حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری علیہا السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا سارا مال و دولت اسلام پر قربان کردیا۔ مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: ام المؤمنین حضرت خدیجہ کبری علیہا السلام جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ اور اسلام قبول کرنے والی پہلی خاتون تھیں، بعثت کے دس سال رمضان المبارک کی دسویں تاریخ کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
سوانح عمری
حضرت خدیجہ علیھا السلام مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد خُوَیلد بن اسد اور والدہ فاطمہ بنت زائده تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی ایک نمایاں اور باوقار خاتون تھیں، جنہوں نے کم عمری میں ہی تجارت کا آغاز کیا۔ ان کی دور اندیشی، ذہانت اور معاملہ فہمی کی وجہ سے انہیں "عقلمند خاتون" اور "قریش کی عظیم خاتون" کے القابات دیے گئے۔
حضرت خدیجہ الکبری کے القاب
حضرت خدیجہ علیھا السلام کے معروف القاب طاہرہ، سیدہ نساء القریش، ام المؤمنین، مرضیہ، مبارکہ، ام الیتامی، صدیقہ اور زکیہ ہیں۔ آپ کا نام خدیجہ بنتِ خویلد،والِدہ کا نام فاطمہ ہے [1]۔ آپ کی کنیت اُمُّ الْقَاسِم، اُمِّ ھِند اور القاب الکبریٰ، طاھِرہ اور سَیِّدَۃُ قُرَیْش ہیں حضرت خدیجہ علیہا السلام کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تجارت کے ذریعے تعارف ہوا اور وہ آپ (ص) کی امانت داری اور اخلاق سے بے حد متاثر ہوئیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نکاح کی پیشکش کی، اور دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی اور حضرت ابوطالب (ع) کا خطبہ عقد
خدیجہ مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے حضرت محمد کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ ﷺکی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ ﷺکو شادی کا پیغام بھجوایا۔
جس کو نبی ﷺ نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ نبی ﷺ صرف پچیس سال کے تھے۔ سیدہ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ نبی ﷺ کی ساری کی ساری اولاد سیدہ خدیجہ سے پیدا ہوئی اورصرف ابراہیم جوکہ ماریہ قبطیہ سے تھے جوکہ اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کےبڑے کی طرف سے نبیﷺکوبطورہدیہ پیش کی گئی تھیں۔
وفات کے بعد یاد
سید ہ خدیجہ کی وفات کے بعد نبی ﷺ ان کو بہت یاد کرتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حضور ﷺنے ان کے سامنے حضرت خدیجہ ؓکو یاد کر کے ان کی بہت زیادہ تعریف و توصیف فرمائی تو حضرت عائشہ کے بیان کے مطابق ان پر وہی اثر ہوا جو کسی عورت پر اپنے شوہر کی زبانی اپنے علاوہ کسی دوسری عورت کی تعریف سن کر ہوتا ہے جس پر حضرت عائشہ نے نبی ﷺ کو کہا کہ یا رسول اللہ ﷺآپ قریش کی اس بوڑھی عورت کا بار بار ذکر فرما کر اس کی تعریف فرماتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔
اس کے بعد حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میری زبان سے یہ کلمات سن کر آپ کا رنگ اس طرح متغیر ہو گیا جیسے وحی کے ذریعے کسی غم انگیز خبر سے یا بندگانِ خدا پر اللہ کے عذاب کی خبر سے ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺنے فرمایا :’’ان سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی کیونکہ انہوں نے ایمان لا کر اس وقت میرا ساتھ دیا جب کفار نے مجھ پر ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی، انہوں نے اس وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگوں نے مجھے اس سے محروم کر رکھا تھا[2]۔
سب سے پہلے حُضُورپُرنورصلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے عقدِنکاح میں آنے والی خوش نصیب خاتون ام المؤمنین حضرت سیدتُنا خدیجۃُ الکبری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہیں،، آپ کی ولادت عامُ الفیل سے 15سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ عقدِ نکاح نبیِّ کرِیم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے کردارو عمل سے مُتاثِر ہو کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پیغامِ نکاح بھیجا جسے حُضُورِ انور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قبول فرمایا ، یوں یہ بابرکت نکاح آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمکے سفرِ شام سے واپسی کے2ماہ 25دن بعد منعقد ہوا۔ [3]۔
