"چکڑالوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 18: سطر 18:
میانوالی تحصیل کے شہباز خیل اور یار وخیل دیہات میں ان کے کافی پیرو کار موجود ہیں ڈیرہ اسماعیل خان اور لاہور میں بھی چکڑالوی پائے جاتے ہیں لاہور میں اس مسلک کے ایک سرکردہ پیرو کار شیخ چتو اشاعت القرآن نامی ماہوار جریدہ شائع کرتا ہے۔ لاہور میں زیادہ پذیرائی نہ ملنے پر اس کا بانی اب ڈیرہ اسماعیل خان میں مقیم ہو گیا ہے۔ انکار حدیث کی بنا پر یہ مسلک بھی دوسرے منکرین حدیث کی طرح معجزات و شفاعت ، عذاب قبر ایصال ثواب اور تعداد ازدواج وغیرہ کے قائل نہیں۔ تعداد ازدواج کے سلسلے میں چکڑالوی ایسے تمام اُمت کے افراد و گناہ کا مرتکب قرار دے <ref>عبد الرحمن کیلانی، آئینہ پرویزیت، مکتبہ اسلام شریک نمبر ۲ دن پور لاہور</ref>۔
میانوالی تحصیل کے شہباز خیل اور یار وخیل دیہات میں ان کے کافی پیرو کار موجود ہیں ڈیرہ اسماعیل خان اور لاہور میں بھی چکڑالوی پائے جاتے ہیں لاہور میں اس مسلک کے ایک سرکردہ پیرو کار شیخ چتو اشاعت القرآن نامی ماہوار جریدہ شائع کرتا ہے۔ لاہور میں زیادہ پذیرائی نہ ملنے پر اس کا بانی اب ڈیرہ اسماعیل خان میں مقیم ہو گیا ہے۔ انکار حدیث کی بنا پر یہ مسلک بھی دوسرے منکرین حدیث کی طرح معجزات و شفاعت ، عذاب قبر ایصال ثواب اور تعداد ازدواج وغیرہ کے قائل نہیں۔ تعداد ازدواج کے سلسلے میں چکڑالوی ایسے تمام اُمت کے افراد و گناہ کا مرتکب قرار دے <ref>عبد الرحمن کیلانی، آئینہ پرویزیت، مکتبہ اسلام شریک نمبر ۲ دن پور لاہور</ref>۔


== منکر حدیث ==
== نظریہ ==
مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی نے  '''ترجمۃ القرآن بآیات القرآن''' کے نام سے ایک تفسیر بھی لکھی، جس کے چند اقتباسات ملاحظہ کریں، ان سے مولوی عبداللہ چکڑالوی کا نظریہ انکارِ حدیث کھل کرسامنے آتا ہے:
کتاب اللہ کے مقابلہ میں انبیاء اور رسولوں کے اقوال وافعال یعنی احادیث قولی، فعلی، تقریری پیش کرنے کا مرض ایک قدیم مرض ہے، محمدرسول کے مقابل ومخاطب بھی قطعی اور یقینی طور پر اہلِ حدیث ہی تھے  <ref>تفسیرترجمۃ القرآن:۹۷، مطبوعہ سنہ۱۳۲۰ھ</ref>۔
کسی جگہ سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ قرآن کریم کے ساتھ کوئی اور شئے رسول پرنازل ہوئی تھی؛ اگرکوئی شخص کسی مسئلہ میں قرآن کریم کے سوا کسی اور چیز سے دینِ اسلام میں حکم کرے گا تووہ مطابق آیاتِ مذکورہ بالاکافر، ظالم اور فاسق ہوجائے گا
رسول اللہ کی زبان مبارک سے دین کے متعلق یاقرآن شریف نکلتا تھا اور یاسہواً اپنے خیالات وقیاسات، جن میں القاء شیطانی موجود ہوتا تھا، جن کوخدا تعالیٰ نے منسوخ ومذکور فی القرآن کرکے آپ کی اُن سے بریت کردی
مولوی عبداللہ چکڑالوی کی ان تصریحات میں ان کا اعتقادی چہرہ بہت کھل کر سامنے آجاتا ہے، کاش کہ وہ ترکِ تقلید کے زیرِسایہ تفسیر نہ پڑھتے اور ترکِ تقلید انہیں اس گڑھے میں نہ اُتارتی، مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی پہلے فقہ کی بندش سے آزاد ہوئے؛ پھرحدیث سے آزادی کی راہ ہموار کرنے لگے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے پیشگوئی کی کہ اس کے بعد وہ قرآن کریم کی جمع وتدوین کے پیچھے پڑیں گے، دین سے آزادی حاصل کرنے کی یہ آخری منزل ہے، مولانا ثناء اللہ صاحب لکھتے ہیں:
امام اہل قرآن نے نفسیات کے اس مسئلہ پراچھی طرح غور کرلیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کے عقائد دیرمیں اور بتدریج بدلتے ہیں، اس لیئے جب انہوں نے دیکھا کہ اب لوگ فقہ کی بندش سے تقریباً آزاد ہوگئے ہیں توانہوں نے حدیث پرنکتہ چینی شروع کردی اور جب کچھ دنوں میں یہ مرحلہ بھی طے ہوجائےگا تووہ جمع وتدوین قرآن میں رخنے نکالنے شروع کردیں گے۔
اِن کا ہرشخص خود امام ہے اور مجتہد ہے، اس کوکسی کی تقلید کی ضرورت نہیں؛ کیونکہ تقلید نام ہے پابندی کا اور اسی پابندی سے بھاگنے کے لیئے تویہ سارا کھیل کھیلا گیا ہے؛ اس لیئے یہ لوگ ایک دوسرے کی بالکل نہیں سنتے ہرشخص قرآن مجید کوجس طرح سمجھتا ہے؛ اسی طرح اس پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے <ref>فتاویٰ ثنائیہ:۱۰/۲۸۰</ref>۔
اس میں شبہ نہیں کہ انکارِ حدیث کی تحریک غیرمقلدوں کے جوشِ ترکِ تقلید سے اُٹھی مشہور مؤرخ شیخ محمداکرام لکھتے ہیں:
"اہلِ حدیث جماعت کے جوش وخروش کا دوسرا نتیجہ "طبقہ اہل القرآن" کا آغاز ہے، اہلِ حدیث اپنے آپ کوغیرمقلد کہتے ہیں، وہ فقہی ائمہ مثلاً ابوحنیفہ  کی تقلید سے آزاد ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ کئی طبیعتوں کو جو زیادہ آزاد خیال تھیں فقط فقہاء کی تقلید سے آزادی کافی معلوم نہ ہوئی اور انہوں نے مختلف اسباب کی بناء پراحادیث سے بھی آزادی حاصل کرنا چاہی، اس گروہ کا ایک مرکز پنجاب میں ہے، جہاں لوگ اُنہیں چکڑالوی کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کواہل القرآن کا لقب دیتے ہیں، اس گروہ کا بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی پہلے اہلِ حدیث تھا"۔
<ref>موجِ کوثر، ص۵۲</ref>۔
مولوی عبداللہ کے لیے سب سے بڑی مشکل نماز کا مسئلہ تھا، قرآن کریم بار بار نماز کا حکم دیتا ہے؛ لیکن اس میں نماز کی کوئی پوری تشکیل مذکور نہیں، نماز کا سارا عملی نقشہ اُمت کوحضوراکرمؐ سے ملا ہے اور بدوں حدیث تسلیم کیئے کوئی شخص قرآن کریم کے حکم "وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ" پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا، مولوی صاحب کے لیے انکار نماز بھی آسان نہ تھا اور کوئی ارکان نماز کی عملی تشکیل میں قرآن سے سامنے لانا یہ ان کے لیے اس سے بڑھ کر مشکل تھا، مولوی صاحب نے قرآن کے نقشہ نماز کے لیے "برہان الفرقان علی صلوٰۃ القرآن" ایک کتاب لکھی جوچارسو صفحات پرمشتمل ہے، نماز سیکھنے کے لیے چارسو صفحات کی ورق گردانی کون کریگا اور مولوی صاحب کے اس میں استدلالات کیا کیا ہیں، یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں؛ ہمیں اس وقت صرف یہ بتانا ہے کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کا نظریہ حدیث کیا تھا؟ مولوی صاحب پہلے اطاعت رسول کوزیربحث نہیں لاتے، حدیث کے موجودہ لٹریچر کوجعلی اور وضعی بتلاتے ہیں:
"حدیث کی تشریح وتفصیل کتاب اللہ المجید کے سراسر مخالف ہے..... اس وجہ سے مجھے اس بارے میں شک ہوا کہ حدیث محمدرسول اللہ سلام علیہ کا قول وفعل اور تقریر نہیں ہے..... اور میں نے دیکھا کہ وہ ایک نہایت ہی کریہہ المنظر بدصورت، زشت رو، بدشکل، مصنوعی چیز ہے، اس کورسول اللہﷺ سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ کی وفات سے سینکڑوں برس پیچھے بعض خود غرض لوگوں نے ازخود یہ ہزلیات گھڑلیں اور کمال سیاہ دلی سے ان کوناحق محمدرسول اللہﷺ کے ذمے لگا دیا ہے، یہ کام زیادہ تربعض یہود ونصاریٰ دشمنانِ اسلام کا معلوم ہوتا ہے؛ جنھوں نے اسلام کی بیخ کنی کی یہ بہترین راہ سوچی کہ وہ مسلمانی کے لباس میں لوگوں کوقرآن حکیم کی طرف سے ہٹاکر اور طرف لگادیں"۔
(الزکوٰۃ والصدقات:۱۳،۱۲)
پھرایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"فی الحقیقت حدیث میں اس قدر لغویات ہزلیات اور دور ازکار اور بے سراپا باتیں مندرج ہیں کہ وہ اس کی شکل کونہایت ہی بدنما بناتی ہیں؛ لیکن واضعینِ حدیث (حدیث بنانے والوں) نے یہ بڑی کاریگری کی کہ اس کوخاتم النبیین کی طرف منسوب کردیا اور اس طرح اس کے بدشکل چہرہ پرسفید (پاوڈر) مل دیا"۔
(برہان الفرقان:۱۰۹)
اس تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کا حملہ پہلے براہِ راست اطاعتِ رسول کے لازم ہونے اور حدیث کی حجیت پرنہ تھا، وہ صرف موجودہ ذخیرہ حدیث کوناقابل اعتماد سمجھتے تھے اور ان کے پاس جب حضورﷺ کی صحیح تعلیمات تک پہنچنے کے لیے اور کوئی راہ بھی تونہ تھی، مجبوراً انہوں نے یہ راہ اختیار کی کہ قرآن مجید کوہرطرح سے ہربات میں کافی اور وافی کہیں؛ تاکہ اور کسی طرف انہیں دھیان نہ کرنا پڑے، ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
"قرآن مجید میں دینِ اسلام کی ہرایک چیز من کل الوجوہ مفصل ومثرح طور پربیان ہوگئی ہے تواب وحی خفی یاحدیث کی کیا حاجت رہی؛ بلکہ اس کا ماننا اور دینِ اسلام میں اس پرعمل درآمد کرنا سراسر کفر وشرک اور ظلم وفسق ہے"
(مناظرہ:۲۰،۱۹)
اس پر بس نہیں، ذرا آگے چلئے:
"نہ صرف زمانہ محمدرسول اللہﷺ کے لوگ ہی کتاب اللہ کے مقابلہ میں احادیث انبیاء پیش کرتے تھے؛ بلکہ یہ ملعون کام اس سے بھی پرانا ہے...... فرعون بھی اہلِ حدیث ہی تھا اور موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں یوسف علیہ السلام کی احادیث پیش کرتا تھا"۔
(برہان القرآن:۱۷)
حدیث لٹریچر معتمد ذخیرہ حدیث ہے یانہ؟ اس کی بحث تدوینِ حدیث کے زیرِعنوان پہلے ہوچکی ہے، آپ اس وقت صرف چکڑالوی صاحب کے موقف پرغور کریں، اس کا حاصل یہ ہے کہ حدیث کا کوئی وجود حضورﷺ کے زمانے میں نہ تھا، حضورﷺ نے قرآن کے سوا کبھی کوئی بات نہ کی تھی، صحابہؓ نے حضورﷺ کے کسی قول یاعمل کوکبھی کسی کے سامنے نقل کیا تھا نہ ان میں حضورﷺ کی وفات کے بعد حضورﷺ کی کسی بات کوآگے نقل کرنے کا داعیہ پیدا ہوا اور نہ ہی اگلوں نے پچھلوں سے حضورﷺ یاصحابہؓ کے زمانے کی کوئی بات پوچھی؛ انہی حالات پراسلام کی دوتین صدیاں بسر ہوئیں اور اس کے بعد یہود ونصاریٰ کے کہنے سے حدیث کی کتابیں یکایک لکھ دی گئیں اور مسلمان یکا یک ان کی باتوں میں آکر ان ہزلیات کودین سمجھنے لگے، پہلی تین صدیوں میں جوقرآنی نماز قائم تھی، وہ یکایک ترک ہوگئی اور نماز کا