تقریب
دار التقریب بین المذاہب الاسلامیہ مصر میں ۱۹۴۶ء میں مرحوم علامہ محمد تقی قمی نے بعض اساتید اور اس زمانے کے الازہر یونیور سٹی کے صدر شیخ مصطفی عبد الرزاق کے تعاون سے دار التقریب کی بنیاد ڈالی تھی ۔
تقریب کا معنی
حالیہ صدیوں کے تقریب کے عظیم معمار مرحوم علامہ محمد تقی قمی کہتے ہیں : ہمارا مقصد فقہی مذاہب کو ایک دوسرے میں مدغم کرنا نہیں ہے ، کیوں کہ اختلاف ایک فطری امر ہے ۔ اور اس قسم کے اختلافات میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہے بلکہ وسعت فکری اور رحمت الٰہی فراہم ہونے کا سبب بن جاتے ہیں [1]۔
بیشک مذاہب کی تقریب ، تمام مذاہب کو ایک کرنے یا کسی مذہب کو کسی دوسرے مذہب میں مدغم کرنے کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ لغت میں لفظ تقریب باب تفعیل سے ہے اور اس کا معنی ایک دوسرے سے دور ہوئی دو چیزوں کو آپس میں نزدیک لانا ہے۔ اس لئے ابتداء میں تبعید کے مفہوم کا تصور پیدا ہوتا ہے اور پھر تقریب تشکیل پاتی ہے ۔
تقریب کا لفظ سابقہ نفرت و دوری کی طرف ایک اشارہ کرتا ہے جو فکری اختلاف اور رائے و نظر کا فرق نہیں ہے ، بلکہ اس کا سبب عقائد میں دو گانگی اور قلبی نیز مقابل کی طرف سے عداوت و دشمنی کا احساس ہے ۔ اگر دو شخص کسی مقرر کی تقریر کو کیسٹ سے سنیں اور اس مقرر تک ان کی رسائی نہ ہو تاکہ اشکالات و ابہامات کو دور کر سکیں۔
اگر یہ دونوں شخص مقرر کی تقریر کی گہرائیوں اور علمی بحث کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں بھی بدظنی نہ رکھتے ہوں اور دونوں شخص مقرر کی تقریر کے مقصد کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے نظر یات کی پیروی کرنا چاہیں ، لیکن بعض جزئیات میں اس کے بیان کے بارے میں جدا جدا تصور رکھتے ہوں تو یہ اختلاف نظر کسی قسم کی دشمنی اور عداوت پیدا نہیں کر سکتا ہے۔
بلکہ پورے اخلاص کے ساتھ ہر ایک دوسرے کے نزدیک اپنا اپنا عقیدہ اور نظریہ رکھ سکتا ہے اور یہ فرق ایک فطری امر ہے اور ضروری نہیں ہے کہ ان دونوں کو ان جزئیات کے بارے میں متحد کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو کچھ مفید بلکہ ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ نظریاتی اختلافات ، دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں عداوت و کینہ میں تبدیل نہ ہوں اور انھیں فکری و اعتقادی اختلافات کا رنگ نہ دیا جائے ۔ دو افراد کی آپسی ہماہنگی ، مفاہمت، احترام کو ٹکراؤ اور لڑائی میں تبدیل نہ کیا جائے اور اس طرح اصل پیغام تحریف و تبدیلی کا شکار نہ ہو جائے ۔
دوریاں کیسے ختم ہوجائے
حق کی تلاش میں قدم رکھنے والے ان دو افراد کے درمیان کشمکش اور ٹکراؤ پیدا ہونے کی صورت میں ، تقریب کے عنوان سے درج ذیل اقدامات کئے جا سکتے ہیں :
- ان دونوں کے درمیان مشترک اعتقادات کا بیان کرنا اور ان کا اہمیت کے مطابق اختلافی موارد سے تطبیق کرنا ۔
- اصل پیغام کی حفاظت کے سلسلہ میں اختلافات اور لڑائی کے نتائج پر غور کرنا ۔
- مقابل کے نظریہ کی قابل قبول توجیہ کرنے کی کوشش کرنا ۔
- ان اختلافات کو ایک لڑائی اور کشمکش میں تبدیل کرنے والے پس پردہ عناصر کے چہروں سے نقاب الٹنا اور ان کے مقاصد کو ظاہر کرنا۔
- پیغام دینے والے کے مقاصد کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے سلسلہ میں خاموشی اور صبر و تحمل کے اچھے نتائج کو مد نظر رکھنا ۔
مذکورہ مطالب اور اسی قسم کے دسیوں مطالب جن کے بارے میں تقریب کے عملی اقدام کے باب میں اشارہ کیا جائے گا ، تقریب کی وہ کاروائیاں ہیں جو طرفین کے درمیان پیدا ہوئے فاصلہ اور دوری کو کم کرتی ہیں اور بدظنی و دشمنی کے موضوع کو ختم کر دیتی ہیں ۔ لیکن وہ تدابیر جو اس قسم کی کشمکش اور ٹکراؤ کو روک سکیں ، یا ٹکراؤ کے وجود میں آنے کی صورت میں تقریب کو وجود میں لانے اور ٹکراؤ کو دور کرنے کے اقدامات انجام دیں۔
اور اختلافات اور ٹکراؤ کو وجود میں نہ آنے دینے کے لئے قبل از وقت اقدامات انجام دینے نیز رکاوٹوں اور بدظنیوں کو دور کرنے کے لئے اپنائی جانے والی حکمت عملی کو تقریب کی اسٹریٹجی کہا جا تا ہے ۔
قطر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد الدسوقی کہتے ہیں : "اسلامی مذاہب کو باہم نزدیک لانا ، یعنی تعصبات کو دور کرنے کی کوشش کرنے اور امت مسلمہ کو مشترک اعتقادات ، عقائد اور دین کی بنیاد وں اور ایک کلمہ پر متحد ہونے کی دعوت دینا تقریب کی اسٹریٹجی ہے" [2]۔
مذکورہ پروفیسر کے ساتھی ڈاکٹر احمد عبد الرحیم السائح کہتے ہیں :"اسلامی مذاہب کے در میان تقریب،یعنی ان اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ملت اسلامیہ کا اتحاد ،جن کے قبول کئے بغیر ایک انسان مسلمان نہیں ہو سکتا ہے اور ان بنیادی اصولوں کے علاوہ دوسری چیزوں پرہمارا نظریہ ٹکراؤ پر مبنی نہیں ہو نا چاہئے بلکہ تحقیقی اور معرفت کی تلاش پر مبنی ہو نا چاہئے۔
اس کے وہ تمام مسلمانوں کے مشترک نکات ،یعنی خدائے واحد ،پیغمبرواحد،قبلہ واحد ،قانون اور کتاب واحد اور ان سب کے درمیان پانچ معروف اصول اور مسلمانوں کے تمام فرقوں کے قیامت پر اعتقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ان مشترکات پر پابندی ہمیں ایک متحدہ امت قرار دیتی ہے کہ ہمارا مقصد ایک ہے اور ہم یکساں رہبری اور اعتقادی روش کے حامل ہیں ۔ کیوں کہ ہم سب اعتقاد رکھتے ہیں کہ زندگی میں ہمارا مقصد اس آیہ شریفہ کی بنیاد پر ہے [3]۔
خدا کی مکمل اطاعت اور بندگی ہے اور اس آیہ شریفہ ( آل عمران /۱۰۳ ) سے الہام لیتے ہوئے خدا وند متعال کے حکم کے مطابق ہماری روش اتحاد و یکجہتی ہے اور خدا کے حکم سے ہماری رہبری خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سونپی گئی ہے اور اصول عقاید میں بھی ہم ہم فکر و متحد ہیں ۔ اس لئے جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے پر خطا اور بدعتی ہونے کی تہمت نہ لگائیں۔
مرحوم آیت اللہ محمد حسین آل کاشف الغطا بھی اسلامی مذاہب کی تقریب کے بارے میں یوں فرماتے ہیں : "اتحاد سیرت و کردار کا مقولہ ہے اور فطری خوبیوں اور صفات کے معنی میں ،رفتار و کردار اور برجستہ اخلاقی اصولوں کی پائداری و پابندی ہے ۔ اتحاد یہ ہے کہ مسلمان اپنی دولت اور سرمایہ سے مشترکہ طور پر قسط و عدل کی بنیادوں پر استفادہ کریں۔
