"تصوف" کے نسخوں کے درمیان فرق

13,472 بائٹ کا اضافہ ،  22 نومبر 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''تصوف''' اسلامی شریعت الہی کی سختی سے پابندی کا نام تصوف ہے۔ تصوف کا لفظ سین سے تھا اور اس کا مادہ صوف تھا جو یونانی زبان میں حکمت کے لیے بولا جاتا ہے۔ تصوف میں ہر سلسلے کا اپنا مخصوص فکری نظام رہا ہے اور ہر سلسلے میں اوراد، بیعت، تعلیم و تربیت، ذاکر و اذکار اور معاشرت کے طور پر طریقے دوسرے سلسلوں سے مختلف ہوتے ہیں اور اخلاقی زندگی کو تصوف میں '''خلق''' روجانی زندگی کی بنیاد کو کہتے ہیں۔
'''تصوف''' اسلامی شریعت الہی کی سختی سے پابندی کا نام تصوف ہے۔ تصوف کا لفظ سین سے تھا اور اس کا مادہ صوف تھا جو یونانی زبان میں حکمت کے لیے بولا جاتا ہے۔ تصوف میں ہر سلسلے کا اپنا مخصوص فکری نظام رہا ہے اور ہر سلسلے میں اوراد، بیعت، تعلیم و تربیت، ذاکر و اذکار اور معاشرت کے طور پر طریقے دوسرے سلسلوں سے مختلف ہوتے ہیں اور اخلاقی زندگی کو تصوف میں '''خلق''' روجانی زندگی کی بنیاد کو کہتے ہیں۔
== تصوف کے معنی ==
== تصوف کے معنی ==
تصو ف کا مفہوم : تصوف کا اصل مادہ صوف ہے، جس کا معنی ہے اون اور  '''تَصَوُّف''' کا لغوی معنی ہے اون کا لباس پہننا جیسے تَقَمُّص کامعنی ہے قمیص پہننا <ref>ابو الحسن سید علی بن عثمان ہجویری، کشف المحجوب، اردو ترجمہ عبد الرحمٰن طارق، لاہور،ادارہ اسلا میات ، طبع اول: ۲۰۰۵ء، ص: ۴۱۶</ref>۔
صوفیأ کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں:اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رذائلِ اخلاق سے پاک و صاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔ اور صوفیاء ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے اندر کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو اسی کی دعوت دیتے ہیں <ref>یوسف سلیم چشتی، تاریخ تصوف،لاہور، دارالکتاب،طبع اول: ۲۰۰۹ء، ص: ۱۱۵۔</ref>۔
* صوفیوں کا عقیدہ
* صوفیوں کا عقیدہ
* علم معرفت
* علم معرفت
سطر 9: سطر 11:


== تصوف کا آغاز ==
== تصوف کا آغاز ==
بعض حضرات کا خیال ہے کہ لفظ صوفی کا استعمال سب سے پہلے بغداد میں ہوا۔ عبدالرحمن جامی نے اپنی کتاب میں تصحیح کی ہے ابو ہاشم کوفی نے سب سے پہلے وہ شخص تھا جس نے صوفی کا لفظ استعمال کیا۔ اس سے قبل یہ لفظ کبھی استعمال نہيں ہوا۔ شام کے علاقہ رملہ میں سب سے پہلے صوفیوں کیلے ایک خانقاہ بنی اور اسے بنانے والا وہاں کا عیسائی بادشاہ تھا۔ مشہور صوفی بزرگ علی ہجویری نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ تصوف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں موجود تھا اور اس زمانے میں بھی اس کیلے یہ لفظ استعمال ہوتا تھا <ref>علی ہجویری، کشف المحجوب، ص227</ref>
