حوزہ علمیہ قم

حوزہ علمیہ قم عالم تشیع کا معتبر و اہم ترین مرکز علمی ہے جو ایران کے شہر قم میں واقع ہے۔ مکتب و حوزهٔ تعلیم حدیث قم ( کوفه و بغداد سمیت) اِل تشیع کے جہان علم و عرفان کے تین قدیم و معتبر اداروں میں سےیک ہے جس کی بنیاد ثانی جیّد عالم دین و مجتہد عبد الکریم حائری یزدی تھے۔ تب سے آج تک کئی زعیم بدل چکے ہیں۔
تاریخی پس منظر
سنہ 1340 ہجری قمری (1921 عیسوی) میں شیخ عبدالکریم حائری کے توسط سے حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے 8 سال قبل، ایران میں شیخ اسداللہ ممقانی جیسے اکابرین نے شیعہ مرجعیت کی عراق سے ایران منتقلی اور قم یا مشہد میں ایک مستحکم اور مربوطہ حوزہ علمیہ کی تاسیس، کی تجویز پیش کی تھی۔ سلسلۂ قاجار کے اواخر میں ـ حائری کی قم آمد اور حوزہ علمیہ قم کی سطح بلند کرنے کے لیے ان کے اقدامات سے قبل ـ قم میں مقیم بعض علما نے ـ جو علمی لحاظ سے اعلی مراتب و مدارج پر فائز تھے ـ اس سلسلے میں کوششیں کی تھیں لیکن مطلوبہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے۔
میرزا احمد فیض قمی
قم میں حوزہ علمیہ کی تاسیس کے لیے کوشاں علما میں سے ایک اہم شخصیت میرزا محمد فیض قمی ہیں جو سنہ 1333 ہجری قمری میں سامرا سے قم واپس آئے اور سنہ 1336 ہجری قمری سے مدرسہ دارالشفاء اور مدرسہ فیضیہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا جو علمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کی قابلیت کھو چکے تھے۔ انہوں نے طلبہ کو ان دو مدارس میں بسایا اور ان کے لیے وظیفہ مقرر کیا۔
یہ اقدام اس قدر عظیم سمجھا گیا کہ عید غدیر سنہ 1336 ہجری قمری کے دن حرم حضرت معصومہ کے صحن عتیق میں چراغان اور پر شکوہ جشن کا اہتمام کیا گیا [1]۔ اس اہم اقدام کے باوجود اور اس زمانے میں شہر قم میں شیخ ابو القاسم قمی اور میرزا جواد آقا ملکی تبریزی سمیت اعلی پائے کے علما کی موجودگی کے باوجود، م میں عبد الکریم حائری کے دائمی سکونت تک حوزہ علمیہ قم منظم اور مربوط اور مفید و قوی حوزہ اس شہر میں بپا نہ ہو سکا [2]۔
محمد تقی بافقی
قم کے معاصر حوزہ علمیہ کی تشکیل میں شیخ محمد تقی بافقی کی کوششوں کو بھی نظروں سے دور نہیں رکھنا چاہیے۔ شریف رازی کے مطابق، بافقی نے سنہ 1337 ہجری قمری میں قم ہجرت کرکے شیخ ابو القاسم کبیر قمی، شیخ مہدی فیلسوف اور میرزا محمد ارباب جیسے بڑے علما کو ایک منظم و مربوط حوزہ علمیہ کی تاسیس کی رغبت دلائی لیکن ان کی رائے یہ تھی کہ قمی عوام کے جذبات و احساسات کے پیش نظر، حوزہ علمیہ کی تاسیس ایک ایسے با اثر عالم دین کی موجودگی سے مشروط ہے جس کا تعلق قم سے نہ ہو [3]۔
آخر کار محمد تقی بافقی کے اصرار اور میرزا محمد ارباب اور شیخ محمد رضا شریعتمدار ساؤجی، کی وساطت سے حاج شیخ عبد الکریم حائری کو دعوت دی گئی کہ اراک سے قم آئیں اور اس شہر میں ایک منظم اور باضابطہ حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھیں؛ چنانچہ سنہ 1340 ہجری میں قم آئے اور اس شہر میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔ حائری پندرہ سال تک قم میں مقیم رہے اور اپنی اعلی انتظامی صلاحیتوں کے بدولت ایک نہایت طاقتور اور منظم حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔
رضا شاہ پہلوی دور میں حوزہ علمیہ قم کی بقا کے لیے تین مراجع تقلید کی خاموش جدوجہد
آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی کی رحلت کے بعد، جب ایران سیاسی و اقتصادی بحران، جنگِ عظیم دوم، قحط اور بیرونی اشغال جیسے خطرناک حالات سے دوچار تھا، اُس وقت تین عظیم مراجع کرام آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید محمدتقی خوانساری اور آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر – نے باہم مل کر نوپا حوزہ علمیہ قم کو تباہی سے بچایا اور اسے بعد میں آیت اللہ العظمی بروجردی کے سپرد کیا۔
حوزہ کے مستقبل پر خطرات کے بادل
سن 1936ء میں آیت اللہ حائری کی وفات کے بعد ایران شدید سیاسی بحران کا شکار تھا۔ رضا شاہ کی حکومت روحانیت کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی، جبکہ عالمی جنگ کے سبب متفقین (روس، برطانیہ، اور ہندوستانی افواج) ایران میں داخل ہو چکے تھے۔ ملک بھر میں قحط، بدامنی اور بداعتمادی کی فضا چھا چکی تھی۔
تین مرجع تقلید، ایک مشکل مشن

ایسے وقت میں، تین مراجع تقلید نے ایک مشترکہ اقدام کے تحت حوزہ علمیہ قم کی سربراہی سنبھالی۔ آیت اللہ صدر کی تدبیر، آیت اللہ خوانساری کی استقامت، اور آیت اللہ حجت کی حکمت نے حوزہ کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر قائم رکھا، باوجود اس کے کہ حکومت وقت علماء کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوششوں میں سرگرم تھی۔ آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی کے مطابق: "اگر آیت اللہ صدر کی حکمت عملی نہ ہوتی تو رضا شاہ کے دور کی مشکلات میں روحانیت کا تحفظ ممکن نہ ہوتا۔"
جنگِ عظیم دوم اور ایران کی بے بسی
1939ء میں شروع ہونے والی جنگِ عظیم دوم کے دوران ایران نے ابتدا میں غیر جانبداری کا اعلان کیا، مگر متفقین نے جرمن ماہرین کی موجودگی کو جواز بنا کر ۳ ستمبر 1941کو ایران پر حملہ کر دیا۔ حکومت ایران نے وقتی طور پر مزاحمت نہیں کی اور رضا شاہ نے ۲۵ ستمبر کو اقتدار اپنے بیٹے محمدرضا کے حوالے کر کے کنارہ کشی اختیار کی۔
جنگ کے اثرات نہایت تباہ کن تھے
فوج اور پولیس منتشر ہو چکے تھے۔ امن و امان مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ خوراک کی شدید قلت تھی اور قحط نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ عوام کی جان و مال غیر محفوظ ہو چکی تھی[4]۔
استعمار کی سازشیں
متفقین نے نہ صرف ایران کے وسائل پر قبضہ کیا بلکہ دینی اداروں کو کمزور کرنے کے لیے مراجع کے درمیان اختلافات کو ہوا دی۔ ان کوششوں کے تحت آیت اللہ صدر اور خوانساری کو مالی معاملات سے الگ کر دیا گیا، لیکن مراجع کی اجتماعی کاوشوں سے حوزہ کا شیرازہ منتشر ہونے سے بچ گیا۔
مشکلات کے باوجود بقا کی جنگ
تینوں مراجع نے نہایت کٹھن حالات میں حوزہ علمیہ قم کو محفوظ رکھا، لیکن معاشی تنگی، حکومتی دباؤ اور سماجی خلفشار کے باعث وہ اس ادارے کو ترقی کی راہ پر نہیں ڈال سکے۔ نتیجتاً، بعض علمائے کرام نے یہ رائے قائم کی کہ آیت اللہ العظمیٰ سید حسین طباطبائی بروجردی کو قم بلایا جائے تاکہ حوزہ کو ایک مرکزی اور مستحکم قیادت میسر آ سکے۔ آیت اللہ بروجردی کی آمد کے ساتھ ہی حوزہ علمیہ قم نے ایک نئے دور میں قدم رکھا، جس کی بنیاد ان تین مراجع کی خاموش مگر دلیرانہ جدوجہد نے رکھی تھی۔ حوزہ علمیہ قم کی تاریخ کا یہ دور، تین بزرگ مراجع کی بے مثال جدوجہد، جنگی حالات اور سیاسی دباؤ کے باوجود دینی اداروں کی بقا کی ایک روشن
حوزہ علمیہ قم کی سو سالہ میڈیا سرگرمیوں کا جائزہ
