فاطمه کلابیه

ویکی‌وحدت سے
فاطمه کلابیه
ام البنین سلام اللہ علیہا.jpg
نامفاطمه بنت حِزام
تاریخ ولادت5 ہجری قمری
جائے ولادتمدینہ
شهادت64 جمادی الثانی
القاب
  • ام البنین
کنیت
  • ابوالحسن، ابوالسبطین، ابوتراب، ابوالائمه
والد ماجدابوالمجْل حزام بن خالد یا حرام بن خالد
والدہ ماجدہلیلی یا ثمامہ بنت سہیل بن عامر بن مالک
ہمسر
اولاد
  • عباس بن علی
  • جعفر بن علی
  • عثمان بن علی
  • عبد الله بن علی
عمر49
مدفنمدینہ جنت البقیع

حضرت ام البنین علیہا السلام آپ تاریخ اسلام کی نمایاں اور قابلِ احترام خواتین میں سے ہیں، جن کا کردار سانحۂ کربلا میں نہایت مؤثر رہا۔ اگرچہ وہ کربلا کے میدان میں موجود نہ تھیں، لیکن ان کے چار بیٹوں کی قربانی، ادب، شجاعت اور وفاداری نے ان کا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں زندہ کر دیا۔ ان صفات کا مظاہرہ ان کی بہترین تربیت کا ثبوت ہے جو ان کی والدہ، حضرت ام البنین، کی شخصیت سے جھلکتی ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ام البنین علیہا السلام مسلمان خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ حضرت ام البنین (ع) کے فضائل اور خوبیوں کا ذکر ہمیشہ ان کے فرزند حضرت عباس علیہ السلام کے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حضرت عباس علیہ السلام جو کربلا کے علمدار تھے اور جن کے مقام پر روزِ قیامت شہداء رشک کریں گے، اپنی شجاعت، ادب اور وفاداری میں اپنے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ حضرت ام البنین علیہا السلام کے وارث تھے۔

نسب اور خاندان

فاطمہ بنت حزام بن خالد بن جعفر بن ربيعہ بن الوحيد بن عامر بن كعب بن كلاب حضرت علی کی زوجہ جو حضرت فاطمہ الزہرا علیہا السلام کی شہادت کے بعد آپ کے نکاح میں آئیں۔ ان کے چار فرزند عباس بن علی، جعفر بن علی، عثمان بن علی، عبد الله بن علی تھے جن میں حضرت عباس لشکرِ حسینی کے علمدار تھے اور سبھی واقعۂ کربلا میں 10 محرم 61ھ کو شہید ہوئے۔ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا اخلاق، شجاعت اور ایثار میں اپنی مثال آپ تھیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام پر قربان کردیا۔

تاریخی منابع کے مطابق، حضرت ام البنین علیہا السلام کی ولادت مدینہ کے جنوب میں رہنے والے طائفۂ ہوازن کے مشہور قبیلے بنی کلاب میں ہوئی۔ آپ کے والد ابوالمجل حزام بن خالد اور والدہ ثمامہ بنت سہیل بن عامر [1]۔ دونوں کا تعلق عرب کے معروف اور بہادر خاندانوں سے تھا۔ بنی کلاب اپنے وقت میں شجاعت، سخاوت اور دیگر اعلی صفات کی وجہ سے مشہور تھے۔ حضرت ام البنین علیہا السلام نے انہی اعلی اخلاقی اور نسبی صفات کو وراثت میں پایا [2]

شادی

حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شہادت کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب جو کہ عرب قبائل کے نسب اور خصوصیات سے گہری واقفیت رکھتے تھے، سے درخواست کی کہ میرے لیے ایسی عورت تلاش کرو جو دلیر اور بہادر نسل سے ہو تاکہ وہ ایسا بیٹا جنم دے جو شجاعت اور وفاداری میں نمایاں ہو۔ عقیل نے حضرت علی علیہ السلام کو ام البنین کلابیہ کے انتخاب کا مشورہ دیا کیونکہ ان کے نسب میں ایسی صفات پائی جاتی تھیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کیا اور یوں یہ مبارک نکاح عمل میں آیا [3]۔

