مصطفی سریچ

ویکی‌وحدت سے
مصطفی سریچ
مصطفی سریچ.jpg
دوسرے نامڈاکٹر مصطفی سریچ
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہبوسنیا و ہرزگونیا
مذہباسلام، سنی
مناصبعلماء بوسنیا کا سرابر، عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی کے رکن

دہشت گردی

مصطفی سیرک (1952)، بوسنیا کے اسلامی رہنما اور بوسنیا کے مفتی اعظم ہے ان کہنا ہے کہ دنیا میں 1.6 بلین مسلمان رہتے ہیں۔ اور جب بھی آپ اسلامی دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو ان سب کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ یہ زبانی جرم ہے۔ ان کیسز میں آپ عیسائی دہشت گردوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ یا وہ یہودی دہشت گرد جس نے اسحاق رابن کو قتل کیا؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس شخص کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہرانا ممکن ہے؟ پیغمبر اکرم نے کسی کو انتقام کے طور پر یا ان کی توہین کی وجہ سے قتل نہیں کیا۔ فتح مکہ کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حمزہ کے قاتل کو بھی معاف کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ جو شخص نبی سے محبت کرتا ہے وہ کبھی بھی ان کے دفاع کے لیے قتل نہیں کرے گا۔ نبی کو انتقام کی ضرورت نہیں۔

داعش اور القاعدہ کے بنیاد پرست نظریات اتنے پرکشش کیوں ہیں؟ ایک وجہ نوجوانوں میں موجودہ نظام کے خلاف بغاوت کا رجحان ہے۔ لیکن وہ ان نوجوانوں کو ذمہ داریوں کے بارے میں کچھ کہے بغیر ایسے دلائل اور تاویلیں پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ مسلحانہ کاروایوں میں حصہ لیتے ہیں۔ کیوں میڈیا اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کرتا ہے اور ایسے جملات پر مشتمل بیانات دیتا ہے؟ یہ مغربی میڈیا کی دوغلی پالیسی ہے۔۔ پیرس میں جو کچھ ہوا وہ اسلامی دہشت گردی نہیں تھی۔ میں یورپی میڈیا سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرنے پر معافی مانگے۔

یقیناً وہ کارٹون بالکل درست نہیں ہیں۔ یہ کارٹون مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور انتہائی ناگوار ہیں۔ اگر چارلی ہیبڈو کا مقصد مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچانا تھا تو وہ اس میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ لیکن اگر اس سے مراد کسی قسم کی سماجی تنقید ہے، تو اس معاملے کو ایک مختلف انداز میں ہینڈل کیا جانا چاہیے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ ہتھیار استعمال کرنے والا نبی سے محبت نہیں کرتا۔

بوسنیاء علماء کے سربراہ نے ایران کے نائب وزیر خارجہ سے ملاقات

ڈاکٹر مصطفی سریچ، جمہوریہ بوسنیا و ہرزیگوینا کے علماء سربراہ سے وزارت خارجہ کے یورپ اور امریکہ کے نائب صدر جناب واعظی نے ملاقات کی اور بات چیت کی۔ اس ملاقات میں بوسنیا علماء کے سربراہ نے اسلامی جمہوریہ ایران حمایت اور ہمہ گیر کوششوں کا اظہار کیا اور بوسنیا ہرزیگوینا کے عوام کے حقوق کی بحالی کا شکریہ ادا کیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی سرگرمیاں اور سفارتی اقدامات اور بین الاقوامی سطح پر، بوسنیا کی حکومت کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے، یہ انتہائی قابل قدر ہے۔ انہوں نے بوسنیا کی اسلامی کمیونٹی اور یونیورسٹیوں کے ایران میں اسلامی علوم کے درمیان وسیع تعاون پر بھی زور دیا۔ جناب واعظی نے بوسنیائی مسلمانوں کے لیے ایران کی حمایت پر بھی زور دیا۔

انہوں نے جمہوریہ بوسنیا اور ہرزیگوینا کی قیادت کی کوششوں اور کاوشوں اور ہم آہنگی کے مرہون منت ہیں اور اندرونی ہم آہنگی کو اس کامیابی کا نتیجہ قرار دیا۔ آفات کے حوالے سے بوسنیا میں مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے یہ بین الاقوامی اداروں کی بے حسی اور یورپ کی دوہری پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ مغرب جو حقوق انسان کے مدافع کے دعوادار ہے بوسنیا کے مسلمانوں کے بارے میں ان کی دوغلی پالیسیوں پر کھڑی تنقید کی۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ بقیہ وقت میں فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ سے جنگ بندی ہو گا۔ اس میں شامل ہونے سے بوسنیا کے بحران کا حل نکل سکتا ہے[1]۔

  1. رئیس العلمای بوسنی با معاون وزیر خارجه ایران ملاقات کرد(بوسنیاء علماء کے سربراہ نے ایران کے نائب وزیر خارجہ سے ملاقات)-irna.ir/news- شائع شدہ از: 8 مارچ 1995ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 نومبر 2024ء۔