مسودہ:رؤیت فریقین کی نگاه میں

رؤیت فریقین کی نگاه میں:رؤیت، ظاهری آنكھ سے اللہ تعالى كو دیكھنا ہے۔ متكلمين ميں رؤيت كے وقوع اور عدم امکان قوع کے لحاظ سے اختلاف پائے جاتے ہيں،اہل سنت ،معتزلہ، اور إباضیيہ کے علاوہ امكان كے قائل ہیں۔جبکہ مسلمانوں كے دیگر فرقے (معتزلہ، امامیہ، زیدیہ اور إباضیيہ) بطور مطلق دنيا وآخرت دونوں ميں نفى رؤيت اور اس كے وقوع كے محال ہونے كا قائل ہیں۔ اشاعرہ نے رؤیت كے ثبوت پر عمدہ استدلال آيات و روايات سے كى ہے يعنى دليل نقلى سے كى ہے۔ ابو الحسن اشعرى نے مذكورہ نقلى ادلة كے علاوہ عقلى دليل سے بھى استدلال كيا ہے۔ جبکہ معتزلہ نے عدم امكان رؤيت پر دليل عقلي اور دليل نقلى دونوں سے كى ہے۔ عقلى اعتبار سے ان كے دلیل كو اس بيان كے ساتھ خلاصہ كيا جاسكتا ہے:

  • 1: بلا ترديد اللہ تعالى واجب الوجود ہے۔
  • 2: اور وجوب وجود اللہ تعالى كا تجرد ، اس سے جہت كى نفى اور كسى مكان ميں ہونے كى نفى كا تقاضا كرتا ہے۔
  • 3: رؤيت وہاں ممكن هے جہاں مرئي كے ليے جہت اور مكان ہو، اور مجرد نا ہو كيونكہ يہ چیزین رؤيت کے تحقق كى بنياد ی شرط ہیں۔
  • نتیجه: جب اللہ تعالى زات اقدس جہت اور مكان سے مجرد و منزّہ ہے تو اس کے لیے رؤيت واقع ہونا محال ہے۔

دليل كا خلاصة: نہآیت مختصر اور مفید بيان كے ساتھ: وجوب كى دليل اس كى رؤيت كى نفى كى دليل ہے۔ اماميہ علماء نے رؤيت كے اس مسئلے ميں احاديث اهل البيت اطهار سے تمسك كي ہے: اور اہل بيتؑ اطهار نے نظريہ تجسىم اور اس كےشبہات كا بدون تسامح اور تساہل ڈٹ كرمقابلہ كيا ہے۔اور ہمارے ليے كافى ہے امير المؤمنينؑ نہج البلاغہ ميں فرماتے ہیں: إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ‏ أَنَّكَ‏ حَيٌ‏ قَيُّومُ‏ لَا تَأْخُذُكَ‏ سِنَةٌ وَ لا نَوْمٌ‏ لَمْ يَنْتَهِ إِلَيْكَ نَظَرٌ وَ لَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ أَدْرَكْتَ الْأَبْصَارَ وَ أَحْصَيْتَ الْأَعْمَالَ وَ أَخَذْتَ بِالنَّوَاصِي وَ الْأَقْدَامِ ترجمه: ہم صرف يہ جانتے ہيں كہ تْو زندہ، غیر كا محتاج نہيں، نہ اونگھ آتى ہے نہ نيند، كوئى فكر تجھے پانہ سكا، اور نہ كوئى نگاہ تيرا كھوج لگا سكى، تْو نگاہيں ديكھ رہا ہے اور انسان كے اعمال كا حساب كر رہا ہے اور پىشانى و قدوموں كو گرفت ميں ليا)۔ اسی طرح فرماتے ہیں: لا تُدرِكهُ العُيُونُ بِمُشَاهدَة العيَانِ ترجمہ: نگاہيں اسے آشکار ديكھ نہيں سكتى الْحَمْدُ لِلَّهِ‏ الَّذِي‏ لَا تُدْرِكُهُ‏ الشَّوَاهِدُ وَ لَا تَحْوِيهِ الْمَشَاهِدُ وَ لَا تَرَاهُ النَّوَاظِرُ ترجمہ: شکر اس خدا كے ليے ہے جسے حواس خمسہ درك نہيں كرسكتے اور اسے مكان گھير نہيں سكتى، اور نگاہيں اسے ديكھ نہيں سكتى۔

رویت لغت میں

رؤيت - رأى يرى كا مصدرہونے ميں لغت اور استعمال دونوں لحاظ سے كوئى اختلاف نہيں، لغت میں لفظ رؤيت کے دو معنی ہیں: خارج ميں موجود آنكھ كے ذریعے سے نگاہ كرنا يا ديكھنا اور علم، آگہی اور باطنی مشاہدہ کو بھی رؤيت سے تعبیر کیا جاتا هے اسی طرح لفظ "نظر" کا مطلب کبھی کبھی "دیکھنا" ہوتا ہے اور کبھی اس کا مطلب "انتظار اور امید" ہوتا ہے۔ جن آیات میں جو آخرت میں خدا کو دیکھنے کے بارے میں ہیں، لفظ "نظر" سے مراد قیامت کے دن خدا کی رحمت سے بندوں کی امید اور توقع ہے۔ درحقیقت اس دن سب کی نظریں الله کی طرف ہوتی ہیں اور اہل ایمان بھی الله كي رحمتيں اور اپنے رب کے وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہوتے ہیں۔

رویت اصطلاح میں

كلامى اعتبار سے: ظاهري آنكھ سے اللہ تعالى كو ديكھنا هے۔

رويت كے بارے ميں اقوال

متكلمين ميں رؤيت كے وقوع اور عدم امکان قوع کے لحاظ سے اختلاف پايا جاتا ہے: 1-اہل سنت (معتزلہ، اور إباضيہ) کے علاوہ ‏ امكان كے قائل ہیں۔ البتہ اس وقوع كے بارے ميں كئى اقوال میں منقسم ہيں: أ-نبى محمدﷺ كے ليے اس دنيا ميں رؤيت خاص ہے۔ اور وہ معراج كے واقعے ميں پىش آيا۔ ب- دنيا ميں اس كا وقوع صرف انبياء اور اولياء كے ساتھ خاص ہے۔ ج- صرف آخرت ميں رویت واقع ہوگا اور وہ مؤمنین كے ساتھ خاص ہے۔ اشاعرہ اللہ تعالى كى مجرد اور بسیط ہونے كے باوجود رؤيت ممكن ہونے کے قائل ہیں۔

2-مسلمانوں كے دیگر فرقے (معتزلہ، اماميہ، زیديہ اور إباضيہ) بطور مطلق دنيا وآخرت دونوں ميں نفى رؤيت اور اس كے وقوع كے محال ہونے كا قائل ہيں۔ جبکہ پہلا نظریه اشاعرہ اور دوسرا نظریه معتزلہ سے منسوب ہيں۔

اشاعرہ كا نظريه

جىسا كہ بيان ہوا اشاعرہ رؤيت كے اثبات کے قائل ہيں۔ ان كى اہم دلائل اشاعرہ نے رؤيت كے ثبوت پر عمدہ استدلال آيات ورايات سے كى ہے يعنى دليل نقلى سے كى ہے۔

قرآنی آيات سے استدلال

۱-وُجُوهٌ يَوْمَئذٍ نَّاضِرَةٌ ۔ إِلىَ‏ رَبهِّا نَاظِرَة. [1]. ترجمہ اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے ۔اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)ابو الحسن اشعرى كہتا ہے: اللہ تعالى نے فرمايا: (وُجُوهٌ يَوْمَئذٍ نَّاضِرَةٌ) يعنى شاداب ، (إِلىَ‏ رَبهِّا نَاظِرَة)ديكھنے والے ہيں۔

نظر كے متعلق احتمالات

آيت مباركه میں (نظر ) کے متعلق چند وجوهات پاے جا تے ہیں۔ 1۔ نظر سے ظاہری نظر مراد لى ہے: جيسے الله تعالی کا قول ہے : (أَ فَلا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ‏ كَيْفَ خُلِقَت ) [2].( - کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے ہیں کہ اسے کس طرح پیدا کیا گیا ہے)‏۔ 2۔ نظر سے مراد انتظار ہے: جيسے اللہ تعالى كا قول ہے: ما يَنْظُرُونَ إِلاَّ صَيْحَةً واحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَ هُمْ يَخِصِّمُونَ ) [3]. ( - درحقیقت یہ صرف ایک چنگھاڑ کا انتظار کررہے ہیں)۔ 3۔ نظر بمعنى رؤيت ہے۔ 4۔ نظر سے مراد کہ وہ اپنے پروردگار كى نعمتوں پر نظر ركھیں گے۔ ان چہاروں میں سے اللہ تعالى كى نظر سے مراد تفكىر واعتبار نہيں ہوسكتى كيونكہ آخرت اعتبارى جگہ نہيں ۔ اور نہ ہى نظر سے مراد انتظار ہوسكتى ہے كيونكہ جب نظر كلمہ وجه( چہرہ ) كے ساتھ ذكر ہو تو اس كا معنى وہ دو آنكھیں ہيں جو چہرےميں موجود ہوتى ہے، جىسا كہ اہل زبان جب نظر سے نظر قلب كہتے ہیں : (انظر هذا الأمر بقلبك.اس معاملے ميں اپنے دل كى طرف نگاہ كرو)اس كا معنى دو آنكھوں كا ديكھنا نہيں ہے۔ چنانچہ جب نظر كلمہ وجہ(چہرہ) كے ساتھ ذكر ہو تو اس كا معنى انتظار كى نگاہ نہيں ہوگى جو كہ قلب كے ساتھ ہوتا ہے۔ اور اسى طرح نظر انتظار بہشت ميں بھى ممكن نہيں كيونكہ اس انتظار اسے نقص وعیب لازم آتا ہے، اور اہل بہشت كے ليے آنكھ نہيں كہ جس كے ساتھ ديكھے اور نہ اىسى كان ہے جس سے سن سكے وہاں عىش وعشرت كى زندگى ہوگى ۔ اور جب معاملہ ایسا ہوا ان كے ليے جائز نہ ہوگا كہ وہ منتظرین ميں سے بن جائےكيونكہ جب بھى كوئى چیز ان كے پلے پڑ جائے وہ اسى كے ساتھ آجائیں گے۔ اور جب ایسا ہوتو اللہ تعالى كے ليے درست نہيں كہ اس نظر سے نظرعطوفت مراد لے كيونكہ مخلوق كا اپنے خالق پرمہربانى كرنا جائز نہيں۔ پس حب یہ تینوں قسميں باطل ہوئى تو نظر كى اقسام ميں سے جو چوتھى قسم ہے وہی صحیح ہوئى اور وہ يہ كہ اللہ تعالى كے اس قول :( إِلىَ‏ رَبهِّا نَاظِرَة )كا معنى نظر ركھنا ہے يعنى وہ اپنے پروردگاركى نعمتوں پر نظر ركھیں گے [4].

2- وَ لَمَّا جَاءَ مُوسىَ‏ لِمِيقَاتِنَا وَ كلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبّ‏ِ أَرِني أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَاني وَ لَاكِنِ انظُرْ إِلىَ الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَاني [5]۔ ترجمہ:(تو اس کے بعد جب موسٰی عليہ السّلام ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھا دے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو)۔ اس استدلال كے ساتھ كہ ((اللہ تعالى جب پہاڑ كو اپنى جگہ پر قائم ركھنے پر قادر تھا تو وہ اس فعل پر بھى قادر تھا كہ جس كى انجام دہى سے موسىؑ اللہ كو ديكھ سكتا تھا، پس يہ دال ہے اس چیزپر كہ اللہ تعالى خود كواپنے بندوں كو دكھا سكتا ہے، اور اس كى رؤيت جائز ہے)) [6]۔


3- لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنىَ‏ وَ زِيَادَة [7]. ترجمہ: (جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے نیکی بھی ہے اور اضافہ بھی)۔ اشعرى كہتا ہے: ((اہل تاوىل كا کہنا ہے : اللہ تعالى كا اہل بہشت كوديكھنا ان كى اللہ تعالى كى رؤيت سے زياده افضل ہے كہ بندے اپنے رب كوديكھے:)) [8] ۔ 4. لهَم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا وَ لَدَيْنَا مَزِيد* سورۃ ق: 35 (وہاں ان کے لئے جو کچھ بھی چاہیں گے سب حاضر رہے گا اور ہمارے پاس مزید بھی ہے)۔ اشعرى كہتا ہے: ((مذید سے مراد : اللہ تعالى كى طرف نظر ہے )) [9]. 5- تحَيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ* [10]. (ان کی مدارات جس دن پروردگار سے ملاقات کریں گے سلامتی سے ہوگی)۔ اشعرى كہتا ہے: ((اور جب مؤمنین نے ملاقات كى تو اسے ديكھا)) [11]۔ ابو شامہ كہتا ہے ((اور اسى طرح جتنى بھى آيات لقاء كے بارے ميں وارد ہو‏‏ئی ہے، ایک گروہ نے لقاء كے معنى كو اللہ تعالى كى رؤيت پر حمل كيا ہے)) [12].


6- كلاَّ إِنهَّم عَن رَّبهِّمْ يَوْمَئذٍ لمحجُوبُون [13].(یاد رکھو انہیں روز قیامت پروردگار کی رحمت سے محجوب کردیا جائے گا)۔ اشعرى نےاس آیت كى تفسىر ان الفاظ كے ساتھ كى ہے: ( اس كى رؤيت سے ان كو محجوب كيا لیكن مؤمنین كو اس كى رؤيت سے نہيں روكا جائے گا)) الاشعری، ابو الحسن، الابانہ: ۱۴۔ اور ابو شامہ نے كہت ہےا: ((ابو بكر سمعانى نے كہا: مالك بن أنس ، ابن عىىنہ ، شافعى، احمد بن حنبل اور ہمارے ائمہ ميں سے ایک گروہ نے اس آیت كریمہ سے استدلال كى كہ مؤمنین اللہ تعالى كو جنت ميں ديكھیں گے۔ ميں نے كہا: اس سے استدلال كا طرىقہ یوں ہے:كفار كو اس حجب كے ساتھ مخصوص كرنا دليل ہے كہ مؤمنین محجوب نہيں ہونگے)) [14].


احاديث سے استدلال

1- ((ترون ربكم كما ترون القمر ليلة البدر لا تضارون في رؤيته))(تم اپنے پروردگار كو اىسے ہى ديكھیں گے جس طرح چودہویں كى رات چاند كو ديكھتے ہو، اس كى رؤيت سے تمہيں كوئى ضرر نہيں پہنچے گا)۔ وجہ استدلال: ((جب بھى رؤيت مطلق ذكر ہو اور رؤيت عىن كے ساتھ تشبيہ دى ہو تو اس كا معنى صرف رؤيت ظاہرى ہى ہوگى)) [15]. اشعرى نے ابانہ ميں مذكورہ حدىث پر اكتفا كيا ہے، لیكن ابو شامہ نے كئى اور احادیث ذكر كيا ہے، ان ميں سے.