حضرت ام البنین علیہا السلام کا خواب

جناب ام البنین علیہا السلام فرماتی ہیں کہ رشتہ ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک سرسبز اور گھنے باغ میں بیٹھی ہوں۔ وہاں بہتے ہوئے نہریں اور بے شمار پھل موجود تھے۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند اور ستارے روشن تھے اور میں انہیں دیکھ رہی تھی۔ میں اللہ کی تخلیق کی عظمت اور بغیر ستون کے کھڑے آسمان، چاند کی روشنی اور ستاروں کے بارے میں غور و فکر کر رہی تھی۔ اسی دوران اچانک چاند آسمان سے زمین پر اترا اور میری گود میں آ گیا۔ اس چاند سے ایک ایسی روشنی نکل رہی تھی جو آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ میں حیرت اور تعجب میں مبتلا تھی کہ اسی وقت چار روشن ستارے اور میری گود میں آ گرے۔

حضرت ام البنین علیہا السلام کے والد حزام بن خالد نے اپنی قوم کے خوابوں کی تعبیر کرنے والے عالم سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ معبر نے کہا یہ خواب کسی کو مت بتائیں اور یقین رکھیں کہ آپ کی بیٹی کے لیے عرب و عجم کے کسی بڑے شخص کا رشتہ آئے گا، اور اللہ تعالیٰ اسے چار بیٹے عطا کرے گا۔

جب حضرت علی علیہ السلام کے بھائی حضرت عقیل علیہ السلام جو قبائل عرب کے نسب شناس تھے، خواستگاری کے لیے حزام بن خالد کے پاس آئے، تو حزام نے اپنی بیٹی کے خواب کو یاد کرتے ہوئے انہیں خوشخبری دی اور کہا: میری بیٹی! یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ دنیا اور آخرت کی خوش بختی کی بشارت ہو! پھر حزام نے اپنی اہلیہ ثمامہ سے مشورہ کیا اور کہا کہ کیا تم ہماری بیٹی فاطمہ (ام البنین) کو امیرالمومنین علی علیہ السلام کے نکاح کے لائق سمجھتی ہو؟ جان لو کہ ان کا گھر وحی، نبوت، علم، حکمت، ادب اور اخلاق کا مرکز ہے۔ اگر تم اپنی بیٹی کو اس گھر کے لائق سمجھتی ہو تو ہم اس مبارک رشتے کو قبول کریں گے۔

تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا نے جب حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں قدم رکھا تو انہوں نے امام علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ انہیں ان کے اصل نام فاطمہ کے بجائے "ام البنین" کے لقب سے پکارا جائے۔ یہ اس لیے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کا نام سن کر اپنی والدہ کی یاد میں غمگین نہ ہوں اور ان کے دلوں میں یتیمی کا درد تازہ نہ ہو [4]۔

کردار اور تربیت

حضرت ام البنین علیہ السلام نے نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی بہترین زوجہ ہونے کا حق ادا کیا بلکہ حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور بی بی زینب علیہا السلام کے لیے ایک شفیق اور محبت کرنے والی ماں کی حیثیت سے بھی اپنی مثال قائم کی۔ اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام کے مشن کے لیے قربان کر دینا ان کی وفاداری اور ایمان کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

حضرت ام البنین علیہا السلام کی زندگی ہمیں ایثار، شجاعت، اور اہلِ بیت سے وفاداری کا درس دیتی ہے، اور ان کا کردار آج بھی مسلم خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی حضرت ام البنین علیہا السلام سے خواستگاری کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک خوبصورت واقعہ ہے جو اس عظیم خاتون کی شرافت، ایمان اور بلند مقام کو واضح کرتا ہے۔

حضرت ام البنین علیہا السلام کے بیٹے

حضرت ام البنین علیہا السلام کے امام علی علیہ السلام سے چار بیٹے تھے: حضرت عباس علیہ السلام، عبد اللہ، عثمان اور جعفر۔ ان سب میں سب سے بڑے حضرت عباس علیہ السلام تھے، جو 4 شعبان 26 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ یہ تمام فرزند حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین علیہا السلام کی مثالی تربیت کے باعث بلند اوصاف کے حامل تھے۔ ان چاروں جوانوں نے سب سے پہلے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام کے اوصاف اور اخلاق کو اپنایا۔ اس کے بعد اپنی والدہ حضرت ام البنین علیہا السلام سے ادب، ایثار، وفا اور قربانی کی اعلی قدریں سیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک رشادت، نجابت، شرافت، جوانمردی اور اخلاق کے اعلی ترین درجے پر فائز تھا۔

جب امیر المومنین علیہ السلام شہید ہوئے، تو حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 14 سال تھی اور ان کے باقی بھائی ان سے بھی کم عمر کے تھے۔ لیکن ان کی وفاداری اور قربانی کربلا کے میدان میں تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب بن گئی۔ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت اور سانحۂ کربلا کے بعد ان کے صبر و استقامت کی کہانی تاریخ اسلام کے دردناک مگر قابلِ فخر واقعات میں شامل ہے۔

مجھے میرے حسین علیہ السلام کی خبر دو!

