عبقات الانوار (کتاب)

عبقات الانوار (کتاب)
تذکرۂ علامہ میر حامد حسین ؒ صاحب عبقات الانوار کی افادیت
قلم انسان کی فکری و تہذیبی ترقی کا وہ عظیم ذریعہ ہے جس نے انسانی خیالات کو دوام بخشا، علم کو محفوظ کیا اور تمدن و تہذیب کی بنیاد رکھی؛ زبان انسان کا فطری عطیہ ہے، لیکن قلم اس زبان کو تحریری شکل دے کر آنے والی نسلوں تک منتقل کرتا ہے [1]۔ قلم انسان کی فکری و تہذیبی ترقی کا وہ عظیم ذریعہ ہے جس نے انسانی خیالات کو دوام بخشا، علم کو محفوظ کیا اور تمدن و تہذیب کی بنیاد رکھی؛ زبان انسان کا فطری عطیہ ہے، لیکن قلم اس زبان کو تحریری شکل دے کر آنے والی نسلوں تک منتقل کرتا ہے؛ اسی لیے قرآن مجید میں بھی قلم کی قسم کھائی گئی: "ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ" [2]۔
قلم ایک ایسا ہتھیار ہے جو جنگ کے میدانوں کو بھی بدل دیتا ہے، افکار کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ شاعر ہو یا مفکر، عالم ہو یا مصنف، سب کی عظمت کا راز قلم کی نوک میں پوشیدہ ہے۔ قلم نہ صرف علم کا محافظ ہے، بلکہ عدل کا نمائندہ اور امن کا سفیر بھی ہے۔علمی دنیا میں قلم کی افادیت سب پر عیاں ہے۔ مدارس، جامعات اور کتب خانے اسی کی برکت سے آباد ہیں۔ اہل قلم ہی تاریخ کو رقم کرتے ہیں، آئندہ نسلوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور معاشرے کی فکری تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔
عہد حاضر میں ارباب قلم کی قلت آئندہ نسلوں کے علمی اور تحقیقی انحطاط کی دلیل ہے ، ایسے میں اگر کچھ لوگ اپنے قلم کے ذریعہ حقائق و معارف رقم کررہے ہیں اور موجودہ نسلوں کی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ آئندہ نسلوں کی ترقی و کامرانی اور حقائق و معارف سے آشنائی کے وسائل فراہم کررہے ہیں تو ایسے افراد بہر حال لائق صد تحسین و آفرین ہیں۔
برادر عزیز حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شہوار حسین نقوی عہد حاضر میں اپنے قلم حقیقت رقم سے یہی عظیم کارنامہ انجام دے رہے ہیں، آپ کا قلمی سفر کافی طویل ہے، آپ نے حوزۂ علمیہ قم میں درسی مصروفیات کے باوجود بعض اہم قلمی خدمتیں انجام دی ہیں، جن میں سر فہرست ’’تالیفات شیعہ در شبہ قارۂ ہند‘‘ ہے، یہ کتاب فارسی زبان میں۹۴۵ صفحات پر مشتمل ہے اور ۲۰۰۵ میں ایران کے ایک اہم ادارہ ’’دلیل ما ‘‘ سے شائع ہوئی ہے اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں بر صغیر کے شیعہ مصنفین کے علمی آثار اور کارناموں کا تعارف مع ناشر و سنہ اشاعت کے پیش کیاگیا ہے ، اس کتاب کی افادیت و اہمیت کی وجہ سے آپ کو ایران میں ۱۴ سکۂ بہار آزادی (گولڈ مڈل) سے نوازا گیا۔
’’تذکرۂ میر حامد حسینؒ صاحب عبقات الانوار‘‘، مولانا سید شہوار حسین نقوی کی علمی کاوش کا نادر نمونہ ہے جو انہوں نے شیعی دنیا کے مایہ ناز محقق، علامہ میر حامد حسین ہندی کی حیات و خدمات کے تذکرے پر مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب صرف ایک سوانحی خاکہ نہیں بلکہ ایک فکری و تحقیقی دستاویز ہے جس کی شدید ضرورت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ مولانا موصوف نے زیر نظر کتاب تحریر کرکے ایک دیرینہ ضرورت کی تکمیل فرمائی ہے۔
مولانا شہوار حسین نے نہایت سلیقے اور گہرے مطالعے کے ساتھ میر حامد حسین کی علمی زندگی، ان کے زمانے کے حالات، ان کی فقہی و کلامی بصیرت، اور عبقات الانوار کی تالیف میں صرف کی گئی محنت کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں صرف تاریخی حقائق کا بیان ہی نہیں، بلکہ اسلوب بیان میں عقیدت، تحقیق اور فکری تجزیے کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔
تذکرۂ میر حامد حسین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ قاری کو میر حامد حسین کی شخصیت کے صرف ظاہر سے نہیں بلکہ ان کے باطن، ان کی فکری گہرائی اور علمی وسعت سے روشناس کراتی ہے۔ مولانا شہوار حسین نے عبقات الانوار کی تدوین، اس کے علمی مصادر و مراجع، اس کے رد و قبول کے علمی پس منظر اور اس کی امتیازی خصوصیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، جو ایک طالب علم سے لے کر محقق تک کے لیے نہایت مفید ہے۔
