مندرجات کا رخ کریں

عبد الکریم حائری یزدی

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 20:05، 28 اکتوبر 2025ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
عبد الکریم حائری یزدی
دوسرے نامآیت الله موسس
ذاتی معلومات
پیدائش1276 ق، 1860 ء، 1239 ش
پیدائش کی جگہیزد ایران
وفات۱۳۱۵ ش، 1937 ء، 1355 ق
وفات کی جگہقم
اساتذہ
  • میرزا حسین نوری
  • شیخ فضل الله نوری
  • آخوند خراسانی
مذہباسلام، شیعہ
اثرات
  • دُرَرُ الاصول(درر الفوائد)
  • کتاب الصلوة
  • کتاب المواریث
مناصبشیعہ مرجع تقلید اور حوزہ علمیہ قم کا بانی

عبد الکریم حائری یزدیایک شیعہ عالم دین، مجتہد ، مرجع اور فقہ جعفریہ کے معتبر اور اہم ترین علمی مرکز حوزہ علمیہ قم کے بانی تھے۔ اور آیت اللہ بروجردی، آیت اللہ سید روح خمینی اور آیت اللہ ہاشم آملی آپ کے خاص شاگردوں میں تھے۔ آپ نے اسلامی علوم سکھانے کے لیے بیسویں صدی کے اوائل میں علوم کا ایک نیا باب یعنی حوزہ علمیہ قم کھولا۔ آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ حوزہ علمیہ کی بقا اور دوام کی خاطر سیاست سے دور رہتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ جب تک لوگوں میں علم و شعور نہیں ہوگا کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی لہذا پہلے علم و شعور کی تربیت کی جائے اور اس کا اہم ذریعہ حوزہ علمیہ ہے۔ سن ۸۳ ہجری میں خاندان اشعری نے کوفہ سے قم کی جانب ہجرت کی اور دوسری صدی ہجری میں اسی خاندان کے دیگر افراد کی کثرت سے ہجرت کے سبب قم میں شیعوں کی تعداد کا اس قدر اضافہ ہوا کہ شیعہ اکثریت میں شمار ہونے لگے۔

سوانح عمری

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ ۱۲۷۶ ھ کو میبد کے علاقہ مہرجرد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب محمد جعفر مرحوم تھے جو انتہائی دیندار اور عابد و زاہد تھے۔ حائری کے پانچ بچے تھے؛ دو بیٹے مرتضیٰ اور مهدی اور تین بیٹیاں جن کی شادی محمد تویسرکانی، احمد ہمدانی اور سید محمد محقق داماد سے ہوئی۔[1] شیخ عبدالکریم حائری 1937ء میں قم میں تقریباً 15 سال قیام کے بعد انتقال کر گئے۔ حکومتی پابندیوں کے باوجود، ان کی شاندار تدفین کی گئی، آیت اللہ سید صادق قمی نے ان کے لیے نماز پڑھی اور انہیں حرم حضرت معصومہ (س) میں سپرد خاک کیا گیا۔[2]

تعلیم

ابتدائی تعلیم کے حصول کی خاطر اپنے خالو جناب میر ابو جعفر کے ساتھ اردکان گئے ۔ اردکان آئے ہوئے ابھی آپ کو کچھ ہی دن گذرے تھے کہ اطلاع ملی کہ آپ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا لہذا آپ وطن واپس آگئے۔ کچھ عرصہ وطن میں قیام رہا ۔ پھر والدہ ماجدہ سے اجازت لے کر یزد تشریف لے گئے اور وہاں مدرسہ محمدتقی خان (معروف مدرسہ خان)میں سید حسین وامق اور سید یحییٰ بزرگ (معروف مجتہد یزدی) جیسے علماء سے عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔[3]

کربلا

۱۲۹۸ ہجری میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ عراق تشریف لے گئے۔ کربلاے معلی میں دو برس جناب فاضل اردکانی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر نظر تعلیم حاصل کر مرجع بزرگ آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ (جنہوں نے تنباکو کی حرمت کا تاریخی فتویٰ دے کر برطانوی استعمار کو شکست فاش دی تھی) سے کسب فیض کے لئے سامرا تشریف لے گئے.