سانحۂ کربلا کے بعد جب بشیر امام سجاد علیہ السلام کے نمائندہ کی حیثیت سے مدینہ پہنچا تو حضرت ام البنین علیہا السلام اس کے استقبال کے لیے آئیں۔ انہوں نے فوراً پوچھا: امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کیا خبر ہے؟ بشیر نے کہا: آپ کے بیٹے عباس علیہ السلام شہید ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر حضرت ام البنین علیہا السلام نے دوبارہ کہا: "بشیر! میرے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بتاؤ!" بشیر نے بتایا کہ ان کے دیگر بیٹے بھی کربلا میں شہید ہو گئے ہیں، لیکن حضرت ام البنین علیہا السلام نے پھر بھی یہی کہا: "بشیر! مجھے میرے حسین علیہ السلام کے بارے میں بتاؤ!" جب بشیر نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی، تو حضرت ام البنین علیہا السلام نے بلند آواز میں نالہ و فریاد کی۔

سانحۂ کربلا کے بعد، حضرت ام البنین علیہا السلام نے بی بی زینب علیہا السلام کے ساتھ یزید کی حکومت کے خلاف احتجاج میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ روزانہ اپنے بیٹے حضرت عباس علیہ السلام کے فرزند کو لے کر قبرستان بقیع جاتی تھیں اور وہاں چار قبریں کھینچ کر اپنے شہید بیٹوں کے لیے مرثیے پڑھتی تھیں۔ ان کی مرثیہ خوانی اتنی سوزناک تھی کہ مدینہ کے لوگ ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور گریہ کرتے تھے۔ حتی کہ سخت دل دشمن، جیسے مروان بن حکم بھی ان کے مرثیوں کو سن کر رو پڑتا تھا۔

حضرت ام البنین علیہا السلام کے مرثیے اور عزاداری کا سلسلہ ان کے وصال تک جاری رہا۔ ان کی محبت اور وفاداری نہ صرف امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہلِ بیت کے لیے ایک لازوال مثال ہے، بلکہ یہ مظلوموں کی حمایت اور حق کے لیے قیام کا درس بھی دیتی ہے۔ ام البنین (س) کو جنت البقیع میں، رسول خدا (ص) کی دو پھپھیوں، صفیہ و عاتکہ کے پاس، امام حسن (ع) اور فاطمہ بنت اسد (س) کی قبروں کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔

فاطمہ، ام البنین (س)[بیٹوں کی ماں] ایک پاک دامن اور باتقوی خاتون تھیں۔ ان کے اخلاقی فضائل، انسانی کمالات، ایمانی طاقت، ثابت قدمی، صبر و بردباری، بصیرت و دانائی اور قدرت بیان نے انھیں خواتین کی سردار بنا دیا تھا۔

حزام بن خالد بن ربیعہ بن وحید بن کعب بن عامر بن کلاب، ام البنین (س) کے والد ہیں، وہ ایک بہادر اور راستگو شخص تھے۔ وہ عربوں میں شرافت کا مجسمہ سمجھے جاتے تھے اور بخشش، مہمان نوازی، جوانمردی اور قوی استدلال میں مشہور تھے۔

ام البنین کی ماں، ثمامہ (لیلی) بنت سہیل بن عامر بن کلاب (رسول خدا اور امام علی کے اجداد) تھیں۔ وہ اپنی اولاد کو تربیت دینے میں کافی کوشش کرتی تھیں اور تاریخ میں ان کا چہرہ درخشاں ہے۔ اس خاتون کی خصوصیت میں گہری سوچ، اہل بیت (ع) سے دوستی، ماں کا فریضہ ادا کرنے کے ضمن میں اولاد کو ایک ہمدرد معلم کی حیثیت سے اعتقادی امور اور ہمسرداری کے مسائل اور دوسروں سے معاشرت کے آداب سکھانا قابل ذکر ہے۔