2- (رسول اللہ نے اس آیت كى قراءت كى: لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنىَ‏ وَ زِيَادَة (جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے نیکی بھی ہے اور اضافہ بھی)فرمايا: جب اہل بہشت بہشت ميں ، يا اہل دوزخ جہنم ميں داخل ہونگےتو ایک منادى ندا دے گا: اے بہشت والو! اللہ تعالى كے ہاں تمہارے ليے وعدہ ہے كہ تمہيں جزا دینے كا ارادہ ركھتا ہے، انہوں نے كہا: يہ وعدہ كيا ہے؟ كيا ہمارے عمل كا ترازو بھارى نہيں ہوا؟ كيا ہم رو سفید نہيں ہوئے؟ كيا ہميں بہشت ميں داخل اور آتش دوزخ سے رہائى نہيں ملى؟!! كہا: پس وہ حجاب اٹھاتا ہے اور وہ اللہ تعالى كے چہرے كى طرف نگاہ كرینگے، اورجو چیزیں انہيں دى گئى ہےان ميں سے انہيں اس كى طرف نگاہ كرنے سے بڑھ كركوئى شئى محبوب نہ ہوگى۔ ایک اور روآیت ميں الى وجہہ [16]. ہے يعنى اس كے چہرے كى طرف ۔ 3- ((إنكم سترون ربكم جل ثناؤه عيانا)) [17]. تم اپنے پروردگار كو ظاہرى آنكھوں سے ديكھ پائىں گے۔

دليل عقلى

ابو الحسن اشعرى نے مذكورہ نقلى ادلة كے علاوہ عقلى دليل سے بھى استدلال كيا ہے۔ ان ميں سے: 1- كہتا ہے: اللہ تعالى موجود ہے اور اس كا اپنے آپ كو ہميں دكھانا جائز ہے ۔ پس جب اللہ تعالى ثابت شدہ موجود ہے تو اس كا اپنے كو ہميں دكھلانا محال نہيں)) [18]۔ 2- اسی طرح كہتا ہے: ((اللہ تعالى كى رؤيت چشم بصارت كے ساتھ ہونے پر دليل ميں سے ہے: ا: اللہ تعالى ہر چیز كو ديكھتا ہے۔ ب۔ اور جب اشياء كو ديكھنے والا ہوا تو اشياء كو ديكھ نہيں سكتا مگر يہ كہ وہ اپنے آپ ديكھ سكتا ہو، كيونكہ جو اپنے آپ كو ديكھ نہيں سكتا وہ اشياء كو بھى نہيں ديكھ سكتا۔ ج: اور جو اپنے آپ كو ديكھنے والا ہو تو اپنے كو ہميں دكھانا بھى جائز ہے)) [19] ۔ 3- انكا كہنا ہے : ((كسى شئى كى رؤيت مرئى پر اثر انداز نہيں ہوا كرتى كيونكہ ديكھنے والے كى رؤيت اس كے ساتھ قائم ہوتى ہے۔ پس جب معاملہ ایسا ہو اور رؤيت مرئى ميں مؤثر نہ ہو تو حقیقت كے ساتھ اطلاق دينے سے نہ تشبيہ لازم آتا ہو اور ہی انقلاب تو اللہ تعالى كے ليے محال نہيں كہ جنت ميں مؤمنین كو اپنے آپ كى زيارت كرائے)) [20]۔

اشاعرة كے نزديک رؤيت كى حقیقت اور كیفیت

انكا كهنا هے ((رؤيت اس معنى ميں ہو كہ مرئى نہ از لحاظ فعل اور نہ از حیث انفعال رؤيت سے متاثر ہوتا ہو)) [21] ۔اور يہى معنى ادراک كا بھی ہے۔ چنانچه آمدى نے اس طرح تعریف کی هے ((يہ ایسا كمال ہےجس كے ساتھ نفس كو -عقلى اعتبار سے خبر يا دليل كے سبب- شئى معلوم سے مزید كشف حاصل ہوتا ہے)) [22]۔ اور غزالى نے اس طرح تعریف کی هے: ((رؤيت ایک نوع كشف اور علم ہے، لیكن يہ علم سے زيادہ تام اور واضح تر ہے)) [23]. پھر آمدى ادراک سے حاصل ہونے والے كشف كى یوں وضاحت كرتا ہے، اور كہتا ہے: ((حواس ظاہرى سے قطع نظر نفس كے ہاں حاصل صورت اور نفس كے نزدیک معلوم ہو لیكن حواس ظاہرى كے ساتھ ان دونوں ميں فرق پائے جاتے ہيں۔ پس يہ جو نفس كو حواس ميں سے ہر ایک سے زائد كمال حاصل ہو اس كو ادراک كها جاتا ہے۔جىسا كہ پہلے بيان ہوا۔ اور يہی ادراکات ، درك كرنے والے آلے سے مدرَک كى طرف خروج نہيں اور نہ مدرَک كى صورت اس ميں نقش ہوا ہے۔بلكہ وہ ایسا معنى ہے كہ جسے اللہ تعالى ان حواس ميں پیدا كرتا ہے۔ لهذا اس كے ليے خاص شکل وصورت كى شرط نہيں بلكہ اگر اللہ تعالى نے اس معنى كو دل ميں پیدا كرے يا اس كے علاوہ اعضاء ميں سے كسى عضو ميں پیدا كرئے تو ہم اسے مدرك كہتے ہيں ۔ اورنفس كو جو كچھ حاصل ہوا اس كى نسبت اگر حواس ميں زيادہ كشف اور بيان خلق كرنا اللہ تعالى كے ليے جائز ہو تو نفس كو جو علم حاصل ہوا ہے اس كى نسبت حواس كے ليے زيادہ كشف اور وضاحت خلق كرنا اللہ تعالى كے ليے عقل محال نہيں سمجھتى، اور كشف زائد كو ادراک كہا جاتا ہے۔ اور اس كا منكر عدل وانصاف سے خارج ہے، كجى اور انحراف كى روش پر گامزن ہے۔ اور جو شخص اس كلام كے رموز سے آشنا ہوا وہ ابو الحسن كے اس قول كى گہرائى تك پہنچ سكتا ہے: ((ادراک علم كا ایک مخصوص قسم ہے لیكن يہ موجودات كے علاوہ كسي اور شئي كے ساتھ تعلق پیدا نہيں كرتا))۔ اور جب يہ جان ليا تو لا محالہ اللہ تعالى كے ليے حواس باصرہ، بلكہ اس كے غیر ميں اپنى ذات اورصفات كے بارے ميں نقص وحدوث كے موجب كے بغیر اپنے نفس ميں قائم علم كے ساتھ اس سے جو كچھ حاصل ہوا كشف زائد خلق كرنا عقل جائز قرار ديتى ہے،اور اسى كو اہل حق ادراک كا نام دىتا ہے)) [24] ۔ اور انہوں نے اس علمى رؤيت يا علمى ادراک کی اثبات پر ان احادیث سے استدلال كيا جو كہتى ہےكہ نبى پاك صلى اللہ عليہ وآلہ اپنے پيچھے ويسےديكھتے تھے جيسے آپ اپنے سامنے كى چیزوں كو ديكھتے تھے۔


جیسا که صحیح بخارى كتاب صلاة ميں آيا ہے: پهلی روایت : نماز پورى پڑھنے اور قبلہ كے ذكر ميں امام كا لوگوں كو نصيحت كے باب ميں ہے: (( ابو ہرىرہ سے: رسول صلى اللہ عليہ وآلہ نے فرمايا:كيا تم ديكھتے ہو كہ ميں رو بہ قبلہ ہوں، پس اللہ كى قسم ! نہ تمہارا خشوع اور نه هی ركوع مجھ سے پوشیدہ ہے بے شک ميں تمہيں اپنے پیٹ پيچھے ديكھتا ہوں))۔ دوسری روایت: اقامت اور اس كے بعد صفوں ميں تساوى كے باب ميں: ((انس بن مالك سے: نبى پاك صلى اللہ عليہ وآلہ نے فرمايا : تم صفیں منظم كرو کیونکه ميں اپنے پيچھے تمہيں ديكھتا ہوں))۔ اسی حاشىے ميں لكھا ہے: يعنى ميں تمہيں اىسے ديكھتا ہوں جس طرح تم میرے سامنے ہو۔ تیسری روایت : صفیں منظم ہونے كے بعد امام كالوگوں كى طرف نگاہ كرنے كے باب ميں: (( انس سے: كہا: صفیں كھڑى ہوئى تو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ نے ہمارى طرف رخ كيا، پس فرمايا: اپنے صفوں كو منظم ، مرتب كرو بتحقىق ميں تمہيں میرے پيچھے ديكھ رہا ہوتا ہوں))۔ چھوتھی روایت: صف ميں بازو سے بازو اور قدم سے قدم ملانے كے باب ميں: (( انس سے كہ نبى ﷺ نے فرمايا: تم اپنى صفوں كو درست كرو کیونکه ميں تمہيں پیٹ پيچھے ديكھتا ہوں)) [25]۔

معتزلہ مذہب

جىسا كہ بيان ہوا معتزلة نفي مطلق رؤيت کے قائل ہيں۔ معتزلة نظريه كا خلاصه: معرفت اور علم كے ساتھ رؤيت جائز ہے۔ جبكه خالص وحدانیت اور خالص توحید سے منافات كى وجہ سے بصارت كے ساتھ رؤيت محال ہے۔ رؤيت كى نفى پر ان كى دلائل معتزلہ نے عدم امكان رؤيت پر دليل عقلي اور دليل نقلى دونوں سے كى ہے۔

نفي رؤيت پرعقلی دليل

پهلی عقلی دلیل

عقلى اعتبار سے ان كے دلیل كو اس بيان كے ساتھ خلاصہ كيا جاسكتا ہے: 1: بلا ترديد اللہ تعالى واجب الوجود ہے۔ 2: اور وجوب وجود اللہ تعالى كا تجرد ، اس سے جہت كى نفى اور كسى مكان ميں ہونے كى نفى كا تقاضا كرتا ہے۔ 3: رؤيت وہاں ممكن هے جہاں مرئي كے ليے جہت اور مكان ہو، اور مجرد نا ہو كيونكہ يہ چیزین رؤيت کے تحقق كى بنياد ی شرط ہیں۔ نتیجه: جب اللہ تعالى زات اقدس جہت اور مكان سے مجرد و منزّہ ہے تو اس کے لیے رؤيت واقع ہونا محال ہے۔ دليل كا خلاصة: نہآیت مختصر اور مفید بيان كے ساتھ: وجوب كى دليل اس كى رؤيت كى نفى كى دليل ہے۔

دوسري عقلي دليل

صرف وہ چیزیں ظاہرى آنكھوں سے ديكھى جاسكتى ہے جو اجسام ميں سے رنگ وشکل كے قابل ہو، اور وہ دونوں اعراض ميں سے ہے۔ جبكہ اللہ تعالى كى ذات ان اشياء سے پاك منزه ہے۔ اور اسى مطلب كى طرف شیخ صدوق ؒ كا اسماعیل بن فضل سے نقل كى ہوئى روآیت اشارہ كرتى ہے، اس نے كہا: (( ميں نے ابو عبد اللہ جعفر بن محمد صادقؑ سے اللہ تعالى كے بارے ميں سوال كيا: كيا الله كو روز قيامت ديكھا جاسكتا ہے؟ تو انہوں كہا: اس كى ذات پاك ومنزہ ہے۔ اے فضل كے بیٹے، بے شک آنكھیں اس چیز كو درك كرسكتى ہے جس كے ليےرنگ اور كیفیت ہو، اور اللہ تعالى رنگوں اور كیفيات كا خالق ہے)) يعني اعراض سے پاک ہے۔

نفي رؤيت پر نقلی دليل

معتزله نے اپنی مدعی پر قرآنی آیات اور روایات سے استدلال کیا هے

قرآني آيات سے استدلال

پہلی آیت

لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَار وَ هُوَ اللَّطِيفُ الخْبِير [26]. (نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے)۔ دليل نقلى ميں سے يہ سب سے اہم دليل ہے جس سے انہوں نے استدلال كيا۔ قاضى عبد الجبار معتزلى كہتا هے: ((لغت کی اعتبار سے ادراک اور رؤيت ميں کوئی فرق نہيں ہے۔ تو ہم ىقىن سے كہہ سكتے ہيں كہ اللہ تعالى كو نگا ہيں ديكھ نہيں سكتى، یعنی رويت نهيں كرسكتيں)) [27]۔ آیت اس ميں ظہوررکھتی ہے، اور قرینہ عقل بھی آیت كااس ظہورسے عدم انصراف اور ظاہر كے علاوہ كسى دوسرے معنى پر حمل نہ ہونے كو لازم قرار ديتى ہے۔ پس اللہ تعالى ان سب اشياء كا خالق ہے، ان چیزوں سے بالاتر ہے، ديكھنے اور نہ ديكھے جانے سے كے لحاظ سے منفرد ہے، جىسا كہ اس آیت ميں بيان كيا : وَ هُوَ يُطْعِمُ وَ لَا يُطْعَم [28]. (اور وہی سب کو کھلاتا ہے اس کو کوئی نہیں کھلاتا ہے)، اور اللہ كا يہ قول: يُجيرُ وَ لا يُجارُ عَلَيْه سورۃ المؤمنون: ۸۸ ‏(وہی پناہ دیتا ہے اور اسی کے عذاب سے کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے)۔ جناب عياشى نے متصل سند كے ساتھ اس آیت کے ذیل میں جو روایت نقل كى ہے وہى ہمارے ليے اس پر تعلیقہ لگانے سے كفایت كرتا ہے: فرماتے ہیں ((أن الفضل بن سهل ذا الرئاستين سأل الإمام أبا الحسن علي بن موسى الرضا عليه السلام فقال: أخبرني عما اختلف فيه من الرؤية؟! فقال:من وصف الله بخلاف ما وصف به نفسه فقد اعظم الفرية على الله تعالى، لا تدركه الأبصار وهو اللطيف الخبير. ثم قال: لا تقع عليه الأوهام، ولا يدرك كيف هو)) :[29]. (دو عہدوں كا مالك فضل بن سہل نے ابو الحسن على بن موسى رضاؑ سے پوچھا، اور كہا: رؤيت كے بارے ميں جو اختلاف پايا جاتا ہے اس كے متعلق مجھے باخبر كرو؟! آپؑ نے فرمايا: جس نے اللہ كا اپنا بيان كردہ صفت كے برخلاف وصف كى تو اس نے اللہ تعالى پر بہت بڑا افترا باندھا ہے، نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اوروہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔ پھر فرمايا: وہم وگمان كا اس تك پہنچ نہيں سكتا، اور جان نہيں سكتا كہ وہ كیسے ہيں))[30].

دوسری آیت

يَعْلَمُ مَا بَينْ‏َ أَيْدِيهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا يحُيطُونَ بِهِ عِلْمًا [31]. (وہ سب کے سامنے اور پیچھے کے حالات سے باخبر ہے اور کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے)۔ ثقہ الاسلام کلینی كا اصول كافى ميں اپنى سند كے ساتھ صفوان بن یحىى سے كتاب توحید باب ابطال رؤيت كے بارے ميں جو روآیت نقل كى ہے وہ ہميں اس آیت پر تعلیق لگانے سے كفآیت كرتى ہے، كہا: ((سَأَلَنِي‏ أَبُو قُرَّةَ الْمُحَدِّثُ‏ أَنْ أُدْخِلَهُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع فَاسْتَأْذَنْتُهُ فِي ذَلِكَ فَأَذِنَ لِي فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنِ الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ وَ الْأَحْكَامِ حَتَّى بَلَغَ سُؤَالُهُ التَّوْحِيدَ۔فَقَالَ أَبُو قُرَّةَ: إِنَّا رُوِّينَا أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ قَسَمَ الرُّؤْيَةَ وَ الْكَلَامَ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَقَسَمَ لِمُوسَى ع الْكَلَامَ وَ لِمُحَمَّدٍ ص الرُّؤْيَةَ۔ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع فَمَنِ الْمُبَلِّغُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى الثَّقَلَيْنِ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ‏ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً وَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ؟ أَ لَيْسَ مُحَمَّدٌ ص قَالَ بَلَى قَالَ فَكَيْفَ يَجِي‏ءُ رَجُلٌ إِلَى الْخَلْقِ جَمِيعاً فَيُخْبِرُهُمْ أَنَّهُ جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَ أَنَّهُ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ بِأَمْرِ اللَّهِ وَ يَقُولُ‏ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً وَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا رَأَيْتُهُ بِعَيْنِي وَ أَحَطْتُ بِهِ عِلْماً وَ هُوَ عَلَى صُورَةِ الْبَشَرِ أَ مَا يَسْتَحْيُونَ مَا قَدَرَتِ الزَّنَادِقَةُ أَنْ تَرْمِيَهُ بِهَذَا أَنْ يَكُونَ يَأْتِي عَنِ اللَّهِ بِشَيْ‏ءٍ ثُمَّ يَأْتِي بِخِلَافِهِ۔ قَالَ أَبُو قُرَّةَ فَإِنَّهُ يَقُولُ‏ وَ لَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرى‏ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع إِنَّ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ مَا يَدُلُّ عَلَى مَا رَأَى حَيْثُ قَالَ‏ ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏ يَقُولُ مَا كَذَبَ فُؤَادُ مُحَمَّدٍ ص مَا رَأَتْ عَيْنَاهُ ثُمَّ أَخْبَرَ بِمَا رَأَى فَقَالَ‏ لَقَدْ رَأى‏ مِنْ آياتِ رَبِّهِ الْكُبْرى‏ فَآيَاتُ اللَّهِ غَيْرُ اللَّهِ وَ قَدْ قَالَ‏ وَ لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً فَإِذَا رَأَتْهُ الْأَبْصَارُ فَقَدْ أَحَاطَتْ بِهِ الْعِلْمَ وَ وَقَعَتِ الْمَعْرِفَةُ فَقَالَ أَبُو قُرَّةَ فَتُكَذِّبُ الرِّوَايَاتِ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع إِذَا كَانَتِ الرِّوَايَاتُ مُخَالِفَةً لِلْقُرْآنِ كَذَّبْتُ بِهَا وَ مَا أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ أَنَّهُ لَا يُحِيطُ بِهِ عِلْمٌ وَ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ [32].( ابو قره محدث نے مجھ سے چاہا كہ اسے حضرت امام رضا (ع) تك پہنچاوں پس ميں نے اس بارے ميں آپؑ سے اجازت لى آپؑ نے مجھے اس كو داخل كرنے كى اجازت دى، تو اس نے آپؑ سے حلال وحرام اور احكام الہى كے بارے ميں سوال كيا يہاں تك كہ اس كا سوال توحید تك جاپہنچا۔ اسکے بعد ابو قرہ نے كہا: ہم تك روآیت پہنچى ہے كہ خدا نے ديكھنے اور بات كرنے كو دو نبیوں ميں تقسىم كى ہے، پس گفتگو كا حصہ موسىؑ ، اور ديكھنا محمدﷺ كى حصے ميں آيا ہے۔ تو امامؑ نے فرمايا: پس ثقلىن ميں سے جن وانس كا مبلغ كون ہے جس نے(لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ ۔نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں)وَ (لا يُحِيطُونَ بِهِ۔ عِلْماً کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے) و (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ۔اس کا جیسا کوئی نہیں ہے)؟ كيا وہ محمدﷺ ہے؟ كہا: ہاں۔ فرمایا:كیسے ایک آدمى سبھى مخلوقات كى طرف آتا ہے اور انہيں خبر دىتا ہے كہ وہ خدا كى جانب سے ہے، اور وہ ان كو اللہ كے حكم سے ان كو خدا كى طرف دعوت دىتا ہے اور انہيں خدا كے بارے ميں كہتا ہے (لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ) وَ (لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً) و (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ)،پھرانہيں كہتا ہے: ميں نے اپنى آنكھوں سے اسے ديكھا ہوں اور علم كے لحاظ سے اس كا احاطہ كرچكا ہوں، اوركيا وہ بشر كى شکل ميں ہے؟!! كيا تمہيں شرم محسوس نہيں ہوتى؟ اس قسم كى نسبت سے زنادقہ پیغمبرﷺ كو متہم نہ كرسكے كہ وہ اللہ تعالى كے پاس سے كچھ لیكر آئے پھر اس كے برخلاف لیكر آئے!!ابو قره نے عرض كيا:اللہ تعالى كہتا ہے (وَ لَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرى‏ [33] ۔ اور اس نے تو اسے ایک بار اور بھی دیکھا ہے)۔ امامؑ نے فرمايا: اس آیت كے بعد كوئى چیز ہے جو آپﷺ نے ديكھا اس پر دلالت كرئےكہ فرمايا(ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [34]۔ یعنی دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا‏)، خداكہتا ہے:محمدﷺ كے دل نے جو كچھ اس كى آنكھ نے ديكھا جھٹلایا نہيں ، پھر خدا نے جو كچھ پیغمبرﷺ نے ديكھا اس كى خبر دى اور فرمايا(لَقَدْ رَأى‏ مِنْ آياتِ رَبِّهِ الْكُبْرى سورۃ النجم: ۱۸ ‏ يعنى اس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیان دیکھی ہیں) پس اللہ كى آيات اور نشانياں غیر خدا ہيں۔ اور حضرت نے فرمايا: (( اور اللہ تعالى كہتا ہے: (وَلا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً يعنى کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے) پس جب بھى آنكھیں اسے ديكھیں اس كا علم كے لحاظ سے احاطہ كيا ہے۔ ابو قرہ نے كہا: كيا آپؑ روايات كو جھٹلاتے ہیں؟! امامؑ نے فرمايا:جب بھى روايات قرآن كے ساتھ منافات ركھتى ہوں ان كو جھٹلاتا ہوں۔ اور سب مسلمانوں نے اس پر اتفاق كيا ہےكہ اس كا از لحاظ علم احاظہ نہيں كيا جاسكتا اور اس كو نگاہيں درك كرسكتى ہيں، اور اس كا جىسا كوئى نہيں))۔ ميں كہا:يہ بہترىن فیصلہ اور مفصل حقیقت ہے، اور يہ حق وباطل ميں حد فاصل ہے، كوئى صاحب عقل اس كلام كو سن لے تو اسےتسلىم كرىگا، يہ اللہ كا فضل ہے جسنے ہمیں نبى كى عترت اور كتاب دى ہے، اور وہ بڑا فضل والا ہے)) [35]۔