س وقت حضرت خدیجہ کی عمر مبارک 40 برس تھی [4]۔ رب عزوجل کا سلام ایک بار جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رَسولَ اللہ! صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا برتن لارہی ہیں جس میں کھانا اورپانی ہے جب وہ آجائیں توانہیں ان کے رب کا اور میراسلام کہہ دیں اوریہ بھی خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بناہے جس میں نہ کوئی شور ہو گااور نہ کوئی تکلیف۔ [5]۔
آنحضرت (ص) اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کا خطبہ عقد حضرت ابوطالب (ع) نے پڑھا۔ معروف دیوبندی عالم دین علامہ یوسف بنوری لکھتے ہیں: حضرت حمزہ رشتہ لے کر حضرت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد کے پاس تشریف لائے، رشتہ طے پانے کے بعد ابو طالب نے خطبۂ نکاح پڑھا، اور مہر کی ادائیگی کی ذمہ داری خود اپنے سر لی۔ بعض روایات میں ابوطالب کا یہ خطبۂ نکاح درج ذیل الفاظ میں موجود ہے:
﴿الحمد لله الذي جعلنا من ذرية إبراهيم، و زرع السماعيل، و جعل لنا بلدًا حرامًا، و بيتًا محجوجًا، و جعلنا الحكام على الناس، و أن محمداً بن عبد الله، ابن أخي، لايوازن به فتى من قريش إلا رجح به بركةً، وفضلاً و عدلاً و مجداً و نبلاً وإن كان في المال مقلاً، فإن المال عارية مسترجعة، و ضل زائل، وله في خديجة بنت خويلد رغبة ولها فيه مثل ذلك، و ما أردتم في ذلك فعليّ﴾"
علامہ یوسف بنوری نے ان لوگوں کو جواب دیا ہے جو حضرت ابوطالب (ع) کے ایمان میں شک کرتے ہیں۔ علامہ بنوری نے خطبہ نکاح کے الفاظ بھی ذکر کیے ہیں جن میں اللہ وحدہ لاشریک کا نام لیا گیا ہے۔ اس طرح کا خطبہ مسلمان اور مومن ہی پڑھ سکتا ہے۔ یہ نکاح بعثت سے 15 سال قبل ہوا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ علیھا السلام کی حیات میں کسی اور عورت سے نکاح نہیں کیا۔ حضرت خدیجہ علیھا السلام کی وفات کے بعد بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیشہ ان کی محبت اور قربانیوں کو یاد فرماتے تھے۔
حضرت خدیجہ علیھا السلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزندان کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت خدیجہ علیھا السلام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین بیٹے: قاسم، طیب، طاہر اور چار بیٹیاں: رقیہ، زینب، ام کلثوم اور حضرت فاطمہ علیھا السلام تھیں۔ تاہم بعض شیعہ محققین کے مطابق حضرت فاطمہ علیھا السلام ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کی حقیقی بیٹی تھیں، جبکہ باقی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منہ بولی بیٹیاں تھیں۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور واحد اولاد تھیں، جو آنحضرت کی وفات کے بعد بھی زندہ رہیں۔
اسلام کے لئے ام المؤمنین حضرت خدیجہ کی خدمات
حضرت خدیجہ علیہا السلام اپنے وقت کی سب سے مالدار خواتین میں شمار ہوتی تھیں۔ انہوں نے اپنی دولت کو ضرورت مندوں اور نیکی کے کاموں میں خرچ کیا۔ وہ اپنے قبیلے کے دیگر افراد کے برعکس بت پرستی سے بیزار تھیں اور ہمیشہ حق و حقیقت کی تلاش میں تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو سب سے پہلے حضرت خدیجہ علیھا السلام نے ایمان لایا اور ہر مشکل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیا۔
آپ نے اپنا سارا مال و دولت اسلام کی ترویج کے لیے وقف کردیا۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر قدم پر ساتھ دیا اور شعب ابی طالب میں تین سالہ سخت بائیکاٹ اور محاصرے کے دوران اپنا سب کچھ قربان کردیا۔
انہوں نے اپنی ساری دولت اسلام کی ترویج میں خرچ کردی۔ غلاموں کی آزادی اور یتیموں اور مسکینوں کی مدد کے لیے ان کا سرمایہ استعمال ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا، جتنا خدیجہ علیھا السلام کے مال نے پہنچایا۔"