وہ حقیقت میں شجرہ طیبہ کی مصداق تھیں، جس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس پاک درخت کا پھل بےشک عباس بن علی اور عثمان بن علی و غیرہ تھے۔

اس خاتون کا خاندان ایک بنیادی اور جلیل القدر خاندان تھا جس کے افراد بہادری اور دستگیری میں مشہور تھے اور ان میں سے ہر ایک عظمت اور شرافت میں مشہور تھا اور ہم یہاں پر خلاصہ کے طور پر ان کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

ام البنین (س) کے شجرہ نسب کی شرافت کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں:" تاریخ نے ام البنین کے آباء و اجداد اور ماموں کو ایسے متعارف کرایا ہے جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ وہ عربوں میں ایک شجاع اور شہسوار تھے اور ان کی شرافت و عظمت اس حد تک تھی کہ وقت کے بادشاہ بھی اس کا اعتراف کرتے تھے"۔

حضرت ابو الفضل العباس (ع) کی والدہ گرامی، ام البنین کے ماں باپ کا خاندان شجاعت، کرامت، اخلاق، سماجی حیثیت اور عظمت کے لحاظ سے قریش کے بعد عربوں کے مختلف قبیلوں میں ممتاز خاندان تھا۔

حضرت ام البنین (س) امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی باوفا زوجہ

فاطمہ زہراء (س) کی شہادت کے بعد، آپ کی شادی حضرت علی (ع) سے ہوئی۔ فاطمہ کلابیہ (س)، شرافت، نجابت، پاک دامنی اور اخلاص کا مجسمہ تھیں۔ علی (ع) کے گھر میں قدم رکھنے کے وقت کہا:" جب تک فاطمہ زہراء (س) کی بڑی بیٹی مجھے اس مقدس گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں تو میں اس وقت تک اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی"۔

یہ خاندان رسالت کےلئے ان کا انتہائی ادب و احترام کا مظاہرہ تھا۔ جس دن حضرت ام البنین (س) نے مولا علی (ع) کے گھر میں پہلی بار قدم رکھا، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) بیمار تھے تو ابو طالب کی بہو گھر میں داخل ہوتے ہی عالم ہستی کے ان دو عزیزوں اور اہل بہشت کے جوانوں کے سرداروں کے پاس پہنچیں اور ایک ہمدرد ماں کے مانند ان کی تیمارداری کرنے لگیں اور مسلسل یہ کہتی تھیں کہ:" میں فاطمہ زہراء (س) کی اولاد کی کنیز ہوں۔"

حضرت زہراء (س) کی اولاد سے ام البنین (س) کی بے لوث محبت

ام البنین حتی الامکان یہ کوشش کر رہی تھیں کہ حضرت زہراء (س) کے بچوں کےلئے ان کی ماں کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلاء پر کرسکیں، کیونکہ ان کی ماں جوانی میں ان سے جدا ہوئی تھیں اور وہ اپنی مہربان ماں کی بے لوث محبت سے محروم ہو چکے تھے۔

فاطمہ زہراء (س) کے بچے اس پارسا خاتون کے وجود میں اپنی ماں کو پا رہے تھے اور اپنی ماں کے نہ ہونے کے رنج و الم کا کم تر احساس کر رہے تھے۔ حضرت ام البنین (س)، رسول خدا (ص) کی بیٹی کے بچوں کو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کےلئے کیا کرتی تھیں اور اسے اپنے لئے فریضہ جانتی تھیں، کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں سب لوگوں کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔

فاطمہ کلابیہ نے، حضرت علی (ع) کے ساتھ ایک مختصر مدت کی مشترکہ زندگی کے بعد امیر المؤمنین کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ انھیں "فاطمہ" کے بجائے "ام البنین" خطاب کریں تا کہ" فاطمہ (س)" اور "کنیز فاطمہ" کے درمیان فرق مشخص ہوجائے اور یہ فرق محفوظ رہے۔

امیرالمومنین علی (ع) سے شادی کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے حضرت ام البنین (س) کو چار شجاع اور بہادر بیٹے عطا فرمائی: عباس، عبداللہ، جعفر، عثمان اور ان ہی بیٹوں کی وجہ سے انھیں ام البنین، یعنی بیٹوں کی ماں، کہا جاتا تھا؛ نیز جناب رقیہ، حضرت مسلم بن عقیل (ع) کی زوجہ، آپ ہی کی بیٹی تھی۔

