9,666
ترامیم
(2 صارفین 19 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
سطر 1: | سطر 1: | ||
[[فائل:مباهله با آیه تطهیر.jpg|تصغیر|بائیں]] | [[فائل:مباهله با آیه تطهیر.jpg|تصغیر|بائیں]] | ||
'''مباہلہ''' [[اسلام]] کے موجودہ مطالعات کے مباحث کے سلسلے کا ایک اندراج ہے جو مباہلہ کی ایک جامع تعریف کے علاوہ اس واقعہ | '''مباہلہ''' [[اسلام]] کے موجودہ مطالعات کے مباحث کے سلسلے کا ایک اندراج ہے جو مباہلہ کی ایک جامع تعریف کے علاوہ اس واقعہ کی نوعیت کی وضاحت کرتا ہے اور عیسائیوں اور [[پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم|پیغمبر اسلام]] کے درمیان ہونے والے بحث و مباحثہ کو بیان کرتا ہے۔ اور اسلام اور [[اہل بیت]] رسول الله کی حقانیت کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ | ||
== مباہلہ کی تعریف == | == مباہلہ کی تعریف == | ||
"مباہلہ" | "مباہلہ" کے لغوی معنی ہیں باہمی لعنت <ref>ابن منظور؛ لسان العرب؛ ج ۱۱ ، ص ۷۲</ref> اور اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دو افراد یا دو گروہ ایک دوسرے کے خلاف دعا کریں۔ لہٰذا جو کوئی ظالم ہو، اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرے اور اس پر اپنا انتقام اور عذاب نازل کرے، اور اس کی اولاد کو مایوس اور ہلاک کرے <ref>احمد بن یحیی بلاذری؛ فتوح البلدان ص 95</ref>۔ اسلامی تاریخ میں اس لفظ سے مراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان واقع ہونے والا مباہلہ ہے۔ | ||
اصل | لفظ مباہلہ در اصل مادہ "بہل" سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے، اسے "باھل" کہتے ہیں اور دعا میں "ابتھال" تضرع اور خداوند متعال پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔ | ||
ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بحث کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ ایمان نہ لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے '''مباہلہ''' کا مشورہ دیا اور انہوں نے قبول کر لیا، لیکن وہ وعدے کے دن "مباہلہ" میں نہیں آئے۔ شیعوں کے نزدیک اس واقعہ سے پیغمبر کی دعوت کی صداقت اور ان کے اصحاب کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 کے مطابق جو مباہلہ کا قصہ بیان کرتی ہے، [[علی علیہ السلام|علی بن ابی طالب علیہ السلام]] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان و جان سمجھا جاتا ہے۔ | ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بحث کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ ایمان نہ لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے '''مباہلہ''' کا مشورہ دیا اور انہوں نے قبول کر لیا، لیکن وہ وعدے کے دن "مباہلہ" میں نہیں آئے۔ شیعوں کے نزدیک اس واقعہ سے پیغمبر کی دعوت کی صداقت اور ان کے اصحاب کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 کے مطابق جو مباہلہ کا قصہ بیان کرتی ہے، [[علی علیہ السلام|علی بن ابی طالب علیہ السلام]] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان و جان سمجھا جاتا ہے۔ | ||
سطر 51: | سطر 51: | ||
'''شیخ رافد تمیمی''' اپنی کتاب میں کہتے ہیں:میں اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے نواسوں حسن اور حسین اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ زہرا اور دامادحضرت علی کو لے کے گھر سے نکلے، دوسری طرف مسیحیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے۔ اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔ اسی واقعہ کی نسبت سے شعیہ اوراکثر سنی بھی پنجتن پاک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس سے سلفی حضرات اختلاف کرتے ہیں <ref>کتاب آیه المباهله شیخ رافد التمیمی ص21 و ص22</ref>. | '''شیخ رافد تمیمی''' اپنی کتاب میں کہتے ہیں:میں اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے نواسوں حسن اور حسین اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ زہرا اور دامادحضرت علی کو لے کے گھر سے نکلے، دوسری طرف مسیحیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے۔ اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔ اسی واقعہ کی نسبت سے شعیہ اوراکثر سنی بھی پنجتن پاک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس سے سلفی حضرات اختلاف کرتے ہیں <ref>کتاب آیه المباهله شیخ رافد التمیمی ص21 و ص22</ref>. | ||