سامرا

سامرا میں آپ نے ۱۳۰۰ سے ۱۳۱۲ ہجری تک یعنی ۱۲ برس قیام کیا۔ پہلے دو سے تین سال سطوح عالی کے فقہ و اصول کے دروس آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ فضل اللہ نوری، آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا ابراہیم محلاتی ، آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا مہدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہم جیسے اساتذہ سے حاصل کئے۔

اس کے بعد فقہ و اصول کے درس خارج کے لئے آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد فشارکی اصفہانی اور آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد تقی شیرازی رحمۃ اللہ علیہما اور کچھ مدت تک آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے دروس میں شرکت کی اور آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا حسین نوری سے اجازہ روایت حاصل کیا۔

نجف اشرف

آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد آپ اپنے استاد آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد فشارکی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ نجف اشرف تشریف لے گئے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد فشارکی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ محمد کاظم خراسانی المعروف بہ آخوند خراسانی سے کسب فیض کیا اور آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد فشارکی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کے آخر وقت میں خدمت کی۔ جب ان کا انتقال ہو گیا تو ایران واپس آگئے۔

ایران پہنچ کر سلطان آباد اراک میں حوزہ علمیہ قائم کیا۔ جب سیاسی مشکلات درس و تدریس میں مانع ہوئیں تو دوبارہ نجف اشرف چلے گئے اور مرحوم آخوند خراسانی رحمۃ اللہ علیہ اور صاحب کفایہ آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شریک ہوئے۔ نجف اشرف میں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ کربلاے معلی تشریف لے آئے جہاں ۸ برس قیام کیا اور تدریس فرمائی۔ حائر حسینی سے تمسک کے سبب ہی آپ کو حائری کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔

اساتذه

شیخ عبدالکریم حائری نے اپنی زندگی کے دوران کئی نامور اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ ان کے بعض اساتذہ یہ ہیں:

  • میرزا حسین نوری
  • شیخ فضل اللہ نوری
  • سید محمد فشارکی
  • میرزا محمد تقی شیرازی
  • میرزا محمد حسن شیرازی
  • آخوند خراسانی
  • میرزا مهدی شیرازی
  • فاضل اردکانی
  • سید محمد کاظم طباطبائی[4]

تبلیغی سرگرمیاں

اراک کے مومنین کے اصرار پر ۱۳۳۲ ہجری میں ایران تشریف لائے اور اراک میں حوزہ علمیہ قائم کیا۔ آپ کی زعامت اور تدریس کے سبب بہت جلد ہی حوزہ علمیہ اراک اپنی نمایاں ترقی سے مشہور ہوا اور یہی سبب ہوا کہ دیگر شہروں سے بھی کثرت سے طلاب اراک کی جانب کوچ کرنے لگے۔ انہیں طلاب میں ایک اہم نام رہبر کبیر انقلاب، بانی اسلامی جمہوریہ ایران امام خمینی قدس سرہ کا ہے کہ آپ اصفہان سے اراک تشریف لائے اور جب ۸ برس حوزه علمیہ اراک میں خدمات کے بعد بزرگان قم کے اصرار پر آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ قم تشریف لے گئے تو امام خمینی قدس سرہ بھی قم مقدس تشریف لے آئے۔

بانیِ حوزہ و احیائے مرکز علمی

آیت اللہ حائری، جو خود نجف اشرف کے جلیل القدر مراجع؛ میرزا شیرازی اور آخوند خراسانی کے شاگرد تھے، انہوں نے ایسے وقت میں قم کو مرکزیت دی جب حوزہ اصفہان زوال کا شکار اور نجف، مرکزی مقام پر فائز تھا۔ آپ نے درایت، بصیرت اور حکمت سے قم کو نہ صرف ایک علمی مرکز میں بدل دیا بلکہ اس کے لیے مضبوط ادارہ جاتی بنیادیں بھی فراہم کیں، جن میں مدارس فیضیہ اور دارالشفاء نمایاں ہیں۔