اتحاد کا معنی ایک فرقہ کو دوسرے فرقہ میں مدغم کرنا نہیں ہے اور یہ خلاف عدل و انصاف ہے کہ ہم زوال اور تہمتوں سے دو چار فرقہ کو جو اپنا دفاع کر رہا ہے ، اپنا دفاع کرنے کے سبب اس پر تفرقہ اور کینہ پھیلانے کی تہمت لگائیں ۔ بلکہ ہمیں اس کی بات پر تحقیق کرنی چاہئے اور اگر وہ حق پر ہو تو اس کی مدد کریں ورنہ استدلال کے ذریعہ اسے مطمئن کریں" [4]۔
مسلمانوں کے خلاف دشمن کی سازشیں
جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاتم النبیین کے عنوان سے بیداری کا پیغام پہنچانے کے لئے مبعوث ہوئے ، اسی دن سے اس نئے دین کے خلاف مختلف صورتوں میں دشمنیاں اور کینہ توزیاں نمودار ہوئیں ۔ کینہ و ر ملحد اور مشرکین کبھی اس بات کو نہیں چھپاتے تھے کہ وہ اپنے پرانے دین اور خرافات کی حقارت سے دو چار ہونے پر ناراض اور فکر مند ہیں۔
ورنہ وہ مدعی رسالت اور ان کے پیرؤں سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے اور نئے دین کو حذف کرنے اور جدید فکر کے روش کو ختم کرنے کے سلسلہ میں ہر گفتگو حتیٰ پیغمبری کا دعوی کرنے والے کو مال و دولت اور طاقت کے اعلیٰ ترین منصب عطا کئے جانے کی تجویز کا بھی استقبال کرتے تھے ۔ اس زمانہ میں دین اسلام کو نابود کرنے کے لئے مختلف طریقوں ، من جملہ طمع ، دھمکی ، جسمانی اذیتوں ، ترک موالات اقتصادی ناقہ بندی ، نفسیاتی جنگ اور دسیوں دھمکیوں اور فوجی حملوں کا تجربہ کیا گیا ۔
لیکن ہر دشمن کے لئے ، نفسیاتی جنگ یا داخلی جنگ مقصد تک پہنچنے کا سب سے بے خطر اور فوری طریقہ کار ہوتا ہے ، لیکن اسلامی نظام کے ہوشیار اور آگاہ معمار ، یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظالم قریش کے چنگل سے آزاد ہونے کے پہلے ہی دن مسلمانوں کے درمیان برادری قائم کرکے ، مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق پیدا کرنے ، مہاجر و انصار ، سیاہ و سفید اور غلام و آزاد کے نام سے جنگ و اختلاف برپا کرنے کے دشمنوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
لیکن مختلف بہانوں سے مسلمانوں کے اندر تفرقہ پیدا کرنے کی سیاست اور مسلمانوں کے اذہان میں شک و شبہ ایجاد کرنے کی پالیسی ہمیشہ دشمنوں کے مد نظر رہی ہے اس طرح کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاندانی رفت و آمد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دوسرے افراد سے روابط ، دوسروں کو ذمہ داریاں سونپنا ، مال غنیمت کی تقسیم ، صلح و جنگ کے بارے میں فیصلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہر فیصلہ دشمنوں کی شیطنت آمیز نظروں میں ہوتا تھا۔
اور وہ ان سے نا جائز فائدہ اٹھاکر شک و شبہ ایجاد کرنا چاہتے تھے تاکہ داخلی اختلافات کو ہوا دے کر اپنا الو سیدھا کر سکیں ۔ جن لوگوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شدید جذباتی اور ایمانی لگاؤ کا فتح مکہ میں مظاہرہ کرکے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیرینہ دشمن ابو سفیان کو حیرت میں ڈال دیا تھا ، کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصی سے آپ کے رابطہ اور آپ کے ذاتی فیصلوں کے استحکام یعنی وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى [5]۔
کے بارے میں سوال کرتے تھے ۔ لیکن بہر حال اسلام کی تازہ تشکیل شدہ حکومت کی طوفان سے دو چار کشتی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حکمت عملی اور دور اندیشی سے تمام خطرات کے مقابلہ میں اچھی طرح کنٹرول ہوتی رہی یہاں تک کہ فوجی حملے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے آخر ایام تک آنحضرت صلی اللہ کو فوج کو منظم کرکے جنگ پر روانہ کرنے پر مجبور کرتے رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر خطرہ سے صحیح و سالم بچ نکلے ، یہاں تک کہ سر انجام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا وند متعال کی تبدیل نہ ہونے والی سنت کے تحت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔
لیکن کیا یہ مناسب ہے کہ ہم یہ تصور کریں کہ توحید کے منادی کی رحلت کے بعد دشمنوں کی تمام تلاش و کوششیں اور دھمکیاں ختم ہو گئیں اور تمام دشمن اپنی دشمنی سے پشیمان ہو گئے اور اب اسلام اور قرآن مجید آنحضرت کے نام مبارک کو نشانہ قرار دینے کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ مفاہمت اور مثبت سوچ اور ترقی یافتہ طریقہ کار اپنانے اور انھیں مدد کرنے پر اتر آئے ہیں ؟یا ہمیں باور کرنا چاہئے کہ ان دشمنوں کے ذہنوں میں اسلام کے چراغ کو خاموش کرنے کے عزائم اب بھی موجود ہے۔
تنہا شخص ، جس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور دین اسلام کو نابود کرنے کی دشمن کی سازشوں کو اپنی ہوشیاری اور دور اندیشی سے ناکام بنا دیا وہ تقریب کے حامیوں کے امام حضرت علی علیہ السلام تھے ۔ جیسا کہ آپ ﷼ نے اپنی ایک حکیمانہ تحریر میں یوں فرمایا ہے : میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ دین سے منحرف ہو کر دوسروں کو دین خدا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت اور دین حضرت ابراہیم کو نابود کرنے کی دعوت دے رہا ہے ، پس میں ڈر گیا کہ اگر میں اس وقت اسلام کی نصرت نہ کروں ، تو اسلام میں رخنہ اندازی ہوگی اور اس کی بنیادیں خراب ہو جائیں گی ۔ جو میرے لئے ایک مصیبت ہوگی ، اس لئے میں ابو بکر کے پاس گیا اور اسلام کو درپیش خطرات کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ باطل نے بوریا بستر گول کیا اور نابود ہو گیا اور اللہ کا نام مبارک دشمنوں کے نا پاک عزائم کے با وجود عظمت پا گیا جب کہ امور کو حل و فصل کرنے کی ذمہ داری ابوبکر سنبھالے ہوئے تھے ۔ پس میں نے خیر خواہی کی بنیاد پر ان کا ساتھ دیا اور جس چیز میں خدا کی مرضی تھی ، اس میں پوری طاقت کے ساتھ ان کی پیروی کی “ ( ثقفی ، ۱۳۷۳ ، ج/ ۱، ص / ۳۰۲ ، علامہ مجلسی ، ج / ۲۳ ، ص / ۵۶۸ و ابن ابی الحدید ، ج / ۶ ، ص / ۹۵ )