مباہلہ کا حکم خدا تعالیٰ نے حق کو واضح کرنے اور حق و باطل کے گروہ کو ظاہر کرنے کے لیے وضع کیا ہے۔ نجران کے عیسائیوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جھگڑے نے اسلام کی حقیقت کو ظاہر کر دیا۔ جب نجران کے عیسائیوں کو یہ حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا۔ | مباہلہ کا حکم خدا تعالیٰ نے حق کو واضح کرنے اور حق و باطل کے گروہ کو ظاہر کرنے کے لیے وضع کیا ہے۔ نجران کے عیسائیوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جھگڑے نے اسلام کی حقیقت کو ظاہر کر دیا۔ جب نجران کے عیسائیوں کو یہ حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے علاوہ آیت مباہلہ کے نزول کے ساتھ ہی خاندانِ رسول کی فضیلت میں سے ایک مرتبہ پھر قرآن کی زبان میں بیان ہوا۔ | ||
== مباہلہ وقت اور جگہ == | |||
مباہلہ، [[ذوالحجہ]] کے مہینے میں، اور اس کا مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ شہر سے باہر تھا، جو اب شہر کے اندر ہے، اور اس جگہ "مسجد عنباس" کے نام سے ایک مسجد بنائی گئی۔ اس مسجد اور [[مسجد النبی]] کے درمیان فاصلہ تقریباً دو کلومیٹر ہے۔ مورخین نے اس واقعہ کا وقت 24 ذی الحجہ یعنی 10 ہجری کا سال بتایا ہے۔ مباہلہ کی جگہ ایک جگہ ہے جسے اب "مسجد العجابہ" کے نام سے جانا جاتا ہے مدینہ شہر اور [[بقیع]] کے قریب۔ <ref>احمدی میانجی، علی، مکاتیب الرسول؛ ج ۲، ص ۴۹۷</ref> | |||
== شیعہ اور سنی روایات کے نقطہ نظر سے مباہلہ == | |||
* صحیح مسلم، مسلم نیشابوری (متوفی 261ھ)، ص 1042، ح 32 (کتاب الفضائل، باب الفضائل از علی بن ابی طالب)۔ | |||
* الجامع الصحیح (ترمذی سنن)، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی (209-297ھ)، ج5، ص225، ہجری 2999۔ | |||
* اسباب النزول، واحدی نیشابوری (متوفی 468ھ)، صفحہ 90-91۔ | |||
* المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشابوری (متوفی 405ھ)، ج 3، ص 150۔ | |||
* جامع البیان عن تأویل آی القرآن محمد بن جریر طبری (متوفی 310ھ)، جلد 3، صفحہ 301-300، حصہ 3۔ | |||
* تفسیر القرآن العظیم، ابن ابی حاتم (متوفی 327ھ)، جلد 2، صفحہ 667-668، احادیث 3616-3619۔ | |||
* تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر دمشقی (متوفی 774ھ)، ج1، ص379۔ | |||
* الدار المنتھر فی التفسیر المطور، جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ)، ج2، ص 231-233۔ | |||
* تفسیر الکشاف، جاراللہ زمخشری (متوفی 538ھ)، جلد 1، صفحہ 368-370۔ | |||
* تفسیر السمرقندی، نصر بن محمد سمرقندی (متوفی 375ھ)، جلد 1، صفحہ 274-275۔ | |||
* تفسیر الفخر الرازی، فخر رازی (544-604ھ)، ج8، صفحہ 88-89۔ | |||
* تفسیر البیضاوی، عبداللہ بن عمر بیضاوی (متوفی 791ھ)، ج1، ص163۔ | |||
* المسند، احمد ابن حنبل، ج1، ص185، مصری ایڈیشن۔ | |||
* دلائل النبوۃ، حافظ ابو نعیم اصفہانی، ص 297۔ | |||
* جامع الاصول، ابن اثیر، ج 9، ص 470، المحمدیہ سنن مصر۔ | |||
* تدزیرہ الخواص، ابن جوزی، ص17۔ | |||
* تفسیر روح المعانی، آلوسی، ج3، ص167، منیریہ، مصر۔ | |||
* تفسیر الجواہر، شیخ طنطاوی، ج2، ص120، مصری ایڈیشن۔ | |||
* الاصابہ، احمد بن حجر عسقلانی، ج2، ص503، مصر ایڈیشن۔ | |||
* تفسیر العیاشی، ابو نصر محمد بن مسعود بن عیاش سمرقندی، جلد 1، صفحہ 175-177، احادیث 54، 57، 58 اور 59 | |||
* تفسیر فرات الکوفی، ص 85-90، ح 61۔ | |||
* المالی، شیخ طوسی (385-460ھ)، ص 307، ح 616۔ | |||
* لتبیان فی تفسیر القرآن، شیخ طوسی (385-460ھ)، ج2، ص484۔ | |||
* مجمع البیان فی تفسیر القرآن، شیخ طبرسی (متوفی 548ھ)، جلد 2، صفحہ 762-763۔ | |||
* البرہان فی تفسیر القرآن، سید بحرانی (متوفی 1091ھ)، جلد 2، صفحہ 49-50، ح 9، 12، 13، اور 14۔ | |||
* تفسیر نور الثقلین، حویزی (متوفی 1112ھ)، ج1، ص349، ح 163۔ | |||
* تفسیر ابو الفتوح رازی (متوفی 554ھ)، جلد 4، صفحہ 360-361 | |||
== عید مباہلہ == | |||
اس دن 24 ذوالحجہ کو کچھ ممالک میں، خاص کر کہ [[ایران]] میں عید مباہلہ منائی جاتی ہے <ref>[https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%A8%D8%A7%DB%81%D9%84%DB%81#cite_note-5 اردو ویکیپیڈیا سے ماخوذ]</ref>۔ | |||
== حواله جات == | == حواله جات == | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
{{اسلامی اصطلاحات}} | |||
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]] | |||
[[fa:مباهله]] | [[fa:مباهله]] |