کتاب کا اسلوب سادہ مگر مؤثر ہے، زبان و بیان میں شائستگی اور وقار پایا جاتا ہے۔ مولانا نے جس دقتِ نظر سے مواد اکٹھا کیا اور اسے ترتیب دیا، وہ ان کے محققانہ ذوق کا آئینہ دار ہے۔ یہ کتاب اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے ذریعے نئی نسل کو عبقات الانوار جیسے عظیم الشان علمی ذخیرے کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مولانا شہوار حسین نے میر حامد حسین کی زندگی کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے، جو علمی جدوجہد، خلوص، دیانت، اور استقامت کا حسین امتزاج ہے[3]۔
جشن عیدِ غدیر کے موقع پر "عبقات الانوار شناسی کورس" کی اختتامی تقریب کا انعقاد
دفتر نمائندہ ولی فقیہ ہندوستان اور امامت انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے اشتراک سے قم المقدسہ میں "عبقات الانوار شناسی کورس" کی اختتامی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ دفتر نمائندہ ولی فقیہ ہندوستان اور امامت انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے اشتراک سے جشن غدیر اور کتاب عبقات الانوار کی آشنائی کے پہلے کورس کی اختتامی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں اس کورس میں شامل 60 طلباء اور ان کے اہل خانہ اور تقریباً 100 ممتاز طلباء و طالبات نے شرکت کی۔
یہ کورس دفتر نمائندہ ولی فقیہ کی جانب سے اور امامت انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے اشتراک سے انجام پزیر ہوا جس کا دورانیہ 4 ہفتوں پر مشتمل تھا۔ اس دورہ میں اساتید کرام نے برصغیر میں فقہی و کلامی ابحاث کی ابتدا، مدرسہ لکھنؤ کی کلام و عقائد پر مبنی خدمات، علامہ میر حامد حسین (مصنف کتاب مذکور) کی شخصیت اور زندگانی اور کتاب عبقات الانوار کے متعلق آشنائی پر سیر حاصل گفتگو کی۔
اس تقریب کے آغاز میں امامت انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے مدیر نے تبلیغ دینی کے نفاذ میں بین الاقوامی میدان میں سرگرم مبلغین کے بعض مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: جیسا کہ واضح ہے کہ خداوند متعال علی علیہ السلام کے بغیر دین کو اسلام نہیں جانتا لہذاعلماء کرام کو بھی چاہئے کہ وہ حدالامکان اپنے بیانات اور تبلیغ میں ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کا کماحقہ پرچار کریں۔
حجت الاسلام والمسلمین سبحانی نے کہا: ولایت کی پاسداری کے اپنے درجات ہیں اور ہر کسی کے لیے کسی بھی حالت اور شرائط میں کچھ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ طلباء کے لیے امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت سے تمسک کا سب سے اہم مصداق یہ ہے کہ وہ اس مسئلہ میں (بہترین علمی آمادگی کے ساتھ) موجود شکوک و شبہات، ابہامات اور دشمنانِ دین کے مختلف عقیدتی حملوں کے خلاف پہاڑ کی طرح جائیں۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مہدی پور نے عبقات شناسی کورس کی اختتامی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا: غدیر صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے۔ دراصل غدیر میں خالص اسلام کی حقیقت اور اہل بیت علیہم السلام کے مقام و منزلت کو بیان کیا گیا۔ غدیر ہمارے حال اور مستقبل کا مسئلہ ہے کہ جس میں اسلام کے بارے میں تفکر اور جھکاؤ کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے[4]۔
- ↑ تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری
- ↑ سورہ القلم، آیہ 1
- ↑ کتاب ”تذکرۂ علامہ میر حامد حسین ؒ صاحب عبقات الانوار“ کی افادیت-17 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 ستمبر 2025ء
- ↑ جشن عیدِ غدیر کے موقع پر "عبقات الانوار شناسی کورس" کی اختتامی تقریب کا انعقاد- شائع شدہ از: 7 جولائی 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 ستمبر 2025ء