الازہر یونیور سٹی کے پروفیسر علامہ ڈاکٹر عبد المتعال صعیدی کہتے ہیں ، ” علی بن ابی طالب علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنھوں نے اسلامی مذاہب کے درمیان تقریب کی بنیاد ڈالی ہے وہ جانتے تھے کہ خلافت کے لئے دوسروں کی نسبت زیادہ سزاوار ہیں ، لیکن اس کے باوجود آپ نے ابو بکر ، عمر اور عثمان کے ساتھ متواضعانہ برتاؤ کیا اور ان کی مدد کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی “ ( مجلہ رسالہ الاسلام ، سال سوم ، شمارہ ۴ )
امام علی علیہ السلام نے اس وقت جس فتنہ کے خطرہ کا احساس کیا اور فکر مند ہوئے حضرت ﷼ کے ایک دوسرے بیان میں اس کی منظر کشی یوں کی گئی ہے ۔ ” ابو سفیان جس نے اس سے پہلے ایک شخص کو مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے مامور کیا تھا ) نے جوں ہی خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت اور لوگو ں کے ذریعہ ابو بکر کی بیعت کرنے کی خبر سنی تو وہ مسلمانوں کے درمیان آکر یوں بولا : ” خدا کی قسم میں ایک ایسے شعلہ کو دیکھ رہا ہوں جسے خون کے علاوہ کوئی چیز بجھا نہیں سکتی ہے ۔ کہاں ہیں عبد مناف !ابو بکر کو مسلمانوں کے امور کی ولایت سنبھالنے کا کیا حق ہے ! پس علی و عباس کہاں ہیں ؟ حکومت عبد مناف کی اولاد کے علاوہ کسی اور کو کیوں دی گئی ؟ “ (طبری ۱۳۵۷ ھ ، ج / ۱ ص / ۱۳۳۱ )
اس مکر و فریب اور مگر مچھ کے آنسو بہانے کے بعد ، ابو سفیان ۔ جو ایک لمحہ کے لئے بھی خدا و رسول پر ایمان نہیں لایا تھا ۔ نے یوں کہا : اے علی ﷼ ! ہاتھ بڑھایئے تاکہ میں آپ کی بیعت کر لوں ، خدا کی قسم اگر آپ چاہیں تو میں پیدل و سوار فوج کو ابو بکر کے خلاف جمع کر دوں گا “ امام علی علیہ السلام ( اس کے نا پاک عزائم کو سمجھ گئے اور آپ نے ) ہاتھ بڑھانے سے اجتناب کیا اور یوں فرمایا : ” خدا کی قسم تم فتنہ انگیزی کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے ہو ۔ بے شک تم پہلے سے ہی اسلام کے بد خواہ تھے اور ہمیں تمھاری نصیحت کی ضرورت نہیں ہے “ اس کے بعد ابو سفیان نا امید ہو گیا ، وہ مایوسی کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے اپنے آپ سے چند اشعار گن گنارہا تھا ، جن کا مفہوم یہ تھا :میں نے ایک تیر پھینکا تھا تاکہ نشانہ پر لگ جائے لیکن وہ الٹا پڑا اور کسی نے اس کے لئے گریہ تک نہیں کیا “ ( ایضا طبری ․․․․ )
آج کل کے عالمی ظالموں اور سامراجی طاقتوں کے منافع کے لئے اسلام کا خطرہ عہد رسالت کی نسبت زیادہ ہے کیوں کہ آج مسلمان ممالک کے قدرتی ذخائر ، دولت ، آبادی اور ٹیکنالوجی پر دشمنوں کی للچائی نگاہیں پڑی ہیں اور ظلم کے خلاف اسلام کی پالیسی کی وجہ سے ان میں روز بروز حساسیت اور دشمنی بڑھتی جا رہی ہے ۔ ان کی نظر میں ان کے لئے کامیابی کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ براہ راست مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے عالم اسلام میں تفرقہ پھیلا کر اس کو اندر سے ہی کھوکھلا کر دیں اور زوال اور نابودی سے دو چار کر یں ۔
تقریب ، اسلام کے دشمنوں کی ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے کچھ پروگرام پیش کرتی ہے ۔
۲ ۔ مسلمانوں کی عظمت کا تحفظ
دنیا کی موجودہ آبادی چھ ارب افراد پر مشتمل ہے ۔ اس آبادی کا ایک چوتھائی حصہ مسلمان ہیں ۔ لیکن مسلمانوں کی یہ ڈیڑھ ارب آبادی گزشتہ پچاس سال کے دوران اسرائیل کی صرف تیس لاکھ آبادی کے مقابلے میں عالم اسلام کے جسم کے ایک حصہ یعنی مظلوم فلسطین کا دفاع نہیں کر سکی ہے ۔ کیا اس کا سبب اس کے علاوہ اور کچھ ہے کہ مسلمان اپنے اندر بے بنیاد اختلافات اور مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہونے کے نتیجہ میں اپنی عظمت و عزت کو مخدوش کرکے اپنے آپ کو ناتواں اور کمزور کر چکے ہیں ؟ قرآن مجید فرماتا ہے :<و اعدوا لھم ما استطعتم من قوہ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللہ و عدو کم >کیا آج تک مسلمانوں کے مفکروں کا کوئی اجتماع تشکیل پایا ہے جو ان طعنہ زنیوں ، نفرتوں ، ایک دوسرے کو رد کرنے کے نتائج کے بارے میں غور کرے ؟۔
کیا اس قضیہ سے واضح تر مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ ایک مجموعہ کے آپس میں جدا اور پارہ پارہ ہونا دشمن کو طاقتور بنا کر فرصت اور موقع فراہم کرنے کا سبب بنتاہے تاکہ وہ عظمت اسلام کو نابود کر دیں ؟! کیا وجہ ہے کہ اس متمدن مجموعہ یعنی عالم اسلام میں خطرے کی گھنٹی دیر سے بج رہی ہے اور کئی بار ضرب کھانے کے باوجود مسلمان اس خطرہ سے بیدار نہیں ہوتے ؟ آج مسلمانوں کے ضرب کھانے کے نقاط کو پہچاننا ایک ضروری امر ہے اور اس کے لئے ہوشیاری کی ضرورت ہے ۔
یہودی چاہتے ہیں کہ اپنے افراد کو تمام دنیا سے جمع کر کے ، حتی مسیحیت اور صہونیت کو بھی اپنے ساتھ ملا کر ، اور عیسائیوں کے ساتھ اپنی دیرینہ اور بنیادی دشمنی کو فراموش کرکے اپنے اصلی دشمن ، یعنی اسلام کے خلاف صف آرا ہو جائیں ۔
اسرائیل کے جوہری گودام میں تین سو ایٹم بمب کس لئے ذخیرہ کئے گئے ہیں ؟شارون نے مدتوں تک مخفی رکھنے کے بعد ۲۰۰۴ ءء کے اوائل میں جوہری سرگرمیوں کے بارے میں راز فاش کرتے ہوئے کہا : ” امریکہ ، ایران کی طرف سے پیش آنے والے خطرات اور اسرائیل کی موجودیت کی مخالفت کرنے والے دوسرے ممالک سے مقابلہ کرنے کے لئے اسرائیل کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے اس کی حمایت کرتا ہے “ ( سائٹ اطلاع رسانی فلسطین )
کیا یہ سزاوار ہے کہ مسلمان بھی دشمن کے ہم نوا بن کر ، اسلامی معاشرہ کی شوکت و عظمت کو دھچکہ پہنچائیں اور اس زخم دیدہ پیکر کے متحد اعضاء کو ایک دوسرے سے جدا کریں ؟ درخشاں برتری و عظمت صرف خود پرستی کو فراموش کرنے سے حاصل ہوتی ہے ۔ تقریب کے عظیم استاد الازہر یونیور سٹی کے رئیس علامہ شیخ محمود شلتوت
کہتے ہیں :
” مذاہب کو شیعہ و سنی میں تقسیم کرنا ، صرف نام کی ایک اصطلاح ہے ، ورنہ تمام مسلمان اہل سنت ہیں ۔ کیوں کہ سب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت اور آپ کے دستورات پر عمل کرنا واجب جانتے ہیں “ ( بی آزار شیرازی ۱۳۷۷ ، ص / ۳۵۲ )
شمالی لبنان کے سنی قائد علامہ شیخ سعید شعبان کہتے ہیں :
