"شام پر حملہ 2004ء" کے نسخوں کے درمیان فرق

12,339 بائٹ کا اضافہ ،  اتوار بوقت 11:55
سطر 29: سطر 29:


29 نومبر 2024 کو تحریر الشام نے حلب کے مضافات میں ادلب اور المنصورہ ، جب کاس و البوابیہ کے مضافات میں تل کراتبن، ابو قنسہ اور الطلیہ کے دیہات پر قبضہ کر لیا۔ سراقب شہر کے اطراف میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ حلب شہر کے الحمدانیہ محلے میں تحریر الشام کی گولہ باری سے 4 شہری جاں بحق اور 2 زخمی ہوگئے۔
29 نومبر 2024 کو تحریر الشام نے حلب کے مضافات میں ادلب اور المنصورہ ، جب کاس و البوابیہ کے مضافات میں تل کراتبن، ابو قنسہ اور الطلیہ کے دیہات پر قبضہ کر لیا۔ سراقب شہر کے اطراف میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ حلب شہر کے الحمدانیہ محلے میں تحریر الشام کی گولہ باری سے 4 شہری جاں بحق اور 2 زخمی ہوگئے۔
== شام کی بگڑتی صورت حال ==
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نے [[غزہ]] میں فلسطینیوں کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی ہے، اس نے جنگ کا دائرہ جنوبی لبنان اور شام تک پھیلا دیا ہے اور اسرائیلی فورسز روزانہ کی بنیاد پر ان علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی دوران شام میں جاری خانہ جنگی نے نئی شکل اختیار کر لی ہے۔
لڑائی شدت اختیارکر گئی، باغی فوجیں شام کے کئی شہروں پر قابض ہو چکی ہیں جن میں شام کا دوسرا سب سے بڑا شہر ادلب بھی شامل ہے۔ یوں شام میں صدر بشارالاسد کا اقتدار خطرے میں پڑ گیا ہے، صدر بشار الاسد کی حمایت یافتہ فوج کا الرقہ اور دیر الزور سے بھی انخلاء شروع ہو گیا ہے۔
شام کے باغی فوجیوں کی مسلسل پیش قدمی جاری ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق باغیوں کی جانب سے ایک ہفتے کے دوران پانچویں شہر درعا پر بھی قبضے کا دعویٰ سامنے آ گیا ہے۔ امریکی ذرایع ابلاغ کے مطابق ایران کی قدس فورس کے افسران نے علاقے سے انخلاء شروع کر دیا ہے جب کہ روسی افواج نے بھی طرطوس پورٹ سے انخلاء شروع کر دیا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ حالات خاصے خراب ہیں۔
شام کی سرکاری فوجیں مسلسل پسپائی اختیار کر رہی ہیں۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق شام کے باغی شام کے شمالی شہر حلب اور حما پر قبضہ کر چکے ہیں جب کہ السویدا شہر میں بھی باغی فوجی داخل ہو گئے ہیں۔ حالات کا جائزہ یہی بتاتا ہے کہ بشار الاسد انتہائی کمزور پوزیشن پر چلے گئے ہیں اور ان کے پاس صرف دمش کا کنٹرول باقی رہ گیا ہے۔ ترک صدر طیب اردوان نے بھی کہا ہے کہ شام کے مسلح گروپوں کا ہدف دمشق ہے۔ رجب طیب اردوان نے شامی ہم منصب صدر بشارالاسد کو ملاقات کی دعوت دی مگر مثبت جواب نہیں ملا۔ شامی صدر نے ملاقات سے پہلے شمال میں ترک فوج کے زیرکنٹرول علاقے سے انخلاء کی ضمانت طلب کی۔
شام کی تنظیم ’’ھیئہ تحریر الشام‘‘ اور اس کے اتحادی مسلح دھڑوں نے حالات سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اسرائیل کی شام کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے بھی بشار الاسد حکومت کی رٹ کو نقصان پہنچا ہے جب کہ امریکا میں بائیڈن حکومت کا بھی چل چلاؤ ہے جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا۔
ان حالات کا فائدہ شام کے باغی گروپوں کو پہنچا ہے اور انھوں نے اس درمیانی عرصے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جنگ شروع کر دی ہے جس میں انھیں کسی حد تک کامیابی ملتی نظر آ رہی ہے۔
’’ھیئہ تحریر الشام‘‘ کے سربراہ ابو محمد الجولانی ( احمد الشرع) نے سی این این کو انٹرویو میں کہا کہ ان کی جدوجہد کا مقصد ملک سے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ اپنے اس ہدف کے حصول کے لیے ہم ہر طریقے، ذرایع اور دستیاب وسائل کو اپنائیں گے۔ بشار الاسد کی گرتی ہوئی حکومت کو ایران اور روس نے سہارا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی موت واقع ہوچکی ہے۔ حکومت گرنے کے بعد غیرملکی فوجیوں کی شام میں موجودگی کا جواز نہیں رہے گا۔
