مندرجات کا رخ کریں

شیطانی آیات(کتاب)

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 15:08، 11 جولائی 2025ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) تصغیر|بائیں| '''شیطانی آیات''' سلمان رشدی نے ”آیات شیطانی“ نامی کتاب لکھ ڈالی، خیالی داستان میں بہت ہی نازیبا الفاظ کے ساتھ اسلامی مقدسات کی توہین کی ہے، بلکہ یہاں تک کہ بڑے بڑے انبیاء جن کو سبھی آسمانی اد...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

شیطانی آیات سلمان رشدی نے ”آیات شیطانی“ نامی کتاب لکھ ڈالی، خیالی داستان میں بہت ہی نازیبا الفاظ کے ساتھ اسلامی مقدسات کی توہین کی ہے، بلکہ یہاں تک کہ بڑے بڑے انبیاء جن کو سبھی آسمانی ادیان احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، (جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام) کی شان میں بھی گستاخی، جسارت اور توہین کی ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا اور دنیا بھر میں نشر کیا گیا،اور جس وقت امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے سلمان رشدی کے مرتد ہونے اور اس کے قتل کا تاریخ ساز فتوی صادر کیا، تو استعماری حکومتوں اور اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے ایسی حمایت ہوئی کہ آج تک دیکھنے میں نہیں آئی! چنانچہ اس رویہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس کام میں صرف سلمان رشد ی ہی نہیں تھا اور نہ ہی اسلام کی مخالفت میں لکھی جانے والی کتاب کا مسئلہ تھا، در اصل مغربی ممالک اور صہیونیزم کی طرف سے اسلام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی، اگرچہ ظاہر میں سلمان رشدی نے کتاب لکھی ہے لیکن اس کے پسِ پردہ اسلام دشمن طاقتیں تھیں۔

امام خمینی علیہ الرحمہ

لیکن حضرت امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے اپنے فتویٰ میں استقامت کی اور پھر ان کے جانشین (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی) نے اسی فتویٰ کو برقرار رکھا، نیز اس تاریخی فتویٰ کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے قبول کیا، جس سے دشمن کی سازش ناکام ہوگئی، اور سلمان رشدی آج تک (کتاب کی اس حصہ کی تالیف تک) روپوش ہے، اور اسلام دشمن طاقتیں اس کی مکمل طور پر حفاظت کررہی ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ آخری عمر تک اسی طرح چھپ کر زندگی بسر کرے گا، اور شاید خود انھیں لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوگا تاکہ اس رسوائی سے نجات پاسکے۔

اس بنا پر جو چیز بھی اس طرح کی روایات کی علت ”محدثہ“ یعنی وجود میں لانے والی علت ہے وہی چیزعلت ”مبقیہ“ یعنی باقی رکھنے والی علت بھی ہے، یعنی جو سازش اسلام دشمنوں کی طرف سے شروع ہوئی ہزاروں سال بعد بھی انھیں اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے ایک وسیع پیمانہ پر وہی سازش آج بھی ہورہی ہے۔ لہٰذا اس چیز کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی کہ تفسیر ”روح المعانی“ یا دوسری تفاسیر کی طرح ان روایات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی جائے، کیونکہ ان روایات کی بنیاد ہی خراب ہے، اور بڑے بڑے علما کرام نے ان کے جعلی ہونے کی تاکید کی ہے، لہٰذا ہم ان روایات کی توجیہ کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں،صرف یہاں مزید وضاحت کے لئے چند درج ذیل نکات بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