”میں نہیں سمجھتا کہ ہم مسلمانوں کے مانند کبھی کسی قوم کے لوگ مشکلات سے دو چار ہوئے ہوں ۔ باوجودیکہ حق ہمیشہ ثابت ، پائدار اور واضح ہے ، لیکن امریکہ نے ہمیشہ ملت مسلمہ سے کھیل کیا ہے ۔ ہمارے دشمن ہمارے اختلافات کے دریچہ سے ہم میں نفوذ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ․․․ میں کبھی اس بات کو نہیں بھول سکتا کہ میرے بچپن میں بیروت میں شیعہ اور سنی ایک ہی مسجد میں ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ان کے درمیان کوئی اختلاف رو نما نہیں ہوتا تھا ․․․ جی ہاں ! ہماری نظر میں ایسا ہی اسلام دین واحد ہے ۔ کیا آپ ضلالت کے شیخ کو پہچاننا چاہتے ہیں ؟ جو مسلمانوں کے اختلافی نقاط کو شمار کرتا ہے ، وہ ضلالت کا شیخ ہے اور جو ان کے درمیان اتحاد و اتفاق کا طریقہ کار سکھاتا ہے اسے ہدایت کا شیخ کہا جاتا ہے ۔ کتاب جاء دو رالمجوس کی دوسری جلد میں لکھا گیا ہے کہ شیخ سعید شعبان شیعہ ہو گئے ہیں اور انھوں نے اپنی بہن اور بیٹی کی شادی شیعہ کے ساتھ کی ہے ۔ اس مطلب کو اس کتاب کے مصنف نے بیان کیاہے ۔ لیکن میں اس وقت آپ سے کہتا ہوں کہ میں کبھی سنی نہیں تھا کہ شیعہ ہوتا ، بلکہ میں اول سے ہی مسلمان تھا اور جانتا تھا کہ اسلام خدا کا دین ہے ۔ ” ان الدین عند اللہ الاسلام “ ” و من یتبع غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ ۔۔۔ “ ( ملحمہ الوحدة ، ص / ۱۷ )
بہر حال، تقریب ، مسلمانوں کی عظمت اور یکجہتی کی محافظ ہے اور دشمنوں کے دماغ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی فکر کو دور کرتی ہے ۔ جس معاشرہ کے لوگوں میں اسلام کے علاوہ کوئی اور نشانی نہ ہو ، وہ دشمنوں کے نفوذ کی گزرگاہوں کو بند کر دیتے ہیں تاکہ دشمن وہاں سے مسلمانوں کے متحدہ صفوف پر حملہ نہ کر سکیں ، اس کے بر عکس اگر وہ جزئی مسائل اور اختلافات کو ابھاریں تو دشمن کے حملہ کے لئے راستے کھل جاتے ہیں ۔
۳ ۔ دشمنان اسلام کی طمع کو ختم کرنا
اگر ہم اسلام کی حادثوں سے بھری تاریخ کی کتاب کی ورق گردانی کریں ، تو ہر جگہ پر درندہ صفت بھیڑیوں کے قدموں کے نشان پاتے ہیں جنھوں نے دین محمدی کے پیرؤں پر خوں خوار حملے کئے ہیں ۔ مرحوم علامہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطا کہتے ہیں :
” آج مسلمانوں میں ہر بہرا اور گونگا شخص بھی آسانی کے ساتھ سمجھتا ہے کہ عالم اسلام کے ہر نقطہ پر ، مغربی مگر مچھوں میں سے ایک مگر مچھ اور سامراجی اژدھاؤں میں سے ایک اژدھا منھ کھولے بیٹھا ہے تاکہ مسلمانوں کی سر زمین کے ایک ٹکڑے کو نگل لے ۔ کیا یہ خطرہ مسلمانوں کے متحد ہونے کے لئے کافی نہیں ہے تاکہ ان کے عزم و ارادہ اور غیرت کو شعلہ ور کرے ؟ کیا یہ درد اور مصائب و آلام انھیں اتحاد و اتفاق بر قرار کرنے اور آپسی رنجشوں اور کینہ کو فراموش کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے ؟ جب کہ کہا جاتا ہے کہ مصیبتوں میں کینے فراموش ہو جاتے ہیں “ ( حول الوحدہ الاسلامیہ ، ص / ۳۷ )
مسلمانوں کی سر زمین قدرتی ذخائر اور ثروت سے سر شار ہونے کی وجہ سے ہمیشہ استعماری ظالموں کی طمع و لالچ کا نشانہ بنی رہی ہے ۔ دنیا کے تقریبا ستر فیصد تیل کے قدرتی ذخائر مشرق وسطیٰ میں پائے جاتے ہیں ۔ بر اعظم افریقہ کا ایک عظیم اور اہم علاقہ تمام ثروت و ذخائر کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور یورپ اور امریکہ میں بھی مسلمانوں کی آبادی قابل توجہ ہے ۔ صرف ایک چیز اسلامی ممالک پر قبضہ کئے ہوئے اور امن کے نام پر نا امنی پھیلانے والے مسلح ڈاکوؤں کی للچائی آنکھوں کو اندھا بنا سکتی ہے ، اور وہ مسلمان قوموں کی یکجہتی ہے ۔ مسلمانوں کا آپسی اتحاد وہ اہم ترین ہتھیار ہے جو مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتا ہے ۔
جی ہاں ! انتہائی تعجب خیز بات ہے کہ ، صدر اسلام کے مسلمانوں نے خالی ہاتھ ، وقت کی دو بڑی سامراجی طاقتوں ، یعنی ایران اور روم پر غلبہ پانے میں کامیابی حاصل کی ، لیکن آج اتنے وسائل کے با وجود ہر روز اسلامی ممالک کے ایک حصہ کو ظالم کاٹ کر لئے جاتے ہیں ۔اسلامی ممالک کے بارے میں دشمنوں کی طمع و لالچ مندرجہ ذیل چار چیزوں میں خلاصہ ہوتی ہیں ۔
الف ) ۔ مسلمانوں میں ظلم کا مقابلہ کرنے اور استعمار کی مخالفت کرنے کا کھرا عقیدہ ۔
ب ) ۔ اسلامی ممالک کی مشرق و مغرب تک رسائی اور قدرتی منابع سے مالا مال ہونے کی وجہ سے حساس حیثیت ۔
ج ) ۔ دنیا کی آبادی کی قابل توجہ انسانی طاقت ۔
د ) ۔ مسلمان دانشوروں اور محققین کی سائینس اور ایجادات میں روز افزوں ترقی اور مسلمانوں کا
متمدن ہونا ۔
۴ ۔ پیغمبر اتحاد سے قلبی لگاؤ:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام مسلمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت رکھتے ہیں اور آپ کو اپنی اولاد اور ناموس سے بھی زیادہ دوست رکھتے ہیں ۔ آپ امت کے باپ ، نبی رحمت اور سر تا پا رؤوف و مہربان تھے ۔ اگر ایک خاندان میں ، فرزندوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے اور لڑائی جھگڑا کر یں ، تو بے شک خاندان کے سر پرست کے دل میں غم و ملال پیدا ہوگا اور وہ دل آزردہ ہوں گے ۔ کیا وہ وقت نہیں آیا ہے کہ مسلمان آپس میں اتحاد و اتفاق کرکے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوشحال کر دیں جو ” حریص علیکم “ ( توبہ / ۱۲۸ ) تھے اور اسلامی معاشرہ کی سر بلندی کے لئے اتنی کوشش کرتے تھے کہ خدا وند متعال نے فرمایا : ” طہ ، ما انزلنا علیک القرآن لتشقیٰ “( طہ / ۱ و ۲ ) ؟ یقینا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اختلاف و افتراق سے راضی نہیں ہےں۔
مسلمانوں کے اتحاد کے بارے میں خدا وند متعال فرماتا ہے : ” واعتموابحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا “ ( آل عمران / ۱۰۳ ) ” و اطیعوا اللہ و رسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم “ (انفال / ۴۶ ) ” ولا تکونوا کالذین تفرقوا و اختلفوا من بعد ماجاء ھم البینات و اولئک لھم عذاب عظیم “ ( آل عمران / ۱۰۵ )
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :
