3,871
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 83: | سطر 83: | ||
* آفرین علی خان <ref>بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج۱۷، ص۱۶۶.</ref>۔ | * آفرین علی خان <ref>بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج۱۷، ص۱۶۶.</ref>۔ | ||
{{اختتام}} | {{اختتام}} | ||
== پاک و ہند کی تشیع کا اہم موڑ == | |||
اخباری عالم دین محمد امین استر آبادی کی کتاب الفوائد المدنیہ کے بر صغیر میں آنے اور یہاں دیگر اصولی کتب کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاک و ہند کی شیعیت میں اخباریت رائج تھی لہذا اسی سبب سے آپ بھی ابتدائی طور پر اخباری تھے اور ایران و عراق کی زیارات پر جانے سے پہلے تک اس مسلک کے عقائد و نظریات پر کار بند رہے ۔ | |||
بصرہ سے نجف جاتے ہوئے راستے میں ایک عرب سے ملاقات ہوئی ۔اسکے ساتھ اخبار و اصول کے موضوع پر بات ہوئی تو آپ اخباریت اور عرب مکتب اصول کی نمایندگی کرتا رہا یہانتک کہ اس نے نجف میں آیت اللہ جعفر کاشف الغطا کو اس کی خبر دی۔ غفران مآب نجف میں آیت اللہ سید محسن بغدادی سے ملے تو ہند میں اخباریت کے رواج کے سبب کی بات کی ۔انہوں نے وہان کی اخباریت کے رواج کا سبب امامیہ مکتب کی علم اصول کی کتب سے اطلاع نہ رکھنا بیان کیا اور فوائد مدنیہ کے رد میں نور الدین عاملی کی کتاب الشواہد المکیہ مطالعے کیلئے سید دلدار علی کو دی۔اسکے مطالعے سے بھی تشفی نہ ہوئی۔ | |||
آیت اللہ جعفر کاشف الغطا سے ملاقات کے دوران حجیت خبر واحد کے متعلق بات ہوئی لیکن پھر بھی مطمئن نہ ہوئے۔ دوبارہ آیت اللہ سید محسن بغدادی سے ملاقات کے دوران کہا کہ اصولیوں کے پاس اس بات پر کیا دلیل کہ تمام علما اگر کسی مسئلے میں باطل پر اجماع کر لیں تو کیوں [[امام مہدی علیہ السلام|امام زمانہ]] پر واجب ہے کہ حق کو ظاہر کریں؟آیت اللہ سید محسن بغدادی نے کہا ان کے پاس معصوم کی حدیث ہے جس کی بنا پر وہ قائل ہیں۔ یہ سن کر خاموشی اختیار کی۔ کربلا پہنچ کر خود اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا ارادہ کیا اور دونوں مکتبوں کا مطالعہ شروع کیا جس میں امین استرآبادی کی بعض خطاؤں پر متوجہ ہوئے۔آہستہ آہستہ حقائق جاننے کے بعد اصولیوں کے متعلق موجود دغدغہ ختم ہوا او اصولی مسلک کی حقانیت کو جان گئے ۔ لکھنؤ واپسی پر سب سے پہلے اساس الاصول کے نام سے فوائد مدنیہ کا ایسا استدلالی جواب لکھا کہ بہت عرصے تک کسی اخباری میں اس کا جواب لکھنے کی ہمت نہ ہوئی ۔اساس الاصول نے ہند میں رواج پیدا کیا اور مدارس میں اسے پڑھایا جانے لگا۔اس طرح لکھنؤ اور اس کے گردو نواح میں اخباریت کا خاتمہ ہوا اور اصولی مکتب یہاں رائج ہوا ۔ | |||
دور دور تک آپ کی شہرت ہوئی تو مرزا محمد اکبر آبادی (ہندی) اخباری(1233ہ) نے اساس الاصول پر معاول العقول لقطع اساس الاصول کے نام سے بہت ہی سخت لہجے میں حاشیہ لگایا جسے قلع الاساس (12)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،کو لکھنؤ بھیجا۔آپ کے شاگردوں نے مطارق الحق و الیقین لکسر معاول الشیاطین کے نام سے اس کا جواب لکھا ۔ | |||
آئینۂ حق نما کے بقول 1231ھ میں خاندان صفدری کی بدولت یہاں کے لوگ مذہب جعفریہ پر پابند ہیں اور پھر آیت اللہ سید دلدار علی کی عماد الاسلام، صوارم الہیات،ذوالفقار وغیرہ تالیفات کی بدولت اس خطے میں اکثر شیعیان مذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے اور لکھنؤ اور فیض آباد جیسے شہر ایران و خراسان کی مانند قابل رشک تھے <ref>احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءصص53/54۔</ref>۔ | |||