شام کئی برس سے عدم استحکام کا شکار چلا آرہا ہے۔ اس ملک میں کئی گروہ برسرپیکار ہیں اور موجودہ حالات میں سب گروپ حکومت کے خلاف صف آراء ہیں۔ شامی کردوں کا گروپ الگ ہے جب کہ داعش کے لوگ بھی لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں جب کہ موجودہ لڑائی کو تحریر الشام نامی تنظیم لیڈ کر رہی ہے۔
موجودہ بحران کس کروٹ بیٹھتا ہے اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن قرائن یہی نظر آتے ہیں کہ بشار الاسد کا اقتدار ڈانواں ڈول ہے۔ ایران اور روس کی امداد بھی ناکافی ہو رہی ہے۔ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جو کارروائیاں کی ہیں، اس کی وجہ سے حزب اللہ کی فوجی طاقت میں بھی کمی آئی ہے۔
شام میں سرکاری فوجوں کی سب سے بڑی مددگار حزب اللہ ہی تھی۔ جیسے ہی حزب اللہ کی فوجی طاقت میں کمزوری آئی ہے، اس خلاء کو تحریر الشام اور اس کے اتحادی مسلح گروپوں نے پر کر دیا ہے۔ ادھر اسرائیلی فوج نے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بھی اسرائیلی فورسز نے شمالی غزہ میں ایک اسپتال پر بمباری کی ہے۔
عالمی میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ شمالی غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں میں 29 فلسطینی شہید ہو گئے جب کہ میڈیا میں غزہ میں حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ گزشتہ 24گھنٹوں میں صہیونی فوج کی بمباری اور گولہ باری میں 32 افراد شہید ہوگئے ہیں۔
یاد رہے کہ غزہ میں شہدا کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور اب یہ تعداد چھ ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔ ادھر ایک اور پیش رفت بھی ہوئی ہے، اس پیش رفت کے مطابق فلسطینیوں کی تنظیم [[حماس]] نے [[غزہ]] کی انتظامیہ کے لیے کمیونٹی سپورٹ کمیٹی کے قیام کے حوالے سے مصر کی تجویز سے اتفاق کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
حماس نے اعلان کیا ہے کہ حماس اور فتح کے وفود نے قاہرہ میں اپنی مشاورت ختم کر دی ہے۔ اگر حماس اور فتح کسی نکتے پر متفق ہو گئے ہیں تو یہ اچھی بات ہے کیونکہ اس سے غزہ میں جنگ بندی ہو سکتی ہے جس سے اس علاقے میں قیام امن کی کوئی راہ نکل آئے گی۔ اس خطے میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر چونکہ فلسطینی ہیں، جب کہ حماس اور الفتح بھی فلسطینیوں کی تنظیمیں ہیں، اگر یہ کسی نکتے پر متفق ہوتی ہیں تو معاملات آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطی امور مسعد بولس نے کہا ہے کہ آنے والی امریکی انتظامیہ کی ترجیح غزہ کی پٹی میں قید یرغمالیوں کی فوری رہائی ہے۔اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کی ایک اور تجویز دے دی۔ اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے لچک کا مظاہرہ کرنے اور جزوی معاہدے پر عمل درآمدشروع کرنے کے لیے زیادہ آمادگی ظاہر کی ہے۔
اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے نیتن یاہو کے بیٹے یائر نیتن یاہو کی وڈیو بنا کر وائرل کردی۔ وڈیو میں غزہ کی سرنگ میں موجود یائر نے کہا کہ میرے والد، میری ماں، مجھے صرف آپ ہی آزاد کر سکتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یرغمالی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے کس قدر خلاف ہیں۔
یرغمالیوں کا مسئلہ انتہائی حساس ہو چکا ہے۔ امریکا کے نومنتخب صدر بھی اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بدستور ہٹ دھرمی پر قائم ہیں البتہ یہ امر خوش آیند ہے کہ فلسطینیوں کی تنظیمیں غزہ میں مل کر کام کرنے پر آمادہ ہو رہی ہیں۔ یمن کی مزاحمتی تحریک ’’ انصار اللہ‘‘ کے رہ نما عبدالمالک الحوثی نے کہا اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے لوگوں کے خلاف نئے امریکی ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
