"اسرائیل" کے نسخوں کے درمیان فرق

32 بائٹ کا اضافہ ،  15 نومبر 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
تاریخی اعتبار سے لفظ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم کو '''بنی اسرائیل''' یا اسرائیلی کہا جانے لگا۔ جدید ریاست اسرائیل کے شہریوں کو بھی اسرائیلی کہا جاتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے لفظ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم کو '''بنی اسرائیل''' یا اسرائیلی کہا جانے لگا۔ جدید ریاست اسرائیل کے شہریوں کو بھی اسرائیلی کہا جاتا ہے۔
=== ارض موعود ===
=== ارض موعود ===
بائبل کے مطابق خداوند نے '''ارض اسرائیل''' کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ارض موعود کہا جاتا ہے۔
بائبل کے مطابق خداوند عالم نے '''ارض اسرائیل''' کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ارض موعود کہا جاتا ہے۔
=== ارض اسرائیل کا محل وقوع ===
=== ارض اسرائیل کا محل وقوع ===
'''تناکا''' یعنی عبرانی بائبل میں ارض اسرائیل کی حدود کے حوالے سے متعدد بیانات ملتے ہیں، تاہم ان کے مطابق ارض اسرائیل مصر کے دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقے پر محیط ہے۔ گویا اس میں موجودہ دور کی ریاست اسرائیل غربی کنارہ، غزہ کی پٹی، شام اور لبنان شامل ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ جزیرہ نما سیناء کو بھی ارض اسرائیل میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مصر سے بنی اسرائیل کی ملک بدری اسی راستے سے ہوئی تھی۔ یہودی مقدس صحائف کے مطابق دریائے اردن کی مشرقی جانب علاقہ بھی، جس میں بیشتر اردن شامل ہے، ارض اسرائیل کا حصہ ہے۔ یہودی مقدس صحا‏ئف کے مطابق خداوند نے مصر سے نکلتے والے بنی اسرائیل کو ارض کنعان عطا کردی تھی <ref>محمد حسن بٹ، جدید اسرائیل کی تاریخ، لاہور علی فرید پرنٹرز، 2007م، ص9-10</ref>۔
'''تناکا''' یعنی عبرانی بائبل میں ارض اسرائیل کی حدود کے حوالے سے متعدد بیانات ملتے ہیں، تاہم ان کے مطابق ارض اسرائیل مصر کے دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقے پر محیط ہے۔ گویا اس میں موجودہ دور کی ریاست اسرائیل غربی کنارہ، غزہ کی پٹی، شام اور لبنان شامل ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ جزیرہ نما سیناء کو بھی ارض اسرائیل میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مصر سے بنی اسرائیل کی ملک بدری اسی راستے سے ہوئی تھی۔ یہودی مقدس صحائف کے مطابق دریائے اردن کے مشرقی جانب کا علاقہ بھی، جس میں بیشتر اردن شامل ہے، ارض اسرائیل کا حصہ ہے۔ یہودی مقدس صحا‏ئف کے مطابق خداوند نے مصر سے نکلتے والے بنی اسرائیل کو ارض کنعان عطا کردی تھی <ref>محمد حسن بٹ، جدید اسرائیل کی تاریخ، لاہور علی فرید پرنٹرز، 2007م، ص9-10</ref>۔
=== ارض اسرائیل اور ریاست اسرائیل ===
=== ارض اسرائیل اور ریاست اسرائیل ===
29نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کی رو سے فلسطین کے برطانوی انتداب کو ریاست اسرائیل قرار دیا گیا۔ عبرانی زبان میں ریاست اسرا‏ئیل کو '''مدینات یسرایئل''' کہا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں '''دولۂ الاسرائیل''' کہتے ہیں۔
29نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کی رو سے فلسطین کے برطانوی انتداب کو ریاست اسرائیل قرار دیا گیا۔ عبرانی زبان میں ریاست اسرا‏ئیل کو '''مدینات یسرایئل''' کہا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں '''دولۃالاسرائیل''' کہتے ہیں۔