تيسري آيت

وَ إِذْ قَالَ مُوسىَ‏ لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتخِّاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلىَ‏ بَارِئكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَالِكُمْ خَيرْ لَّكُمْ عِندَ بَارِئكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ وَ إِذْ قُلْتُمْ يَامُوسىَ‏ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتىَ‏ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَ أَنتُمْ تَنظُرُون [36]۔ (اور وہ وقت بھی یاد کرو جب موسٰی علیہ السّلام نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے گو سالہ بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے. اب تم خالق کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کہ یہی تمہارے حق میں خیر ہے. پھر خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسٰی علیہ السّلام سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک خدا کو اعلانیہ نہ دیکھ لیں جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے)۔ سید شرف الدین فرماتے هیں : ((يہ دو آیتىں متصل ہيں ہمارے موضوع بحث رؤيت امتناع پر دليل صرف دوسرى آیت ميں ہے، اور ہم نے پہلى آیت كو اس ليے ذكر كيا كيونكہ اس كا استدلال سے گہرا ربط ہے، اور وہ یوں كہ پہلى آیت بچھڑے كو معبود بنانے پر عقاب كے طور پر اپنے آپ كو قتل كرنا قرار دے رہى ہے، اور دوسرى آیت اللہ تعالى كى رؤيت كا مطالبہ كرنے والوں كو آسمانى بجلى كے ذریعے عقاب كرنے پر نص ہے اس حال ميں كہ وہ ديكھ رہے تھے۔ اور يہ بادشاہ، حق ،عادل اللہ تعالى كى جانب سے ان كا مؤاخذہ ان دونوں جرائم كا ایک جيسے ہونے پر ىقىن كا موجب بنتا ہے، اوررؤيت كے امتناع اور اس كے قائلىن كے خلاف انكار كا وجوب پر اس سے بڑھ كرمحكم دليل نہيں ہوسكتى، بلكہ جس طرح قوم موسى ميں سے صاحبان صاعقہ پر حجت تمام ہوئى رؤيت كے امتناع پر حجت تمام ہونے كے بعد عناد كى بنياد پر اصراركرنے والوں كے كفر كا وجوب پر بھى يہ دليل ہے، پس جب آپ عليہ السلام نے رؤيت كا سوال كيا تو تو اس كے امتناع كى خبر دى پس انہوں نے اس پر سماجت كى اور اپنى سركشى پر اڑے رہے، تو انہيں سمجھايا گيا كہ اللہ تعالى كى رؤيت سے اس كا مكان اور كیفیت ميں ہونا اور اس كى طرف اشارہ كرنا لازم آتا ہے، اور اللہ تعالى اس سے منزہ ہے، اور ان كے ليے روشن كيا كہ جو لوگ اللہ تعالى كى رؤيت كا طالب ہيں وہ اس كو جاہل اور اور اجسام يا اعراض كے اقسام ميں سے قرار ديا، پس انہوں نے سرپىچى كى اور دشمنى كى بناء پر رؤيت كى درخواست سے دستبردار نہيں ہوئےتو يہ اس كى وجہ سے گوسالہ پرستوں كى طرح ہوئے، پس اللہ تعالى كے امر سے آسمانى بجلى نے انہيں گھير لى جىساكہ وہ لوگ جرم برابر ہونے كے باعث اللہ كے حكم سے قتل كردىے گئے ۔يہ امتناع رؤيت پر دونوں آیتوں كے استدلال كى توجيہ پر مىرا استفادہ ہے)) الموسوي، شرف الدين، [37] ۔ چوتھی آیت: وَ لَمَّا جَاءَ مُوسىَ‏ لِمِيقَاتِنَا وَ كلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبّ‏ِ أَرِنىِ أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَئنىِ وَ لَاكِنِ انظُرْ إِلىَ الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَئنىِ فَلَمَّا تجَلىَ‏ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسىَ‏ صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِين [38]۔ (تو اس کے بعد جب موسٰی علیہ السّلام ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو .اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا اور موسٰی علیھ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے پھر جب انہیں ہوش آیا تو کہنے لگے کہ پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں)۔


سید شرف الدین كہتے ہیں:اس آیت كریمہ پر تعلیق لگانے سے شیخ صدوق ابو جعفر محمد بن على بن حسىن بن بابويہ قمى كا كتاب توحید كے باب ما جاء فى الرؤيہ ميں اپنے سند كے ساتھ على بن محمد بن جہم سے روآیت كا اخراج كرنا كفآیت كرتى ہے، كہتا ہے: ميں مامون كے دربار ميں حاضر ہوا اس كے پاس على بن موسى رضا عليہ السلام تشرىف ركھتے تھے، مامون نے ان سے كہا:يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَ لَيْسَ مِنْ قَوْلِكَ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ مَعْصُومُونَ قَالَ بَلَى فَسَأَلَهُ عَنْ آيَاتٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَكَانَ فِيمَا سَأَلَهُ أَنْ قَالَ لَهُ فَمَا مَعْنَى‏ قَوْلِ‏ اللَّهِ‏ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ لَمَّا جاءَ مُوسى‏ لِمِيقاتِنا وَ كَلَّمَهُ رَبُّهُ قالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قالَ لَنْ تَرانِي‏ الْآيَةَ كَيْفَ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ كَلِيمُ اللَّهِ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ ع لَا يَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرُهُ لَا يَجُوزُ عَلَيْهِ الرُّؤْيَةُ حَتَّى يَسْأَلَهُ هَذَا السُّؤَالَ- فَقَالَ الرِّضَا ع إِنَّ كَلِيمَ اللَّهِ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ ع عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَنْ أَنْ يُرَى بِالْأَبْصَارِ وَ لَكِنَّهُ لَمَّا كَلَّمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ قَرَّبَهُ نَجِيّاً رَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ فَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ كَلَّمَهُ وَ قَرَّبَهُ وَ نَاجَاهُ فَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَسْمَعَ كَلَامَهُ كَمَا سَمِعْتَ وَ كَانَ الْقَوْمُ سَبْعَمِائَةِ أَلْفِ رَجُلٍ فَاخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعِينَ أَلْفاً ثُمَّ اخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعَةَ آلَافٍ ثُمَّ اخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعَمِائَةٍ ثُمَّ اخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقَاتِ رَبِّهِ فَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى طُورِ سَيْنَاءَ فَأَقَامَهُمْ فِي سَفْحِ الْجَبَلِ وَ صَعِدَ مُوسَى ع إِلَى الطُّورِ وَ سَأَلَ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَنْ يُكَلِّمَهُ وَ يُسْمِعَهُمْ كَلَامَهُ فَكَلَّمَهُ اللَّهُ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَ سَمِعُوا كَلَامَهُ مِنْ فَوْقُ وَ أَسْفَلُ وَ يَمِينُ وَ شِمَالُ وَ وَرَاءُ وَ أَمَامُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَحْدَثَهُ فِي الشَّجَرَةِ ثُمَّ جَعَلَهُ مُنْبَعِثاً مِنْهَا حَتَّى سَمِعُوهُ مِنْ جَمِيعِ الْوُجُوهِ فَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ بِأَنَّ هَذَا الَّذِي سَمِعْنَاهُ كَلَامُ اللَّهِ‏ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَلَمَّا قَالُوا هَذَا الْقَوْلَ الْعَظِيمَ وَ اسْتَكْبَرُوا وَ عَتَوْا بَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْهِمْ صَاعِقَةً فَأَخَذَتْهُمْ بِظُلْمِهِمْ فَمَاتُوا فَقَالَ مُوسَى يَا رَبِّ مَا أَقُولُ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِذَا رَجَعْتُ إِلَيْهِمْ وَ قَالُوا إِنَّكَ ذَهَبْتَ بِهِمْ فَقَتَلْتَهُمْ لِأَنَّكَ لَمْ تَكُنْ صَادِقاً فِيمَا ادَّعَيْتَ مِنْ مُنَاجَاةِ اللَّهِ إِيَّاكَ فَأَحْيَاهُمُ اللَّهُ وَ بَعَثَهُمْ مَعَهُ- فَقَالُوا إِنَّكَ لَوْ سَأَلْتَ اللَّهَ أَنْ يُرِيَكَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَيْهِ لَأَجَابَكَ وَ كُنْتَ تُخْبِرُنَا كَيْفَ هُوَ فَنَعْرِفُهُ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ فَقَالَ مُوسَى ع يَا قَوْمِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُرَى بِالْأَبْصَارِ وَ لَا كَيْفِيَّةَ لَهُ وَ إِنَّمَا يُعْرَفُ بِآيَاتِهِ وَ يُعْلَمُ بِأَعْلَامِهِ فَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَسْأَلَهُ فَقَالَ مُوسَى ع يَا رَبِّ إِنَّكَ قَدْ سَمِعْتَ مَقَالَةَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ أَنْتَ أَعْلَمُ بِصَلَاحِهِمْ فَأَوْحَى اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ إِلَيْهِ يَا مُوسَى اسْأَلْنِي مَا سَأَلُوكَ فَلَنْ أُؤَاخِذَكَ بِجَهْلِهِمْ فَعِنْدَ ذَلِكَ قَالَ مُوسَى ع‏ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قالَ لَنْ تَرانِي وَ لكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكانَهُ‏ وَ هُوَ يَهْوِي‏ فَسَوْفَ تَرانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ‏ بِآيَةٍ مِنْ آيَاتِهِ- جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً فَلَمَّا أَفاقَ قالَ سُبْحانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ‏ يَقُولُ رَجَعْتُ إِلَى مَعْرِفَتِي بِكَ عَنْ جَهْلِ قَوْمِي- وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ‏ مِنْهُمْ بِأَنَّكَ لَا تُرَى فَقَالَ الْمَأْمُونُ لِلَّهِ دَرُّكَ يَا أَبَا الْحَسَنِ [39]۔

يا بن رسول اللہ! كيا آپ كا يہ عقیدہ نہيں كہ انبياء معصوم ہيں؟ فرمايا: ہاں، پس اس نے آپؑ سے قرآن كےكئى آيات كے بارے ميں سوال كيا اور جو كچھ اس نے پوچھا وہ يہ تھا كہ اس نے حضرت سے كہا كہ خدائے عزّ وجل كے اس قول كا معنى كيا ہے(وَ لَمَّا جاءَ مُوسى‏ لِمِيقاتِنا وَ كَلَّمَهُ رَبُّهُ قالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قالَ لَنْ تَرانِي سورۃ اعراف: 143۔ ‏ تو اس کے بعد جب موسٰی علیہ السّلام ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو)كیسے ممكن ہے كہ خدا كے كلىم موسى بن عمران اس سے غافل ہو كہ خداوند زتعال كو ديكھا نہيں جاسكتا يہاں تك كہ خدا سے يہ سوال كرئے؟ پس امام رضاؑ نے فرمايا: بے شک كلىم خدا موسى بن عمران اس بات سے واقف تھے كہ اللہ تعالى دید سے بالاتر ہے، لیكن خداوند متعال نے ان سے گفتگو كى اور اس كو اپنى قربت بخشى اس حال ميں كہ وہ اللہ كے ہمراز تھےاپنى قوم كى طرف لوٹ آئے اور انہيں يہ خبر دى كہ اللہ تعالى نے اس كے ساتھ گفتگو كى ، اس كو قربت دى اور اس كے ساتھ راز كى باتىں كى ہے،پس انہوں نے كہا: ہم ہرگز تمہارى باتوں پر ىقىن نہيں كرینگے جب تك ہم جس تو نے سنا ہے اس كے كلام كو نہ سنے، پس اس نے اپنے پروردگار سے وعدہ پورا كرنے كے ليے ان ميں سے ستّر افراد كو چن ليا۔ اور ان كو ليے كے كوہ سیناء كى سمت چلے اور اللہ تعالى سے كہا كہ وہ اس كے ساتھ گفتگو كرئے تاكہ وہ سب اسے سنے، پس اللہ تعالى ذكرہ نے اس سے بات كى اور انہوں اس كى باتوں كو چھے اطراف سے سنے كيونكہ اللہ تعالى نے درخت سے باتوں كو ایجاد كيا تھا، پھر ان باتوں كو اس درخت سے پیدا كى تاكہ ہر طرف سے اسے سنىں۔اور كہا:‏ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ‏ يعنى جو كچھ ہم نے سنا وہ كلام خداوندى ہونے پر ہم ہرگز تمہارى تصدیق نہيں كرینگے‏ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً يہاں تك كہ ہم اللہ تعالى كو آشکار نہ ديكھے۔ پس انہوں نے جب يہ بڑى بات كردى ، اور تكبر كيا، اور سركشى كى، تو اللہ تعالى نے آسمانى بجلى ان پر بھیجى كہ ان كے ظلم كے باعث بجلى نے انہيں پكڑ لى اور وہ سارے ہلاك ہوگئے ۔ پس حضرت موسىؑ نے اپنے پروردگارسےعرض كى: اے پروردگار! جب ميں ان كى طرف پلٹ جاوں تو بنى اسرائیل كو كيا كہوں، اور وہ كہيں گے: كہ تم انہيں لے گئے اور انہيں قتل كردىے كيونكہ تمہارا اللہ تعالى كے ساتھ رازو نياز كا دعوى سچا نہيں تھا!۔