حوزہ علمیہ قم کی تاسیس کے سو سال مکمل ہونے کی مناسبت سے ایک عظیم علمی و تحقیقی سیمینار کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس میں حوزہ و یونیورسٹی کے دانشور افراد شریک ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیا کمیٹی کی سرگرمیوں پر مشتمل ایک رپورٹ حجۃ الاسلام و المسلمین برتہ کی زبانی پیش کی گئی ہے۔ حجۃ الاسلام و المسلمین برته نے بتایا کہ کانفرنس کی میڈیا کمیٹی نے سب سے پہلے ایک علمی کونسل تشکیل دی، جس میں ممتاز علمی شخصیات کو شامل کیا گیا۔ اس کونسل نے تین بنیادی محور پر تحقیقاتی فریم ورک تیار کیا:
1. ساختاری جائزہ: مدرسے کے میڈیا سے تعلق کا ادارجاتی مطالعہ۔
2. تحریکی تجزیہ: گزشتہ صدی میں حوزہ کے میڈیا میں کردار کی تاریخ۔
3. تحقیقی رجحان: جدید ذرائع ابلاغ کے تناظر میں حوزہ کی تحقیقی کاوشیں۔
تحقیق کا دوسرا مرحلہ "واقعه نگاری" یا "کرونولوجیکل اسٹڈی" پر مشتمل تھا، جس میں گزشتہ ایک صدی کے دوران حوزہ علمیہ قم کی میڈیا سرگرمیوں کا زمانی تجزیہ کیا گیا۔ اس میں ابتدائی مکتوب میڈیا جیسے رسائل و جرائد سے لے کر آج کے دور کے جدید میڈیا جیسے ریڈیو، ٹی وی، سوشل میڈیا، حتیٰ کہ مصنوعی ذہانت (AI) تک کے ذرائع کا جائزہ شامل ہے۔ تیسرا مرحلہ، نوآوریوں پر مبنی تحقیقی رپورٹوں پر مشتمل ہے۔ اس میں کئی اہم اور دلچسپ موضوعات پر مقالات پیش کیے گئے، جن میں نمایاں عنوانات درج ذیل ہیں:
"رسانہداری حوزویان" (حوزہ علمیہ کا میڈیا کردار): جس پر ڈاکٹر اکبری نے تحقیق پیش کی۔
"میڈیا میں حوزہ و روحانیت کی تصویر": اس پر جناب واعظی نے اپنی تحقیق پیش کی۔
"منبر کا میڈیا تجزیہ": منبر کو قدیم ترین دینی میڈیا کے طور پر جناب حسینی نے پیش کیا۔
اسی طرح، حوزہ کے قومی میڈیا (ریاستی ٹی وی و ریڈیو) میں کردار پر ڈاکٹر جلالی و طوبایی نے مقالہ بعنوان " گزشتہ سو سال میں قومی میڈیا پر روحانیت کی موجودگی کے اقسام کا تجزیہ" پیش کیا۔ میڈیا میں حوزہ کی گفتگو اور تعاملات پر جناب محققی نے تحلیل پیش کی، جبکہ "نبرد روایت ها" یعنی میڈیا بیانیوں کی جنگ اور حوزہ کی عملی شرکت پر جناب پیشاہنگ نے رپورٹ مرتب کی۔
امام خمینیؒ کو اس ساری تحقیق میں ایک مرکزی اور انقلابی میڈیا شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان کے ذریعے "انقلاب کاست" (کاسٹیٹ انقلاب) کو میڈیا انقلابی اقدام کے طور پر جلالی صاحب نے تفصیل سے بیان کیا۔
مزید برآں، حوزہ علمیہ کا دیگر میڈیا اداروں کے ساتھ ادارہ جاتی تعلق اور تعاون بھی تحقیق کا حصہ رہا، جس پر جناب ابراهیمی نے مقالہ پیش کیا۔ میڈیا سرگرمیوں کا سال بہ سال جائزہ، جناب حسینی ہرندی نے پیش کیا، اور آخر میں نوآوریوں پر مبنی مکمل تحقیقی خلاصہ جناب جلالی نے مرتب کیا۔ آخر میں حجت الاسلام و المسلمین برته نے تمام شرکاء کے لیے دعا کی اور علمی توفیقات کی آرزو ظاہر کی[5]۔
- ↑ رسول جعفریان، جریانها و سازمانهای مذہبی ـ سیاسی ایران، ص35
- ↑ شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص138۔
- ↑ شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص1415، 2122
- ↑ پہلوی دور میں حوزہ علمیہ قم کی بقا کے لیے تین مراجع تقلید کی خاموش جدوجہد- شائع شدہ از: 30 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اپریل 2025ء
- ↑ حوزہ علمیہ قم کی سو سالہ میڈیا سرگرمیوں کا جائزہ-شائع شدہ از: 30 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اپریل 2025ء