” ما اختلف امة بعد نبیھا الا ظہر اھل با اطلھا علی اھل حقھا“ ( ہندی ، حدیث / ۹۲۹ )
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
” لا تختلفوا فان من کان قبلکم اختلفوا فھلکوا “ ( ہندی ، حدیث / ۸۹۴ )
اور امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے :
” و اللہ لاٴ ظن ان ھو لاء القوم سید الون منکم باجتماعھم علی باطلھم و تفرقکم عن حقکم “ ( نہج البلاغہ ، خطبہ / ۲۵ )
بیشک آج اس بات کی ضرورت ہے کہ امت مسلمہ اپنے اندر موجود اختلافات سے چشم پوشی کرکے اتحاد و اتفاق کی حفاظت کرے اور اس مقصد کے لئے انجام دی گئی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محنتوں اور زحمتوں کی قدرکرے ۔
قطر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد الدسوقی کہتے ہیں :
” فقہ کے حکم سے اسلامی اتحاد شرعا واجب ہے اور یہ صرف ایک ترغیبی عمل نہیں ہے کہ اس کی طرف رضا کارانہ دعوت دی جائے بلکہ یہ کام ایک واجبی عمل ہے کہ خدا کی وحدانیت اور پیغمبر خد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کے معتقد ہر مسلمان کو اس کا پابند ہونا واجب ہے ، یہ تمام مسلمانوں سے متعلق ہے اور قیامت کے دن اس کے بارے میں ان سے سوال کیا جائے گا ۔ اسی لئے جو چیز اتحاد سے مربوط ہو وہ بھی واجب ہے ۔ کیوں کہ جس چیز سے امر واجب وابستہ ہو ، وہ ضروریات میں سے ہوتی ہے اور تقریب کی ذمہ داری دانشوروں پر ہے ، کیوں کہ عام لوگ ان کے تابع ہوتے ہیں “ ( علی دروب التقریب ، ص / ۵۹ )
۵۔ اسلامی ممالک کی یونین کی تشکیل
شہید ڈاکٹرعبد العزیز رنتیسی ایک مقالہ میں ، عالم اسلام کے درد اور مشکلات کو بیان کرنے کے بعد
کہتے ہیں :
” اسلام کے احیاء کے لئے ہمیں اسلامی ممالک کی یونین تشکیل دینی چاہئے “ وہ کہتے ہیں : ” اسلامی ممالک کے امور میں اجنبیوں خاص کر امریکہ کی مداخلت اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ یہ جارح ملک عربی اور اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنسوں کے بیانیہ کے بارے میں اپنے نظریات پیش کرنے کو اپنا حق جانتا ہے ۔ امت اسلامیہ کے دشمن کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات پیدا کئے جائیں ۔ افغانستان اور عراق میں رو نما ہونے والے حوادث اس امر کے شاہد ہیں ۔ حتی فلسطین کی خود مختار تشکیلات کو فلسطین کی مقاومت خاص کر اسلامی مقاومت کی تحریک ”حماس “ کے خلاف اکسایا جاتا ہے ۔ وہ راہ جس کی روشنی میں ہم مسلمانوں کی پراکندگی کو متحد کر سکیں ، اسلامی ممالک کی یونین کی تشکیل ہے ۔ اگر اس سلسلہ میں ایک رائے شماری انجام دی جائے ، تو معلوم ہو گا کہ مسلمان اس سلسلہ میں متحد و موافق ہیں “ ( سائٹ مرکز اطلاع رسانی فلسطین )
تقریب کی اسٹریٹجی
عام طور پر آج تک جن محققین نے تقریب کے موضوع پر قلم فرسائی کی ہے یا تقریریں کی ہیں ، انھوں نے زیادہ تر اتحاد کے فضائل بیان کرنے اور یکجہتی کی ضرورت کے سلسلہ میں تاکید کرنے پر اکتفا کی ہے ، لیکن کسی تعمیری نتیجہ تک نہیں پہنچے ہیں اور اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کا کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا ہے ۔ ہم اسلامی اتحاد کے سلسلہ میں کی گئی کوششوں کی قدر دانی کرنے کے ضمن میں عصر حاضر کی اس فکری تحریک کے قائدین سے درخواست کرتے ہیں کہ اسٹریٹجی کو اتخاذ اور بیان کرنے کے بعد ایک عملی منصوبہ مرتب کریں انتظامی کمیٹیاں تشکیل دیں اور تقریب کے مقاصد تک پہنچنے کے لئے انھیں فعال کریں اور مذاکرات کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کو بھی آگے بڑھائیں ۔
ہم نے نظری بحث میں تقریب کے مقاصد بیان کئے اور اس سے پہلے اسٹریٹجی اور تقریب کے معانی بیان کئے ۔ اب ہم یہاں پر مذاہب اسلامی کی تقریب کے طریقہ کار کی سیاست ( یا اسٹریٹجی ) کو بیان کریں گے اور اس کے بعد اس طریقہ کار کے پیش نظر تقریب کے مقاصد تک پہنچنے کے منصوبوں پر عمل کے طریقوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے ۔
۱ ۔ تشنج کو دور کرنا
اسلام کے دشمنوں نے آج تک کوشش کی ہے کہ آیت اللہ بلژیکی ، شیخ حسن آلمانی اور شیخ یوسف فرانسوی جیسے نامعلوم اور جعلی شخصیتوں کے ذریعہ جذبات کو ابھار کر اور بظاہر تاریخ اسلام بیان کی جانے والی محفلوں کو منعقد کرنے کی داستانیں گڑھ کر مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دیں ۔ ان کا مقصد مسلمانوں کے جذبات کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانا ہے تاکہ اختلاف ، افتراق اور لڑائی چھگڑے کا ماحول پیدا کریں اور اس لڑائی میں طرفین کی ہمت افزائی کرکے اپنا الو سیدھا کریں ۔
دوسری طرف خلفائے راشدین نے ایک دوسرے کے نام اپنے بچوں پر رکھ کر آپس میں شادی بیاہ کرکے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد جس شخص سے اسلامی معاشرہ کو ادارہ کرنے کے سلسلہ میں اختلاف نظر رکھتے تھے ، اس کی حمایت میں شرکت کرکے اختلافات کو دور کرتے تھے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرتے تھے ، اور اس کے بعد ائمہ اربعہ نے بھی اسی طریقہ کار اور سنت کی رعایت کی ہے اور یہاں تک کہ اس امام کے پیچھے بھی نماز پڑھتے تھے جس کے فتویٰ سے اختلاف نظر رکھتے تھے ۔ ۱#
اگر چہ کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ ” سئل عن بعض الشافعیة عن حکم الطعام الذی وقعت علیہ قطرة نبیذ فقال یرمی لکلب او حنفی “ لیکن قطعا، سوال و جواب کرنے والے شافعی و حنفی کے دشمن اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مخالف تھے ۔ یا اگر لکھا گیا ہے کہ ” سئل عن حنفی ھل یجوز للحنفی ان یتزوج المراٴة الشافعیة فقال ان ذلک لا یجوز لانھا یشک فی ایھا نھا “ یہ ساری چیزیں یا دوستوں کی جہالت کی وجہ سے یا دشمنوں کی شیطنت کی وجہ سے ہیں کہ معاشرہ کے ایک پیکر کو تکلیف اور اذیت پہنچانا پسند کرتے ہیں تاکہ ان پر ناامنی اور کشمکش مسلط کریں ورنہ آگاہ رہبر اور پرہیزگار اور وحی سنت کے قائل رہبر اور علماء کبھی ایسا کلام زبان پر نہیں لاتے ہیں اور ان کا اختلاف نظر لڑائی جھگڑا اور ایک دوسرے کی توہین کا سبب نہیں بنتا ہے