ایک قسم کی رہبانیت سے ہوا اور دوسری صدی ہجری میں صوفیاء کی جماعتوں اور سلسلوں کا آغاز ہوا۔ تصوف میں امیر و غریب، عالم و جاہل، شریف و رذیل کی تمیز جو ہر مذہب کے روایتی نظام میں کم و بیش پائی جاتی ہے اس لیے یوں کہنا کہ تصوف جمہوریت کے اصول اخوت و مساوات کی طرح اثر رکھتی ہے۔ مسلم آبادی کا تصوف کی طرف مائل ہونے کی یہی وجہ ہے۔ تصوف میں صوفیاء کی خانقاہیں اور سلسلے قائم ہیں، اسلامی صوفیوں کی پہلی خانقاہ رملہ کی خانقاہ ہے جو [[فلسطین]] میں ہے چونکہ صوفیوں کے مختلف شجروں کے منتہی [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی علیہ السلام]] ہی قرار پاتے ہیں۔ شیعوں کی طرح صوفیہ بھی حضرت علی علیہ السلام کو اپنا پیشوا اور امام مانتے ہیں شاہ ولی اللہ کے ںزدیک حضرت علی علیہ السلام اس امت کے پہلے مجذوب اور پہلے صوفی و عارف ہیں اگرچہ صوفیہ کرام کی بھاری اکثریت کا تعلق تو سنی مسلک سے رہا ہے پھر بھی انہوں نے تمام صحابہ کرام میں سے حضرت علی علیہ السلام ہی کو انتخاب کیا۔ حضرت علی علیہ السلام کو ایک مخصوص علم عطا کیا گیا تھا اور وہی علم در اصل تصوف کا سرچشمہ ہے صوفیہ کرام کے تمام سلسلے سوائے نقشبندی سلسلے کے جو ابوبکر صدیق سے منسوب ہے باقی تمام سلسلے حضرت علی علیہ السلام کی ذات پر ختم ہوئے ہیں۔ تصوف کا مظہری معراج کرامات ہوتی ہیں تصوف میں اولیاء کرام کی کرامات کا ذکر ہوتا ہے اور جتنے بڑے اولیاء اللہ ہوں گے اتنی ہی بڑی کرامات کا ذکر تصوف میں ملے گا ہند و پاک میں تصوف کی ابتداء تصور شیخ سے کی جاتی ہے۔
ایک قسم کی رہبانیت سے ہوا اور دوسری صدی ہجری میں صوفیاء کی جماعتوں اور سلسلوں کا آغاز ہوا۔ تصوف میں امیر و غریب، عالم و جاہل، شریف و رذیل کی تمیز جو ہر مذہب کے روایتی نظام میں کم و بیش پائی جاتی ہے اس لیے یوں کہنا کہ تصوف جمہوریت کے اصول اخوت و مساوات کی طرح اثر رکھتی ہے۔ مسلم آبادی کا تصوف کی طرف مائل ہونے کی یہی وجہ ہے۔ تصوف میں صوفیاء کی خانقاہیں اور سلسلے قائم ہیں، اسلامی صوفیوں کی پہلی خانقاہ رملہ کی خانقاہ ہے جو [[فلسطین]] میں ہے چونکہ صوفیوں کے مختلف شجروں کے منتہی [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی علیہ السلام]] ہی قرار پاتے ہیں۔ شیعوں کی طرح صوفیہ بھی حضرت علی علیہ السلام کو اپنا پیشوا اور امام مانتے ہیں شاہ ولی اللہ کے ںزدیک حضرت علی علیہ السلام اس امت کے پہلے مجذوب اور پہلے صوفی و عارف ہیں اگرچہ صوفیہ کرام کی بھاری اکثریت کا تعلق تو سنی مسلک سے رہا ہے پھر بھی انہوں نے تمام صحابہ کرام میں سے حضرت علی علیہ السلام ہی کو انتخاب کیا۔ حضرت علی علیہ السلام کو ایک مخصوص علم عطا کیا گیا تھا اور وہی علم در اصل تصوف کا سرچشمہ ہے صوفیہ کرام کے تمام سلسلے سوائے نقشبندی سلسلے کے جو ابوبکر صدیق سے منسوب ہے باقی تمام سلسلے حضرت علی علیہ السلام کی ذات پر ختم ہوئے ہیں۔ تصوف کا مظہری معراج کرامات ہوتی ہیں تصوف میں اولیاء کرام کی کرامات کا ذکر ہوتا ہے اور جتنے بڑے اولیاء اللہ ہوں گے اتنی ہی بڑی کرامات کا ذکر تصوف میں ملے گا ہند و پاک میں تصوف کی ابتداء تصور شیخ سے کی جاتی ہے۔
