9,666
ترامیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 3: | سطر 3: | ||
== مباہلہ کی تعریف == | == مباہلہ کی تعریف == | ||
"مباہلہ" کا لغوی معنی ہے باہمی لعنت <ref>ابن منظور؛ لسان العرب؛ ج ۱۱ ، ص ۷۲</ref> اور اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دو افراد یا دو گروہ ایک دوسرے کے خلاف دعا کریں۔ لہٰذا جو کوئی ظالم ہو، اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرے اور اس پر اپنا انتقام اور عذاب نازل کرے، اور اس کی اولاد کو مایوس اور ہلاک کرے <ref>احمد بن یحیی بلاذری؛ فتوح البلدان ص 95</ref>۔ اسلامی تاریخ میں اس لفظ سے مراد پیغمبر اسلام ﷺ اور نجران کے عیسائیوں کی تحریک ہے۔ | "مباہلہ" کا لغوی معنی ہے باہمی لعنت <ref>ابن منظور؛ لسان العرب؛ ج ۱۱ ، ص ۷۲</ref> اور اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دو افراد یا دو گروہ ایک دوسرے کے خلاف دعا کریں۔ لہٰذا جو کوئی ظالم ہو، اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرے اور اس پر اپنا انتقام اور عذاب نازل کرے، اور اس کی اولاد کو مایوس اور ہلاک کرے <ref>احمد بن یحیی بلاذری؛ فتوح البلدان ص 95</ref>۔ اسلامی تاریخ میں اس لفظ سے مراد پیغمبر اسلام ﷺ اور نجران کے عیسائیوں کی تحریک ہے۔ | ||
اصل مباہلہ کا لفظ اھل کے وزن پر مادہ "بہل" سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے، اسے "باھل" کہتے ہیں اور دعا میں "ابتھال" تضرع اور خداوند متعال پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔ | |||
ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بحث کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ ایمان نہ لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے '''مباہلہ''' کا مشورہ دیا اور انہوں نے قبول کر لیا، لیکن وہ وعدے کے دن "مباہلہ" میں نہیں آئے۔ شیعوں کے نزدیک اس واقعہ سے پیغمبر کی دعوت کی صداقت اور ان کے اصحاب کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 کے مطابق جو مباہلہ کا قصہ بیان کرتی ہے، [[علی علیہ السلام|علی بن ابی طالب علیہ السلام]] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان و جان سمجھا جاتا ہے۔ | ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بحث کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ ایمان نہ لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے '''مباہلہ''' کا مشورہ دیا اور انہوں نے قبول کر لیا، لیکن وہ وعدے کے دن "مباہلہ" میں نہیں آئے۔ شیعوں کے نزدیک اس واقعہ سے پیغمبر کی دعوت کی صداقت اور ان کے اصحاب کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 کے مطابق جو مباہلہ کا قصہ بیان کرتی ہے، [[علی علیہ السلام|علی بن ابی طالب علیہ السلام]] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان و جان سمجھا جاتا ہے۔ | ||
سطر 8: | سطر 11: | ||
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت: نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ اور (مباہلے کے لیے) ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ۔ <ref>اٰل عمران: 61</ref> نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے [[علی ابن ابی طالب|علی]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|فاطمہ]]، [[حسن بن علی|حسن]] اور [[حسین بن علی|حسین]] کو بلایا اور فرمایا: '''اَللّٰھُمَّ ھٰؤ لا أھلي''' اے اللہ! یہ میرے [[اہل بیت]] ہیں <ref>صحیح مسلم: 32/2404 وترقیم دارالسلام: 6220</ref>. | سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت: نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ اور (مباہلے کے لیے) ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ۔ <ref>اٰل عمران: 61</ref> نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے [[علی ابن ابی طالب|علی]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|فاطمہ]]، [[حسن بن علی|حسن]] اور [[حسین بن علی|حسین]] کو بلایا اور فرمایا: '''اَللّٰھُمَّ ھٰؤ لا أھلي''' اے اللہ! یہ میرے [[اہل بیت]] ہیں <ref>صحیح مسلم: 32/2404 وترقیم دارالسلام: 6220</ref>. | ||
=== لغوی معنی === | |||
== حواله جات == | == حواله جات == | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} |