موجودہ نقشہ جوسراسر قرآن کے خلاف تھا، مسلمانوں میں قائم ہوگیا، اسلامی دنیا جہاں تک وسیع ہوتی گئی؛ یہی عجمی نماز ہرجگہ پہنچی اور کسی عربی دان کوقرآن کے مطالعہ سے قرآن میں یہ نقشہ نماز نظر نہ آیا جومولوی عبداللہ چکڑالوی نے اب برہان القرآن علی صلوۃ القرآن میں درج فرمایا ہے؛ پھرمسلمانوں میں ان قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ میں جتنے بھی قانون دان اور ماہرینِ فقہ گزرے، ان میں سے کسی کوپتہ نہ چل سکا کہ یہ معتبرراویوں کے نقل کئے ذخائرِ حدیث ہرگز ماخذ علم نہیں؛ بلکہ یہ سب ہزلیات کا ایک ذخیرہ ہے، جودشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کی بیخ کنی کے لیے تیار کیا ہے؎
بریں عقل ودانش بباید گریست
چکڑالوی صاحب کا یہ تبصرہ صرف اس امت پر نہیں، وہ پہلی اُمتوں کوبھی برابر کامجرم قرار دیتے ہیں اور مولوی کا دعویٰ ہے کہ اتباعِ حدیث کی تجویز پہلے ادوار میں بھی تھی، فرعون اہلِ حدیث میں سے تھا اور موسیٰ علیہ السلام تورات کے سوا اور کسی چیز کوبنواسرائیل کے لیے حجت نہ سمجھتے تھے اور نہ آپ نے کبھی کسی اور بات کی دعوت دی تھی، مولوی صاحب کی یہ بات "پنسبہ کجا کجا نہم" کا مصداق ہے، ہم ان کی کس کس بات پرمرہم رکھیں اور ان کے لگائے کس کس زخم کومندمل کرنے کی کوشش کریں، تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کوملی تھی اور وہ اسرائیل کے لیے بے شک تشریعی پیغمبر تھے، ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام توصاحب کتاب نہ تھے؛ پھرقرآن کریم میں یہ بات کیوں ہے کہ انہوں نے بھی قوم کواپنی پیروی کی دعوت دی؟ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ نبی اور رسول اسی لیے توبھیجے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے؟ اور ان سے رضاءِ الہٰی کے طریقے جاری ہوں؟ بنی اسرائیل جب سامری کے چکر میں گھرے توحضرت ہارون علیہ السلام نے کیا یہ نہ کہا تھا:
"يَاقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي"
(طٰہٰ:۹۰)
ترجمہ:اے میری قوم! بات یہی ہے کہ تم بہک گئے، اس (بچھڑے) کے ساتھ اور بے شک تمہارا رب تورحمٰن ہے؛ سومیری پیروی کرو اور مانو میری بات۔
قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ بنواسرائیل کے لیے صرف تورات ماننے کی دعوت نہ تھی، اتباعِ رسالت بھی ان کے ذمہ تھا اور موسیٰ علیہ السلام تواپنی جگہ رہے، حضرت ہارون علیہ السلام کی اتباع اور پیروی بھی ان پرلازم تھی، حدیث ماننے کا سبق پہلی اُمتوں میں اس وقت کے نبیوں کے زیرِتربیت رہا ہے، یہ کہنا کہ یہ ملعون کام پہلے سے ہوتا چلا آیا ہے بڑی جسارت ہے، ہندوستان کے منکرینِ حدیث میں مولوی عبداللہ چکڑالوی کے بعد جناب حافظ محمداسلم کانام آتا ہے۔
* روایات (احادیثِ نبویہ )محض تاریخ ہے <ref>طلوع اسلام ص49ماہِ جولائی، 1950ء</ref>۔
* روایات (احادیثِ نبویہ )محض تاریخ ہے <ref>طلوع اسلام ص49ماہِ جولائی، 1950ء</ref>۔
* حدیث کا پورا سلسلہ ایک عجمی سازش تھی اور جس کو شریعت کہا جاتا ہے وہ بادشاہوں کی پیدا کردہ ہے۔
* حدیث کا پورا سلسلہ ایک عجمی سازش تھی اور جس کو شریعت کہا جاتا ہے وہ بادشاہوں کی پیدا کردہ ہے۔