== ہند و پاک میں تصوف کی ابتداء ==
== ہند و پاک میں تصوف کی ابتداء ==
ہندوستان میں صوفیاء خانقاہوں کا ذکر ہمیں پرتھوی راج کے عہد ہی سے ملنے لگتا ہے سب سے پہلے چشتہ اس کے بعد سہروردیہ اور پندرھویں صدی میں عبدالحق محدث نعمت اللہ قادری نے سلسلہ قادریہ کو فروغ دیا اور اکبر کے عہد میں خواجہ باتی باللہ نے سلسلہ نقشبندی شروع کیا اور اس سلسلہ کی تکمیل ان عزیز مرید مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے ہاتھوں ہوئی۔ مغلوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں صوفیوں کی مقبولیت عام ہوچکی تھی۔ بابا فرید گنج شکر نظام الدین اولیاء اور میر خسرو کی مقبولیت کے قصے تصوف کی کتابوں میں کثرت سے ملیں گے۔ اکبر کے زمانہ میں بابا سلیم چشتی کے خیالات عروج پر تھے۔ سہروردی اور چشتی صوفیاء شریعت کے پابند تھے۔ ہندوستان میں سہروردی کے سلسلے کے بانی شیخ شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی فکر و عمل کے اعتبار سے اسلام کے نمائندہ علماء میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔ دوسرے چشتی صوفیاء سماع کو روحانی ترقی کے لیے معاون تصور کرتے تھے۔ چشتی سلسلہ ہندوستان کا سب سے مقبول اور معروف سلسلہ تصوف ہے۔  
ہندوستان میں صوفیاء خانقاہوں کا ذکر ہمیں پرتھوی راج کے عہد ہی سے ملنے لگتا ہے سب سے پہلے چشتہ اس کے بعد سہروردیہ اور پندرھویں صدی میں عبدالحق محدث نعمت اللہ قادری نے سلسلہ قادریہ کو فروغ دیا اور اکبر کے عہد میں خواجہ باتی باللہ نے سلسلہ نقشبندی شروع کیا اور اس سلسلہ کی تکمیل ان عزیز مرید مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے ہاتھوں ہوئی۔ مغلوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں صوفیوں کی مقبولیت عام ہوچکی تھی۔ بابا فرید گنج شکر نظام الدین اولیاء اور میر خسرو کی مقبولیت کے قصے تصوف کی کتابوں میں کثرت سے ملیں گے۔ اکبر کے زمانہ میں بابا سلیم چشتی کے خیالات عروج پر تھے۔ سہروردی اور چشتی صوفیاء شریعت کے پابند تھے۔ ہندوستان میں سہروردی کے سلسلے کے بانی شیخ شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی فکر و عمل کے اعتبار سے اسلام کے نمائندہ علماء میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔ دوسرے چشتی صوفیاء سماع کو روحانی ترقی کے لیے معاون تصور کرتے تھے۔ چشتی سلسلہ ہندوستان کا سب سے مقبول اور معروف سلسلہ تصوف ہے۔  
سطر 22: سطر 26:
=== صوفی ===
=== صوفی ===
صوفی کو صف سے ماخوذ کیا گیا ہے جو صوفیاء وہ لوگ ہیں جو اللہ کے حضور صف اول میں کھڑے ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں صوفی وہ ہے جو خود کو فنا کرکے حق کے ساتھ مل جائے اور خواہشات نفسانیہ مثلا عورت۔ دولت، زمین، باغات، مکانات اور تجارت کی محبت اپنے دل سے بالکل خارج کردیتا ہے۔ اور اللہ کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور جب ایک شخص ایسا کرتا ہے تو وہ بالکل خود بخود صوفی بن جاتا ہے۔