چنانچه اللہ تعالى نے انہيں زندہ كيا اور ان كو حضرت موسىؑ كے ساتھ بھىجا، تو انہوں نے كہا: بے شک اگر تْو نے اللہ تعالى سے سوال كيا ہوتا كہ وہ اپنے آپ كو تجھے دكھائے اور تْو اسے ديكھتے اور بعد ميں ہميں بتاتے كہ حضرت حق كىسا ہے؟ تو انہيں پہچان لیتے جس كى معرفت كا حق ہے۔ موسىؑ نے كہا: اے میرى قوم! بتحقىق اللہ تعالى نہ چشم دید سے ديكھا جاسكتا ہے اور نہ اس كى كیفیت معلوم ہے، مگر يہ اس كو صرف اس نشانیوں سے پہچان اوراس كى علامات كے وسىلے سے علم پیدا كرسكتے ہيں۔ چنانچه انہوں نے كہا: ہم ہرگز تمہارى تصدیق نہيں كرینگےاس وقت تك كہ تو اس سے مطالبہ كرئے۔ پس موسىؑ نے كہا: اے میرے پروردگار! بے شک تْو نے بنى اسرائیل كى بات سن لى ، اور تو سب زيادہ ان كى مصلحت سے واقف ہے۔ اور اللہ تعالى نے انکی طرف وحى كى: اے موسىؑ! جس طرح انہوں نے تجھ سے سوال كيا ہے اسى طرح تْو مجھ سے پوچھو ، ميں ان كى جہالت كے باعث تمہارا مؤاخذہ نہيں كرونگا۔ پس اس وقت موسىؑ نے كہا: اے میرے پروردگار تيرا جلوہ دكھا دے تاكہ ميں تجھے ديكھ سكوں۔ كہا تْو ہرگز مجھے ديكھ نہيں سكتا، لیكن اس پہاڑ كى سمت ديكھو اگر وہ اپنى جگہ ٹھہر سكے – حالانكہ وہ گر جائے گا-پس مجھے سكو گے۔ پس جب اس كے پروردگار نے اس پہاڑ كو اپنا جلوہ دكھايا اپنى نشانیوں ميں سے ایک نشانے كے ساتھ تو وہ پہاڑ ٹكڑے ٹكڑے ہوگيا اور موسىؑ بے ہوش ہوكے منہ كے بل گر پڑا، پس جب اسے افاقہ ہوا، تو كہا: تْو پاك ومنزّہ ہو، اور تیرے سامنے توبہ كيا، كہتا ہے: میرى قوم كى جہالت سے تیرى معرفت كى طرف لوٹ آيا، اور ميں پہلا شخص ہوں جو تیرے عدم رؤيت كى تصدیق كرتا ہے۔ پس مامون نے كہا: اے ابا الحسن تیرى خوبى اللہ تعالى كے ليے ہے))۔

رؤيت اہل بيتؑ كى احادیث كي روشني ميں

رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ كے اس قول كے مطابق اہل بيتؑ كى دامن سے تمسك كرتے ((إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي :كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض فانظروا كيف تخلفوني فيهما ))[40]. محمد بن عىسى ابو عىسى الترمزى السلمى، تحقىق: احمد محمد شاكر اور دیگر۔ شیخ البانى نے اس حدىث كو صحیح كہا ہے۔ ))(بے شک ميں تم ميں چھوڑے جارہا ہوں، اگر تم نے اسے تھامے ركھا میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہونگے، آسمان سے زمین كى طرف اللہ تعالى كى مضبوط رسى اور میرى عترت اہل بيتؑ اور يہ دونوں میرے پاس حوض كوثر تك آپس ميں جدا نہ ہونگے، پس ديكھو تم میرے بعد ان كے ساتھ كيا سلوك كرتے ہو)۔ اماميہ علماء نے رؤيت كے اس مسئلے ميں احاديث اهل البيت اطهار سے تمسك كي كيا ہے: اور اہل بيتؑ اطهار نے نظريہ تجسىم اور اس كےشبہات كا بدون تسامح اور تساہل ڈٹ كرمقابلہ كيا۔اور ہمارے ليے كافى ہے كہ ميں امير المؤمنينؑ كا نہج البلاغہ ميں مروى بعض كلمات كو يہاں نقل كروں: 1. إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ‏ أَنَّكَ‏ حَيٌ‏ قَيُّومُ‏ لَا تَأْخُذُكَ‏ سِنَةٌ وَ لا نَوْمٌ‏ لَمْ يَنْتَهِ إِلَيْكَ نَظَرٌ وَ لَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ أَدْرَكْتَ الْأَبْصَارَ وَ أَحْصَيْتَ الْأَعْمَالَ وَ أَخَذْتَ بِالنَّوَاصِي وَ الْأَقْدَامِ [41] ہم صرف يہ جانتے ہيں كہ تْو زندہ، غیر كا محتاج نہيں، نہ اونگھ آتى ہے نہ نىند، كوئى فكر تجھے پانہ سكا، اور نہ كوئى نگاہ تيرا كھوج لگا سكى، تْو نگاہيں ديكھ رہا ہے اور انسان كے اعمال كا حساب كر رہا ہے اور اور پىشانى و قدوموں كو گرفت ميں ليا)۔ 2. لا تُدرِكهُ العُيُونُ بِمُشَاهدَة العيَانِ [42]۔ ترجمہ(نگاہيں اسے آشکار ديكھ نہيں سكتى) 3. الْحَمْدُ لِلَّهِ‏ الَّذِي‏ لَا تُدْرِكُهُ‏ الشَّوَاهِدُ وَ لَا تَحْوِيهِ الْمَشَاهِدُ وَ لَا تَرَاهُ النَّوَاظِرُ [43]۔ ترجمہ(شکر اس خدا كے ليے ہے جسے حواس خمسہ درك نہيں كرسكتے اور اسے مكان گھير نہيں سكتى، اور نگاہيں اسے ديكھ نہيں سكتى)۔ 4. وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ‏ الْكَائِنِ‏ قَبْلَ‏ أَنْ يَكُونَ كُرْسِيٌّ أَوْ عَرْشٌ أَوْ سَمَاءٌ أَوْ أَرْضٌ أَوْ جَانٌّ أَوْ إِنْسٌ لَا يُدْرَكُ بِوَهْمٍ‏ وَ لَا يُقَدَّرُ بِفَهْمٍ وَ لَا يَشْغَلُهُ سَائِلٌ وَ لَا يَنْقُصُهُ نَائِلٌ‏ وَ لَا يَنْظُرُ بِعَيْنٍ [44]. ترجمہ(شکر اس خدا كے ليے خاص ہے جو ہمىشہ سے ہے اس سے قبل كہ كرسى يا عرش يا آسمان يا زمین يا جن يا انسان وجود ميں آئے، اور نہ فكر وعقل اس كى شناخت سے عاجز ہے، اور كوئى سوال كرنے والا اس كے بارے ميں اپنے آپ كو مشغول نہيں كرسكتا اور اس كى بخشش كى كثرت اس ميں نقص نہيں كرسكتى، اور نہ مادى آنكھ اسے ديكھ سكتى ہے) 5. لا يُشملُ بِحدٍّ، ولا يُحسَبُ بِعدٍّ، وإنّما تَحُدُّ الأدواتُ أَنفُسُها، وتُشِيرُ الآلاتُ إلى نَظائِرِها.مَنعَتها «مُنذ» القِدمَةَ، وَحَمَتها «قد» الأَزلِيّةَ، وجَنّبَتها «لولا» التَكمِلةَ، بِها تَجلّى صَانِعُها للعُقول، وبِها اِمتَنع‏ عَن‏ نَظرِ العُيونِ الذريعة إلى حافظ الشريعة [45]۔ ترجمہ(ایسا خدا جس كى كوئى حد نہيں، اور عدد سے اس كى شمارش نہيں ہوتى، اور يہ اوزار صرف اپنى محدود ہونے پر دال ہيں، اور آلات اپنے مثل ہونے كى طرف اشارہ كرتى ہيں۔فلاں زمان سے ہونے كو اس كى قدامت نے روك ديا، اور قطعا وجود ميں آيا كے قول كو اس كے ازلى ہونے نے رد كرديا، اس كے كمال نے اگر ایسا كامل ہوتا كےقول سے بچاليا، خدا نے اپنے مخلوقات كے ساتھ عقول كے پاس جلوہ دكھايا، اور چشم ظاہرى كى دید سے اس امتناع كيا) 6. لا تَنالُه الأوهامُ فتقدرهُ، ولا تتهمه الفطن فتصوره، ولا تدركه الحواس فتحسبه ترجمہ(عقول اس رسائى نہيں ركھتے كہ اس كے ليے حدود كا تصور كرے، افكار ا اس تك پَر نہيں مارسكتے كہ اس تصور كرسكے، حواس اس كے احساس سے عاجز ہيں)


امامية كے نزديك رؤيت كى حقیقت اور كیفیت

ان كے نزدیک رؤيت سے مراد وہى معروف طبعي رؤيت ہے،اور اس كى كیفیت بھى معروف طبىعى كیفیت ہے۔اور يہ حواس خمسہ ميں سے ایک اور ديكھنے كا ایک عضو ہے كہ جس كے ساتھ رؤيت متحقق ہوتى ہے۔((جب آنكھ كے وسط ميں روشنى پڑتى ہے تو اس كے ذریعے رؤيت روتى ہے، پس عدسہ اس روشنى كو وسط ميں مركوز كرتا ہے تو اس كى وجہ سے پردے پر شکل مجسم ہوتى ہے، پھر بصرى رگىں اسے معكوس انداز ميں پيچھے دماغ كى طرف منتقل كرتى ہے اوردماغ پر اس كا انعكاس اىسے طرىقے سے ہوتا ہے كہ آج تك سائنس دان اس كے فہم سے عاجز ہيں))

رؤيت كي تحقق كي شرائط

قوت باصرہ كے درك كرنے والى چیزیں روشنى، رنگ اور شکلىں ہيں۔اور رؤيت كے تحقق كے واسطے يہ شرائط ذكر كئے گئے ہيں: 1- ديكھنے والا اور ديكھى جانے والى چیز آمنے سامنے ہو۔ 2- قرب وبعد كے اعتبار سے فاصلہ بھى مناسب ہو۔ 3- ديكھى جانے والى شئى كا حجم اتنا ہو كہ نگاہ ميں آسكے، اس معنى ميں كہ وہ چیز اتنى چھوٹى يا لطىف يا مجرد نہ ہو كہ آنكھ اسے ديكھ نہ پائے۔ 4- مرئى جسم كثىف ہو(بہت رقىق اور نازك نہ ہو)۔ 5- مرئى جسم يا روشن كرنے والا ہو يا روشنى پڑنے پر روشن ہونے والا ہو۔

اشاعرة كے اشکالات

رؤيت كے حامى اور مخالف دونوں نے ایک دوسرے پر اشکال كىے ہيں، اور چونكہ ان ميں سے ایک حصہ موضوعى ، رنگِ علمى سے رنگا ہوا ہے اس ليے مناسب سمجھا كہ ان ميں سے بعض كو ذكر كروں۔ اور اشکالات اور اس قسم كى دیگر چیزیں غالبا مناقشہ كرنے والے ہرفرىق اپنے منتخب روش كى تطبىق كے ليے لے آتے ہيں مدّعىٰ يا اس دليل مقابل كى نفى كے ليےنہيں هوتا بلكہ جدل براى جدل، مسلّمات ميں شکوك ایجاد كرنےاور طرف مقابل سے نتىجہ حاصل كرنے كے ليے لے آتے ہيں۔ اہم ترىن اشکال رؤيت كى ماہىت اور كیفیت پر اہم ترىن اشکال رؤيت كى ماہىت اور اس كى كیفیت پر ہے، وه ان دو آيات كریمہ كى دلالت پرہے: (لا تدركه الأبصار، نگاہيں اسے درك نہيں كرسكتى ) كہ جو نفى والوں كى عمدہ دليل اور (إلى ربها ناظرة) كہ جو رؤيت كے اثبات والوں كى عمدہ دليل ہے۔اور آپ كے سامنے اس كا ایک حصہ پىش ہے: 1. ابو الحسن اشعرى نے رؤيت كے منكرین كا آیت لا تدركه الأبصَارُميں لا تُدركهُ كو مطلق عدم رؤيت پر حمل كرنے كو مورد اشکال قرار ديا ہے،يعنى آنكھیں اسے نہ دنيا ميں اور آخرت ميں ديكھ سكتى ہيں، اور كلمہ أبصار ميں عام ہے كيونكہ يہ جمع كہ جس پر الف لام داخل ہے، پس ابصار بغیر استثناء تمام مخلوقات كو شامل ہوگا۔ اشعرى نے كہتا هے: اگر كو ئى قائل كہے: پس اللہ كا قول (لا تدركه الأبصَار)كا معنى كيا ہے؟ اسے جواب ديا جائىگا: احتمال ہے: اسے دنيا ميں نہ ديكھ سكے، اور آخرت ميں ديكھ سكتا ہو، كيونكہ رؤيت خداوندى بہترىن ذات ہے، اور بہترىن ذات دونوں جگہوں ميں سے بہترىن ميں ممكن ہے۔ اور احتمال ہے كہ اللہ تعالى نے اپنے اس قول كے ساتھ(لا تُدرِكهُ الأَبصَارُ)ارادہ كيا ہو كہ كافرجھوٹے لوگو، كى نگاہيں اسے نہ ديكھ سكتى ہوں، اور يہ اس ليے كيونكہ قرآن كا بعض دوسرے بعض كى تصدیق كرتا ہے، پس جب آیت ميں كہا(وُجُوهٌ يَومَئِذٍ نَاضِرَةٌ* إِلَى رَبِّها نَاظِرةٌ اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے*اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)اور دوسرى آیت ميں كہا: (لا تُدرِكهُ الأَبصَارُ)ہم جان چكے كہ اللہ تعالى نے اس ميں كفار كى نگاہ مراد لى ہے كہ وہ اسے نہيں سكے گى)) [46]۔ اشعرى كے اس بات پر نظر ثانى اس طرىقے سے ممكن ہے:

اشعری کے اشکال پر نقد

(لا تدركہ) كا ظہور اطلاق ميں ہونا واضح ہے۔ اور اسى طرىقے سے كلمہ (الأبصار) كا ظہور عموم ميں ہونا بھى۔ لیكن اشعرى نے دو احتمال اس ليے مطرح كيا تاكہ نفى رؤيت پر آیت سے استدلال ميں شک کا گَرد وغبار بلند ہوسكےكيونكہ جب احتمال طارى ہوتا ہے تو استدلال باطل ہوجاتا ہے۔ اور جس چیز نے اسے اس بات پر ابھارا وہ قرینہ نقلى ہے(وہ احادیث جن كا ظاہر قيامت كے روز رؤيت كے وقوع پر دلالت كرتا ہے)۔ اور چونكہ اشعرى نے آیت (إلى ربها ناظرة) كى رؤيت والى احادیث كى روشنى ميں تفسىر كى ہے۔ پس اس نے نفى والى پہلى آیت اور اثبات والى دوسرى آیت كے تعارض كو رفع كرنا چاہا تو دو احتمال مطرح كيا۔

اور يہ فطرى سى بات ہے كہ اشکال كرنے ميں روش كے اعتبار سے جس چیز كى پىروى كرنى چاہىے وہ يہ ہے: جس نے آیت كى نفى رؤيت پر دلالت ميں اشکال كيا اس پر اشکال كيا جائے:

1-(لا تدركہ)كا ظہور اطلاق ميں ہے، اور ابصار كا ظہور عموم ميں ہے، دليل عقلى كہ جو ان دونوں كى تائید اور تاكید ميں هے ۔

2- احتمال كے ساتھ اطلاق اور عموم سے رفع ید نہيں كرسكتے، كيونكہ كوئى بھى ظہور ایسا نہيں كہ جس كے مقابلے ميں احتمال نہ هو،وگرنہ نص ہونا چاہىے تھا نا ظہور، بلكہ ظہور سے ہاتھ تب كھىنچا جاسكتا ہے كہ اس سے زيادہ قوى ظہور ہو يعنى اس سے روشن تر ہو تو پہلے والے ظہور سے ہاتھ اٹھايا جاسكتا ہے۔ اور يہ دونوں امور اس سے نہيں ہوا ۔ قاضی معتزلی کے دلیل پر اشکال

3- قاضى معتزلى نے آیت (إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ) سے رؤيت كے استدلال پر اپنے اس قول كے ساتھ اشکال كيا:((اگر كسى نے كہا: اللہ تعالى كا فرمان ہے: ((وُجُوهٌ يَومَئِذٍ نَاضِرَةٌ* إِلَى رَبِّها نَاظِرةٌ اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے*اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)) اس ميں رؤيت كا اثبات ہے۔ اسے كہا جائىگا: بصر كے ساتھ نگاہ كرنے كى بات نہيں كى۔ ممكن ہے نگاہ كرنا درج ذیل صورتوں ميں ہو:

  • فكر كررہا ہو۔
  • اللہ تعالى كى رحمت كا منتظر ہو۔
  • رؤيت كا طلب گار ہو۔

پس رؤيت كا احتمال ہے، اور جس ميں احتمال نہ ہو اسے چھوڑا نہيں جاسكتا۔ اس كى تاوئل: اپنے رب كى رحمت كا منتظر ہے، اور بہشت ميں اس كى نعمت اور ثواب كى طرف نگاہ كر رہا ہے، جس طرح امير المؤمنينؑ ابن عباس اور ان دونوں كے علاوہ صحابہ اور تابعین نے روآیت نقل كى ہيں۔ قاضی کے دلیل پر اشکال: 1- ان كا نظر كو آنكھ كے ساتھ مقید كر كے استدلال كرنا قابل مناقشہ ہے ، نہ كہ يہ كہے كہ يہ مطلق ہے جبكہ اس كااطلاق ثابت ہى نہيں پھر اس كى تقىید فرض كركے اس كو باطل كرے جىسا كہ انہوں نے دعوى كيا۔

2- قرینہ نقليہ(رؤيت پر دال احادیث)پر اشکال وادر ہوتا ہے، اور اس كا قرینہ نہ بننا ثابت ہوجاتا ہے، كيونكہ يا يہ خبر واحد ہےجو اصول دین اور اس سے مرتبط چیزوں كے اثبات كى صلاحیت نہيں ركھتى، يا ان كى ضعف كے سبب، يا اس كے علاوہ كسى اور سبب سے۔