نظام‌سازی اور خودمختاری

آیت اللہ حائری نے نصاب تعلیم کو منظم، فقہ و اصول کے ساتھ فلسفہ، تفسیر و حدیث کو شامل کیا اور مالی طور پر حوزہ کو وقف اور عوامی اعانت کے ذریعے خودکفا بنایا۔ ان کا یہ وژن، مستقبل کی علمی خودمختاری کی بنیاد بنا۔

شاگردوں کی تربیت اور فکری تسلسل

آیت اللہ بروجردی، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ طباطبائی اور محقق داماد جیسے شاگردان، انہی کی تربیت کے نقیب بنے۔ اس نسل نے آگے چل کر علمی، فکری اور سیاسی محاذ پر تشیع کو نئی جہت عطا کی۔ آیت الله حائری کے درس گاہ سے متعدد ممتاز علماء فارغ التحصیل ہوئے، جن میں سے کئی اپنے زمانے میں مرجعیت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ان کے بعض شاگرد یہ ہیں:

  • علی اکبر کاشانی
  • مصطفی کشمیری
  • احمد مازندرانی
  • سید صدرالدین صدر
  • میرزا هاشم آملی
  • محمدعلی اراکی
  • سید احمد حسینی زنجانی
  • سید روح اللہ موسوی خمینی
  • سید احمد خوانساری
  • سید محمد تقی خوانساری
  • سید محمد داماد
  • سید ابوالحسن رفیعی قزوینی
  • سید کاظم شریعتمداری
  • سید کاظم گلپایگانی
  • سید محمد رضا گلپایگانی
  • ملا علی معصومی همدانی
  • سید شهاب الدین مرعشی نجفی[5]
  • سید رضا موسوی زنجانی[6]
  • محمد جواد انصاری همدانی

سیاسی حکمت اور حوزہ کی بقا

رضاشاہ پہلوی کی تند پالیسیوں، جیسے قانون کشف حجاب اور مدارس کی سرکاری مداخلت، کے باوجود آیت اللہ حائری نے مدبرانہ موقف اپنایا۔ آپ نے قیام مسجد گوہرشاد میں شرکت سے اجتناب کرتے ہوئے حوزہ کو سرکوبی سے بچایا اور "خاموش ڈپلومیسی" سے حوزہ کی استقلال کو محفوظ رکھا۔