امامیہ بھی فقہائے اربعہ کو مجتہد جانتے ہیں جن سے صواب و خطا والے فتوؤں کا صادر ہونا ممکن ہے ۔ اگر چہ وہ خود ان پر عمل نہیں کرتے ہیں لیکن انھیں قابل احترام جانتے ہیں ۔
۱ ۔ جیسے امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھیوں کا ، جو بسم اللہ کے وجوب کے قائل نہیں تھے ، امام مدینہ کے پیچھے نماز پڑھنا جو بسم اللہ کے وجوب کے قائل تھے اور ابو یوسف حنبلی مذہب کا رشید مالکی کے پیچھے نماز پڑھنا ، جب کہ احمد بن حنبل مالک کے برخلاف خون نکالنا مبطل وضو جانتے ہیں اور رشید نے اس وقت حجامت کی تھی اور اسی کے بعد نماز کے لئے گھڑے ہوئے تھے اور یوسف نے ان کے پیچھے نماز پڑھی اور کہا کہ میں کیوں رشید کے پیچھے نماز نہ پڑھوں جب کہ شافعی نے ایک صبح کو ابو حنیفہ کی آرام گاہ کے نزدیک نماز پڑھی اور ان کے احترام میں قنوت بجا نہیں لائے ۔
الازہر یونیورسٹی کے قائدین میں سے ایک ڈاکٹر عبد المجید سلیم کہتے ہیں کہ ” پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب اور ان کے نیک پیرو کار اور مذاہب کے ائمہ ، کبھی کبھار آپس میں اختلاف رکھتے تھے وہ ایک دوسرے کے حجت اور دلیل کو رد کرتے تھے اور اپنی دلیل اور نظریہ کا دفاع کرتے تھے ، لیکن آج تک ہم نے نہیں سنا کہ وہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے تھے اور ایک دوسرے پر تہمت لگاتے تھے ۔ یہ اختلاف نظر کبھی آپسی دشمنی اور کینہ کا سبب نہیں بنتا تھا اور وہ کبھی اپنے نظریات کو ، جن میں وہ اختلاف رکھتے تھے ، اصول و شریعت کی بنیاد نہیں جانتے تھے کہ ان کا مخالف کافر یا گناہ کار ہو ۔ وہ عقائد اور اصول دین میں نظری بحث اور اظہار رائے کا راستہ وسیع ہونے کی حمایت کرتے تھے اور فتنہ کو روکنے اور اتحاد کی حفاظت کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت کی حمایت کرتے تھے تاکہ اپنی عزت ، سعادت اور مقام و منزلت کو اس کی روشنی میں بچا سکیں اور اس وجہ سے وہ ہمیشہ قوی اور آبرو مند ہوتے تھے “ ( مجلہ رسالة الاسلام )
قطر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر احمد عبد الرحیم السائح بھی تشنج اور عیب جوئی کے بغیر اختلاف کے ممکن ہونے بلکہ ضروری ہونے کے بارے میں کہتے ہیں :
” مسلمانوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے کہ آپس میں اختلاف نظر رکھیں ، کیوں کہ اختلاف معاشرہ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے ، لیکن نقصان اس میں ہے کہ نظریاتی اختلاف ایک دوسرے سے جدائی اور دوری جس کی خدا وند متعال نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے ، کا سبب بنیں نہ اس معنی میں کہ اختلاف رائے ایک دستور ہو جس کا خدا نے حکم دیا ہو ، بلکہ اس عنوان سے کہ اظہار نظر میں اختلاف ایک حقیقت ہے ، لوگ مانیں یا نہ مانیں ، اسلام میں مختلف مکاتب فکر کا ہونا فطری اور اچھی بات ہے بلکہ نا قابل انکار چیز ہے ، جب تک اسلام زندہ اور زندوں کا دین ہو اور یہ اختلاف اس لئے ہو کہ دین کی زندگی کو بڑھاوا ملے اور جب تک مسلمان اپنی فکری میراث کو بیان کرنے اور اسے جاری رکھنے کے لئے مجبور ہوں تو اسلامی کلامی مذاہب اور مکاتب فکر کا وجود ضروری ہے ۔ اور یہ مسلمانوں کی مصلحت میں نہیں ہے کہ اسے کچل دیں کیوں کہ دین کی نسبت ایک مسلمان کی بہترین خدمت یہ ہے کہ اس کے بارے میں غور و فکر موجود ہو اور اگر اس میں تجسس اور غور فکر ختم ہو جائے تو اسلام ضعف اور جمود کا شکار ہو جائے گا “ ( علی دروب التقریب ص / ۶۷ )
جی ہاں غور و فکر میں یہ ظرفیت موجود ہے کہ اپنے اندر اختلافات کو قبول کرے اور اخلاص و دوستی کے علاوہ اس میں کچھ نہ ہو ۔ اس سلسلہ میں بہت سے تاریخی نمونے اور مطالب پائے جاتے ہیں ۔
اب ہم تشنج کو دور کرنے کے طریقوں کی ایک فہرست پیش کرتے ہیں :
۱ / ۱ ۔ اسلامی فرقوں کے سر کردہ افراد کی طرف سے دوسرے فرقوں کے خلاف برا بھلا کہنے اور دشنام دینے کی ممانعت۔
قرآن مجید نے دشنام دینا حتیٰ کفر و نفاق کے سرداروں تک کو دشنام دینا منع کیا ہے اور فرماتا ہے :
” ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم “ ( انعام / ۱۰۸ )
امام علی علیہ السلام کو جب یہ اطلاع ملی کہ ان کے کچھ افراد اہل شام کو دشنام دیتے ہیں تو آپ نے
انھیں فرمایا:
” انی اکرہ لکم ان تکونوا سبابین و لکنکم لو وصفتم اعمالھم و ذکرتم حالھم کان اصوب فی القول و ابلغ فی العذر و قلتم مکان سبکم ایاھم اللھم احقن دماء نا و دمائھم “
اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، نے حتیٰ شیطان کو بھی دشنام دینے سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ شیطان کو دشنام دینے کے بجائے ” اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم “ کہنا چاہئے “ ( ہندی ، کنز العمال ، حدیث / ۲۱۲۰ )
۱ / ۲ ۔ دوسرے فرقوں کے سر براہوں کی طرف سے اسلامی فرقوں پر تہمت لگانے کی ممانعت۔
سامراجی طاقتوں اور دشمنان اسلام کے حکم و سرمایہ سے ، اسلامی فرقوں کو ایک دوسرے سے بد ظن کرنے کی غرض سے بہت سی کتابیں شائع کی گئی ہیں جو تہمتوں اور افترا سے بھری ہوئی ہیں اور خوش قسمتی سے ان کے مقابل میں بعض مجاہدوں نے قلم کے جہاد سے بڑے فتنوں کو خاموش کرنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے اور حقائق کو واضح کیا ہے ۔ اس قسم کے مجاہد اور حق کے متوالے محققین کی ہمت افزائی کی جانی چاہئے تاکہ وہ اپنے اس قلمی جہاد کو جاری رکھ سکیں ۔ سنی اور شیعوں کے درمیان اس قسم کے قلم کاروں کی کمی نہیں ہے جو مغلوب شدہ حقائق کو اپنے زور قلم سے حقیقت و انصاف کے روپ میں بدل سکتے ہیں ۔
۱ / ۳ ۔ عالم اسلام کے مفکروں کی طرف سے انتہا پسندی سے نفرت کا اعلان ۔