3- اس پر يہ لازم تھا كہ جب اس نے رؤيت كو انتظار پر حمل كيا تھا تو اس كلمے كا انتظار كے معنى ميں بطور عام استعمال كو ثابت كرتے پھر اس مقام ميں رؤيت كا انتظار كے معنى ميں استعمال ہونےپر قرینہ قائم كرتا۔

4- پھر بالفرض مضاف (ثواب) يا (رحمت) يا (نعمت)ہو تو يہ خلاف اصل ہے، ان كى طرف بدون دليل انصراف پیدا نہيں كرتا، اور اس نے كوئى دليل ذكر نہيں كى۔ اور ایک سبب يہ كہ وہ اپنے خاص منہج اور روش كو ملحوظ ركھ كر اشکال كرتا ہے۔اور كيونكہ اس كے نزدیک عقل رؤيت كى نفى كرتى ہے كيونكہ اس سے جسم يا جہت ہونا لازم آتا ہے، اور اللہ تعالى ان چیزوں سے پاك ہے، يہ وہ دليل ہے مضاف كو فرض كرنے كى مگر اینكہ اسے دل ميں چھپاكے ركھا۔ پس اگر وہ دليل بيان كرتا اور اسے اپنے مخاصم كے سامنے پىش كرتا يا اس كو اس لحاظ سے بيان كرتا كہ اس كى بداہت كى وجہ سے سب كے نزدیک مسلّم ہوتے مضاف فرض كرنے كى تاوىل قابل قبول ہوتى۔

5- اس نے اپنے منہج كے خلاف خبر واحد سے استدلال كيا، اور شاید اس نے اپنے مخالف كے اخبار احاد سے استدلال سے معارضہ كرنے كى خاطر كيا ہو تاكہ انہيں مؤید بناكے پىش كياجاسكے۔ يا مرجح كى عدم موجودگى يا كسى اور سبب كى خاطر ان سب روايات سے ہاتھ كھىنچنے كے ليے ایسا كيا ہو۔ لیكن اس نے سبب ذكر نہيں كيا۔

اختلاف کی اصلی وجه

جىسا كہ ديكھا كہ اس بحث ميں اختلاف كا اصلى سبب وہ منہج اور روش ہے جس كے يہ پىروى كرتے ہيں۔لهذا اس منہج پر روشنى ڈالنا ضرورى ہے، سب سے پہلے تىن اہم نكات كى طرف متوجہ رہنا ضروری ہے 1- اصول دین كے اثبات ميں عقل كى حجىت۔ 2- اصول دین كے اثبات ميں خبر واحد كى حجىت۔ 3- مفہوم رؤيت كى حد بندى ۔ پہلے دونوں نكات کے بارے میں: سلفى اور اہل حدىث خبر واحد كے مقابلے ميں عقل سے انكار ميں افراطى ہيں، امام احمد بن حنبل سے روآیت نقل ہوئى كہ اس نے كہا: ((ہم قرآن وحدىث سے تعدى نہيں كرتےہيں)) [47]. اور ابن قاضى جبل – اپنے زمانے ميں حنابلہ كا مفتى- كا کہنا ہے : ((مذہب حنابلہ كے ہاں قابل قبول اخبار واحد ميں يہ صلاحیت ہوتى ہے كہ وہ دینى امور كا اثبات كرئے)) [48]. اور ابن عبد البر مالكى نے اجماع كا دعوى كرديا ہے كہ اصول دین ميں خبر واحد پر عمل كرنا جائز ہے۔اور وہ اس ليے ہے كيونكہ خبر واحد كہ جسے تصدیق كرتے ہوئے امت نے شرف قبولىت بخشى اور اس پرعمل كيا ان كے نزدیک علم وىقىن كا فائدہ ديتى ہے۔ تنبیہ: یہ مسئلہ ایسا نہيں ہے جس پر اجماع ہو، بلکہ اسکی فائدے كى كیفیت كے بارے ميں علماء سنت كے ہاں عموما اختلاف پايا جاتا ہے، اسی طرح اصول عقائد ميں خبر واحد پر جواز عمل كے بارےدوسرا اختلاف پایا جاتاہے، حتى حنابلہ كے ہاں بھى يہ اختلاف پايا جاتا ہے، صرف ابو الخطاب حنبلى، ابن عقىل حنبلى ، غیر اصول دین ميں اس پر عمل كے بارے ميں عدم جواز كا قائل ہيں [49]۔ اور اصول دین ميں خبر واحد كى حجىت اور معتبر ہونا مفید یقیں ہونے یامحض سنت يا حدىث ہونے كے لحاظ سے نہيں ہے۔بلکہ امت نے اسے قبولىت بخشنے يا كسى اور سبب كى وجہ سے ہے جبکہ عقائد كے اثبات كے ليے اس كا ملاك مفید علم (ىقىن )ہونا ہے۔ اور چونكہ عقلى دليل مفید علم ہوتى ہےاس ليے عقائدى مسائل كے اثبات ميں اس پر اعتماد اور اسى كى طرف رجوع كرتے ہيں۔ پھر امام احمد بن حنبل نے خبر واحد كى حجىت كے اثبات ميں بطور دليل عقل كو كا سہارا ليا ہے، صرف ابن حاجب كى (مختصر المنتہى)ميں خبر واحد ميں محض تعبدحاكم ہونے كى بات كى ہے: ((اور احمد ، قفال، ابن سرىج، ابو الحسىن بصرى نے دليل عقل ہے كا كہا ہے))۔يعنى خبر واحدميں تعبد كےجواز كى دليل عقل ہے۔ اور يہ عقل كى حجىت پر دوسرى دليل ہے، اور اس کی بڑى اہمىت ہے كيونكہ يہ اصل خبر كى حجىت كو ثابت كرتا ہے،احمد بن حنبل كے مطابق اگر خبر واحد كى حجىت كے اثبات پر دليل عقل قائم نہ ہوتى تو امت كا اس كو لىنے ميں ہمارے ليےكوئى فائدہ نہ ہوتاكيونكہ يہ تلقى بلا دليل ہے۔ اور اگر عقل كہ جو خبر واحد كى حجىت پر دليل ہےحجت نہ ہوتى تو بطرىق اولى خبر واحد حجت نہ ہوتى۔ بے شک قرآن كرىم نے اصول دین كے اثبات كےليے عقلى دليل استعمال كى ہے جيسے :

الف: اللہ تعالى كا فرمان ہے: لَوْ كاَنَ فِيهِمَا ءَالهِةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا (یاد رکھو اگر زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ اور خدا بھی ہوتے تو زمین و آسمان دونوں برباد ہوجاتے)۔

ب: اللہ تعالى كا بيان ہے: مَا اتخَّذَ اللَّهُ مِن وَلَدٍ وَ مَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَّذَهَبَ كلُ‏ُّ إِلَهِ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلىَ‏ بَعْضٍ (یقینا خدا نے کسی کو فرزند نہیں بنایا ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہے ورنہ ہر خدا اپنی مخلوقات کو لے کر الگ ہوجاتا اور ہر ایک دوسرے پر برتری کی فکر کرتا اور کائنات تباہ و برباد ہوجاتی)۔

ج: اللہ تعالى كا قول ہے:أَمْ خُلِقُواْ مِنْ غَيرْ شىَ‏ْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُون (کیا یہ بغیر کسی چیز کے ازخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود ہی پیدا کرنے والے ہیں)۔ اور اس كا معنى يہ كہ دليل عقلی اللہ تعالى كى جانب سے ایک مسلم امر ہے، اور اسے اخذ كرنا قرآن کو اخذ كرنا ہے۔ يہاں قرآن كرىم كى ان آيات كو بيان كركے بات طولانى نہيں كرونگا كہ جو اللہ تعالى كى ملكوت اور مخلوق ميں تفكر كى طرف دعوت ديتى ہے ، اور عقلى صلاحیت اور اس كے قواعداستعمال كرنے كى طرف دعوت دى تاكہ اللہ تعالى كى معرفت حاصل ہوسكے كہ جو اصل دین كا ركن اساسى اور بنياد ہے۔

عقل اور نقل میں تعارض کی صورت

عقل پر اعتماد اور اس كى طرف رجوع ميں كوئى اشکال نہيں ہے۔ لیکں اگر وہ چیزیں جنہيں عقل درك كرسكتى ہے اور جو اشياء خبر واحد كے ظاہر سے كہ جو مفید ىقىن ہے ان ميں تعارض ہو جائے تو كيا كرىں؟ جو چیز واضح ہے وہ ان دونوں كوجمع كرنے ميں ہے۔ اور وہ یوں ہے چونكہ خبر واحد مفید ىقىن ہے، صدور كے اعتبار سے مفید علم ہے نہ كہ اس كي دلالت كى وجہ سے، پس وہ صدور كے لحاظ سے قطعى اور دلالت كے اعتبار سے ظنى ہے۔ جبكه دليل عقلى جو ذات الہى كى وحدانیت كو ثابت كرنے والى ہے- وحدانیت رؤيت كى نفى كو مستلزم ہے كيونكہ رؤيت سے تجسىم لازم آتى ہے- دلالت كے اعتبار سے قطعى ہے. اس بناء پر، در حقیقت تعارض عقل كى ىقىنى دلالت اور خبر واحد كى ظنى دلالت كے درميان ہوگا۔ اور چونكہ گمان ىقىن كے ساتھ تعارض نہيں كرتاتو اصل توحید كے ساتھ ہم آہنگى كو مد نظر ركھتے ہوئےاس كى تاوىل كرتے ہوئے اس كے ظہور سے ہاتھ كھىنچىں گے، پس ہم خبر واحد اور عقل كے درميان اخذ كے اعتبار سے جمع كرینگے۔ اور اسى طرح بظاہر دو متعارض آیتوں كى تفسىربھى اىسے كرتے ہيں جيسے آیت بصر ظاہر ا رؤيت كى نفى پر دال ہے اور آیت نظر كا ظاہر امكان رؤيت كو ثابت كرتى ہے، اس آیت كے ظاہر سےرفع ید كرتے ہيں جو اصل توحید كى نفى كرتى ہےكيونكہ اس كى دلالت ظنى ہے، اور اس آیت كے ظہور سے تمسك كرینگے جو اصل توحید كے ساتھ سازگار ہےكيونكہ اسكي دليل عقلى كے قرىنے كے ساتھ دلالت قطعى ہے۔

تين اصول كى روشنى ميں

منكرین رؤيت كا آیت بصر كو اس كے ظاہر ، اس كے اطلاق اور اس كے عموم پر حمل كرنا اور آیت نظر كى تاوىل كرنا منہج كے اعتبار سے بلكل درست ہے۔لیكن خبر واحد كا اس ليے انكار كرنا كہ يہ عقائد كے اثبات كى صلاحیت نہيں ركھتى- ان كے اپنى راى كے مطابق -كيونكہ يہ سند اور دلالت كے لحاظ سے ظنى ہےپس يہ صرف گمان كا فائدہ ديتى ہے، اور عقیدے ميں مطلوب دلالت ىقىن كى حد تك پہنچنى چاہىے۔ اسى طرح يہ توحید كى دليل عقلى سے تعارض كرنے كى طاقت نہيں ركھتى كيونكہ اس كى دلالت ىقىنى ہے، اور خبر واحد كى دلالت ظنى ۔ لیكن رؤيت كے اثباتى حضرات خاص كر اشاعرہ كا رؤيت كے اثبات كى كوشش كے ساتھ نظريہ توحید جسمىت اور اس كے مانند دیگر اشياء كے تشابہہ سے بچاتے ہوئے اس كے تقدس كا لحاظ كرنا بہت اہمىت اور قدركے قابل ہے۔ لیكن اس پر اشکال كيا جاسكتا ہے: 1- اشاعرہ متنازع فيہ موضوع سے خارج ہوگا ہے۔وہ اس طرح كہ ذات خداوندى كے تجرد اور اس كى بساطت كے اعتقاد كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے تنازعہ كا موضوع چشم بينا كے ساتھ اللہ تعالى كى رؤيت اور وضعى طبىعى كے ساتھ رؤيت تھى۔ جبکہ انہوں كہا:رؤيت ادراکى كے ساتھ ديكھنا ہے۔ چھٹے حس يا خاص حس كے ساتھ ديكھنا ۔پس مؤمن اللہ تعالى كو ادراک اور علم كے ساتھ ديكھتا ہے نہ كہ ظاہرى آنكھ كے ساتھ مشاہدہ كرسكتا ہے۔ 2- اشاعرہ نے اس كے ليے مثال پىش كى كہ اللہ تعالى كى رؤيت چودہویں رات كے چاند كى مانند ہےرؤيت ادراک كے ساتھ منافات ركھتا ہے كيونكہ چاند كى رؤيت مشاہدہ حسى اور چشم ظاہرى كے ساتھ ہوتى ہے،جىسا كہ امام شافعى نے استفادہ كيا كہ يہ حدىث رؤيت قمر ہے، پس اس نے يہ ٹھان لى كہ – جىسا كہ پہلے گذر گيا- چشم ظاہرى كے ساتھ رؤيت كى مثال دینے كا معنى صرف اور صرف يہ ہوگا كہ رؤيت آنكھ سے ہوتى ہے۔ اور اس كا معنى يہ ہوگا كہ وہ اللہ تعالى كو عىن باصرہ كے ساتھ ديكھ سكتا ہے، اور يہ رؤيت علمى يا ادراکى سے مختلف ہےكيونكہ ادراک رؤيت قلبى كا نام ہے۔ 3- جس طرح تھوڑى دىر پہلے كہا گیا كہ رؤيت كا متفق عليہ مفہوم كى حدبندى ضرورى ہےتاكہ اس ميں نفى اور اثبات ميں بحث كرنا صحیح ہوجائے۔ لیكن رؤيت كے مفہوم ميں اختلاف كے ساتھ نفى واثبات كى بحث لغو ہے، كيونكہ يہ اس حال ميں دونوں آيات كى دلالت ميں تعارض متحقق نہ ہوگا۔ كيونكہ حقیقت امر طرفىن كے نزدیک ان صورتوں سے خالى نہ ہوگى:

  • اگر رؤيت بصرى ہو تو يہ جسم لازم آنے كى وجہ سے محال ہے۔
  • اور اگر رؤيت قلبى يا ادراکى يا علمى –جو دل كرے نام دىے- جائز ہے۔
  • اور اگر ان دونوں آیتوں ميں رؤيت بصرى مراد ہوں تو يہ طرفىن كے نزدیک محال ہے۔
  • اور اگر دونوں آیتوں ميں رؤيت قلبى ہو تو يہ دونوں كے نزدیک جائز ہے۔
  • پس كونسى شئى ہے جس نے اشاعرہ كو اتنے انتشار ميں مبتلا كردى ہے؟

رویت کے قایل هونے کی سب سے بڑ ی وجه

جو چیز روشن ہے- خاص كر ان كا ذات الہى كا تجرد اور اس كى بساطت كے عقیدے كى حفاظت پر اصرار- جس چیز نے ان كو اس كى طرف دعوت دى وہ ہے: رؤيت كى احادیث كتب صحاح ميں آئى ہے۔اگر ان كا انكار كرے –یا اسى طرح اس كى تاوىل- تو سنّى احادیث كى صحت اور سلامت ميں شک كا دروازہ كھل جائے گا۔ اور وہ لوگ يہ نہيں چاہتے۔ اسی لیے انہوں نے تشدد كا راستہ اختيار كيا تاكہ ان كے صحاح كا قلعہ محفوظ رہ جائے۔ كبھى يہ كہا جاتا ہے: تأوىل تو ممكن ہے، اور اشاعرہ كے نزدیک جائز بھى ہے، پھر انہوں نے كیوں تأوىل نہيں كى؟ جواب: انہوں نے تأوىل اسلیے نہيں كى، كيونكہ صحاح ميں موجود روايات صرىحا چشم ظاہرى كے ساتھ رؤيت كا ذكر ہے، جىسا كہ بخارى كى حدىث ہے(باب توحید – اللہ تعالى كا قول) (وُجُوهٌ يَومَئِذٍ نَاضِرَةٌ* إِلَى رَبِّها نَاظِرةٌ)۔ جرىر بن عبد اللہ سے روآیت ہے: اس نے كہا: نبى پاكﷺ نے فرمايا: ((أنكم سترون ربكم جل ثناؤه عيانا۔تم عنقرىب اپنے پروردگار كو آنكھوں سے ديكھو گے))۔ پس موقف-يہاں- حدىث سے انكاراور اسے اعتبار سے ساقط كرنےكا تقاضا كرتا ہےكيونكہ قرآن كرىم سے منافات ركھتى ہے كہ اللہ تعالى فرماتا ہے: (لا تدركه الأبصار)۔ اور اس سے انكار – جىسا كہ ميں نے كہا-بخارى كى روايات ميں شک كا دروازہ كھل جاتا ہے، اور وہ ان كے نزدیک صحاح ميں صحیح ترىں ہے۔ بہر حال اس طرح كے موقعوں پر قطعى فىصلے كے ليے اىسے جرأتمند عالم كى ضرورت ہے جو حق بات كہنے ميں ملامت سے خوف نہ كھائے، امام على بن موسى رضاؑ ابى قرہ كے گذشتہ جواب ميں فرماتے ہيں: ((إذا كانت الروايات مخالفة للقرآن كذّبتها))ترجمہ:اگر روايات قرآن كرىم كا مخالف ہوں تو اسے جھٹلائے۔ كتنى حَسىن ہے كہ امىر المؤمنینﷺ سے اہل بيتؑ كےبارے ميں جو روآیت نقل ہوئى: ((عقلوا الدين عقل وعاية ورعاية، لا عقل سماع ورواية، فإن رواة العلم كثير ورعاته قليل، انہوں نے دین كو بیدار ى اور اس پر عمل حاصل كيا، نہ كہ دین كو صرف سننے اور روآیت سے حاصل كيا، بلا شک علم كے روآیت كرنے والے بہت اور اس پر كاربند رہنے والے كم ہيں))۔