آپ (س) نے اپنے تمام بچوں کو حضرت امام حسین (ع) کے ہمراہ کربلا کے سفر پر روانہ کیا تھا، اور روز عاشور، آپ (س) کے چاروں فرزند، اسلام کی راہ میں قربان ہوگئے۔ آپ کے داماد حضرت مسلم بن عقیل، حضرت امام حسین (ع) کے سفیر بن کر کوفہ آئے اور اپنے دونوں بچوں سمیت کوفہ میں شہید کر دئیے گئے۔

حضرت ام البنین (س) اہل حرم کی نظر میں

کربلا کے واقعے اور اہل حرم کی قید سے واپسی کے بعد، مدینہ میں جب پہلی عید آئی تو اہل حرم اپنے وارثوں کی یاد میں بے چین تھے اور تمام بیبیاں جناب زینب (س) کی قیادت میں اپنے خاندان کی بزرگ شخصیت جناب ام البنین (س) سے ملاقات کرنے گئیں اور آپ نے سب کو خصوصاً جناب زینب (س) کو گلے سے لگا کر تسلی دی۔

حضرت ام البنین (س) عزیزوں کے سوگ میں

اپنے عزیزوں کی المناک شہادت کے بعد، آپ (س) جنت البقیع چلی جایا کرتی تھیں اور اس طرح گریہ کرتی تھیں کہ دوست و دشمن روتے تھے، چنانچہ مروان جو اہل بیت (ع) کا سخت ترین دشمن تھا، آپ (س) کا مرثیہ سن کر بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہو جایا کرتا تھا۔ اپنے عزیزوں کی عزا میں آپ (س) کا مرثیہ تاریخ میں محفوظ ہے [5]۔

آپ (س) کو "ام البنین" یعنی بیٹوں کی ماں، کہہ کر پکارا کرتے تھے لیکن کربلا کے بعد، آپ (س) نے فرمایا:"مجھے ام البنین کہہ کر نہ پکارا کرو کیونکہ اس طرح پکارنا مجھے میرے شیر جیسے بچوں کی یاد دلاتا ہے"۔

حضرت ام البنین عرب خواتین کی نظر میں

آج بھی عرب خواتین، کربلا میں جب حضرت عباس علمدار (ع) کی زیارت کےلیے آپ کے حرم میں آتی ہیں تو اس طرح حضرت سے حاجت طلب کرتی ہیں: "بحقّ امّک یا اباالفضل یا باب الحوائج"

آپ (س) کی وفات 13 جمادی الثانیہ کو ہوئی اور آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔

جناب ام البنین (س) کا بڑا احسان

مروان بن حکم کہتا ہےکہ واقعہ کربلا کے بعد میں جنت البقیع کے راستے پر گزر رہا تھا کہ دور سے کسی بی بی کے رونے کی آواز آئی؛ میں نے گھوڑے کا رخ ادھر پھیر دیا؛ دیکھا کہ ایک بی بی خاک پر بیٹھی بین کر رہی ہےکہ: عباس! اگر تیرے ہاتھ نہ کاٹے جاتے تو میرا حسین (ع) شہید نہ ہوتا ...

یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے چاروں بیٹوں کو حسین (ع) کے ساتھ کربلا بھیجا اور اپنے بوڑھے ہونے کے باوجود کسی ایک بیٹے کو بھی اپنے پاس مدینے میں نہیں رکھا۔ اپنے ان چاروں بیٹوں کی مصیبت کو فرزند زہراء (س) کی شہادت کے مقابلے میں آسان سمجھتی تھیں۔

جب انہیں اپنے ایک بیٹے کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو فرمایا: اس خبر سے کیا مراد ہے؟ مجھے ابا عبداللہ الحسین (ع) کے بارے میں آگاہ کریں۔ جب بشیر نے اسے اپنے چار بیٹوں کی شہادت کی خبر دے دی تو کہا: میرا دل پھٹ گیا، میرے تمام بیٹے اور جو کچھ آسمان کے نیچے موجود ہے، سب کے سب ابا عبداللہ الحسین (ع) پر قربان، مجھے آغا حسین کے بارے میں بتائیں!