جب کوئی آگاہ لیکن آلہ کار شخص یا نا آگاہ لیکن ہمدرد شخص اپنے قلم سے امت اسلامیہ کے پیکر پر کوئی زخم لگائے تو اسلامی مفکروں اور مختلف اسلامی گروہوں کو اس زخم کے مرہم کے لئے اقدام کرنا چاہئے اور اس زخم کو خراب ہونے سے بچانا چاہئے ۔ اسلام کے پیکر پر یہ زخم بارہا لگے ہیں اور بارہا انھیں کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ تقریبا ۴۶ سال قبل ، یعنی ۱۳۸۰ ئھ میں جب مجلہ ” رایة الاسلام “ طبع ریاض نے علامہ شیخ محمود شلتوت کے نام ابراہیم الجیہان کا خط شائع کیا تھا اور اس میں شیعہ عقائد اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی توہین کی گئی تھی ، تو آیت اللہ شیخ عبد الکریم زنجانی نے امیر کویت شیخ عبد اللہ سالم الصباح ، کے نام ایک خط لکھا اور اس سے تقاضا کیا تھا کہ نجف اشرف خاص کر حرم امیر المومنین علیہ السلام میں موجود قرآن مجید کے نسخوں اور بالاخص حرم کے خزینہ قرآن مجید میں موجود حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآن مجید کا مشاہدہ کرکے شیعوں پر قرآن مجید میں تحریف کی تہمت یا شیعوں کے پاس موجودہ قرآن کے علاوہ کسی اور قرآن کے وجود کی نفی کرکے شیعوں کے اعتقادات کے خلاف مولف کی دوسری تہمتوں کا ازالہ کریں ۔ دس دن کے بعد امیر کویت نے اس خط کے جواب میں یوں لکھا : ” مجلہ رایة الاسلام “ کے بارے میں ، ۱۵ / ۵ / ۱۳۸۰ ھء کو بھیجا ہوا آپ کا ٹیلیگراف ملا ۔ اس مجلہ میں آپ کے شکوہ کے مورد نظر شخص ( ابراہیم الجیہان ) نے ہمارے دینی بھائیوں کے عقائد پر حملہ کیا ہے اور ہم اس جاہل مفسد کے عمل کی مذمت کرتے ہیں اور جو کچھ آپ جانتے ہیں اس کی تاکید کرنا چاہتے ہیں کہ ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان کا احترام کرتے ہیں ان کی محبت کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ ہیں ۔اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اس کے ( ابراہیم الجیہان ) اس کام نے آپ کی طرح ہمارے جذبات کو بھی مجروح کیا ہے ، کیوں کہ ہم دین کے معاملہ میں متحد ہیں اور اس جاہل کا کام اس میں کسی قسم کا رخنہ نہیں ڈال سکتا ہے ۔ جوں ہی اس کے اس کام کی خبر ہمیں ملی ، ہم نے اسے کویت سے ملک بدر کیا اور ہم سب امید رکھتے ہیں کہ یہ کام پھر سے تکرار نہ ہو ۔ آخر میں فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی بہترین تمناؤں اور زیبا ترین تحیات کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور جناب عالی کی دینی خدمات میں کامیابی کی دعا کرتا ہوں ۔ خدا وند متعال آپ کے سایہ کو بر قرار اور آپ کو محفوظ رکھے “ ( ثابت )
۱ / ۴ ۔ اختلافی نقاط میں سے موافق تعبیروں کا پیش کرنا ۔
فطری بات ہے کہ اسلامی فرقوں ، خاص کر شیعہ و سنی کے درمیان کچھ اختلافات ہیں ، لیکن اختلافی نقاط سے مورد اتفاق زاویوں کو ابھارنا چاہئے تاکہ لڑائی چھگڑے کو روکا جا سکے اور اتحاد و اتفاق کی حافظت کی جائے ۔ سید مرتضیٰ کہتے ہیں : ” تقریبا پانچ سو زیدی مسجد کوفہ میں شیخ مفید کے گرد جمع ہوئے تھے ، زیدیوں میں سے ایک شخص ، جو فتنہ ایجاد کرنا اور شیعوں اور زیدیوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنا چاہتا تھا ، نے شیخ مفید سے مخاطب ہو کر کہا : آپ زید بن علی کی امامت کے بارے میں کیسے توجیہ کر سکتے ہیں ؟! شیخ نے فرمایا: تم میرے بارے میں غلط فہمی سے دو چار ہوئے ہو !کہ میں زید کے بارے میں عقیدہ رکھتا ہوں ، اس کا زیدیوں میں سے کوئی مخالف نہیں ہے ۔ اس شخص نے پوچھا : زید بن علی کی امامت کے بارے میں آپ کا عقیدہ کیا ہے ؟ شیخ نے فرمایا: میں زید کی امامت کے بارے میں وہی چیز قبول کرتا ہوں جسے زیدیہ قبول کرتے ہیں اور جسے وہ مسترد کرتے ہیں اسے میں بھی مسترد کرتا ہوں ۔ پس میں کہتا ہوں کہ زید ، علم و تقویٰ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں پیشوا تھے اور جس امامت کے کے لئے نص اور معجزہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے پاس نہیں تھی اور یہ وہ چیز ہے جس میں زیدیوں میں سے کوئی بھی شخص مجھ سے اختلاف نہیں رکھتا ہے ۔ اس مجلس میں موجود تمام زیدیوں نے شیخ کا شکریہ ادا کیا اور فتنہ و فساد برپا کرنے والے شخص کی شیطنت نا کام ہوئی “ ( آذر شب ، ۱۳۷۹ ، ۲۵ )
۱ / ۵ ۔ افراد کے ذاتی نظریات کو مکاتب فکر کے نظریات سے جدا کرنا۔
تمام مذاہب میں ایسے افراد اور روایتیں موجود ہیں کہ اگر بہانہ تراشی کے نقطہ نظر سے ان کو جانچا جائے تو اتفاق و اتحاد اور تقریب کی بنیادوں کو متزلزل کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن یہ نظریات کسی مکتب کے نصب العین اور اس مکتب سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کے نظریات کی عکاسی نہیں کر سکتے لہٰذا جس طرح شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے دانشوروں کے بیانات میں آیا ہے ، ایک شخص کا نظریہ کتنا ہی اہم ہو ، وہ اس کا ذاتی نظریہ ہے اور فیصلہ کرنے کا معیار اکثریت کا نظریہ ہوتا ہے ۔ اختلافی مواقع پر معمولا معقول اور درمیانی بات مانی جاتی ہے ۔
۱ / ۶ ۔ فیصلہ کرنے کے میدان سے انتہا پسند افراد کو دور کرنا۔
تشنج اور اختلافات کو دور کرنے کے سلسلہ میں طالبانزم کے انتہا پسند موقف اور لوگوں کی جان و مال کے حلال کئے جانے کے فتوے زبردست نقصان دہ ہو سکتے ہیں ۔ فیصلہ کے مراحل اور مقامات پر اس قسم کے افراد کا وجود ، مسلمانوں کی بنیادوں کو نابود کرنے کے لئے دسیوں مسلح لشکر سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اس لحاظ سے سزوار ہے کہ ایسے افراد کو دور رکھنے کے لئے یا ان کی سر گرمیوں کو محدود کرنے کے لئے مختلف طریقوں لابیوں اور منطقی صلاح و مشوروں سے استفادہ کیا جائے ۔
۲ ۔ توانائی کو بڑھاوا دینا
اسلامی معاشرہ ایک طاقتور معاشرہ ہونا چاہئے ۔ اسلامی معاشرہ کا طاقتور ہونا ، دشمنوں کو آپس میں مشغول کرتا ہے اور خود اپنے معاشرہ کے اندر موجود افراد کو تعمیر و ترقی ، علم و ثروت اور ایجادات کو بڑھاوا دینے پر مجبور کرتا ہے ۔ اکثر فضول اور بے بنیاد لڑائیاں اسلامی ممالک کی علمی کمزوری ، جمود اور اقتصادی ناتوانیوں کا نتیجہ ہیں جو دوسروں کے دام میں پھنس جانے کا سبب بن جاتی ہیں جب کہ دنیا بڑی تیزی سے نئی نئی ایجادات اور علمی کمال کی فکر میں ہے ۔ یہاں تک کہ دنیا والے اپنے علمی فریضے اور فلسفی اعتقادات میں روز افزوں تبدیلیاں لا رہے ہیں اور قرون وسطی کے طرز تفکر کو عقلانی ریشنلزم اور پھر تجرباتی رجحان او رمثبت رجحان ، پھر پوسٹ ماڈرن لزم کی طرف بڑھ رہے ہیں ، ان حالات میں کیا وجہ ہے کہ ہم ” ارجلکم “ کے لام کے کسرہ و فتحہ کے اختلاف کی بحث میں الجھے رہیں ؟ !
