"سید رضا موسوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
سطر 40: سطر 40:
صدر رئیسی نے کہا کہ جنرل موسوی کی شہادت ثابت کرتی ہے کہ صہیونی حکومت نہایت کمزور اور حواس باختہ ہوچکی ہے۔ اسرائیل کو شہید موسوی پر حملے کی قیمت ادا کرنا پڑے گا۔
صدر رئیسی نے کہا کہ جنرل موسوی کی شہادت ثابت کرتی ہے کہ صہیونی حکومت نہایت کمزور اور حواس باختہ ہوچکی ہے۔ اسرائیل کو شہید موسوی پر حملے کی قیمت ادا کرنا پڑے گا۔
== شہادت کی تفصیلات ==
== شہادت کی تفصیلات ==
دمشق میں تعیینات ایرانی سفیر حسین اکبری نے مہر نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید جنرل موسوی شہید قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل موسوی آج دوپہر دو بجے ایرانی سفارت خانہ آئے تھے جہاں وہ اپنے دفتری فرائض انجام دینے کے بعد زینبیہ کے علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ کی جانب چلے گئے تھے۔ حسین اکبری نے مزید کہا کہ شہید موسوی کی شریک حیات سکول میں پڑھاتی ہے اس لئے حملے کے وقت گھر پر موجود نہیں تھی۔ تقریبا سہ پہر 4 بج کر 20 منٹ پر صہیونی حکومت نے ان کی رہائش گاہ پر تین میزائل فائر کئے۔ میزائل لگنے کے بعد رہائش گاہ کی عمارت مکمل تباہ ہوگئی اور شہید موسوی کی لاش صحن میں پڑی ہوئی تھی۔
دمشق میں تعیینات ایرانی سفیر حسین اکبری نے مہر نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید جنرل موسوی شہید قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل موسوی آج دوپہر دو بجے ایرانی سفارت خانہ آئے تھے جہاں وہ اپنے دفتری فرائض انجام دینے کے بعد زینبیہ کے علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ کی جانب چلے گئے تھے۔ حسین اکبری نے مزید کہا کہ شہید موسوی کی شریک حیات سکول میں پڑھاتی ہیں،  اس لئے حملے کے وقت گھر پر موجود نہیں تھی۔ تقریبا سہ پہر 4 بج کر 20 منٹ پر صہیونی حکومت نے ان کی رہائش گاہ پر تین میزائل فائر کئے۔ میزائل لگنے کے بعد رہائش گاہ کی عمارت مکمل تباہ ہوگئی اور شہید موسوی کی لاش صحن میں پڑی ہوئی تھی۔
ایرانی سفیر نے شہید موسوی کے بارے میں کہا کہ وہ ایرانی سفارتخانے میں سفارتکار اور سیکنڈ کونسلر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ان کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا اس وجہ سے ان پر حملہ 1961 اور 1973 کی بین الاقوامی کنونشن کی روشنی میں جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
ایرانی سفیر نے شہید موسوی کے بارے میں کہا کہ وہ ایرانی سفارتخانے میں سفارتکار اور سیکنڈ کونسلر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ان کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا اس وجہ سے ان پر حملہ 1961 اور 1973 کی بین الاقوامی کنونشن کی روشنی میں جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
اکبری نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت نے شہید موسوی پر حملہ کرکے جنایت کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ حملہ شام کی خودمختاری کی بھی مکمل خلاف ورزی ہے کیونکہ سفارتکاروں کو تحفظ فراہم کرنا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے۔
اکبری نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت نے شہید موسوی پر حملہ کرکے جنایت کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ حملہ شام کی خودمختاری کی بھی مکمل خلاف ورزی ہے کیونکہ سفارتکاروں کو تحفظ فراہم کرنا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے۔
confirmed
821

ترامیم