4- انہوں نے بخارى كى احادیث كہ جو كہتى ہے كہ رسول خدا ﷺجس طرح اپنے روبرو ديكھتے تھے اسى طرح اپنے پيچھے كى طرف بھى نگاہ ركھتے تھے- فرضا اگر صحیح ہوتو-سے ادراکى رؤيت پر استدلال كيا ہے روز قيامت رؤيت ادراکى كے اثبات كا فائدہ نہيں ديتى، كيونكہ ممكن ہے يہ رؤيت آپؐ كى نبوت يا كسى اور سبب كے ساتھ خاص ہو، جىسا كہ حدىث ميں تخصىص سے مراد واضح ہے، اور ورود احادیث صرف ان كے ساتھ خاص ہونا ثابت ہے۔

5- اشعرى كى پہلى دليل عقلى كى بنياد اللہ تعالى كا اپنے مخلوقات كے ساتھ مقاىسے پر قائم ہے۔ اور وہ قياس مع الفارق ہے،كيونكہ اللہ تعالى كا وجود وجود صرف بسیط مجرد ہے، اور اس كے مخلوقات كا وجود ایسا نہيں ہے۔ اس كے علاوہ: ہر موجود كا مرئى ہونا ضرورى نہيں كيونكہ موجودات ميں سے بعض كى رؤيت كے ليے شرائط پورى نہيں ہےجيسے مجردات اور موجودات بدون كثىف ۔ اور يہ فاعل كے عجز كی وجہ سے نہيں، بلكہ قبول كرنے والے كے نقص كی وجہ سے ہے، لہذا اس دليل ميں ایک قسم كا مغالطہ پايا جاتا ہے۔

6- اور مغالطے كے لحاظ سے دوسرى دليل بھى اسى سے مربوط ہے،كيونكہ بارى تعالى كا اپنى ذات كى رؤيت رؤيت بصرى نہيں ہے، اور جس چیز كے بارے ميں تنازعہ ہے وہ رؤيت بصرى ہے۔ كيونكہ اللہ تعالى كا اپنى رؤيت –اگر يہ تعبىر صحیح ہو تو- اپنى ذات كا علم ہے، اور وہ علم حضور ی ہے۔اور اشعرى يہ نہيں كہتا ہے كہ مؤمن كا اپنے پروردگار كى رؤيت ایک قسم كا علم حضورى ہے، اس كے باوجود –اگر ہم نے تسلىم بھى كرليا- يہ رؤيت بصرى ہے، پس يہ مورد بحث سے خارج ہے۔

تحقیق کا خلاصہ

جس چیز پر مفید ىقىن عقلى دلائل دلالت کرتی هے وہ : اللہ تعالى كے ليے وحدت مطلقہ كا اثبات ، اس آیت كریمہ (لا تدركه الأبصارُ) سے رؤيت بصرى كى مطلقا دنيا آخرت دونوں ميں نفى پر قرینہ ہے اور اس كےتمام مخلوقات مبصرہ كى نسبت عام ہے۔

نظر کے اقسام

اور اسى كى روشنى ميں آیت كریمہ (إِلَى رَبِّها نَاظِرةٌ)كى تفسىر كى جائے گى كہ يہ سابقہ آیت سے تعارض نہيں ركھتى، جىساكہ نفى رؤيت والوں نے اس كى تأوىل كى ہے اور كہاہے : اس سے مراد مندرجہ ذیل ميں آنے والے معانى ميں سے ایک ہے:۔

نظر بصرى

لیكن يہ معنى مضاف كو حذف ماننے كى صورت ميں ہے جيسے: (إلى ثواب ربها)۔اور اس كى توجيہ كى جاتى ہے كہ اگرچہ يہ خلاف اصل (كيونكہ اصل عدم تقدىر ہے)ہےاور وہ رؤيت بصرى كى نفى مسلّم ہے كيونكہ يہ عقیدہ وحدانیت سے منافات ركھتا ہے۔

نظر قلبى

سید طباطبائى اس بات كا قائل ہے، آیت كى تفسىر ميں كہا: ((اوراللہ تعالى كى طرف نظر سے مراد نظر حسى كہ جو جسمانى آنكھ كے ساتھ ہوتا ہےنہيں ہے، كيونكہ رؤيت خدا وندمتعال محال ہونے پر برہان قطعى قائم ہے۔ بلكہ حقىقىت اىمان كے ساتھ قلبى نگاہ اور رؤيت قلبى مراد ہے، اسى طرح عقلى براہيں بھى يہى كہتى ہے، اور اہل بيتؑ عصمت سے وارد روايات بھى اسى پر دال ہيں، اور ان احادیث ميں سے كچھ روايات آيہ شرىفہ ‏"قالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ [50]۔ (انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے)و آیت‏"ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏" [51]۔ (دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا) كى تفسىر ميں ذكر كى ہے۔ پس اس گروہ كا دل اپنے پروردگار كى طرف متوجہ ہے، اور كوئى سبب ان كے دلوں كوياد خدا سے مشغول كرتا، كيونكہ اس دن سارے اسباب ساقط ہونگے،اور روز كوئى موقف بھى استقامت نہيں دكھا سكتا، اور مراحل ميں سے كوئى مرحلہ بھى طے نہيں مگراینكہ رحمت الہى انہيں شامل حال ہوں"وَ هُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ‏ [52]۔ (اور وہ لوگ روزِ قیامت کے خوف سے محفوظ بھی رہیں گے)اور جنت كے مناظر ميں سے كچھ بھى ديكھ نہ پائىنگے،اور نعمات خدا ميں سے كوئى نعمت بھى حاصل نہ كرپائىں گے مگر يہ كہ وہ اس حال ميں اپنے پروردگار كا مشاہدہ كرینگے، چونكہ وہ كسى شئى پر نگاہ نہيں كرینگے، اور كسى چیز كونہيں ديكھیں گے،مگر يہ كہ اللہ تعالى كى نشايانیوں كو ديكھتے ہيں، اورنشانیوں كو ديكھنا اس لحاظ سے كہ وہ نشانى ہے اس نشانى كے مالك كى طرف نگاہ كرنا ہے)) [53] ۔ اور جسے علامہ نے ذكركيا وہ فصىح عربى اسلوب ہے، اور اسى كو شاعر نے یوں بيان كيا: ويوم بذي قار كأن وجوههم إلى الموت من وقع السيوف نواظرُ ترجمہ:(ذى قار كے روز جس پر تلوار چلتى تو ایسا لگتا كہ گويا وہ موت كى طرف ديكھ رہے ہوں اور اس كے انتظار ميں بىٹھے ہوں)۔ بے شک موت نہ ديكھى جاسكتى ہے نہ اس كى طرف نگاہ كرنا ممكن ہے۔اور شاعر نے موت كى طرف نگاہ سے مراد ضربت ، نىزہ زنى، زخمى ہونا، شہسواروں كا ہجوم اور بڑھ بڑھ كے حملہ كرنا مراد لیا ہے، اور يہ سارے موت كے اسباب ہيں [54]۔

نظر انتظار

يہ كلمہ (نظر) كے معنى حقىقى ميں سے ایک ہے كہ جس معنى ميں قرآن نے استعمال كيا ہے۔ صاحب لسان العرب كہتا ہے: ((نظر، يعنى انتظار كو: كہا جاتا ہے: نظرتُ فلانا وانتظرتهُ يعنى ميں نے اس كا انتظار كيا، دونوں كا ایک ہى معنى ہے۔ اور اسى معنى ميں عمرو بن كلثوم كا قول ہے: أبا هند فلا تعجل علينا وانظرنا نخبّركَ اليقينا ماده: نظر (اے ہند كے باپ! ہم پر جلد بازى نہ كرنا اورانتظار كر كہ ہم تمہيں ىقىن كى خبر دینگے) اور اس كلمے كا قرآن مجید ميں (انتظار)كے استعمال كے موارد درج ذیل ہيں: إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلىَ‏ طَعَامٍ غَيرْ ظِرِينَ إِنَئه احزاب: ۵۳ (جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت تك برتنوں كا انتظار نہ كرنا) يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ حدید: ۱۳ (اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں صاحبان ایمان سے کہیں گے کہ ذرا ہمارا انتظار كرنا کہ ہم تمہارے نور سے استفادہ کریں) فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ [55]۔ ( یہ گزشتہ لوگوں کے بارے میں خدا کے طریقہ کار کے علاوہ کسی چیز کا انتظار نہیں کررہے ہیں) مَا يَنظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَة [56] ۔ (درحقیقت یہ صرف ایک چنگھاڑ کا انتظار کررہے ہیں) وَ إِنىّ‏ِ مُرْسِلَةٌ إِلَيهْم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةُ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُون [57] ۔ (اور میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج رہی ہوں اور پھر انتظار كر رہی ہوں کہ میرے نمائندے کیا جواب لے کر آتے ہیں)۔ آیت كریمہ ميں كلمہ (ناظرہ) كى تفسىر(منتظرہ) كے ساتھ كرنے پر اشکال كيا كہ فعل(نظر) اگر بصر كے معنى ميں ہو تو حرف (إلى) كى طرف متعدى ہوتا ہے، اور اگر انتظار كے معنى ميں ہوتو خود متعدى ہےجىساكہ مذكورہ آيات ميں ہے سواى آخرى آیت كے كہ جو حرف باء كے ساتھ متعدى ہے۔ اور اس كا جواب ديا گيا:

1- كلمہ(ناظرہ)اسم فاعل ہے۔اور اسم فاعل اپنے عمل ميں فعل پر متفرع ہے، اور عمل كرنے ميں فرعىت عامل كے ضعف اور كمزورى كا سبب بنتا ہے، لهذا تقوىت كے ليے كسى اور محتاج ہوگا۔ اور يہاں معمول مقدم ہے، اور تقدىم عامل كے ضعف كا دوسرا سبب ہے۔اور يہاں سے يہ (إلى) كا محتا ج ہوتا ہے۔

2- (إلى) كے ساتھ اس كا متعدى ہوناكلام عرب ميں مستعمل ہے، جىسا كہ جمىل بن معمر كے قول ميں ہے: وَ إذا نَظرتُ إليكَ مِن ملكٍ والبحر دونك زدتني نعما (اور اگر ميں نے تیرےبادشاہى کا انتظار كيا اور سمندر تیرے بغیر سختى کےاضافہ كرنے كے كچھ نہيں)۔ اور حسان بن ثابت كے قول ہے: وُجوه يوم بدر ناظراتُ إلى الرحمن يأتي بالفلاحِ (روز بدر چہرے اس انتظار ميں تھے كہ رحمن كى طرف سے بہترى آئے)۔ اور اسى طرز پہ: كل الخلائق ينظرون سجاله نظر الحجيج إلى طلوع الهلالِ (سبھى مخلوق اپنے رقىب كا انتظار كرتے ہيں جبكہ حجاج ہلال كے طلوع كا انتظار كرتے ہيں)۔ اور ان ميں سے عمر بن خطاب كا حذىفہ بن ىمانؓ كو خطاب: (( كون تىر ى قوم ميں سے سازش كررہا ہے؟)) اس نے كہا: لوگوں نے عثمان بن عفان كا انتظار كيااور اس كے ليے لہرائے۔ پس آیت مذكورہ ميں استعمال قرآنى كو اس پر حمل كرینگے۔ قرآن كرىم نے اسم فاعل (ناظرہ) كو اللہ تعالى كے اس قول ميں باء كى طرف متعدّى كيا ہے: فَنَاظِرَةُ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُون [58] ۔ ( پھر ديكھ رہی ہوں کہ میرے نمائندے کیا جواب لے کر آتے ہیں)۔ اس كا يہ معنى ہوا كہ يہ كلمہ حرف كے ساتھ اور بلا اضافہ خود بھى متعدى ہوتا ہے۔

قلبى كا اثبات متحقق ہے

لیكن از لحاظ منہج وروش ضرورى ہے: قرآن كرىم ميں رؤيت كے استعمالات كو جانجنا چاہىے، كيونكہ (ناظرہ) –يہاں –جىسا كہ سياق سے روشن ہے كہ رؤيت كا فائدہ دىتا ہے نہ انتظار كا۔ اور (نضرہ) كے قرىنے كى وجہ سے ہےجو بشارت دینے اور ليے پر دلالت كرتا ہے، اس كے ساتھ اللہ تعالى دنيا ميں اطاعت كى جزاء كے عنوان سے اپنى نعمت دے عطا ہے ۔ اور قرینہ (وَ وُجُوهٌ يَوْمَئذِ بَاسِرَة [59]۔ اور بعض چہرے افسردہ ہوں گے)باسرہ يعنى سكڑے پىشانى، افسردہ چہرہ ہے كيونكہ وہ يہ عقیدہ ركھتے ہيں كہ ان كى نافرمانى اور عصيان كى سزا اىسى مصائب جو رىڑھ كى ہڈى توڑ دے گى اور كرشکن ہونگے كا سامنا كرنا پڑے گا۔

علامه طباطبائى کا رویت پر تحقیق

اور سید طباطبائى اس آیت (رَبِّ أَرِني‏ أَنْظُرْ إِلَيْك‏ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے)كى تفسىر مین اپنى تحقىق سے اس نتىجے پہ پہنچا ہےكہ دنيا اور آخرت دونوں ميں رؤيت بصرى ممكن نہيں، اور اس پر يہ آیت كریمہ دلالت كرتى ہے(لا تُدْرِكُهُ‏ الْأَبْصار)اور مؤمن كے ليے وہ بھى صرف آخرت ميں رؤيت قلبى كا اثبات متحقق ہے۔ كہا: ((اللہ تعالى كا قول ہے: وَ لَمَّا جَاءَ مُوسىَ‏ لِمِيقَاتِنَا وَ كلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبّ‏ِ أَرِنىِ أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَئنىِ وَ لَاكِنِ انظُرْ إِلىَ الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَئنىِ فَلَمَّا تجَلىَ‏ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسىَ‏ صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِين اعراف: 143 (تو اس کے بعد جب موسٰی علیہ السّلام ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو .اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا اور موسٰی علیہ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے پھر جب انہیں ہوش آیا تو کہنے لگے کہ پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں)، اس آیت ميں جو قابل تدبر شئى نظر آتی ہے وه یہ ہے کہ اگر اسے عرفى عام فہم كے ليے پىش كيا جائے تو وہ اسے آنكھ كے ساتھ ديكھنےاور چشم ظاہرى سےرؤيت كرنے پر حمل كرینگے۔ اور ہم شک نہيں كرتے اور ہرگز شک نہيں كرینگےكہ رؤيت اور دید اپنے ديكھنےوالے آلے ميں ایک اىسے طبىعى عمل كا محتاج ہے كہ جو ديكھى جانے والى شئى كے جسم سے شکل اور رنگ ميں مشابہہ صورت ديكھنے والے كے ليے آمادہ كرتا ہے۔ اور خلاصہ يہ كہ : وہ چیز جسے ہم طبىعى ابصار كہتے ہيں وہ ديكھنے والا اور ديكھى جانے والى چیز سب ميں جسم اور ماده كا محتاج ہے، اور اس ميں كوئى شک نہيں۔ اور قرآنى بديہى طور پر كہتا ہےكہ اللہ تعالى كا كسى صورت ميں كوئى مثل نہيں، نہ وہ جسم ہے نہ جسمانى، نہ مكان اسے گھير سكتا اور نہ زمان، نہ كوئى جهت اس پر طارى ہوسكتى ہے، اور كسى قسم كى اس كى مثل يا مشابہت نہ ذہن ميں اور نہ خارج ميں پائى جاتى ہے۔ اور كيا عظمت ہے اس كى كہ ابصار جس معنى ميں ہم اپنے ذات كے ليے قائل ہيں اس سے متعلق نہيں لیتی، اور نہ اس پر دنيا اور نہ آخرت ميں ذہنى شکل منطبق ہوتى ہے،اور نہ موسىؑ وہ پانچ اولو العزم ميں سے ایک عظىم نبى اور انبياء كےسردار كے بلند منصب كے ليے مناسب ہے كہ وہ اس چیز سے جاہل ہو، نہ اس كى آرزو ہےكہ خداوندمتعال اس حال ميں كہ وہ حركت، زمان، جہت، مكان جسم مادہ اور اس كے اعراض سے منزہ ہےانسان كى دید كو تقوىت كرئے كہ وہ اسے ديكھے تويہ مسخرہ ہے، چہ جائىكہ جدى ہو۔

اهم سوال

كيا يہ ممكن ہے كہ خداوند اسباب مادى ميں سے كسى سبب كى اس قدر تقوىت كرئے كہ وہ اپنى حقیقت اور اثر كو محفوظ ركھتے ہوئے مادہ اور اس كے آثار سے خارج اور اس كى حد سے بىرون عمل كرئے اور اس كا اثر باقى رہ جائے؟