تقریب کا سیاسی طریقہ کار ، اسلامی معاشرہ کی توانائی کو بڑھاوا دینا ہے اسلامی نظام کے رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مد ظلہ العالی نے بھی مختلف طریقوں سے اپنے پیغامات اور راہنمائیوں میں اس امر کی طرف تاکید اور اشارہ کیا ہے اس سلسلہ میں مجوزہ عملی طریقے حسب ذیل ہیں :
۲ / ۱ ۔ بین الاقوامی اور بین المذاہب یونیورسٹیوں کی تشکیل ۔
۲ / ۲ ۔ جواہری ٹیکنالوجی ، نانو ٹیکنا لو جی اور بایو ٹیکنا لو جی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا ۔
۲ / ۳ ۔ اسلامی ممالک کے درمیان اقتصادی روابط کو وسعت بخشنا اور آپس میں مبادلہ ممکن ہونے کی صورت میں غیر اسلامی ممالک کے ساتھ معاملات انجام دینے سے انجام دینا ۔
۲ / ۴ ۔ کئی ملکوں پر مشتمل اقتصادی آرگنائزیشن کی تشکیل ۔
۳ ۔ معلومات میں اضافہ
ذرائع ابلاغ کے اس دھماکہ خیز زمانے میں طاقت کا سب سے اہم عامل اطلاعات کے وسائل ہیں جارج بوش ( باپ ) اپنی صدارت کے آخر میں کہتا ہے : ” میں امریکہ کے صدر جمہوریہ کے عنوان سے آپ کو اطمینان دلا سکتا ہوں کہ ( لوگوں کے فون ) سننے کی کاروائی بین الاقوامی سطح پر فیصلے لینے کا ایک اہم فیکٹر ہے “ ( مجلہ سیاحت غرب ۴، ص /۴۴ نقل از مجلہ کانفیڈنسل ڈیفینس ، جولائی ۲۰۰۰ ء ء ) اسی طرح اسرائیل نے ۱۹۹۴ ء ء میں اعلان کیا کہ اس ملک کا ۴۰ فیصد بجڈ ثقافتی کاموں کے لئے ہے اور یہ رقم صلح کے زمانے میں بڑھ جائے گی ۔
ثقافتی وسائل ، ذرائع ابلاغ اور تبلیغات سے استفادہ کرنا ، معاشرہ کی کامیابی میں کلیدی رول ادا کر سکتے ہیں ۔ تقریب کا اہم اور حساس پروجیکٹ ٹیکنالوجی ( IT ) سے استفادہ کئے بغیر مطلوبہ مقصد حاصل نہیں کر سکتا ہے ۔ مسلمانوں کے فرقوں کے حدود میں اور اس سے باہر عالم اسلام کی اطلاعاتی اور تبلیغاتی آرایش و نظم ، تقریب کے گاڑی کو صحیح سمت و مقصد تک پہنچانے میں کلیدی رول ادا کر سکتے ہیں اس سلسلہ میں مجوزہ طریقہ کار حسب ذیل ہیں :
۳ / ۱ ۔ اسلامی فرقوں کی ایک دوسرے کی معلومات میں کتابوں ، مقالات اور مجلات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے افزائش۔
۳ / ۲ ۔ مسلمانوں کو دشمنوں کے حالات اور ان کے پس پردہ منصوبوں ، جیسے عظیم مشرق وسطیٰ جہانی سازی اور NPT جیسے معاہدات سے آگاہ کرنا۔
۳ / ۳ ۔ حج کی عظیم کانفرنس سے استفادہ کرنا ۔
۳ / ۴ ۔ مختلف ممالک اور مذاہب کے علماء ، دانشوروں اور محققین کے درمیان روابط کو آسان بنانا تاکہ ایک دوسرے سے ملاقات کر سکیں ۔
۳ / ۵ ۔ مسلمان اقوام کے لئے واحد نصب العین اور منشور شائع کرنا ۔
۳ / ۶ ۔ ہر مذہب سے مربوط اصلی کتابوں کو نئے سرے سے لکھنا اور انھیں ان مطالب سے پاک کرنا ، جو اسلامی مذاہب کی تقریب کے لئے نقصان دہ ہو ں ۔
۳ / ۷ ۔ فکری قانونی اور حقوقی ماحول فراہم کرنا اور اسلامی ممالک کی ایک یونین تشکیل دینا۔
۳ / ۸ ۔ بین الاقوامی معاشروں میں مسلمانوں کی علمی اور قانونی طور پر سر گرم شرکت ۔
۳ / ۹ ۔ ایران ، لبنان ، مصر ، عراق اور دیگر ممالک میں اسلامی مذاہب کے تقریبی حلقوں کو متصل کرنا اور مذاہب اسلامی کی تقریب کی کنفیڈریشن تشکیل دینا ۔
آخری بات
آخر میں ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی اور مخلص پیرؤں کے عنوان سے تقریب کے تمام منادیوں کی کامیابی کی آرزو کرتے ہوئے اس مقدس نظریہ کے مخالفین سے نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ زمان و مکان کے حالات کو درک کریں ۔ سرحدوں کے کھلنے اور حالات بدلنے کے پیش نظر آج جو باطل افراد بدظنی اور دشمنی پھیلاتے ہیں ، وہ ننگے ہو چکے ہیں اور یہ لوگ صرف اسلامی فرقوں میں موجود جاہل اور تنگ نظر افراد ہیں جو اتحاد و اتفاق کے دشمنوں سے ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔ آج حجاز کے مرکز میں شیعوں کی کتابوں کا کافی تعداد میں تبادلہ ہوتا ہے اور یہ کتابیں کتابوں کی بین الاقوامی نمائشگاہ میں باقاعدہ طور پر پیش کی جاتی ہیں ۔ جہاں پر ایک دن شیعوں کے خلاف جھوٹ اور تہمت باندھنے کا مرکز تھا اسی طرح شیعوں کے مرکز یعنی ہم میں اہل سنت کی کتابیںبھری ہوئی ہیں
آیئے ! ہم اپنے آپ کو جاہلوں کی صف سے جدا کرکے مستقبل قریب میں دنیا بھر میں چھا جانے والے دین ، پر یقین کرکے اپنے پروگرام مرتب کریں ، جس کے پھیلاؤ کے احتمال سے دشمن پریشان ہیں ۔ اس دن کی امید کے ساتھ ، جب کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا پرچم پوری دنیا میں سر بلند ہوگا ۔