حضرت ام البنین (س) کے چاروں بیٹے کربلا کے خونین واقعہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ انھوں نے اس مصیبت پر صبر و شکیبائی سے کام لیا۔ حادثہ عاشورا سے آگاہ ہونے کے بعد وہ اپنے بیٹے عباس کے فرزند عبیداللہ کو اپنے ساتھ قبرستان بقیع میں لے جایا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کے غم میں دردناک اشعار پڑھا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ بھی اس عظیم خاتون کے درد بھرے بین سننے کےلئے وہاں اکٹھے ہوجایا کرتے تھے اور گریہ و زاری کیا کرتے تھے۔

امام حسین (ع) کے بارے میں حضرت عباس (ع) کو ام البنین (س) کی فرمائش

جب امام حسین (ع) نے مدینہ کو چھوڑ کر حج اور عراق، ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، ام البنین (س) نے حضرت عباس (ع) کو سفارش کی کہ:" میرے نور چشم! امام حسین (ع) کی فرمابرداری کرنا"۔

امام صادق (ع) نے حضرت عباس (ع) کے بارے میں فرمایا:" رحم اللہ عمی العباس، لقد اثر و ابلی بلاء حسنا ..." اللہ تعالی، ہمارے چچا عباس پر رحمت نازل کرے، یقیناً جاں نثاری کی اور شدیدترین امتحانات پاس کئے؛ چچا عباس کےلئے اللہ کے پاس ایک ایسا مقام ہےکہ تمام شہداء اس پر رشک کرتے ہیں"۔

مورخین نے لکھا ہے:" واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں ام البنین (س) سے ملاقات کی تاکہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔ وہ امام سجاد (ع) کیطرف سے بھیجے گئے تھے، ام البنین (س) نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا:

اے بشیر! امام حسین (ع) کے بارے میں کیا خبر لائے ہو؟

بشیر نے کہا: خدا آپ کو صبر دے، آپ کے عباس قتل کیے گئے۔

ام البنین (س) نے فرمایا:" مجھے حسین (ع) کی خبر بتا دو"۔

بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شہادت کی خبر کا اعلان کیا، لیکن ام البنین (س) مسلسل امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھتی رہیں اور صبر و شکیبائی سے بشیر کیطرف مخاطب ہو کر فرمایا:

"یا بشیر! مجھے ابی عبداللہ الحسین (ع) کی خبر بتا دو؛ میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے سب کے سب، ابا عبداللہ الحسین (ع) پر قربان"۔

جب بشیر نے امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر دی تو ام البنین (س) نے ایک آہ! بھری آواز میں فرمایا:" قد قطعت نیاط قلبی"، اے بشیر! تو نے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا" اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔

حضرت زینب کبری (س) مدینہ میں پہنچنے کے بعد، حضرت ام البنین (س) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان کے بیٹوں کی شہادت کے بارے میں تسلیت و تعزیت ادا کی۔

رسول خدا (ص) کی نواسی، امام حسین (ع) کی شریک تحریک اور قیام حسینی (ع) کے دھڑکتے دل، یعنی زینب کبری (س) کے، ام البنین (س) کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے بیٹوں کی شہادت پر کلمات تسلیت و تعزیت کہنے سے اہل بیت (ع) کی نظر میں ام البنین (س) کے بلند مقام و منزلت کا مقام معلوم ہوتا ہے۔

حضرت زینب کبری (س) عیدوں و غیرہ کے مانند دوسری مناسبتوں پر بھی احترام بجا لانے کےلئے ام البنین (س) کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں۔

ام البنین (س) کی اہم خصوصیات میں سے، زمانہ اور اس کے مسائل کیطرف ان کا توجہ کرنا ہے۔ انھوں نے کربلا کے واقعہ کے بعد، نوحہ خوانی اور مرثیہ سرائی سے استفادہ کیا تاکہ کربلا والوں کی مظلومیت کی آواز کو آنے والی نسلوں تک پہنچائیں۔

وہ حضرت عباس (ع) کے بیٹے عبیداللہ جو اپنی ماں کے ساتھ کربلا میں تھے اور عاشورا کے واقعات کو بیان کرنے کی ایک زندہ سند تھے کے ہمراہ، بقیع میں جا کر نوحہ خوانی کرتی تھیں اور شور و غوغا برپا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوتے تھے اور ان کے ساتھ نالہ و زاری کرتے تھے۔ امام باقر (ع) فرماتے ہیں کہ:" وہ بقیع میں جاتی تھیں اور اس قدر دلسوز مرثیہ خوانی کرتی تھیں کہ مروان، اپنی سنگدلی کے باوجود گریہ کرتا تھا۔

حضرت ام البنین (ع) کی زیارت کا ایک حصہ

السلام علیک یا زوجة ولی اللہ، السلام علیک یا زوجة امیر المؤمنین، السلام علیک یا ام البنین، السلام علیک یا ام العباس ابن امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، رضی اللہ تعالی عنک و جعل منزلک و ماواکِ الجنۃ و رحمتہ اللہ و برکاتہ، لا حول و لا قوة الا بالله العلی العظيم و صلی الله علی محمد و آله الطاهرين ...