۱۔ یہ بات کسی دوست اور دشمن پر مخفی نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے آغازِ دعوت سے آخرِ عمر تک بت اور بت پرستی کا شدت کے ساتھ مقابلہ کیا، اور یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس میں کسی طرح کی مصالحت، سازش اور نرمی نہیں کی گئی، لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظر بتوں کی شان میں اس طرح کے الفاظ پیغمبر اکرم (ص) کی زبان پر کس طرح آسکتے ہیں؟ اسلامی تعلیمات کہتی ہیں کہ صرف شرک اور بت پرستی ہی ایک ایسا گناہ ہے جو قابل بخشش نہیں ہے، لہٰذا بت پرستی کے مراکز کو ہر قیمت پر نابود کرنا واجب قرار دیا ہے، اور پورا قرآن اس بات پر گواہ ہے، یہ خود حدیث”غرانیق“ کے جعلی ہونے پر دلیل ہے جن میں بتوں کی مدح و ثنا کی گئی ہے۔

۲۔ اس کے علاوہ ”غرانیق“ افسانہ لکھنے والوں نے اس بات پر توجہ نہیں دی ہے کہ خود سورہ نجم کی آیات پر ایک نظر ڈالنے سے اس خرافی حدیث کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ بتوں کی مدح و ثنا والے جملے: ”تِلکَ الغَرَانیقُ العُلیٰ وَاٴنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرتَجیٰ“ اور آیات ماقبل و مابعد میں کوئی ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ اسی سورہ کے شروع میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ہرگز اپنی خواہش کے مطابق کلام ہی نہیں کرتے، اور جو کچھ عقائد اور اسلامی قوانین کے بارے میں کہتے ہیں وہ وحی الٰہی ہوتی ہے: "وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی # إِنْ ہُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحَی"۔ [1]۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتا ہے اس کا کلام وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے“۔

اور اس بات کا صاف طور پر اعلان ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ہرگز راہ حق سے منحرف نہیں ہوتا، اور اپنے مقصد کو کم نہیں کرتا:" مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی"۔ [2] تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا“۔ اس سے زیادہ گمراہی اور انحراف اور کیا ہوگا کہ پیغمبر آیات الٰہی کے درمیان شرک کی باتیں اور بتوں کی تعریفیں کریں؟ اور اپنی خواہش کے مطابق گفتگو اس سے بدتر اور کیا ہوسکتی ہے کہ کلام خدا میں شیطانی الفاظ کا اضافہ کرے اور آیات کے درمیان کہے:”تلک الغرانیق العلی“؟

مزے کی بات یہ ہے کہ محل بحث آیات کے بعد صاف طور پر بت اور بت پرستوں کی مذمت کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: " إِنْ ہِیَ إِلاَّ اٴَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوہَا اٴَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اٴَنزَلَ اللهُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاٴَنْفُسُ"۔ [3]۔ یہ سب وہ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے طے کر لئے ہیں خدا نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے درحقیقت یہ لوگ صرف اپنے گناہوں کا اتباع کررہے ہیں اور جو کچھ ان کا دل چاہتا ہے“۔

کون عقلمند اس بات کا یقین کرسکتا ہے کہ ایک صاحب حکمت اور باہوش نبی مقام نبوت میں پہلے جملوں میں بتوں کی مدح و ثنا کرے اوربعد والے دو جملوں میں بتوں کی مذمت اور ملامت کرے؟لہٰذا! ان دوجملوں کے تناقض اور تضاد کی کس طرح توجیہ اور تاویل کی جاسکتی ہے؟ پس ان تمام باتوں کے پیش نظر اعتراف کرنا پڑے گا کہ قرآن مجید کی آیات میں اس قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ دشمنوں اور بدخواہ غرض رکھنے والوں کی طرف سے کی گئی ملاوٹ کو بالکل باہر نکال دیتی ہے، اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ ایک غیر مرتبط اور جداجملہ ہے، یہ ہے سورہ نجم کی آیات کے درمیان حدیث ”غرانیق“ قرار دینے کی سرگزشت[4]۔

  1. سورہ نجم، آیہ 3 و 4
  2. سورہ نجم، آیہ 2
  3. سورہ نجم، آیہ 23
  4. 110 سوال اور جواب- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 جولائی 2025ء