"شام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 15: سطر 15:
== جغرافیائی اور قدرتی محل وقوع ==
== جغرافیائی اور قدرتی محل وقوع ==
شام 185180 مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ دنیا کا 87 واں بڑا ملک ہے، موجودہ شام براعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ہے جو تین براعظموں کا سنگم ہے ۔ براعظم ایشیا، براعظم پورپ اور براعظم افریقہ ۔ اس کے مغرب میں بحر متوسط اور لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور مقبوضہ فلسطین (اسرائیل)، جنوب میں اردن ،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔  اس کی آب و ہوا اطراف اور جنوب مغربی علاقوں میں معتدل اور مرطوب (بحیرہ روم) اور دیگر حصوں میں گرم اور خشک ہے۔ سمندر سے اس کا بلند ترین مقام جبل شیخ ہے جس کی اونچائی 2814 میٹر ہے۔ اس کے اہم دریاؤں میں فرات ، خابور، عاصی، عفرین، قوینو اور دجلہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ دریائے فرات ان میں سب سے طویل ہے اور اس کا تقریباً نصف حصہ ترکی اور عراق میں بہتا ہے۔ شام کی اہم بندرگاہیں لاذقیہ، طرطوس اور بنیاس ہیں جو بحیرہ روم کے قریب واقع ہیں۔
شام 185180 مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ دنیا کا 87 واں بڑا ملک ہے، موجودہ شام براعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ہے جو تین براعظموں کا سنگم ہے ۔ براعظم ایشیا، براعظم پورپ اور براعظم افریقہ ۔ اس کے مغرب میں بحر متوسط اور لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور مقبوضہ فلسطین (اسرائیل)، جنوب میں اردن ،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔  اس کی آب و ہوا اطراف اور جنوب مغربی علاقوں میں معتدل اور مرطوب (بحیرہ روم) اور دیگر حصوں میں گرم اور خشک ہے۔ سمندر سے اس کا بلند ترین مقام جبل شیخ ہے جس کی اونچائی 2814 میٹر ہے۔ اس کے اہم دریاؤں میں فرات ، خابور، عاصی، عفرین، قوینو اور دجلہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ دریائے فرات ان میں سب سے طویل ہے اور اس کا تقریباً نصف حصہ ترکی اور عراق میں بہتا ہے۔ شام کی اہم بندرگاہیں لاذقیہ، طرطوس اور بنیاس ہیں جو بحیرہ روم کے قریب واقع ہیں۔
== سوریہ اور شام کا دور ==
== سوریہ اور شام کا دور ==
شام کی تاریخ کو، اس نام کے جغرافیائی مفہوم کے ساتھ ایک لحاظ سے چھوٹے پیمانے پر پوری مہذب دنیا کی تاریخ سمجھنا چاہے۔ یہ ملک تہذیب کے گہوارے اور ہماری روحانی و ذہنی میراث کے ایک نہایت اہم حصے کی تاریخ ہے <ref>فلپ کے حتی، تاریخ شام، مترجم، غلام رسول مہر، غلام علی اینڈ سنز ایجوکیشنہ پبلیشرز لاہور، 1963ء، ص5</ref>۔ موجودہ سوریہ،  شام  کا ایک بڑا حصہ ہوا کرتا تھا۔ شام کی سرزمین میں شام، لبنان، فلسطین اور اردن کے موجودہ ممالک شامل ہیں اور درحقیقت '''الشام''' وہ نام تھا جو عرب جغرافیہ دانوں نے اس خطے کو دیا تھا جو ایک طرف ایلہ سے فرات تک پھیلا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف صحرا تک فرات روم کی سرحد تک محدود ہے۔ شام کے بارے میں بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور بعض مورخین نے اس کے فضائل کے بارے میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] سے احادیث بھی نقل کی ہیں جن سے لگتا ہے کہ اموی رشتہ داروں اور علماء نے کسی طرح شام کی سرزمین کو شہر مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ  و سلم کے سامنے پھیلانے کے لیے تیار کیا تھا۔  کیونکہ یہ سرزمین بنی امیہ کی حکومت کا گڑھ تھی ۔ شام کا موجودہ نام فرانسیسیوں نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کےبعد، دنیا کے اس حصے کی قدیم تاریخ اور قدیم اشوریوں کی بنیاد پر اس ملک کی نوآبادیات کے بعد دیا تھا۔
شام کی تاریخ کو، اس نام کے جغرافیائی مفہوم کے ساتھ ایک لحاظ سے چھوٹے پیمانے پر پوری مہذب دنیا کی تاریخ سمجھنا چاہے۔ یہ ملک تہذیب کے گہوارے اور ہماری روحانی و ذہنی میراث کے ایک نہایت اہم حصے کی تاریخ ہے <ref>فلپ کے حتی، تاریخ شام، مترجم، غلام رسول مہر، غلام علی اینڈ سنز ایجوکیشنہ پبلیشرز لاہور، 1963ء، ص5</ref>۔ موجودہ سوریہ،  شام  کا ایک بڑا حصہ ہوا کرتا تھا۔ شام کی سرزمین میں شام، لبنان، فلسطین اور اردن کے موجودہ ممالک شامل ہیں اور درحقیقت '''الشام''' وہ نام تھا جو عرب جغرافیہ دانوں نے اس خطے کو دیا تھا جو ایک طرف ایلہ سے فرات تک پھیلا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف صحرا تک فرات روم کی سرحد تک محدود ہے۔ شام کے بارے میں بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور بعض مورخین نے اس کے فضائل کے بارے میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] سے احادیث بھی نقل کی ہیں جن سے لگتا ہے کہ اموی رشتہ داروں اور علماء نے کسی طرح شام کی سرزمین کو شہر مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ  و سلم کے سامنے پھیلانے کے لیے تیار کیا تھا۔  کیونکہ یہ سرزمین بنی امیہ کی حکومت کا گڑھ تھی ۔ شام کا موجودہ نام فرانسیسیوں نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کےبعد، دنیا کے اس حصے کی قدیم تاریخ اور قدیم اشوریوں کی بنیاد پر اس ملک کی نوآبادیات کے بعد دیا تھا۔