سیاسی سرگرمیوں سے متعلق ان کا موقف

بہت سے شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر سیاست سے دور رہتے تھے۔ ان کی سیاست میں عدم مداخلت اتنی شدید تھی کہ اس سے کچھ لوگوں کو حیرت اور یہاں تک کہ اعتراض بھی ہوا۔[7] لیکن یہ عدم مداخلت مصلحت پسندی سے زیادہ ان کی اپنی شخصیت کا عکس تھی۔ خاص طور پر قم میں آنے سے پہلے۔ یہ بتاتا ہے کہ ان کا رویہ ایران کی حکومت سے غیر متعلقہ سیاسی معاملات میں بھی یہی تھا۔ مثال کے طور پر، 1330 ہجری شمسی کے محرم میں جب کچھ علماء نجف اور کربلا سے کاظمین گئے تھے تاکہ غیر ملکی فوجوں کے خلاف احتجاج کریں اور تقریباً تین ماہ وہاں قیام کیا، ان میں میرزا محمد تقی شیرازی، شیخ الشریعہ اصفہانی، نائینی، سید ابوالحسن اصفہانی اور آقا ضیاء عراقی جیسے نامور علماء شامل تھے۔[8] لیکن حائری کا نام اس فہرست میں نہیں ہے۔ اس لیے انہیں اپنے استاد فشارکی کی طرح ایک ایسے عالم دین کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو نہ صرف سیاست میں کبھی فعال نہیں رہے بلکہ سیاسی اور متنازعہ واقعات سے بھی دور رہے۔[9] حائری کی عمر کے آخری حصے میں ان کی سماجی حیثیت کی وجہ سے انہیں سیاسی معاملات میں شرکت کرنا پڑی۔ ان سالوں میں ان کا سب سے بڑا چیلنج رضا شاہ کے ساتھ ان کے تعلقات اور ان کے ساتھ ان کے رویے کا انداز تھا۔ جب رضا خان سردار سپہ تھے، ان کے درمیان تعلقات نسبتاً اچھے تھے۔[10] رضاشاہ کے دورِ حکومت کے قیام سے لے کر کشف حجاب کے مسئلے کے سامنے آنے سے پہلے (1935ء سے پہلے)، ان دونوں کے تعلقات نہ تو اچھے تھے اور نہ ہی برُے۔[11] ایران میں فوجی خدمت کو لازمی بنانے کے معاملے میں، جس کی کچھ شیعہ علماء نے مخالفت کی تھی، حائری نے اس تجویز کی حمایت کی۔[12] لیکن کشف حجا ب کے واقعہ (جولائی 1935ء) سے لے کر حائری کی وفات (1936ء) تک، ان دونوں کے تعلقات خراب ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد، حائری نے 2 جولائی 1935ء کو رضاشاہ کو ایک تار بھیجا، جس میں انہوں نے حالات کو اسلامی شریعت کے خلاف قرار دیا اور اس کے روکنے کا مطالبہ کیا۔[13]اس کے بعد، ان کے تعلقات مکمل طور پر ختم ہو گئے، اور یہاں تک کہ حائری سے ملنے آنے والوں پر بھی سخت نظر رکھی جاتی تھی۔[14] تاہم، بعض لوگ اس کی قم کے علمی ادارے (حوزه علمیه قم) کی حفاظت کے لیے کوششوں کو بہت سی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے اور حکومت سے مقابلہ نہ کرنے کی سب سے اہم وجہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں، حائری جان بوجھ کر اور دانشمندی سے حکومت سے متعلق معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس وقت کے حالات میں رضا شاہ پہلوی کے خلاف موقف اختیار کرنے کا نتیجہ صرف علمی ادارے کا خاتمہ ہوگا۔ اس لیے، دور اندیشی، دانشمندی اور بردباری سے انہوں نے ایران میں علمی ادارے کی اور بلکہ دین و مذہب کی بقاء کو برقرار رکھا۔[15]

صد سالہ ثمرات: علم، سیاست اور بین‌الاقوامی اثرات

علمی پیشرفت: حوزہ علمیہ قم، اب دنیا کا سب سے بڑا شیعہ علمی مرکز ہے۔ تخصصی مدارس، ادارے جیسے دانشگاه مفید اور مؤسسہ امام خمینی، اسی دور کی پیداوار ہیں۔ سیاسی-اجتماعی اثر: حوزہ علمیہ قم نے انقلاب اسلامی میں نمایاں کردار ادا کیا اور نظام جمہوری اسلامی کی بنیاد میں شرکت کی۔ بین الاقوامی افق: افریقہ، ایشیا، یورپ و امریکا کے سینکڑوں طلبہ حوزہ قم میں تعلیم پاتے ہیں؛ دنیا کے مختلف ممالک میں شاخیں قائم کی گئی ہیں

موجودہ دور کے تقاضے اور حوزہ کی راہ

سو سال بعد، حوزہ کو آج نئے سوالات کا سامنا ہے:

کیا ہم آیت اللہ حائری کی اس میراث کو نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر پا رہے ہیں؟ کیا حوزہ اپنی علمی گہرائی کے ساتھ ساتھ معاشرے کے حقیقی سوالات کا جواب فراہم کر رہا ہے؟ کیا مرجعیت دینی، ڈیجیٹل دور میں اپنی معنویت قائم رکھے ہوئے ہے؟[16]۔

حوزہ علمیہ قم کی تاریخی پس منظر

ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے زمانہ حضور میں آپ کے متعدد نمایندوں اور وکلاء کا مرکز یہی شہر قرار پایا۔ خاندان اشعری کے ساتھ دوسرے کئی نامور شیعہ خاندان بھی یہاں مقیم ہو گئے ۔ نیز کثرت سے سادات کی آمد نے قم کی رونق کو چار چاند لگا دیا۔ ظاہر ہے جس شہر میں نامور علمی شخصیتیں جمع ہوں اور تعلیم و تعلم کا سلسلہ بھی جاری ہو تو وہ شہر مرکز علم بن جاتا ہے۔