== سید دلدار علی کا زمانہ == | |||
آیت اللہ سید دلدار علی کی دینی خدمات کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ اس صورت میں لگایا جا سکتا ہے جب ہم اس زمانے کے حالات سے کسی حد تک واقف ہوں ۔اس دور کا تذکرہ کرتے ہوئے آئینۂ حق نما میں مذکور ہے: | |||
اس زمانے میں پاک و ہند کے مسلمان عمدتا تین اصناف پر مشتمل تھے:- | |||
پہلی صنف:[[ تصوف|اہل تصوف]] کی تھی کہ جن کی بہت بڑی تعداد مذہب حنفی سے وابستہ تھی اور اس طائفے میں تو شیعہ حضرات برای نام ہی تھے ۔یہ لوگ نظریہ وحدت الوجود کے قائلین اور کشف و کرامات کے مدعی تھے۔ | |||
دوسری صنف:[[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] حضرات میں سے حنفی المذہب کی تھی جو شروع سے ہی حاکمان وقت کی وجہ سے تعداد کے لحاظ سے ہمیشہ اکثریت میں رہے ۔اس دور میں شیعہ حضرات کا اپنے مذہب سے دوری کا یہ عالَم تھا کہ وہ اپنی اکثر مذہبی عبادات صوم و صلات وغیرہ اور معاملات مثلا نکاح و طلاق وغیرہ حنفی تعلیمات کے مطابق انجام دیتے اور یہ صورتحال 1231ھ ق تک باقی رہی ۔ | |||
تیسری صنف:آیت اللہ سید دلدار علی کے اصولی مسلک اختیار کرنے سے پہلے برصغیر میں تشیع کی عمومی فضا پر اخباریت کی فضا قائم تھی ۔ | |||
آئینۂ حق نما کے بقول 1231ھ میں خاندان صفدری کی بدولت یہاں کے لوگ مذہب جعفریہ پر پابند ہیں اور پھر آیت اللہ سید دلدار علی کی عماد الاسلام، صوارم الہیات،ذوالفقار وغیرہ تالیفات کی بدولت اس خطے میں اکثر شیعیان مذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے اور لکھنؤ اور فیض آباد جیسے شہر ایران و خراسان کی مانند قابل رشک تھے۔ | |||
لوگوں میں مذہب تشیع کے رسوخ کا سبب حقیقت میں آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی علمی اور تبلیغی خدمات ہیں۔ | |||
== دینی خدمات == | |||
آیت اللہ سید دلدار علی نے زیارات سے واپسی پر تبلیغ دین کا کام درس و تدریس اور مؤمنین کو درس تبلیغ کی صورت میں شروع کیا ۔مؤمنین کی تبلیغ کا کام ابتدا میں ہر ہفتہ ایام کی مانسبت سے تبلیغ دین کے فرائض انجام دیتے اور پھر نماز جمعہ کے شروع ہونے کے بعد یہ تبلیغ دین مستقل طور پر شروع ہوئی۔آپ ہر نماز جمعہ کے بعد تبلیغ دین کرتے جس میں مذہب صوفیت کی بدعات کی قباحتیں اور دوسرے مسائل بیان کئے جاتے ۔ اس تبلیغ کی برکات سے صوفیت کی صوت و غنا کی محفلوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ۔یہ تبلیغی تقاریر اکثر اپنی کتاب مواعظہ حسنیہ سے مزین ہوتیں ۔اس دور کے علما کہ جن میں آپ بھی شامل ہیں، کی دینی خدمات اور مذہب اہل بیت کی ترویجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمے میں تحفہ کے سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلغلہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو <ref>مولانا خلیل الرحمان نعمانی،تحفۂ اثنا عشریہ(اردو) ص23۔</ref>۔ | |||
== نماز جمعہ کا قیام == | |||
عتبات عالیہ کی زیارات سے واپسی پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کی(ایک روایت کے مطابق آپ لکھنؤ سے ہی زیارات کیلئے گئے تھے) ۔ یہاں طلبہ اور مؤمنین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے نیز اصولی اور فروعی مسائل کے متعلق نوشتہ جات بھی لکھنے شروع کئے جس میں اساس الاصول اور دیگر تالیفات شامل تھیں۔ اسی دوران اہالیان لکھنؤ نے مذہب اہل بیتؑ کی ترویج کیلئے آپ کی تحریری کاوشوں کی نشر و اشاعت کا ارادہ کیا اور آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی۔ جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی ۔ |