امریکا کے صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی ہے۔ ان کے اقتدار میں یوکرائن اور روس کے درمیان جنگ شروع ہوئی جب کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف غزہ میں کارروائی کا آغاز کیا۔ اب صدر بائیڈن کا اقتدار چن دنوں کا مہمان ہے لیکن اس دوران مشر وسطیٰ میں جو تباہی ہوئی، اس کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ اس تباہی کا اگلامرحلہ شام میں شروع ہو گیا ہے۔
شام کی باغی فوجوں کے سامنے صرف دمشق پر قبضہ کرنا رہ گیا ہے، اگر وہ دمشق پر قبضہ کر لیتے ہیں تو بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ صدربائیڈن کے دور کی یہ یادگار جنگیں تاریخ کا حصہ رہیں گی۔ غور کیا جائے تو پچھلے دس پندرہ برسوں میں مشرق وسطیٰ مسلسل جنگ وجدل کا شکار چلا آ رہا ہے۔
ایران  اور امریکا کی چپقلش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ عراق میں جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس خطے کا یہ سب سے ترقی یافتہ ملک اب غریب اور پسماندہ ملکوں میں شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح شام بھی مشرق وسطیٰ کا ایک اوسط آمدنی کا پرسکون اور مستحکم ملک ہوا کرتا تھا لیکن اسرائیلی کارروائیوں، امریکا کی ترجیحات اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی اشرافیہ کے باہمی اختلافات کے نتیجے میں یہ ملک بھی تباہی وبربادی کا منظر پیش کر رہا ہے۔
اس ملک کے لاکھوں لوگ دربدر ہو چکے ہیں جب کہ تباہی وبربادی کا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔ اسی طرح یمن میں بھی تاحال لڑائی جاری ہے۔ یمن میں بھی کوئی مستحکم حکومت نہیں ہے۔ اس ملک پر بھی امریکا، برطانیہ اور نیٹو کی فورسز گاہے بگاہے فضائی کارروائی کرتی رہتی ہیں۔ آنے والے دنوں میںنومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتی ہے، اس کا پتہ بھی چل جائے گا<ref>[https://www.express.pk/story/2736868/shaam-ki-bigarti-soorat-e-haal-2736868 شام کی بگڑتی صورت حال]- express.pk-شائع شدہ از: 8 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 دسمبر 2024ء۔</ref>۔


== آپریشن ڈان آف فریڈم ==
== آپریشن ڈان آف فریڈم ==
سطر 34: سطر 71:


کے K/Y پی۔ جی شام نے جو موقع انہیں دیا اس کا غلط استعمال کرتے ہوئے، دہشت گرد گروہ نے تل رفعت اور شمال مشرقی شام کے درمیان ایک دہشت گرد گزرگاہ بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔ لیکن اس منصوبے کو سیریئن نیشنل آرمی نے ناکام بنا دیا اس آپریشن کے فریم ورک میں سیریئن نیشنل آرمی نے صوبہ حلب میں قائرس کے فوجی ہوائی اڈے اور دہشت گرد گروہ  کے K/Y پی۔ جی\ شام کی قومی فوج نے آپریشن ڈان آف فریڈم کے تحت تل رفعت منبج میں دہشت گردوں کی راہداری کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے تل رفعت کے علاقے میں 3 دیہاتوں کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا۔
کے K/Y پی۔ جی شام نے جو موقع انہیں دیا اس کا غلط استعمال کرتے ہوئے، دہشت گرد گروہ نے تل رفعت اور شمال مشرقی شام کے درمیان ایک دہشت گرد گزرگاہ بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔ لیکن اس منصوبے کو سیریئن نیشنل آرمی نے ناکام بنا دیا اس آپریشن کے فریم ورک میں سیریئن نیشنل آرمی نے صوبہ حلب میں قائرس کے فوجی ہوائی اڈے اور دہشت گرد گروہ  کے K/Y پی۔ جی\ شام کی قومی فوج نے آپریشن ڈان آف فریڈم کے تحت تل رفعت منبج میں دہشت گردوں کی راہداری کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے تل رفعت کے علاقے میں 3 دیہاتوں کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا۔
== شامی باغیوں کا دارالحکومت دمشق پر قبضے ==  
== شامی باغیوں کا دارالحکومت دمشق پر قبضے ==  
شام میں باغیوں نے مختلف شہروں کے بعد دارالحکومت دمشق پر بھی قبضے اور صدر بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
شام میں باغیوں نے مختلف شہروں کے بعد دارالحکومت دمشق پر بھی قبضے اور صدر بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