مندرجات کا رخ کریں

امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 18:13، 11 نومبر 2025ء از Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{خانہ معلومات پارٹی | عنوان = امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی | تصویر = کمیته امور عمومی آمریکا و اسرائیل.jpg | نام = امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی | قیام کی تاریخ = 1950 ء | بانی = ایزایا ایل. کینن | رہنما = بِتسی کورن، ایکل توچین | مقاصد = {{hlist |امریک...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی
پارٹی کا نامامریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی
قیام کی تاریخ1950 ء، 1328 ش، 1368 ق
بانی پارٹیایزایا ایل. کینن
پارٹی رہنمابِتسی کورن، ایکل توچین
مقاصد و مبانی
  • امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹجک، عسکری اور انٹیلیجنس تعلقات کو مضبوط بنانا۔ کانگریس میں امریکی قانون سازوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا تاکہ وہ اسرائیل نواز پالیسیوں کے حامی بنیں۔ امریکی دو بڑی سیاسی جماعتوں — ڈیموکریٹ اور ریپبلکن — دونوں کی حمایت حاصل کرنا تاکہ اسرائیل کے مفاد میں بننے والی پالیسیوں کو جماعتی اختلافات سے بالاتر رکھا جا سکے۔ امریکی عوامی رائے کو اسرائیل کے حق میں ہموار کرنا، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسیوں میں اسرائیلی موقف کی ترجمانی کرنا۔ میڈیا اور سیاسی میدان میں اسرائیل مخالف یا ناقد آوازوں کا مقابلہ کرنا اور اُن کے اثر کو کم کرنا۔ سیاسی امیدواروں کو مالی مدد فراہم کرنا ۔

امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (American Israel Public Affairs Committee)، جسے مختصر طور پر ایپَک (AIPAC) کہا جاتا ہے، امریکہ میں اسرائیل کے حق میں سب سے طاقتور لابی تنظیم مانی جاتی ہے۔ اس کمیٹی کا باضابطہ مشن یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرے اور اسرائیل نواز پالیسیوں کے لیے دونوں اہم امریکی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرے۔ ایپک کے پاس لاکھوں اراکین کا وسیع نیٹ ورک ہے، جو امریکی سیاست دانوں، کانگریس اور پالیسی سازی کے اداروں میں گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی سے لے کر اب تک، یہ تنظیم واشنگٹن کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق خارجہ پالیسی کے بنیادی ستونوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔

تایخی پس منظر

ایپک کی تشکیل کی جڑیں 1950 کی دہائی سے ملتی ہیں، جب ایک یہودی صحافی اور صہیونی کارکن ایزایا ایل. کینن (Isaiah L. Kenen) نے واشنگٹن میں "کمیٹی فار اسرائیل" کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ سن 1951 میں یہ ادارہ باضابطہ طور پر “American Israel Public Affairs Committee” (کمیٹی برائے امورِ عمومیِ امریکہ و اسرائیل) کے نام سے رجسٹر ہوا، تاکہ امریکہ میں یہودی اور اسرائیل نواز تنظیموں کی سرگرمیوں کو ایک مرکزی پلیٹ فارم کے تحت ہم آہنگ کیا جا سکے۔ 1970 کی دہائی سے ایپک نے اپنے مالی وسائل، کانگریس سے مضبوط تعلقات، اور اسرائیل کے حق میں وسیع میڈیا حمایت کے ذریعے امریکہ کے اندر اپنے اثر و رسوخ میں زبردست اضافہ کیا۔ اسی دور سے ایپک کو امریکہ کے سب سے طاقتور پالِیٹیکل پریشر گروپس (سیاسی دباؤ کے گروہوں) میں شمار کیا جانے لگا، جو واشنگٹن کی پالیسی سازی خصوصاً مشرقِ وسطیٰ سے متعلق فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اهداف

امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹجک، عسکری اور انٹیلیجنس تعلقات کو مضبوط بنانا۔

کانگریس میں امریکی قانون سازوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا تاکہ وہ اسرائیل نواز پالیسیوں کے حامی بنیں۔  

امریکی دو بڑی سیاسی جماعتوں — ڈیموکریٹ اور ریپبلکن — دونوں کی حمایت حاصل کرنا تاکہ اسرائیل کے مفاد میں بننے والی پالیسیوں کو جماعتی اختلافات سے بالاتر رکھا جا سکے۔

امریکی عوامی رائے کو اسرائیل کے حق میں ہموار کرنا، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسیوں میں اسرائیلی موقف کی ترجمانی کرنا۔  

میڈیا اور سیاسی میدان میں اسرائیل مخالف یا ناقد آوازوں کا مقابلہ کرنا اور اُن کے اثر کو کم کرنا۔ سیاسی امیدواروں کو مالی مدد فراہم کرنا جو اسرائیل نواز مؤقف رکھتے ہوں — اسے عموماً AIPAC سے وابستہ سیاسی ایکشن کمیٹیوں (PACs) کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔

شعبه جات اور قیادت

ایپک ایک غیر منافع بخش تنظیم (Non‑Profit Organization) کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سربراہی محترمہ بِیٹسی کورن (Betsy Korn) انجام دیتی ہیں، جبکہ مائیکل توچن (Michael Tuchin) بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایپک کے نمایاں اراکین اکثر امریکی یہودی برادری کے بااثر سیاسی اور مالی چہروں میں سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ تنظیم کا رضاکارانہ نیٹ ورک لاکھوں کارکنوں پر مشتمل ہے جو پورے امریکہ میں سرگرم ہیں۔ یہ رضاکار مختلف مواقع پر — جیسے سالانہ کانفرنسیں، تربیتی نشستیں، اور انتخابی مہمات کے ذریعے اسرائیل نواز پالیسیوں کی حمایت اور ترویج کرتے ہیں۔

بجٹ اور مالی وسائل (AIPAC)

ایپَک کو اپنی مالیات کا بڑا حصہ امریکہ میں مقیم افراد، کمپنیوں، اور یہودی فاؤنڈیشنز (بنیادوں) کی براہِ راست مالی امداد سے حاصل ہوتا ہے۔ آمدنی اور اخراجات: ‘InfluenceWatch’ جیسی ویب سائٹس کی رپورٹوں کے مطابق، ایپَک کی سالانہ آمدنی 100 ملین ڈالر سے زیادہ ہے، جبکہ اس کے اخراجات تقریباً 99 ملین ڈالر کے قریب ہیں۔ خالص اثاثے: تنظیم کے خالص اثاثے (Net Worth) کا اندازہ دسیوں ملین ڈالرز لگایا گیا ہے۔ سیاسی ایکشن کمیٹیاں (PACs): اس کے علاوہ، ایپَک آزاد سیاسی ایکشن کمیٹیاں (PACs) بھی چلاتی ہے جو کانگریس اور سینیٹ کے امیدواروں کی انتخابی مہمات میں خطیر رقم کی مالی اعانت فراہم کرتی ہیں۔

سیاسی سرگرمیاں اور اثر و رسوخ

ایپَک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ بااثر لابی گروپوں میں سے ایک ہے۔ جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ اس تنظیم نے اب تک امریکی کانگریس کے 340 سے زائد نمائندوں کی براہِ راست یا بالواسطہ مالی مدد کی ہے۔ 2024 کے الینوائے کانگریس کے انتخابات میں، ایپَک نے اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے امیدواروں، بشمول “کینا کولنز” کے خلاف بھاری اخراجات کیے۔ ایپَک نے واشنگٹن میں اسرائیل نواز تھنک ٹینکس کی مالی معاونت کر کے اہم فیصلوں کی تشکیل میں بھی حصہ لیا، جیسے: ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا اور ایران کے جوہری معاہدے سے امریکہ کا انخلاء۔ سرکاری سطح پر، ایپَک کانگریس کے نمائندوں کے لیے مقبوضہ علاقوں کے سرکاری دوروں کا اہتمام کرتی ہے، جس سے امریکی قانون سازوں اور اسرائیلی حکام کے درمیان مستحکم اور براہِ راست رابطہ قائم ہوتا ہے۔

تنقیدات

امریکہ کے سیاسی اور مالی اداروں میں اپنے گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے، ایپَک ہمیشہ بحث و مباحثے اور تنقید کا موضوع رہا ہے۔ نقاد، جن میں جان میرشایمر اور اسٹیفن والٹ جیسے معروف محققین شامل ہیں، اس تنظیم کو “اسرائیل کے مفاد میں امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کا اصل عامل” قرار دیتے ہیں۔ ایپَک کے دباؤ کی ایک مثال 2023 میں اس وقت سامنے آئی جب اس لابی نے فلسطینی نژاد کانگریس کی نمائندہ رشیدہ طلیب کے بیانات کے بعد ان کے خلاف توبیخ کی مہم چلائی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن نمائندوں نے اس توبیخ کے حق میں ووٹ دیا، ان میں سے کم از کم 18 افراد کو ایپَک کی طرف سے مالی امداد ملی تھی۔

مشرق وسطیٰ کی سیاست پر اثر و رسوخ

ایپَک نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں کی رہنمائی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ لابی اپنی مالی، میڈیا اور رابطوں کی طاقت کے ذریعے، خارجہ پالیسی کے بڑے فیصلوں کو اسرائیل کے مفادات کی طرف موڑتی رہی ہے۔ بطور مثال، غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشنز کے لیے واشنگٹن کی غیر مشروط حمایت اور اقوام متحدہ میں اسرائیل مخالف قراردادوں کی مسلسل مخالفت کو ایپَک اور اس سے وابستہ نیٹ ورکس کے براہِ راست دباؤ کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔

حوالہ جات