اسلامی فرقے

ویکی‌وحدت سے

اسلامی فرقے (تہتر فرقے)حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نے پیشن گوئی کی تھی کہ میرے بعد میری قوم 72فرقوں میں بٹ جائے گی۔ حدیث میں عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور پاک نے کہا :" میری امت کے لوگوں کا وہی حال ہوگا جو بنی اسرائیل کا ہوا تھا بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئی تھی اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ وہ ایک فرقہ جو بچ جائے گا کونسا ہوگا آپ نے فرمایا وہ جو میرے طویق کے پیرو اور میرے دوست ہیں [1]۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان فرقوں کی مجموعی تعداد 73 سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر ایک فرقہ اپنے کو ناجی اور دوسرے فرقے کو ناری کہے گا مطلب ایک فرقہ جنتی ہے اور بہتر (۷۲) فرقے دوزخی ہونگے۔ علامہ عبد الکریم شہرستانی مصنف کتاب الملل دانحل میں تہتر فرقوں کی تفصیل درج کی ہے دوسری کتاب غنیہ الطابیں میں ہے۔ ۷۳ فرقے: (۱) اہل سنت (۲) خوارج ۱۵ (۳) شیعه ۳۲ (۴) معتزله ۲ (۵) مرجبیه ۱۲ (۶) مثبه ۳ (۷) جہمیہ ضرار یہ، نجاریہ اور کلابیہ کا ایک ایک فرقہ ۴ کل

73 فرقے

  • اہل سنت 1،
  • خوارج 15،
  • شیعہ 32، معتزلہ 6،
  • مرجیہ 12، مثبتہ 7،
  • جہمیہ ضراریہ، نجاریہ اور کلابیہ کا ایک ایک فرقہ 4 کل 73 فرقے

سنی الاعتقاد

سنی راسخ الاعتقاد فرقہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں کہ سنی وہ ہے جو سنت رسول یعنی طریق حضرت محمد ﷺ کا پیرو ہے اور چاروں خلفا، کو و حضور کے جائز جانشین مانتا ہے احادیث کی چھ کتب جو صحاح ستہ کہلاتی ہیں کو قبول کرتا ہے اور چار مذاہب حنفی، مالکی، شافعی حنبلی میں کسی ایک کا وہ مقلد ہو اور چاروں اماموں کے اجماع کی تقلید کوضروری سمجھتا ہے ۔ سب سے بڑا طبقہ ان لوگوں کا ہے جنہیں ہیں اہل سنت و جماعت یاسنی مسلمان کہتے ہیں سوائے ایران کے باقی تقریبا تمام اسلامی ممالک میں زیادہ ترسنی ہیں اور اکثریت حنفی مذہب کے پیروکار ہیں۔

مسئلہ امامت اور اس کا مفہوم

شیعہ سنی اختلاف کا دائرہ بہت وسیع ہے بنیادی طور پر تین مسائل اختلافات کا سبب ہیں:

  • عقیدہ امامت
  • صحابه کرام
  • قرآن کریم ۔

اسلامی فرقوں کی تکوین

( مطلب پیدا کرنا ) میں مسئلہ امامت کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ابتدا میں شیعہ امامت کے مسئلہ پر کسی حد تک متفق و متحد تھے۔ حضور کی وفات کے بعد جانشین کے انتخاب کے بارے میں مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ ہر ایک جماعت یہ خیال کرتی تھی کہ حضور کی خلافت کے سب سے زیادہ وہ مستحق ہیں اور اس جماعت کے عقیدہ کو ان عقائد کی بنیاد اور نقطہ آغاز تصور کرنا چاہئے ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ خلافت اور امامت صرف حضرت فاطمہ کی اولاد کا حق ہے۔ دوسرا گروہ اس خیال کا تھا کہ حضور کے بعد خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافت جائز ہے۔

(۲) اہل تشیع خیال کرتے ہیں کہ امامت صرف حضور کے خاندان کا حق ہے اس لئے شیعہ آئمہ اہل بیعت کو مامور خیال کرتے ہیں۔ عقید ہ اہل تشیع کا یہ ہے کہ رسول و اللہ کے بعد خلافت کے حقدار صرف حضرت علی تھے۔ اوائل اسلام میں اسلام کے چار بڑے گروہ تھے۔

(1) ایک اہل سنت و جماعت جن میں مرجیہ بھی شامل ہیں ۔ (۲) دوسرے شیعہ جو بے شمار فرقوں میں منقسم ہیں۔

  1. مشکوۃ المصابیح جلد اول باب ۶ ص۲