جواب

يہ جوآنكھ ہمارے پاس ہے-اس كى خاصىت مادى ہے-محال ہے اس شئى سے متعلق ہو جو مادىت اور اس كے خواص كے اثر سے عارى ہو، اس ليے يہ مسلّم ہے كہ اگر موسىؑ نے خدا كو ديكھنے کا تقاضا كيا تو عام بصرى دید نہيں تھا اور خدا نے اپنے جواب ميں نفى رؤيت كى ہے تو اس رؤيت كى نفى نہيں كى ،امّا يہ رؤيت بديہى ہے كہ اس سے متعلق سوال جواب نہيں ہوا۔ الله تعالی نے اپنے كلام ميں رؤيت اور اس كے نزدیک الفاظ كا اطلاق كئى موارد ميں كيا اسے ثابت كيا: جيسے اللہ تعالى كا فرمان ہے: ‏" وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى‏ رَبِّها ناظِرَةٌ (اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)۔ اور آيہ ‏"ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏" (دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا) اور آيہ "مَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ" (جو بھی اللہ کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے معلوم رہے کہ وہ مدّت یقینا آنے والی ہے)۔ اور آيہ‏" أَ وَ لَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ شَهِيدٌ أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ أَلا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مُحِيطٌ" (اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اللہ سے ملاقات کی طرف سے شک میں مبتلا ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ ہر شے پر احاطہ کئے ہوئے ہے)۔ اور آيہ‏" فَمَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صالِحاً وَ لا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً"[60]۔ (لہذا جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نہ بنائے)۔


اور دیگر بہت سى آيات جو رؤيت كو ثابت كرتى ہيں اور اس كے معنى ميں ہيں آيات نافيہ كے مقابلے جيسے اس آیت ميں ہے" لن ترانى" اور آیت ‏" لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ" اس كے علاوہ بھى آيات ہيں كیسے ان دونوں آيات كو جمع كرتے ہيں ؟۔ كيا رؤيت سے مراد بديہى علم كاحصول ہےكہ جسے مبالغہ كرتے ہوئے ظہور اور اس جيسے ناموں سے پكارتے ہيں؟جىسا كہ كہا گيا۔ اس رؤيت سے مراد علم كے قطعى اور روشن مراحل ميں سے ہے، لیكن اس قطعى علم كى حقیقت كى تشخىص ضرورى ہے، كيونكہ ہم ہر قطعى علم كو رؤيت يا اس كے ہم معنى الفاظ جيسے لقاء كے نام سے ياد نہيں كرتے، جىسا كہ ہم قطعى علم كے ساتھ جانتے ہيں كہ ابراہىم خلىل، سكندر اور كسرى كے افراد وجود ركھتے تھےلیكن ہم نے انہيں نہيں ديكھا۔ اور اسى طرح علم قطعى كے ساتھ جانتے ہيں كہ لندن، شکاگو اور ماسكو نامى شہر وجود ركھتے ہيں لیكن ہم نے انہيں نہيں ديكھا، اسے رؤيت نہيں كہتے اگرچہ مبالغہ كے عنوان سے ہى كیوں نہ ہو، اگر ہم مبالغہ كرنا چاہيں تو كہيں گے:" ابراہيم و اسكندر و كسرى كا وجود اس قدر میرے ليے روشن ہے كہ گويا ميں انہيں ديكھا ہے " نہ يہ كہ ہم كہيں :" ميں نے انہيں ديكھا ہے يا ديكھ رہا ہوں" اور اسى طرح لندن، شکاگو اور ماسكو كى مثالىں ہيں۔اور اس سے بھى واضح بديہيات اوليہ كے متعلق ہماراعلم ہے كہ جو–اپنے كلّى ہونے كى وجہ سے-مادّى اور محسوس نہيں – ہے، جيسے ہمارا قول ہے: "عدد ایک دو كا نصف ہے" يا" عدد چار جفت ہے"يا كہ اضافت دو طرف كى وجہ سے برقرار ہے"كيونكہ يہ محسوس نہيں ان پر علم كا اطلاق صحیح جبكہ رؤيت درست نہيں ہے،اور اسى طرىقے سے سارے تصدیقات عقلى كہ جو قوہ عاقلہ ميں انجام پاتے ہيں يا وہ معانى جو وہم كے زىر سايہ تحقق پاتے ہيں ان كو علم كہہ سكتے ہيں لیكن رؤيت نہيں كہہ سكتے۔ خلاصہ كلام: جن كو ہم علم حصولى كہتے ہيں ان پر رؤيت كا اطلاق نہيں كرسكتے اگرچہ ہم نے ان پر علم كا اطلاق كيا، پس ہم كہتے ہيں: ہم نے انہيں جان ليا، اور نہيں كہتے : ہم نے انہيں ديكھ ليا، مگر يہ كہ ديكھنے سے مراد حكم كرنا اور اظہار نظر كرنا ہے ہو نہ يہ كہ مشاہدہ اور وجدان ہو۔ہاں، معلومات ميں سے اىسے معلومات ہيں كہ ان پر رؤيت كا اطلاق ہوتا ہےاور يہ معلومات ہمارا علم حضورى ہے، مثلا ہم كہتے ہيں:


  • أرى أني أنا(ميں اپنے آپ كو ديكھ رہا ہوں)
  • أراني اريد كذا(ميں خود كوديكھ رہا ہوں كہ ميں فلاں چیز چاہ رہا ہوں)
  • أراني اكره كذا(ميں خود كوديكھ رہا ہوں كہ ميں فلاں سے نفرت كرتاہوں)
  • أراني أحب كذا(ميں خود كوديكھ رہا ہوں كہ ميں فلاں سے محبت كرتا ہوں)
  • أراني أبغض كذا(ميں خود كوديكھ رہا ہوں كہ ميں فلاں سےعداوت كرتا ہوں)
  • أراني أرجو كذا(ميں خود كوديكھ رہا ہوں كہ ميں فلاں امید ركھ رہا ہوں)
  • أراني أتمنى كذا(ميں خود كوديكھ رہا ہوں كہ ميں فلاں چیز كى آرزو كرتا ہوں)

يعنى ميں اپنى ذات كو پاتا ہوں اور اسے بغیر كسى پردے كے ديكھ رہاہوں، اور ميں اپنے باطنى ارادے كا مشاہدہ كر رہا ہوں لیكن محسوس اور فكر كے ساتھ نہيں، اور اسى طرح سے ميں اپنے اندر نفرت، محبت، عداوت، امید اور آرزو كو پاتا ہوں۔ البتہ اشتباه نہ كہ يہ تعبىر اس تعبىر كا غیر ہے كہ جس ميں (رأيتك تحب كذا وتبغض كذا ميں تمہيں ديكھ رہا ہوں كہ تْو فلاں چیز سے پيار كرتے ہو اور فلاں چیز سے نفرت)(أبصرتك في هيئة استدللتُ بها على أن فيك حبّا وبغضاميں نے اپنى آنكھوں تجھے اس حالت ميں ديكھا جو دلالت كر تى ہے كہ تیرے دل ميں فلاں كے ليے محبت يا عداوت ركھتے ہو)اور اسى طرح سے دیگر مثالىں ہيں كہ انسان اپنے نفس كى حكآیت كرتا ہےكہ وہ ديكھتا ہے، چاہتا ہے، نفرت كرتا ہے ،محبت كرتا ہے اور عداوت كرتا ہے، تو ان سے وہ چاہتا ہے كہ يہ چیزیں اس كے اندر ایک حقیقت اور واقعىت كے طور پر پائى جاتى ہيں، نہ يہ كہ دوسرى شئى ان كے پيچھے ہے تاكہ ان پر استدلال كر رہى ہے،بلكہ بغیر كسى پردہ پوشى كے اپنے وجود كے اندر پائى جاتى ہے، اور كسى وسىلے كے بغیر كہ جو اس پر دلالت كرے اس تك پہنچ جاتا ہے۔


اس قسم كے علم كہ جسے انسان اپنے اندر خود معلوم كو اس كے خارجى واقعىت كے ساتھ پاتا ہے كو رؤيت كہنا عام اور شاىع ہے، اور يہ انسان كا اپنى ذات ، اس كے قواى باطنى، اس كے ذاتى صفات،اس كے اندرونى حالات كا علم ہے،اور اس ميں جہت، مكان، زمان ، يا دیگرجسمانى حالت كا كوئى دخل نہيں ہوتاہے۔ جان لو اورجب يہ معنى معلوم ہوا تو كہيں گے:جہاں كہيں خدا نے اپنى رؤيت كى بات كى ہے وہں اىسى خصوصيات كا ذكر بھى كيا ہے جس كے سبب ہم سمجھ سكتے ہيں كہ خدا كى رؤيت سے مرادعلم كى وہ قسم ہے كہ جسے ہم بھى رؤيت كہتے ہيں، مثلا اس آیت ميں‏" أَ وَ لَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ شَهِيدٌ أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ أَلا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مُحِيطٌ [61]. (اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اللہ سے ملاقات کی طرف سے شک میں مبتلا ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ ہر شے پر احاطہ کئے ہوئے ہے)يہ رؤيت ثابت كرنے والى آيات ميں سے ایک ہے، سب سے پہلے ثابت كيا كہ خدا ہر چیز كے پاس حاضر اور مشہود ہے،اور اس كا حضور كسى شئى، جہت يا مكان كے ساتھ مختص نہيں بلكہ ہر چیز كے پاس حاضر ، گواہ اور ہر چیز پر احاطہ ركھتا ہے، اگر بفرض محال كوئى اسے ديكھ سكے تو بھى اپنے وجدان، نفس اور ہر چیز كے ظاہر اور اس كے باطن ميں ديكھے گا۔اور اس كے ساتھ ملاقات ان خصوصيات كے ہمراہ ہوتى ہے –بالفرض اگر ملاقات ہو-نہ كہ وہ لقاء اور رؤيت جو آنكھ يا جسم كے ساتھ ہوتى ہے وہ صرف حسى ، جسمانى، زمان ومكان ميں متعىن ہونےكے ساتھ ممكن ہوتى۔اور اللہ تعالى كا قول اسى معنى كى طرف اشارہ كرتا ہے‏" ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏" (دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا)چونكہ رؤيت كى نسبت فؤاد كى طرف ہے بلا ترديد اس سے مراد نفس انسانىت اور وہ حقیقت ہے جس كے ساتھ انسان تمام حىوانات سے متماىز ہوتا ہے، نہ كہ وہ صنوبرى شکل كا گوشت جو سىنے كے اندربائىں طرف لٹك رہا ہے۔


بالائى آیت كى نظىر يہ آیت شرىفہ ہے‏" كَلَّا بَلْ رانَ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ ما كانُوا يَكْسِبُونَ، كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ" [62]. ( نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے، یاد رکھو انہیں روز قیامت پروردگار کی رحمت سے محجوب کردیا جائے گا)اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ جو مانع لوگوں اور خدا كے درميان حائل ہوا وہ گناہوں كى وہ تىرگى ہے جس كا يہ مرتكب ہوچكے ہيں كہ جو سبب بنے ہيں كہ دل كى آنكھ كو پردے ميں چھپاليے اور اپنے پروردگار كے مشاہدے كا موقعہ نہيں دىتے ہيں،پس اگر گناہ نہ ہوتے تو وہ ىقىنا اپنے دلوں كے ساتھ خدا كو ديكھ لیتے ، ظاہرى آنكھوں كے ساتھ نہيں۔خدا وندكرىم نے قرآن مجید ميں ایک اور قسم كى رؤيت كا اثبات كيا ہےكہ وہ رؤيت مورد بحث رؤيت كى طرح چشم دید كا محتاج نہيں جيسے اللہ تعالى كا قول ہے‏" كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ" [63]. ( دیکھو اگر تمہیں یقینی علم ہوجاتا کہ تم جہنمّ کو ضرور دیکھو گے، پھر اسے اپنی آنکھوں دیکھے یقین کی طرح دیکھو گے) اور آیت ‏" وَ كَذلِكَ نُرِي إِبْراهِيمَ مَلَكُوتَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ لِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ [64].( اور اسی طرح ہم ابراہیم علیہ السّلام کو آسمان و زمین کے اختیارات دکھلاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں شامل ہوجائیں)،مذكورہ مطلب آیت دوم كى تفسىر جلد ہفتم ميں بيان كيا ، اور وہاں كہہ ديا كہ " ملكوت"سے مراد باطن اشياء ہيں نہ كہ ان كا محسوس ظاہر ہے۔پس مذكورہ صورتوں سے معلوم ہوا كہ خدا وندمتعال نے اپنے كلام ميں اىسى رؤيت كا اثبات كيا جو كہ رؤيت بصرى اور حسى نہيں ہے، بلكہ درك اور شعور كى ایک اىسى نوع ہے كہ اس كے ساتھ ہر شئى كى حقیقت اور ذات كا ادراک ہوتا ہے، قطع نظر كہ آنكھ يا فكر كا اس ميں دخل ہو،اىسے شعور كا اثبات كيا كہ انسان تفكر اور دليل كے استعمال كے بغیر ہى اس شعور كے ساتھ اپنے پروردگار كا معتقد ہوتا ہے بلكہ اپنے پروردگار كو وجدان كے ساتھ بغیر كسى ستر اور پردے كے درك كرتا ہے، اور اس كو غفلت كى اپنى طرف كوئى چیز نہيں كھىنچ سكتى مگر اس گا گناہ كہ جسے اس نے خود كسب كيا ہے، اور يہ درك نہ كرنا بھى ایک امر موجود ومشہود سے غفلت ہے نہ كہ اس كا علم كلّى طور پر ہاتھ سے چلا گيا ہے۔اور قرآن كى كسى آیت كا اس پر دلالت نہيں كہ علم زائل ہوگيا،بلكہ اس جہل كو غفلت سے تعبىر كى ہےكہ اس كا معنى يہ ہے كہ وہ كسى اور علم ميں مشغول ہوا اور نتىجے ميں اس سے فراموش ہوگيا نہ يہ كہ اس كا علم بطور كلّى چلا گيا، اور وہ شئى ہے جس كا ذكر خود خدا نے اپنے كلام ميں كيا ہے اور عقل بھى اپنے روشن دليل كے ساتھ اس كى تائید كرتى ہے اور اسى طرح ائمہ اہل بيت (صلوات اللَّه عليہم اجمعين) سے وارد احادیث بھى كہ جسے ہم جلد ہى بحث اور نقل كرینگے، البتہ جس طرىقے سے خدا كے كلام مجید سے استفادہ ہوتا ہےكہ اس علم كہ جسے رؤيت اور لقاء كى تعبىر سے ياد كيا ہےصرف اس صالح بندوں كے ليے بروز قيامت ممكن ہے ، جس طرح اس كے قول كا ظاہر اس پر دال ہے:" وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى‏ رَبِّها ناظِرَةٌ" [65].(اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)۔

پس وہ مقام ہے جہاں انسان نگاہ كرسكتا ہے، لیكن دنيا ميں انسان اپنے بدن سے متعلق اشياء ميں منہمك ہوتا ہے، اور طبىعى احتياجات كى برآورى كےليے دنيا ميں غرق ہوتا ہے اور دنيا محل سلوك اور لقاء خدا كے ليے راہ طے كرنے اور اس كى نشانیوں كے علم ضرورى حاصل كرنے كى جگہ ہے،اور جب تك دوسرى دنيا ميں منتقل نہ ہو پروردگار سے ملاقات ممكن نہيں ہے، جىسا كہ فرمايا ہے:" يا أَيُّهَا الْإِنْسانُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلى‏ رَبِّكَ كَدْحاً فَمُلاقِيهِ [66]. (اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کررہا ہے تو ایک دن اس کا سامنا کرے گا)اور اسی معنی ميںكثرت سے دیگر آيات دلالت كر تى ہے كہ سب كامرجع، بازگشت اور منتہى اللہ تعالى طرف ہے، اور اسى كى طرف سب پلٹتے اور لوٹتے ہيں۔ اور يہى وہ علم ضرورى اور خاص ہے كہ جسے اللہ تعالى نے اسے اپنے ليے اثبات كيا، اور اسى كو رؤيت ولقاء كا نام ديا ہے۔اور ہمارے نزدیک يہ مہم نہيں كہ يہ تعبىر حقیقت ہے يا مجاز، ہم صرف يہ جانتے ہيں كہ ان قرائن كى روشنى ميں كہ جسے ذكر كيا رؤيت سے مقصود وہ علم ضرورى اورؤ مخصوص ہے ، بہر حال اگر اس تعبىر حقىقى ہوتو بطور اجبارمذكورہ قرائن قرائن معىن ہوگا، اوراگر مجاز كے عنوان سے ہو تو يہ قرائن صارفہ ہونگے۔ قرآن كرىم وہ پہلى كتاب ہے جس نے اس حقیقت سے نقاب اٹھا لى ہے ، اور بے سابقہ انداز ميں اس راز كو آشکار كيا ،كيونكہ قرآن سے پہلے دیگر كسى آسمانى كتاب نے علم خدا كے بارے ميں اس كا ذكر نہيں كيا ہے، اور كتب فلاسفہ كہ جو ان مسائل كے بارے ميں بحث كرتى ہيں اس نكتہ اور حقیقت سے خالى ہيں،كيونكہ فلاسفہ كے نزدیک علم حضورى منحصرہے ہر اس شئى سے جو اپنے بارے ميں ہو، يہاں تك كہ اسلام نے اس سے پردہ اٹھايا)) [67].