ریاست اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا  میں واقع ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت فرار دیا گیا ہے لیکن اس کی حیثیت متنازعہ ہے چنانچہ بہت سے ملکوں نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ نظام حکومت کے اعتبار سے ریاست اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ یہ دنیا کی واحد یہودی ریاست ہے، تاہم اس کی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی پس منظروں کی حامل ہے۔
ریاست اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا  میں واقع ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے لیکن اس کی حیثیت متنازعہ ہے چنانچہ بہت سے ملکوں نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ نظام حکومت کے اعتبار سے ریاست اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ یہ دنیا کی واحد یہودی ریاست ہے، تاہم اس کی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی پس منظر کی حامل ہے۔
=== ایلیاہ اور اسرائیل ===
=== ایلیاہ اور اسرائیل ===
یہودی دنیا کے مختلف حصوں میں آباد تھے۔ سب سے پہلے 1881ء میں وہ عیسائیوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے ان علاقوں میں پناہ گزين ہوئے جہیں آج اسرائیل کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کی اس نقل مکانی کو عبرانی میں '''ایلیاہ''' کہا جاتا ہے۔ ایلیاہ کی دوسری وجہ موشے ہیس کے سوشلسٹ صہیونی نظریات تھے۔ یہودیوں نے عثمانی حکومت کے کارپردازوں اور عرب زمینداروں سے اراضی خرید لی اور بستیاں بساکر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ جس کے بعد مقامی عربوں کے ساتھ ان کی کشیدگی بھی رونما ہوئی۔
یہودی دنیا کے مختلف حصوں میں آباد تھے۔ سب سے پہلے 1881ء میں وہ عیسائیوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے ان علاقوں میں پناہ گزين ہوئے جہیں آج اسرائیل کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کی اس نقل مکانی کو عبرانی میں '''ایلیاہ''' کہا جاتا ہے۔ ایلیاہ کی دوسری وجہ موشے ہیس کے سوشلسٹ صہیونی نظریات تھے۔ یہودیوں نے عثمانی حکومت کے کارپردازوں اور عرب زمینداروں سے اراضی خرید لی اور بستیاں بساکر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ جس کے بعد مقامی عربوں کے ساتھ ان کی کشیدگی بھی رونما ہوئی۔
== صہیونیت کی ابتداء ==
== صہیونیت کی ابتداء ==
ایک اسٹریائی یہودی تھیوڈور ہرزل  ویانا کا شہری اور یہودی صحافی تھا 1895ء میں ایک فوجی رسم میں شرکت نے اسے انقلابی سوج دی۔ اس رسم میں ایک یہودی کیٹین الفریڈڈریفنس کو بطور سزا قتل کیا جانے والا تھا۔ مجمع نے جب بلند آواز میں کہا، اس '''غدارو کو مار دو''' تو ہرزل کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس نے صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی۔ جو صہیوں نام مقدس پہاڑ سے منسوب ہے۔ سو صحفات پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا جس کا عنوان تھا۔ '''یہودی ریاست''' صہیونیت کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس سوئزرلینڈ کے ایک کاسینو (قمار خانے) میں منعقد ہوئی جس میں ہرزل کو لیڈر منتخب کیا گیا۔ اس نے یہودی نیشنل فنڈ  اور ایک بنک قائم کیا تاکہ فلسطین میں زمیںیں خریدی جاسکیں۔ سفید اور نیلے رنگ کا ایک قومی جھنٹدا بھی بنایا گیا۔ سوویت روس میں یہودیوں کے قتل عام نے فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت کو بڑھاوادیا اور یہی لوگ صہیونیت کے پہلے علمبردار بنے۔ <ref>منور رضوی، قیام اسرائیل، 2015ء، ص6-7</ref>۔ میں اس نے پہلی عالمی صہیونی کانگرس منعقد کی۔ صہیونی تحریک کے نتیجے میں 1904ء سے 1914ء کے دوران ایلیاہ کی دوسری لہر امڈی اور تقریبا چالیس ہزار یہودی ان علاقوں میں جا بسے جنہیں آج ریاست اسرائیل کہا جاتا ہے