صوفی کو صف سے ماخوذ کیا گیا ہے جو صوفیاء وہ لوگ ہیں جو اللہ کے حضور صف اول میں کھڑے ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں صوفی وہ ہے جو خود کو فنا کرکے حق کے ساتھ مل جائے اور خواہشات نفسانیہ مثلا عورت۔ دولت، زمین، باغات، مکانات اور تجارت کی محبت اپنے دل سے بالکل خارج کردیتا ہے۔ اور اللہ کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور جب ایک شخص ایسا کرتا ہے تو وہ بالکل خود بخود صوفی بن جاتا ہے۔
=== متصوف ===
متصوف وہ ہے جو ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ اس مقام کی طلب کرے اور وہ اس مقام کی طلب میں صادق اور راست باز ہے۔
=== معصوف ===
معصوف وہ ہے جو دنیاوی عزت و منزلت اورمال و دولت کی خاطر خود کو ایسے بنالیے اور اسے مذکورہ منازل و مقامات کی کچھ خبر نہ ہو ایسے نقلی صوفیوں کے لیے عرفاء کا مقولہ ہے نقلی صوفی مکھی کی مانند ذلیل و خوار ہے۔
== تصوف کے سلسلے ==
تصوف کے سلسلے اگر چہ سلسلے تو بے شمار ہیں لیکن ہندو پاک میں صوفیہ کے چار
سلسلے بہت مشہور پائے جاتے ہیں:
* قادر یہ، بانی شیخ عبد القادر جیلانی، اس سلسلے کے صوفیوں کو قادری کہتے ہیں۔
* سہروردیہ، بانی شیخ ابوالنجیب سہروردی، حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی سے سلسلہ منسوب ہے اور اس سلسلے کے مریدوں کو سہروردی کہتے ہیں ان صوفیاء کو پیران شیخ بھی کہتے ہیں۔
* چشتیه، بانی خواجہ معین الدین چشتی، اہل ہند شیخ طریقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی
ہیں اور اس سلسلہ کے مریدوں کو چشتی کہتے ہیں۔
* نقشبندیہ، بانی خواجہ بہاؤالدین نقش بندی، امام زینت الاسلام حضرت بہاؤالدین نقشبند ہے اور اس سلسلے کے مریدوں
کو نقشبندی کہتے ہیں۔
== تصوف میں داخلی شرائط ==
* خلوص کے ساتھ بارگاہ الہی کی طرف متوجہ ہونا۔
* قیام بیت وفنا میں تکبیر کہنا
* محل وصل میں کھڑا ہونا۔
* ترسیل و عظمت کیسا تھ قرات کرنا۔
* خشوع کے ساتھ رکوع کرنا
* تدلیل و عاجزی کے ساتھ سجدہ کرنا۔
* دل جمعی کے ساتھ تشہد پڑھنا۔ ۸۔ فنائے صفت کے ساتھ سلام پھیرنا۔
== پیر پرستی کا عقیدہ ==
پیر پرستی کا عقیدہ پیر پرستی کا مطلب پیر کو اپنا حاکم مان کر خود کو مکمل طور پر اس کے سپرد کر دیتا پیر کی دل و جان سے اطاعت کرنا سب سے بڑھ کر اس سے محبت و عقیدت رکھنا سجدہ کی حد تک اس کی تعظیم کرتا پیر سے ڈرنا اور اپنی تمام امیدیں پیر  کے دامن اور آستانے سے وابستہ رکھنا اور یہ عقیدہ بھی رکھنا کہ پیر اپنے مرید کے دل کا حال بھی جانتا ہے صوفیاء کرام نے پیر کی ضرورت پر بہت زور دیا اور یہ کی محبت کو لازمی قرار دیا ہے ان کے نزدیک کسی نہ کسی پیر کے دامن سے وابستہ ہونا اتنا ہی  ضروری ہے جتنا رسول یا امام پر ایمان لانا صوفیاء کا کہنا ہے کہ جس کا کوئی پیر ہی نہیں اس پیر شیطان ہے۔