آپ کی وفات

حضرت ام البنین، حضرت زینب کبری (س) کی رحلت کے بعد، دارفانی کو الوداع کہہ گئی ہیں۔ تاریخ لکھنے والوں نے ان کی تاریخ وفات مختلف بتائی ہے، اس طرح کہ ان میں سے بعض نے ان کی تاریخ وفات کو سال 70 ہجری بیان کیا ہے اور بعض دوسرے مورخین نے ان کی تاریخ وفات کو 13 جمادی الثانی سال 64 ہجری بتایا ہے اور دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے۔

ام البنین (س) کی مہر و محبت سے چھلکتی زندگی آخری لمحات میں تھی، ام البنین (س) کی زندگی کی آخری رات تھی۔ خادمہ فضہ نے اس مودّب خاتون سے مخاطب ہو کر درخواست کی کہ ان آخری لمحات میں اسے ایک بہترین جملہ سکھائے۔ ام البنین (س) نے ایک تبسم کی حالت میں فرمایا:" السلام علیک یا ابا عبداللہ الحسین" اس کے فوراً بعد، فضہ نے ام البنین (س) کو احتضار کی حالت میں پایا اور دوڑ کے علی (ع) اور حسین (ع) کی اولاد کو بلایا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اماں! اماں! کی آواز مدینہ میں گونج اٹھی۔

حضرت فاطمہ زہراء (س) کے بیٹے اور نواسے ام البنین (س) کو ماں کہہ کر پکارتے تھے اور یہ خاتون انھیں منع نہیں کرتی تھیں، شاید اب اس میں یہ کہنے کی طاقت باقی نہ رہی تھی کہ: "میں فاطمہ (س) کی کنیز ہوں۔" بہرحال، ام البنین (س) کو جنت البقیع میں، رسول خدا (ص) کی دو پھپھیوں، صفیہ و عاتکہ کے پاس امام حسن (ع) اور فاطمہ بنت اسد (س) کی قبروں کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔

مورخین لکھتے ہیں کہ جناب ام البنین (س) کی امام حسین (ع) سے بے پناہ عشق و محبت ان کے اعلی ایمان اور آپ کی امامت پر کامل اعتقاد کی مستحکم دلیل ہے یہ کہ آپ نے اپنے چار بیٹوں، عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان کو اپنے پیشوا و امام نیز اسلام کے نام پر قربان کر دیا۔ بعض محققین کے مطابق حضرت ام البنین علیہا السلام کی وفات 13 جمادی الثانی 64 ہجری قمری کو ہوئی۔ زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ ان کی وفات طبیعی تھی اور کوئی خاص وجہ یا حادثہ اس کے پیچھے نہیں تھا۔ جبکہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ام البنین علیہا السلام کی شہادت بنی امیہ کے مظالم کا نتیجہ تھی۔ ان کے دلگداز مرثیے، جو کربلا کے مظالم کو آشکار کرتے اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے، ممکنہ طور پر ان کی موت کا سبب بنے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں زہر آلود شہد کے ذریعے شہید کیا گیا۔

حضرت ام البنین علیہا السلام کو قبرستان بقیع میں دفن کیا گیا، جہاں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعض قریبی رشتہ دار خواتین کے ساتھ آرام فرما رہی ہیں[6]۔

  1. مقاتل الطالبین ص 22 وبطل العلقمی 1/92
  2. عبدالرزاق المقرم، قمر بنی‌هاشم، ص 9
  3. عمدة الطالب وسرالسلسلة وسردارکربلا ص 34
  4. زندگانی حضرت ابوالفضل العباس (‌علیه‌السلام) ص 21 وکتاب چهره درخشان قمربنی‌هاشم ص 59
  5. مقاتل الطالبين، ص56؛ بحارالانوار، ج45 ص40
  6. حضرت ام البنین علیہا السلام، حضرت علی علیہ السلام کی باوفا شریک حیات-شائع شدہ از: 15 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء۔