لہذا اس شہر میں دوسری صدی ہجری میں ہی حوزہ علمیہ قائم ہو گیا تھا۔ جناب علی بن بابویہ قمی رحمۃ اللہ علیہ اور انکے فرزند ارجمند جناب شیخ صدوق رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اسی شہر میں قیام فرمایا ، اسی طرح علماء ، فقہاء، مورخین ، محدثین، مفسرین کی ایک طویل فہرست ہے جن کا تعلق قم سے ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی یہ شہر اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کا شہر رہا ہے اور علوم اہلبیت علیہم السلام یہاں سے پوری دنیا میں نشر ہوا اور ہو رہا ہے۔

حوزہ علمیہ قم کی بنیاد

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ کے قم آنے سے قبل ظالم حکمرانوں نے اس شہر کی علمی مرکزیت کو ختم کرنے کی نہ صرف کوششیں کی بلکہ ایسے سفاکانہ اقدامات کئے کہ علماء و طلاب کے لئے یہ سر زمین تنگ ہو گئی۔ نتیجہ میں حوزہ علمیہ کی وہ رونق ختم ہو گئی ۔ درس و تدریس، بحث و مباحثہ، تحقیق و تالیف کا سلسلہ اگر رکا نہ بھی ہو تو کم ضرور ہو گیا تھا۔ کتب خانے بند ہو گئے تھے ، مدرسوں میں سناٹا چھا گیا تھا ۔ ضرورت تھی کہ پھر کوئی ایسی علمی اور عملی شخصیت آئے جو صحرا کو گلشن بنا دے۔ اس کا وجود خزاں کو بَہار میں بدل دے۔

لہذا قم مقدس کے بزرگوں جنمیں فقیہ و مجاہد آیۃ اللہ محمد تقی بافقی رحمۃ اللہ علیہ کا نام نامی اسم گرامی سر فہرست ہے، نے آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ کو قم مقدس آنے کی دعوت دی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ سامرا، کربلا اور اراک کے حوزہ ہائے علمیہ کو آپ نے چار چاند لگایا تھا اور آپ ہی کے سبب وہاں علماء و طلاب کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا تھا۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کریم سے استخارہ کیا تو آیت الہی نے رہنمائی کی ۔ ’’۔۔۔۔۔۔۔وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ‘‘ (اور اس مرتبہ اپنے تمام گھر والوں کو ساتھ لے کر آنا۔ [17]۔ لہذا آپ اپنے شاگردوں کے ہمراہ قم مقدس تشریف لے آئے۔ آپ کی ہجرت نے مذہب کو تقویت اور حوزہ علمیہ کو رونق بخشی بلکہ جو حوزہ علمیہ تعطیل ہو گیا تھا اسے دوبارہ حیات مل گئی۔ مدارس میں رونق، کتب خانوں میں اہل تحقیق کا ہجوم ، ہر جانب علوم آل محمد ؑ کی تعلیم کا نہ رکنے والا سلسلہ قائم ہو گیا۔

آیۃ اللہ العظمیٰ حائری ؒ نے تقریبا سو ایسے شاگرد تربیت کئے جو آسمان علم و فقاہت پر سورج چاند بن کر دمکے اور چمکے جنمیں رہبر کبیر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد رضا گلپایگانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد علی اراکی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔

بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں کہ آپ نے آیۃ اللہ العظمیٰ خمینی ؒ جیسا شاگرد تربیت کیا کہ جس نے نہ صرف قم بلکہ پوری دنیا میں دین اسلام اور مذہب اہلبیت ؑ کی عظمت کو نہ صرف پہچنوایا بلکہ دنیا سے اقرار بھی کرا لیا۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ حوزہ علمیہ کی بقا اور دوام کی خاطر سیاست سے دور رہتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ جب تک لوگوں میں علم و شعور نہیں ہوگا کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی لہذا پہلے علم و شعور کی تربیت کی جائے اور اس کا اہم ذریعہ حوزہ علمیہ ہے۔ اگرچہ ظاہرا آپ نے نہ عراق میں کسی سیاسی تحریک میں شرکت کی اور نہ ہی ایران میں لیکن امام خمینی قدس سرہ جیسے شاگرد تربیت کئے جنہوں نے نہ صرف ظالم پہلوی شہنشاہیت کو ختم کیا بلکہ عالمی استعمار کو بھی للکارا۔ طلاب سے محبت، انکی دل جوئی، مدد اور انکے لئے سہولتیں فراہم کرنا آپ کا خاصہ تھا۔ نہ صرف طلاب بلکہ عام مومنین کی بھی مدد اور خبر گیری بھی آپ کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہے۔