بلوچستان کے بلوچ اور پشتون قبائل میں شاید ہی کوئی ایسا قبیلہ ہو جوکسی نہ کسی پیر یا بزرگ کا معتقد نہ ہو بلو چستان کے بارے میں یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ان کا ہر قبیلہ کی کسی پیر پر یقین رکھا ہے اور تقریبا ہر قبلے کا اپنا ہی ہے جسے ہگئی قبیلہ ۔ مری قبیلہ غرضیکہ ہر بلوچ قبیلہ کسی نہ کسی روحانی مرشد کا معتقد ہے۔ بلوچستان میں چشتیہ سلسلے کے بزرگوں کا دائرہ بہت وسیع ہے چشتیہ سلسلہ کے نامور بزرگ سلطان سخی سرور حضرت شاہ سلیمان تونسوی اور خواجہ غلام فرید ہو گزرے ہیں گو کہ ان لوگوں کے مزار بلوچستان کی حدود میں نہیں مگر بلوچستان سے ملحق ڈیرہ نمازی خان کی حدود میں واقع ہونے کی وجہ سے ان کے اثرات بلوچستان میں بھی آئے بلوچ پیر پرست ہیں ۔ اکثر لوگ اللہ تعالی سے کہیں زیادہ پیر کی پرستش کرتے اگر کسی شخص کو اللہ کی قسم اٹھانے کے لئے کہیں وہ بلا چوں و چرا قسم کھائے گا۔
== صوفیا کی نصیحتیں ==
صوفیأ حضرات جن باتوں پر زیادہ زور دیتے ہیں ،وہ یہ ہیں :
* اللہ تعالیٰ کی محبت۔
* رسول اللہ ا کی اطاعت۔
* تزکیۂ نفس( اپنے نفس کو فضائلِ اخلاق سے آراستہ کرنا اور رذائلِ اخلاق سے پاک کرنا)۔
* برداشت اور رواداری ۔
* خدمت ِخلق تصوف!<ref>قرآن وسنت کی روشنی میں، [https://www.banuri.edu.pk/bayyinat-detail/%D8%AA%D8%B5%D9%88%D9%81-%D9%82%D8%B1%D8%A7-%D9%86-%D9%88%D8%B3%D9%86%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D9%88%D8%B4%D9%86%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%82%D8%B3%D8%B7 banuri.edu.pk]</ref>۔
== تصوف اور سلوک کی حقیقت ==
تصوف اصل میں اخلاق کی پاکیزگی، باطن کی صفائی، آخرت کی فکر، قلب کی طہارت اور دنیاسے بےرغبتی کا نام ہے؛ انہی پاکیزہ صفات سےاپنے آپ کو متصف کرنا احادیث کی اصطلاح میں احسان کہلاتاہے، جومذہب سے الگ کوئی نئی چیز نہیں؛ بلکہ مذہب ہی کی اصل روح ہے اور جس طرح جسم وجسد، روح کے بغیر بےجان، مردہ لاش تصور کئےجاتےہیں، اسی طرح تمام نیک اعمال وعبادات بھی اخلاص نیت اورباطنی طہارت کے بغیربے قدروقیمت تصور کی جاتی ہیں۔
تصوف بندہ کے دل میں جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتاہے، وہیں تحمل، برداشت، حسن اخلاق، رواداری اور خدمت خلق کی طرف بھی انسان کو راغب کرتا ہے۔
=== تصوف کے کئی نام ہیں ===
(1)علم القلب (2)علم الاخلاق (3) احسان وسلوک (4) تزکیہ و طریقت وغیرہ۔ قرآن و حدیث میں اس کے لیے زیادہ تر احسان کا لفظ استعمال ہوا ہے؛لیکن ان تمام ناموں کا مطلب اور مفہوم ایک ہی ہے اور وہ ہے اپنے نفس کو '''اخلاق حمیدہ'''  سے مزین کرنا اور '''اخلاقِ رذیلہ''' سے پاک و صاف کرنا۔
=== صوفیا ===
لیکن صوفیاء کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رذائلِ اخلاق سے پاک وصاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔
صوفیا، ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے باطن کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں تک اسی کی دعوت پہونچاتے ہیں۔ اب لفظ صوفیا، اپنے لغوی معنی ( اون کا لباس پہننے والے )میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے اندرون کی صفائی کی طرف توجہ دیتے ہیں اور اب یہ لفظ ایسے ہی لوگوں کے لیے لقب کی صورت اختیار کر چکا ہے ؛لیکن چوں کہ ابتدا میں ایسے لوگوں کا اکثر لباس صوف (اون) ہی ہوتا تھا، اس وجہ سے ان پر یہ نام پڑ گیا، اگرچہ بعد میں ان کا یہ لباس نہ رہا <ref>عبد الرشید طلحہ، تصوف اور سلوک کی حقیقت،[https://mazameen.com/%d8%aa%d8%b5%d9%88%d9%81-%d9%88%d8%b3%d9%84%d9%88%da%a9-%da%a9%db%8c-%d8%ad%d9%82%db%8c%d9%82%d8%aa/ mazameen.com]</ref>۔
== ضرورتِ تزکیہ ==
بہت سے افعال و اعمال جس طرح ہمارے ظاہری اعضاءو جوارح سے صادر ہوتے ہیں  اسی طرح ہمارے باطن (قلب ) سے بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ ظاہری اعضاءو جوارح سے صادر ہونے والے افعال کو ”اعمالِ ظاہرہ“ جب کہ باطنی اعضاءو جوارح ( قلب) سے صادر ہونے والے افعال کو ”اعمالِ باطنہ “ کہا جاتا ہے۔ نیز جس طرح ہمارے ظاہری افعال و اعمال شریعت اسلامیہ کی نظر میں بعض فرض،  واجب،  مباح، مستحب اور بعض ناپسندیدہ،  مکروہ اور حرام قسم کے ہیں اسی طرح ہمارے باطنی افعال و اعمال بھی شریعت اسلامیہ کی نظر میں بعض فرض، واجب اور مستحب ہیں ( جیسے تقویٰ و طہارت،  خشیت و للہیت،  صبر و شکر،  عاجزی و انکساری،  سخاوت و فیاضی وغیرہ) اور بعض ناپسندیدہ،  مکروہ اور حرام قسم کےہیں (جیسے تکبر و غرور،  ریاءو دکھلاوا، حسد،  کینہ، بغض،  بخل،  بزدلی اور لالچ وغیرہ  )
لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اچھے یا برے افعال کے صدور کا تمام تر تعلق قلبی احوال اور نفس کی اندرونی کیفیتوں کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اگر غور سے دیکھاجائے تو صاف طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہی قلبی احوال اور اندرونی کیفیتیں در حقیقت ہمارے تمام ظاہری افعال و اعمال کی بنیاد اور ان کی اساس ہیں۔ ظاہری اعضاءو جوارح سے ہم اچھا یا برا جو بھی کام کرتے ہیں ؛وہ در حقیقت انہیں قلبی احوال اور اندرونی کیفیتوں کا نتیجہ ہوتاہے۔چنانچہ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ تقویٰ و طہارت اور اللہ تعالیٰ کی محبت وغیرہ قلب کی اندرونی کیفیتیں ہیں ؛لیکن ان کا اثر ہمارے تمام ظاہری اعمال پر براہِ راست پڑتا ہے۔ بلاشبہ ہماری ہر ایک عبادت:نماز،  روزہ،  حج،  زکوۃ وغیرہ کا مصدر و منبع یہی باطنی کیفیتیں اور قلبی احوال ہیں۔ اسی طرح اگر ہم شیطانی اور نفسانی خواہشات اور تقاضوں کے باوجود بدنظری،  لڑائی جھگڑے اور جھوٹ وغیرہ جیسے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں تو اس کا اصل محرک بھی یہی باطنی اور قلبی تقویٰ و طہارت اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہی کا کرشمہ ہے۔
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}