"شام پر حملہ 2004ء" کے نسخوں کے درمیان فرق

2,056 بائٹ کا ازالہ ،  اتوار بوقت 16:23
م (Saeedi نے صفحہ مسودہ:شام پر حملہ 2004ء کو شام پر حملہ 2004ء کی جانب منتقل کیا)
سطر 40: سطر 40:
شام کی تنظیم ’’ھیئہ تحریر الشام‘‘ اور اس کے اتحادی مسلح دھڑوں نے حالات سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اسرائیل کی شام کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے بھی بشار الاسد حکومت کی رٹ کو نقصان پہنچا ہے جب کہ امریکا میں بائیڈن حکومت کا بھی چل چلاؤ ہے جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا۔
شام کی تنظیم ’’ھیئہ تحریر الشام‘‘ اور اس کے اتحادی مسلح دھڑوں نے حالات سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اسرائیل کی شام کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے بھی بشار الاسد حکومت کی رٹ کو نقصان پہنچا ہے جب کہ امریکا میں بائیڈن حکومت کا بھی چل چلاؤ ہے جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا۔
ان حالات کا فائدہ شام کے باغی گروپوں کو پہنچا ہے اور انھوں نے اس درمیانی عرصے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جنگ شروع کر دی ہے جس میں انھیں کسی حد تک کامیابی ملتی نظر آ رہی ہے۔  
ان حالات کا فائدہ شام کے باغی گروپوں کو پہنچا ہے اور انھوں نے اس درمیانی عرصے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جنگ شروع کر دی ہے جس میں انھیں کسی حد تک کامیابی ملتی نظر آ رہی ہے۔  
 
== بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے ==
’’ھیئہ تحریر الشام‘‘ کے سربراہ ابو محمد الجولانی ( احمد الشرع) نے سی این این کو انٹرویو میں کہا کہ ان کی جدوجہد کا مقصد ملک سے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ اپنے اس ہدف کے حصول کے لیے ہم ہر طریقے، ذرایع اور دستیاب وسائل کو اپنائیں گے۔ بشار الاسد کی گرتی ہوئی حکومت کو ایران اور روس نے سہارا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی موت واقع ہوچکی ہے۔ حکومت گرنے کے بعد غیرملکی فوجیوں کی شام میں موجودگی کا جواز نہیں رہے گا۔
’’ھیئہ تحریر الشام‘‘ کے سربراہ ابو محمد الجولانی ( احمد الشرع) نے سی این این کو انٹرویو میں کہا کہ ان کی جدوجہد کا مقصد ملک سے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ اپنے اس ہدف کے حصول کے لیے ہم ہر طریقے، ذرایع اور دستیاب وسائل کو اپنائیں گے۔ بشار الاسد کی گرتی ہوئی حکومت کو ایران اور روس نے سہارا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی موت واقع ہوچکی ہے۔ حکومت گرنے کے بعد غیرملکی فوجیوں کی شام میں موجودگی کا جواز نہیں رہے گا۔


سطر 47: سطر 47:


شام میں سرکاری فوجوں کی سب سے بڑی مددگار حزب اللہ ہی تھی۔ جیسے ہی حزب اللہ کی فوجی طاقت میں کمزوری آئی ہے، اس خلاء کو تحریر الشام اور اس کے اتحادی مسلح گروپوں نے پر کر دیا ہے۔ ادھر اسرائیلی فوج نے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بھی اسرائیلی فورسز نے شمالی غزہ میں ایک اسپتال پر بمباری کی ہے۔  
شام میں سرکاری فوجوں کی سب سے بڑی مددگار حزب اللہ ہی تھی۔ جیسے ہی حزب اللہ کی فوجی طاقت میں کمزوری آئی ہے، اس خلاء کو تحریر الشام اور اس کے اتحادی مسلح گروپوں نے پر کر دیا ہے۔ ادھر اسرائیلی فوج نے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بھی اسرائیلی فورسز نے شمالی غزہ میں ایک اسپتال پر بمباری کی ہے۔  
 
== مشرقی وسطیٰ میں جو تباہی ==
عالمی میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ شمالی غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں میں 29 فلسطینی شہید ہو گئے جب کہ میڈیا میں غزہ میں حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ گزشتہ 24گھنٹوں میں صہیونی فوج کی بمباری اور گولہ باری میں 32 افراد شہید ہوگئے ہیں۔
یاد رہے کہ غزہ میں شہدا کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور اب یہ تعداد چھ ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔ ادھر ایک اور پیش رفت بھی ہوئی ہے، اس پیش رفت کے مطابق فلسطینیوں کی تنظیم [[حماس]] نے [[غزہ]] کی انتظامیہ کے لیے کمیونٹی سپورٹ کمیٹی کے قیام کے حوالے سے مصر کی تجویز سے اتفاق کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
 