نظام حوزوی تعلیم کی تجدید اور اصلاح

آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۴۸–۱۳۱۵ھ ش) کی جانب سے ۱۳۰۱ھ ش میں حوزہ علمیہ قم کے قیام کو آج ایک صدی مکمل ہو رہی ہے۔ یہ صدی، نہ صرف ایران میں نظام حوزوی تعلیم کی تجدید و اصلاح کی گواہ ہے بلکہ عالمِ تشیع میں ایک نئے فکری، اجتماعی اور سیاسی دور کے آغاز کا نشان بھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۴۸–۱۳۱۵ھ ش) کی جانب سے ۱۳۰۱ھ ش میں حوزہ علمیہ قم کے قیام کو آج ایک صدی مکمل ہو رہی ہے۔ یہ صدی، نہ صرف ایران میں نظام حوزوی تعلیم کی تجدید و اصلاح کی گواہ ہے بلکہ عالمِ تشیع میں ایک نئے فکری، اجتماعی اور سیاسی دور کے آغاز کا نشان بھی ہے۔

امام حسین علیہ السلام سے عشق

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ کی جہاں اہم خصوصیت تزکیہ نفس تھی وہیں اہلبیت علیہم السلام خصوصا امام حسین علیہ السلام سے آپ کا والہانہ عشق بھی زباں زد خاص و عام ہے۔ آپ کا دستور تھا کہ فقہ کے درس سے پہلے کوئی شاگرد اہلبیت علیہم السلام کے مصائب بیان کرتا اسکے بعد آپ درس دیتے تھے۔ مجالس عزا اور جلوس عزا میں شرکت کرتے بلکہ سامرا میں دوران قیام نوحہ خوانی بھی فرماتے تھے۔ آپ فرماتے تھے "میرے پاس جو کچھ ہے امام حسین علیہ السلام سے ہے۔"

بزرگ اساتذہ نے بیان کیا کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو نیت سے پہلے کربلا کا رخ کر کے فرماتے"۔صلی الله علیک یا ابا عبد الله اشهد انک قد اقمت الصلوة." فرماتے تھے یہ نماز امام حسین علیہ السلام کے سبب قائم ہے۔

عزاے فاطمی کی سہ روزہ مجالس کے انعقاد کے علاوہ مجالس عزا میں خطاب بھی فرماتے۔

پہلے علماء منبر پر بہت کم جاتے تھے۔ بلکہ ذاکرین ہی آتے تھے۔ آپ کا نظریہ تھا کہ منبر اہل علم کا مقام ہے لہذا اہل علم ہی منبر پر آئیں تا کہ منبر صرف گریہ و عزاداری ہی نہیں بلکہ مقصد عزا کے رواج اور انسانی تربیت کا ذریعہ بن جائے۔ ظاہر ہے جب منبر اہل علم سے خالی ہوگا تو وہاں سے علم کی توقع عبث ہے۔ نتیجہ میں لوگ منبر کو خفیف اور رسم ہی سمجھیں گے آپ جہاں تدریس فرماتے تھے وہیں منبر سے تبلیغ بھی فرماتے تھے۔

افسوس یہ آفتاب علم و فقاہت ۱۷ ذی القعدہ ۱۳۵۵ ہجری کو قم میں غروب ہو گیا اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا روضہ مبارک آپ کا آخری مسکن قرار پایا۔ آج آپ نہیں ہیں لیکن آپ کی کتابیں تشنگان علم کے لئے آب زلال ہیں۔ آپ کے قائم کردہ حوزہ علیہ قم کی بین الاقوامی دینی خدمات آپ کے باقیات الصالحات میں شامل ہیں[18] ۔