حضرت خدیجہ علیہا السلام نے دین اسلام کی تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشہ ان کی محبت، ایثار اور وفاداری کو سراہا۔ ان کی وفات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے حد غمگین ہوئے اور اسی سال کو "عام الحزن" یعنی غم کا سال قرار دیا۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام کا صبر، قربانی، وفاداری اور دین اسلام کے لیے خدمات ہر مسلمان عورت کے لیے نمونہ عمل ہیں[6]۔
جود و سخا
نماز سے محبت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نمازکی فرضیت سے پہلے بھی نماز ادا فرماتی تھیں۔ [7]۔ جذبۂ قُربانی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنی ساری دولت حُضُور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے قدموں پر قربان کردی اور اپنی تمام عمر حُضُور اقدس صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی خِدمَت کرتے ہوئے گزار دی۔ [8] ۔ جود و سخا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ ایک بار قحط سالی اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کی وجہ سے حضرتِ حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا تشریف لائیں تو آپ نے انہیں 40 بکریاں اور ایک اُونٹ تحفۃً پیش کیا۔ [9]۔
خصوصیات
- عورتوں میں سب سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانےاسلام قبول کیا [10]
- آپ کی حَیَات میں رسولُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے کسی اور سے نِکاح نہ فرمایا۔[11]
- آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی تمام اولاد سِوائے حضرتِ ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہی سے ہوئی [12]۔
شان ام المؤمنین
شان ام المؤمنین بزبان سیّد المرسلین مکی مدنی سرکارصلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمنے فرمایاکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب لوگوں نے میراانکار کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہیں کے شکم سے اللہ تعالٰی نے مجھے اولاد عطا فرمائی [13] ۔
وصال شریف آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا تقریباً 25سال حُضور پُرنور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمکی شریکِ حیات رہیں۔ آپ رضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا کا وصال بعثت (یعنی اعلانِ نبوت)کے دسویں سال دس رمضان المبارک میں ہوا آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جَنَّتُ الْمَعْلٰی میں مدفون ہیں۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمآپ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی نماز ِجنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی(یعنی شرعاً اس کا آغاز نہ ہوا تھا) ،بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی، آپ کی وفات پر رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم بہت غمگین ہوئے۔[14]۔ جس سال آپ کی وفات ہوئی اسے ’’عام الحزن(غم کا سال)‘‘قرار دیا [15]۔
- ↑ اسد الغابہ،ج 7، ص81
- ↑ سیرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ- شائع شدہ از: 17 نومبر 2026ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 مارچ 2025ء۔
- ↑ المواہب اللدنیہ، ج1، ص101ا
- ↑ الطبقات الکبرٰی ،ج8، ص13
- ↑ بخاری،ج2، ص565، حدیث:3820
- ↑ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری (ع)، رسول اکرم (ص) کی باوفا زوجہ- شائع شدہ از: 11 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 مارچ 2025ء۔
- ↑ فتاویٰ رضویہ،ج 5، ص83
- ↑ سیرت مصطفے، ص95
- ↑ الطبقات الكبرٰى،ج1، ص92ملخصاً
- ↑ الاستیعاب،ج4، ص380
- ↑ مسلم، ص1016، حدیث: 6281
- ↑ المواہب اللدنیہ ،ج1، ص391
- ↑ الاصابہ،ج8، ص103 ملتقطا
- ↑ مدارج النبوت،ج 2، ص465
- ↑ Umm ul Momineen Hazrat Sayyidatuna khadija tul kubra بلال سعید عطاری مدنی-اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 مارچ 2025ء۔