حماس نے اعلان کیا ہے کہ حماس اور فتح کے وفود نے قاہرہ میں اپنی مشاورت ختم کر دی ہے۔ اگر حماس اور فتح کسی نکتے پر متفق ہو گئے ہیں تو یہ اچھی بات ہے کیونکہ اس سے غزہ میں جنگ بندی ہو سکتی ہے جس سے اس علاقے میں قیام امن کی کوئی راہ نکل آئے گی۔ اس خطے میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر چونکہ فلسطینی ہیں، جب کہ حماس اور الفتح بھی فلسطینیوں کی تنظیمیں ہیں، اگر یہ کسی نکتے پر متفق ہوتی ہیں تو معاملات آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
حماس نے اعلان کیا ہے کہ حماس اور فتح کے وفود نے قاہرہ میں اپنی مشاورت ختم کر دی ہے۔ اگر حماس اور فتح کسی نکتے پر متفق ہو گئے ہیں تو یہ اچھی بات ہے کیونکہ اس سے غزہ میں جنگ بندی ہو سکتی ہے جس سے اس علاقے میں قیام امن کی کوئی راہ نکل آئے گی۔ اس خطے میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر چونکہ فلسطینی ہیں، جب کہ حماس اور الفتح بھی فلسطینیوں کی تنظیمیں ہیں، اگر یہ کسی نکتے پر متفق ہوتی ہیں تو معاملات آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطی امور مسعد بولس نے کہا ہے کہ آنے والی امریکی انتظامیہ کی ترجیح غزہ کی پٹی میں قید یرغمالیوں کی فوری رہائی ہے۔اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کی ایک اور تجویز دے دی۔ اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے لچک کا مظاہرہ کرنے اور جزوی معاہدے پر عمل درآمدشروع کرنے کے لیے زیادہ آمادگی ظاہر کی ہے۔
اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے نیتن یاہو کے بیٹے یائر نیتن یاہو کی وڈیو بنا کر وائرل کردی۔ وڈیو میں غزہ کی سرنگ میں موجود یائر نے کہا کہ میرے والد، میری ماں، مجھے صرف آپ ہی آزاد کر سکتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یرغمالی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے کس قدر خلاف ہیں۔


یرغمالیوں کا مسئلہ انتہائی حساس ہو چکا ہے۔ امریکا کے نومنتخب صدر بھی اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بدستور ہٹ دھرمی پر قائم ہیں البتہ یہ امر خوش آیند ہے کہ فلسطینیوں کی تنظیمیں غزہ میں مل کر کام کرنے پر آمادہ ہو رہی ہیں۔ یمن کی مزاحمتی تحریک ’’ انصار اللہ‘‘ کے رہ نما عبدالمالک الحوثی نے کہا اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے لوگوں کے خلاف نئے امریکی ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
یرغمالیوں کا مسئلہ انتہائی حساس ہو چکا ہے۔ امریکا کے نومنتخب صدر بھی اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بدستور ہٹ دھرمی پر قائم ہیں البتہ یہ امر خوش آیند ہے کہ فلسطینیوں کی تنظیمیں غزہ میں مل کر کام کرنے پر آمادہ ہو رہی ہیں۔ یمن کی مزاحمتی تحریک ’’ انصار اللہ‘‘ کے رہ نما عبدالمالک الحوثی نے کہا اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے لوگوں کے خلاف نئے امریکی ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔


امریکا کے صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی ہے۔ ان کے اقتدار میں یوکرائن اور روس کے درمیان جنگ شروع ہوئی جب کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف غزہ میں کارروائی کا آغاز کیا۔ اب صدر بائیڈن کا اقتدار چن دنوں کا مہمان ہے لیکن اس دوران مشر وسطیٰ میں جو تباہی ہوئی، اس کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ اس تباہی کا اگلامرحلہ شام میں شروع ہو گیا ہے۔
امریکا کے صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی ہے۔ ان کے اقتدار میں یوکرائن اور روس کے درمیان جنگ شروع ہوئی جب کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف غزہ میں کارروائی کا آغاز کیا۔ اب صدر بائیڈن کا اقتدار چن دنوں کا مہمان ہے لیکن اس دوران مشرقی وسطیٰ میں جو تباہی ہوئی، اس کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ اس تباہی کا اگلامرحلہ شام میں شروع ہو گیا ہے۔


شام کی باغی فوجوں کے سامنے صرف دمشق پر قبضہ کرنا رہ گیا ہے، اگر وہ دمشق پر قبضہ کر لیتے ہیں تو بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ صدربائیڈن کے دور کی یہ یادگار جنگیں تاریخ کا حصہ رہیں گی۔ غور کیا جائے تو پچھلے دس پندرہ برسوں میں مشرق وسطیٰ مسلسل جنگ وجدل کا شکار چلا آ رہا ہے۔
شام کی باغی فوجوں کے سامنے صرف دمشق پر قبضہ کرنا رہ گیا ہے، اگر وہ دمشق پر قبضہ کر لیتے ہیں تو بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ صدربائیڈن کے دور کی یہ یادگار جنگیں تاریخ کا حصہ رہیں گی۔ غور کیا جائے تو پچھلے دس پندرہ برسوں میں مشرق وسطیٰ مسلسل جنگ وجدل کا شکار چلا آ رہا ہے۔