ایک آسٹریائی یہودی تھیوڈور ہرزل  ویانا کا شہری اور یہودی صحافی تھا۔ 1895ء میں ایک فوجی رسم میں شرکت نے اسے انقلابی سوج دی۔ اس رسم میں ایک یہودی کیٹین الفریڈڈریفنس کو بطور سزا قتل کیا جانے والا تھا۔ مجمع نے جب بلند آواز میں کہا، اس '''غدارو کو مار دو''' تو ہرزل کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس نے صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی جو صہیون  نامی مقدس پہاڑ سے منسوب ہے۔ سو صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا جس کا عنوان تھا” '''یہودی ریاست“''' ۔صہیونیت کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس سوئزرلینڈ کے ایک کاسینو (قمار خانے) میں منعقد ہوئی جس میں ہرزل کو لیڈر منتخب کیا گیا۔ اس نے یہودی نیشنل فنڈ  اور ایک بینک قائم کیا تاکہ فلسطین میں زمین خریدی جاسکے۔ سفید اور نیلے رنگ کا ایک قومی جھنٹدا بھی بنایا گیا۔ سوویت روس میں یہودیوں کے قتل عام نے فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت کو بڑھاوادیا اور یہی لوگ صہیونیت کے پہلے علمبردار بنے۔ <ref>منور رضوی، قیام اسرائیل، 2015ء، ص6-7</ref>۔ میں اس نے پہلی عالمی صہیونی کانگرس منعقد کی۔ صہیونی تحریک کے نتیجے میں 1904ء سے 1914ء کے دوران ایلیاہ کی دوسری لہر امڈی اور تقریبا چالیس ہزار یہودی ان علاقوں میں جا بسے جنہیں آج ریاست اسرائیل کہا جاتا ہے۔


== اسرائیل کا رقبہ ==
== اسرائیل کا رقبہ ==
اسرائیل کا کل رقبہ 22145 مربع کلومیٹر ہے، بشمول مقبوضہ علاقوں کے۔ یہ دنیا کا 149 واں بڑا ملک ہے۔
اسرائیل کا کل رقبہ بشمول مقبوضہ علاقوں کے 22145 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ دنیا کا 149واں بڑا ملک ہے۔
== بالفور ڈیکلریشن ==
== بالفور اعلامیہ ==
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ جے بالفور نے '''بالفور ڈیکلریشن''' پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ام کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔ 1992ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔ اس وقت تک صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آچکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے '''بالفور اعلامیہ''' پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ازم کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔ 1992ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔ اس وقت تک صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آچکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔
عربوں نے ابتدائی مدت کے دوران انتداب اور اعلان بالفور کے خلاف سخت مہم جاری رکھی۔ عرب جذبات کا پہلا ملک گیر احتجاج اپریل 1920ء کو ہوا اسی طرح دوسرا 1921ء اور تیسرا 1929ء کو ہوا۔ پھر 1936ء اور 1939ء کے دوران بغاوت رونما ہوئی۔ جس کے تحت چھ ماہ کی ہڑتال کی گئی۔ عربوں نے تین مطالبات پر زور طریقے سے پیش کئے:  
عربوں نے ابتدائی مدت کے دوران انتداب اور اعلان بالفور کے خلاف سخت مہم جاری رکھی۔ عرب جذبات کا پہلا ملک گیر احتجاج اپریل 1920ء کو ہوا اسی طرح دوسرا 1921ء اور تیسرا 1929ء کو ہوا۔ پھر 1936ء اور 1939ء کے دوران بغاوت رونما ہوئی۔ جس کے تحت چھ ماہ کی ہڑتال کی گئی۔ عربوں نے تین مطالبات پر زور طریقے سے پیش کئے:  
یہودیوں کی فلسطین آمد فوری روکی جائے
یہودیوں کی فلسطین آمد فوری روکی جائے
confirmed
821

ترامیم