سے استدلال کرنا۔

غدیر؛ ایک ایسا واقعه جو پیغام رکهتا هے نه که محض دعویٰ

استاد محمد تقی سبحانی نے فرمایا: غدیر صرف ایک تاریخی نص نہیں؛ بلکہ اس کا پیغام ہے۔ یہ پیغام انسانی، معاشرتی، اخلاقی، سیاسی اور تہذیبی ہے۔ ان پیغامات کو اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ ہر مخاطب اپنی استعداد اور ظرف کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ غدیر ہر انسان کے لیے، چاہے دین نہ رکھتا ہو، دوسرے مذاہب کے پیروکار ہوں، مسلمان ہوں، یا اہلِ بیتؑ کے محبّین ہوں، ہر ملک اور معاشرے میں **مناسب اور موزوں پیغام** فراہم کر سکتا ہے۔

پانچ عملیاتی حکمتِ عملی

امامت بین الاقوامی مرکز کے سربراه نے زور دیا: تقریبی ثقافت کی ترویج شیعی اور اسلامی معاشرے میں: شیعی معاشرے کا غدیر سے نقطۂ نظر صرف تاریخی اور شناختی نہیں بلکہ وحدتی اور تہذیبی ہونا چاہیے۔ غدیر کے مشترکہ پہلوؤں کی دستاویز سازی شیعہ اور اہلِ سنت کے منابع سے: ایک علیحدہ حصہ بعنوان «غدیر مشترکہ منابع میں» تیار کیا جائے تاکہ مذاہبِ عالم کے درمیان گفتگو میں اس سے استفادہ کیا جا سکے۔ غدیر کے پیغامات کی تہہ بندی مختلف مخاطبین کے لیے: خاص طور پر بالکان، مشرقِ دور اور افریقہ میں ولایتی مسلمانوں، اہلِ سنت میں اہلِ بیتؑ کے محبّین، دینی و اخلاقی شخصیات، اور حتیٰ کہ غیر مذہبی افراد کے لیے۔ عالمی اسلامی مکالمے کے منطقی ڈیزائن کی تیاری: ہم عرب دنیا میں ۵۰۰ سے زائد شیعہ کتابیں شائع کرنے میں کامیاب ہوئے، بغیر کسی حساسیت یا تناؤ کے۔ گفتگو کو عملی اور طویل المدتی ہونا چاہیے۔ اسلامی تعلقات میں متوازن نقطۂ نظر: حق بیان کرنا ضروری ہے، لیکن ہر حق ہر وقت اور ہر مقام پر نہیں کہا جا سکتا۔ اگر اچھا پیغام غلط انداز میں پیش کیا جائے تو یہ تناؤ کا سبب بن سکتا ہے۔

تصویری جہلکیاں

متعلقه تلاشیں

حواله جات