اور جن روايات نے رؤيت كے بارے ميں وعدہ كيا ان ميں سےبعض كو جو آخرت ميں رؤيت قلبى سے متعلق ہے ذكر كرینگے، اور وہ درج ذیل دو روايات ہيں:- عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ: كُنْتُ‏ عِنْدَ الصَّادِقِ‏ جَعْفَرِ بْنِ‏ مُحَمَّدٍ ع إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ مُعَاوِيَةُ بْنُ وَهْبٍ وَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَعْيَنَ فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ وَهْبٍ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ مَا تَقُولُ فِي الْخَبَرِ الَّذِي رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص رَأَى رَبَّهُ عَلَى أَيِّ صُورَةٍ رَآهُ وَ عَنِ الْحَدِيثِ الَّذِي رَوَوْهُ أَنَّ الْمُؤْمِنِينَ يَرَوْنَ رَبَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ عَلَى أَيِّ صُورَةٍ يَرَوْنَهُ فَتَبَسَّمَ ع ثُمَّ قَالَ يَا مُعَاوِيَةُ مَا أَقْبَحَ بِالرَّجُلِ يَأْتِي عَلَيْهِ سَبْعُونَ سَنَةً أَوْ ثَمَانُونَ سَنَةً يَعِيشُ فِي مُلْكِ اللَّهِ وَ يَأْكُلُ مِنْ نِعَمِهِ ثُمَ‏ لَا يَعْرِفُ اللَّهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ ثُمَّ قَالَ ع يَا مُعَاوِيَةُ إِنَّ مُحَمَّداً ص لَمْ يَرَ الرَّبَّ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِمُشَاهَدَةِ الْعِيَانِ وَ إِنَّ الرُّؤْيَةَ عَلَى وَجْهَيْنِ رُؤْيَةُ الْقَلْبِ وَ رُؤْيَةُ الْبَصَرِ فَمَنْ عَنَى بِرُؤْيَةِ الْقَلْبِ فَهُوَ مُصِيبٌ وَ مَنْ عَنَى بِرُؤْيَةِ الْبَصَرِ فَقَدْ كَفَر باللهِ وَآيَاتِه لقولِ رسولِ الله : من شبّه الله بخلقه فقد كفر [68]. ہشام بن سالم سے روآیت ہے، اس نے كہا: ميں جعفر بن محمد صادقؑ كے پاس تھا، اس وقت معاويہ بن وہب اور عبد الملك بن اعىن آگئے، پس آپؑ نے معاويہ بن وہب سے فرمايا، اے فرزند رسولؐ اس روآیت كے بارے ميں كيا كہو گے كہ رسول اللہ ؐ نے خدا كو ديكھا؟ تو كس صورت پہ ديكھا؟ اور اس حدىث ميں كہ جسے ان سے نقل كى كہ مؤمنین اپنے پروردگار كو بہشت ميں ديكھیں گے؟ تو كس شکل ميں ديكھیں گے؟ پس امامؑ نے تبسم كيا، پھر فرمايا:اے معاويہ! كتنا برا ہے كہ جب انسان ستّر يا اسّى سال كا ہوجائے اور اللہ تعالى كى سلطنت ميں زندگى گذارتا ہےاور اس كى نعمت سے كھاتا ہے، پھر اللہ تعالى كى جسطرح شناخت حاصل كرنا چاہىے وىسا نہيں كرسكتا۔پھر فرمايا: اے معاويہ، بے شک محمدؐ نے ظاہرى آنكھوں سے اپنے پروردگار تعالى كو نہيں ديكھا۔اور بلا ترديد رؤيت كى دو نوع ہے:

رؤيت قلبى اور بصرى میں فرق

پس جس نے رؤيت قلبى کا دعوا کیا وه درست هے ۔ اور جس نے رؤيت بصرى كا دعوى كيا اس نے جھوٹ بولا اور اس نے رسول اللہ كے قول كے مطابق اللہ اور اس كى نشانیوں كا انكار كيا: جس نے اللہ كو اپنے مخلوقات كے ساتھ تشبيہ دى اس نے كفر اختيار كيا۔ و لقد حدّثني أبي عن أبيه عن الحسين بن عليّ قال: سئل‏ أمير المؤمنين‏ فقيل‏ له‏: يا أخا رسول‏ اللّه‏ هل رأيت ربّك؟ فقال: كيف أعبد من لم أره، لم تره العيون بمشاهدة العيان و لكن رأته القلوب بحقائق الإيمان، و إذا كان المؤمن يرى ربّه بمشاهدة البصر فإنّ كلّ من جاز عليه البصر و الرّؤية فهو مخلوق، و لا بدّ للمخلوق من خالق فقد جعلته إذا محدثا مخلوقا، و من شبّهه بخلقه فقد اتّخذ للّه شريكا، ويل لهم ألم يسمعوا قول اللّه تعالى: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُوَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ و قوله لموسى: لَنْ تَرانِي وَ لكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكانَهُ فَسَوْفَ تَرانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً اعراف: 143. و إنّما طلع من نوره على الجبل كضوء يخرج من سمّ الخياط فدكدكت الأرض و ضعضعت الجبال‏ وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً أي ميّتا فَلَمَّا أَفاقَ‏ وردّ عليه روحه‏ قالَ سُبْحانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ‏ من قول من زعم أنّك ترى و رجعت إلى معرفتي بك، إنّ الأبصار لا تدركك‏ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ‏ و أوّل المقرّين بأنّك ترى و لا ترى، و أنت بالمنظر الأعلى‏ بحرانى، سيد هاشم بن سليمان، الإنصاف. ۔ (میرے والد نے مجھ سے كہا كہ اس نے اپنے باپ سے اس نے امام حسىنؑ بن علىؑ سے كہ آپؑ نے فرمايا: امىر المؤمنین سے سوال كيا: اے رسول خدا كے بھائى! كيا تْو نے اپنے پروردگار كو ديكھا ہے؟

تو آپ نے فرمایا: جس پر وردگار كوميں نے ديكھا نہيں اس كى عبادت نہيں كرتا،اسے ظاہرى آنكھ نے نہيں ديكھتا ، بلكہ اسے اىمان كى حقیقت سے پْر دل مشاہدہ كرتا ہے۔اور اگر مؤمن اپنے پروردگار كو ظاہرى آنكھ سے ديكھ سکتا تو جو بھى شئى اس ظاهری انکھ سے ديكھى جاسكےوہ مخلوق ہے، اور ہر مخلوق كا ایک خالق ہونا ضرورى ہے، پس تم نے اللہ محدث ومخلوق قرار ديا ، اور جس نے اسے اپنے مخلوق كے ساتھ تشبيہ دى اس نے اللہ كا شرىك ٹھہرايا۔ افسوس ہے ان پر ، كيا انہوں نے اللہ تعالى كے اس قول كو نہيں سنا: (نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے)، اور اس كا موسىؑ كو كہا ہوا قول ہے:( تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو .اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا اور موسٰی عليہ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے)، بلكہ اس كے نور ميں سے پہاڑ پہ چمكا جيسے ماچس كى تلى سے روشنى نكلتى ہے پ جسےزمین ہل گئى اور پہاڑ رىزہ ہوگيااور موسىؑ مدہوش گرپڑا يعنى موت واقع ہوئى (پھر جب انہیں ہوش آیا)اس كى طرف روح پلٹ آئى(تو کہنے لگے کہ پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں)، جس نے گمان كيا كہ تجھے ديكھا جاسكتا ہے، اور ميں تجھ سے متعلق شناخت كى طرف لوٹ آيا: كہ آنكھیں تجھے درك نہيں كرسكتى(اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں) كہ تو ديكھتا ہے اور تجھے ديكھا نہيں جاسكتا، اور تو نظروں كى پہنچ سے بالاتر ہو۔

وَ قَدْ سَأَلَ مُوسَى ع وَ جَرَى عَلَى لِسَانِهِ مِنْ حَمْدِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ فَكَانَتْ مَسْأَلَتُهُ تِلْكَ أَمْراً عَظِيماً وَ سَأَلَ أَمْراً جَسِيماً فَعُوقِبَ فَ قالَ‏ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى- لَنْ تَرانِي‏ فِي الدُّنْيَا حَتَّى تَمُوتَ فَتَرَانِي فِي الْآخِرَةِ وَ لَكِنْ إِنْ أَرَدْتَ أَنْ تَرَانِي فِي الدُّنْيَا-فَي انْظُرْ إِلَى‏ الْجَبَلِ‏ فَإِنِ‏ اسْتَقَرَّ مَكانَهُ‏ فَسَوْفَ‏ تَرانِي‏ فَأَبْدَى اللَّهُ سُبْحَانَهُ بَعْضَ آيَاتِهِ وَ تَجَلَّى رَبُّنَا لِلْجَبَلِ فَتَقَطَّعَ الْجَبَلُ فَصَارَ رَمِيماً- وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً يَعْنِي مَيِّتاً فَكَانَ عُقُوبَتُهُ الْمَوْتَ‏ ثُمَّ أَحْيَاهُ اللَّهُ وَ بَعَثَهُ وَ تَابَ عَلَيْهِ فَقَالَ‏ سُبْحانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ‏ يَعْنِي أَوَّلُ مُؤْمِنٍ آمَنَ بِكَ مِنْهُمْ أَنَّهُ لَنْ يَرَاكَ [69]-(ایک حدىث ميں ہے : موسىؑ نے سوال كيا اور اس كى زبان پر اللہ تعالى كى حمد وثناء جارى ہوئى :( پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے)پس اس كا يہ سوال بہت بڑا كام تھا، اور ایک خطرناك امر كا سوال كيا تھا، پس وہ زىر عتاب آيا، اللہ تعالى نے كہا(تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو)اس دنيا ميں يہاں تك كہ موت واقع ہوجائے اور آخرت ميں ديكھ سكو گے، لیكن اگر تو مجھے ديكھنا چاہتا ہے تو(البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو)پس اللہ تعالى نے اپنى بعض نشانیوں كو ظاہر كيااور جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا (اور موسٰی علیہ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے)پھر اللہ تعالى نے اسے زندہ كيا دوبارہ اٹھايا، پھر كہا(تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں)يعنى وہ پہلا شخص ہوں نے تیرے عدم رؤيت پر اىمان لايا۔


علامہ طباطبائى کی تحقیق کا نتیجہ

اور ہم يہاں بحث كو سید طباطبائى كا رؤيت كےبارے ميں ان كى رأى كے ساتھ سمىٹتے ہيں جس ميں انہوں نے رؤيت قلبى مراد لى، اور مؤمن كے واسطے ان دو روايات كى روشنى ميں يہ روز قيامت متحقق ہے ، ان ميں سے پہلى روایت رؤيت قلبى كے امكان اور رؤيت بصرى كى نفى پر نص ہے، تو دوسرى روایت آخرت ميں رؤيت پر دال ہے۔

رؤيت كے قائليں كو همارا پیشنهاد

اور اس تفسيرمذكور كى روشنى ميں ہمارا پىشنہاد ہے کہ: 1- اشاعرہ كو رؤيت بصرى پر دلالت كرنے والى احادیث سے رفع ید كرنا چاہىے كيونكہ يہ –بلا شک –ان اسرائیليات ميں سے ہيں جو كہ تدوىن حدىث كے وقت ہمارى غفلت كے سبب ان ميں داخل ہوگئى ہيں كہ جو ہمارے جوامع احادیث ميں مذكور ہيں۔ 2- ان كو يہ فرض بھى چھوڑ دینا چاہىے كى اللہ تعالى کے لیے روز قيامت مؤمن كے ليےاس كے مثل كا خلق كرنا جائز ہے، كيونكہ كسى شئى كا امكان اس كے وقوع پر دال نہيں ہے، اور كيونكہ ان كے پاس سواى بعض مردود اسرائیليات كے كچھ نہيں، جبکہ بصرى رؤيت سے اس كا جسم ہونا ، جہت ، مكان اور روشنى كا ہونا لازم آتا ہے، اگرچہ انہوں نے اس كے لزوم سے انكار كى سرتوڑ كوشش كى ہے، لیكن اصرار كسى شئى كو اس كى حقیقت اور ذات تبدىل كرنے پر قادر نہيں ہے۔ 3- انہيں چاہىے كہ وہ جو كچھ ائمہ اطہار عليہم السلام سے رؤيت بصرى كى نفى اور روز قيامت اللہ كے خاص بندوں كو اس كى رؤيت قلبى ثابت ہونے کو بیان کرتی ہے، كيونكہ اہل بيتؑ ثقلين ميں سے ایک ہے كہ ان كے جدرسول اعظمؐ كى گواہى كے مطابق اگر ہم نے ان سے تمسك كيا تو ہرگز گمراہ نہیں ہونگے۔ كيونكہ رؤيت قلبى رؤيت ادراکى کےقرىب ہے جس كا اشاعرہ حامى ہيں۔

حوالہ جات

  1. سورۃ قيامت: ۲۲- ۲۳
  2. سورۃ غاشیه: 17
  3. سورۃ يس : 49
  4. الاشعری، ابو الحسن، الإبانة ص۲۱- ۱۳
  5. سورۃ الاعراف: ۱۴۳
  6. الاشعری، ابو الحسن، الابانہ: ۱۴
  7. سورۃ ىونس: ۲۶۔
  8. الاشعری، ابو الحسن، الابانہ: ۱۴۔
  9. الاشعری، ابو الحسن، الابانہ: ۱۴ ۔
  10. سورۃ الاحزاب: 44
  11. الاشعری، ابو الحسن، الابانہ: ۱۴۔
  12. نحاس، عبد الرحمن، ضوء السارى ۶۸۔
  13. سورۃ مطففىن: ۱۵
  14. نحاس، عبد الرحمن، ضوء السارى: ۶۷۔
  15. الاشعری، ابو الحسن، الابانہ: ۱۵
  16. نحاس، عبد الرحمن، ضوء السارى: ۸۰- ۸۱
  17. نحاس، عبد الرحمن، ضوء السارى: ۸۳۔
  18. الاشعری، ابو الحسن، الابانہ ۱۶
  19. الاشعری، ابو الحسن، الابانه، ص20
  20. لاشعری، ابو الحسن، الابانہ: ص۱۷
  21. آمدی، سیف الدین، غایة المرام ۱۶۶۔
  22. آمدی، سیف الدین، غایة المرام ۱۶۶
  23. طوسي، قواعد العقائد، ص۱۷۱۔
  24. آمدی، یوسف، غایة المرام: ۱۶۶- ۱۶۷۔
  25. غزالی، قواعد، ص ۱۷۱
  26. سورۃ الانعام: 103
  27. المختصر فى اصول الدین ۳۳۷
  28. سورۃ الانعام: 14
  29. رؤيت كے متعلق ایک كلمة: ۳۰۵- ۳۰۷
  30. رؤيت كے متعلق ایک كلمة: ۳۰۵- ۳۰۷۔
  31. سورۃ طه: 110۔
  32. الكليني، محمد يعقوب، كافي ، ج‏1 ص237
  33. سورۃ النجم: ۱۳
  34. سورۃ النجم: ۱۱۔
  35. کلمہ حول الرؤيہ ۵۰۳- ۵۰۷
  36. سورۃ بقرہ: ۵۴- 55
  37. كلمہ حول الرؤيہ۔ ۲۹۸- ۳۰۰
  38. الاعراف: ۱۴۳
  39. صدوق، ابن بابويه، توحید صدوق: ۱۲۱- ۱۲۲
  40. ترمزي، اسماعيل، الجامع الصحيح سنن الترمزى ج۵، ص۶۶۳،
  41. نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/ ص 225
  42. نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/ ص 269 .
  43. نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/ ص 262
  44. نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/ ص 269
  45. شرح أصول الكافي جيلانى) / ج‏،1ص 417
  46. اشعری، ابو الحسن، الإبانہ ۱۵
  47. حنفی، احمد بن محمد، شرح الكواكب المنىر ج۲، ص۳۵۲
  48. حنفی، احمد بن محمد، شرح الكواكب المنىر ج۲، ص۳۵۲ ۔
  49. حنفی، احمد بن محمد، شرح الكواكب المنىر ج۲، ص۳۵۲
  50. اعراف: ۱۴۳
  51. نجم: ۱۱
  52. النمل:89۔
  53. محمد حسین،الميزان في تفسير القرآن، ج‏20 ،ص112
  54. ضوؤ السارى ص ۴۶- ۴۷
  55. فاطر: ۴۳۔
  56. يس: ۴۹
  57. نمل: ۳۵
  58. نمل:35۔
  59. القیامہ: ۲۴
  60. كهف: 110
  61. حم سجدہ: ۵۴
  62. مطففىن: ۱۵
  63. سوره تكاثر آيه 5- 7
  64. سوره انعام آيه 75
  65. قيامت آيه 23
  66. انشقاق آيه 6.
  67. طباطبایی، محمد، حسین، المىزان ،ج ۸، ۲۳۶
  68. مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار ؛ ج‏36 ؛ ص406
  69. ابن بابويه، محمد بن على، التوحيد۔ ص234