اخلاقی خصوصیات اور سماجی خدمات

حائری یزدی خوش اخلاق، شوخ طبع، معتدل، ظاہرسازی اور ریاکاری سے دور تھے۔ انہوں نے شرعی وجوہات کے استعمال میں انتہائی احتیاط برتی اور سادگی اور زہد کا طریقہ زندگی اختیار کیا۔[19] طلابہ کی فلاح و بہبود: انہوں نے طلابہ کی زندگی کے حالات اور ان کی پریشانیوں کے حل پر خصوصی توجہ دی۔ انہوں نے خود طلابہ کی حجروں کا دورہ کیا، ان کی مطالعے کی کوششوں اور کارکردگی کا جائزہ لیا، اور محنت کرنے والوں کو حوصلہ افزائی کی۔[20] عام فلاحی کام: حائری یزدی عوام کی آسائش اور فلاح پر توجہ مرکوز کرتے تھے اور ان کی پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے کام کرتے تھے۔ ان کے اہم عام فلاحی کاموں میں قم میں سہامیہ ہسپتال کی بنیاد اور قم میں فاطمیہ ہسپتال کے قیام کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔[21] اہل بیت (ع) سے محبت: حائری یزدی اہل بیت (ع) سے انتہائی محبت رکھتے تھے اور جوانی میں سامرا میں اس مناسبت کے نوحہ خوان بھی تھے۔ انہوں نے فاطمیہ کے موقع پر سوگواریاں بھی منعقد کیں۔[22] اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی ایک ذمہ دار اور معاشرتی طور پر فعال شخصیت تھے جنہوں نے طلابہ کی فلاح اور عوام کی آسائش کے لیے کام کیا۔

علمی آثار

"موسوعۃ المحقق الحائری" کے عنوان سے آیت اللہ حاج شیخ عبدالکریم حائری کے علمی آثار ۲۲ جلدوں میں منظر عام پر حوزہ علمیہ قم کے قیام کی صد سالہ تقریبات کے ضمن میں، بانیِ حوزہ علمیہ قم مرحوم حضرت آیت اللہ حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و آثار پر مشتمل ایک ہمہ گیر اور گراں‌سنگ مجموعہ علمی تیار کر لیا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم کے قیام کی صد سالہ تقریبات کے ضمن میں، بانیِ حوزہ علمیہ قم مرحوم حضرت آیت اللہ حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و آثار پر مشتمل ایک ہمہ گیر اور گراں‌سنگ مجموعہ علمی تیار کر لیا گیا ہے۔ اس مجموعے کو "موسوعۃ المحقق الحائری" کے نام سے ۲۲ جلدوں میں مرتب کیا گیا ہے، جس میں خود آیت اللہ حائری کے تالیفات کے ساتھ ساتھ ان کے دروس کی تفصیلی تقریرات شامل ہیں۔

یہ علمی مجموعہ دو جلدوں پر مشتمل مفصل "مدخل" (مقدمہ) کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جو ان کے افکار و آرا اور تدریسی روش پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کار علمی میں ان کے برجستہ شاگردوں نے بھرپور حصہ لیا ہے تاکہ موجودہ نسل ان کے علمی مقام سے بہرہ‌مند ہو سکے۔

اہم جلدوں کا تعارف:

جلد 1 و 2:

آیت اللہ حائری کا تصنیف کردہ "کتاب الصلوۃ"

جلد 3:

استفتاءات کا مجموعہ، جس میں ایک تہائی نئی فقہی آراء شامل کی گئی ہیں

جلد 4:

تین فقہی حاشیے

جلد 5 و 6:

دو جلدی کتاب "دارالفوائد" بمع حواشی

جلد 7 و 8:

تقریرات کی بنیاد پر دو فقہی حواشی، جن میں ایک آیت اللہ میرزا محمود آشتیانی اور دوسرا آیت اللہ شیخ محمدعلی اراکی کا ہے۔

جلد 9 و 10:

کتاب الطہارۃ کی تقریرات، از آیت اللہ محمدعلی اراکی

جلد 11 تا 13:

درس الصلوۃ کی تقریرات، تحریر آشتیانی

جلد 15:

درس نکاح کی تقریرات، آشتیانی کے قلم سے

جلد 16 و 17:

صلات و نکاح پر تقریرات، تحریر آیت اللہ سید احمد شبیری زنجانی

جلد 18:

کتاب المکاسب المحرّمہ اور کتاب البیع کا حصہ، تقریر آیت اللہ ہاشم محمدعلی اراکی

جلد 19:

کتاب البیع کی تقریرات

جلد 20:

کتاب الخیارات، تقریر آیت اللہ حاج شیخ رضا مدنی کاشانی

یہ علمی سرمایہ نہ صرف حوزوی طلباء بلکہ محققین و مؤرخین کے لیے بھی ایک مرجع کی حیثیت رکھتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دائرۃ المعارف جیسے معتبر علمی منابع میں آیت اللہ حائری کے متعلق جو غلطیاں پائی گئی تھیں، انہیں اس مجموعے میں نقد و تحلیل کے بعد درست کیا گیا ہے۔

یہ علمی مجموعہ نہ صرف آیت اللہ حائری کے آثار کا احیاء ہے بلکہ حوزہ علمیہ قم کی علمی عظمت اور اس کے بانی کی فقہی گہرائیوں کا عملی نمونہ بھی ہے، جو نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ بن سکتا ہے[23]۔

حوالہ جات

  1. فیاضی، زندگی‌نامه و شخصیت اجتماعی سیاسی... ، ۱۳۷۸ش، ص۱۱۴-۱۱۵
  2. زنجانی، الکلام یجرّ الکلام، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۱۰۷؛ امینی، مروری... ، ص۲۰، ۳۶-۳۷
  3. مرسلوند، زندگی‌نامه رجال و مشاهیر ایران، ۱۳۷۳ش، ج۳، ص۵۹
  4. حائری یزدی، سرّ دلبران، ۱۳۷۷ش، ص۳۹-۸۰-۸۲-۸۷
  5. شریف رازی، گنجینه دانشمندان، ۱۳۵۲-۱۳۵۴ش، ج۱، ص۵۹، ۸۷ـ ۸۸
  6. جعفر سعیدی (پژوم)، ۱۳۸۶، ص ۵۰
  7. کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۶۱-۶۲؛ حائری، عبدالحسین، ص۱۶۱-۱۶۲
  8. نظام الدین زاده، ص۱۵۴-۱۵۵
  9. شکوری، ص۱۱۶ به بعد؛ امینی، اهتمام... ، ص۱۹۱
  10. دولت آبادی، ج۴، ص۲۸۹
  11. حائری یزدی، مهدی، ص۶۴
  12. شبیری زنجانی، جرعه‌ای از دریا، ج۴، ص۴۹۷-۴۹۸
  13. حائری یزدی، مهدی، ص۸۳
  14. همان، ص65
  15. شریف رازی، گنجینه دانشمندان، ۱۳۵۲-۱۳۵۴ش، ج۱، ص۲۹-۳۰، ۵۳-۵۴؛ امینی، اهتمام... ، ص۱۹۸
  16. آیت اللہ حائری یزدی کی حیات و آثار پر ایک طائرانہ نظر- شائع شدہ از: 24 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 اپریل 2025ء
  17. سورہ یوسف، آیۂ ۹۳
  18. بانیٔ حوزہ علمیہ قم آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ - شائع شدہ از: 17 جون 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 اپریل 2025ء
  19. کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۵۲-۵۴؛ «مصاحبه با حضرت آیت‌الله حاج سید علی آقا محقق داماد»، ص۴۷-۴۸
  20. مصاحبه با حضرت آیت‌الله حاج سید علی آقا محقق داماد»، ص۴۱-۴۲
  21. روزنامه اطلاعات، ۳۰ و ۳۱ فروردین ۱۳۱۰
  22. کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۴۸-۵۰؛ رضوی، ص۱۵۱-۱۵۴
  23. "موسوعۃ المحقق الحائری" کے عنوان سے آیت اللہ حاج شیخ عبدالکریم حائری کے علمی آثار ۲۲ جلدوں میں منظر عام پر- شائع شدہ از: 24 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 اپریل 2025ء