اخوان المسلمین افغانستان
اخوان المسلمین افغانستان ایک اسلام پسند تنظیم هے جو افغانستان میں اسلامی تحریک کے ایک حصے کے طور پر ابھری۔ اس تحریک کے فکری مراحل کا آغاز ایک ہی وقت میں مصری پروفیسروں کی الشریعه یونورسٹی میں ملازمت اور 1952ء کے لگ بھگ الازہر یونیورسٹی سے افغان طلباء کے پہلے دستے کے فارغ التحصیل ہونے سے ہوا۔
تشکیل کے اسباب اور تاسیس
1343 ش کے آئین نے افغانستان میں آزادی صحافت اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل کے جواز فراهم کرنے کے ذریعے سیاسی تحریکوں اور جماعتوں کی نشوونما کے لیے مناسب ماحول پیدا کیا۔ جس کے نتیجے میں داؤد خان کے دورِ صدارت میں افغانستان کو سوویت یونین سے قریب هونے کا راسته هموار کرنے کے علاوہ، افغانستان کے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں، خاص طور پر کابل میں، اسلام مخالف گروهوں کو سر اٹھا نے کا موقع ملا ، ایسی صورت حال نے مسلمان مفکرین کو راه حل اور جوابی اقدامات کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ سنه 1340 ش کی دہائی کے سیاسی رجحانات کا ایک مختصر جائزہ اور سیاسی جماعتوں کے حوالے سے مطالعه کرنے سے، اخوان مسلمین افغانستان کے وجود میں آنے کی وجوهات اور موثر عوامل سے آشنا هوتے ہیں۔ ان دنوں عام طور پر افغانستان کے سیاسی منظرنامے میں تین طرح کے گروه ہوتے تھے۔ پہلا گروہ مارکسسٹوں کا تھا جو کئی شکلوں میں سرگرم تھے۔ دوسرا گروہ قوم پرست مذہبی لوگوں کا تھا۔ ان لوگوں میں مذهبی رنگ کم اور زیادہ تر قوم پرست تھے۔ تیسرا گروہ ’’مسلم یوتھ موومنٹ‘‘ کے عنوان سے مذہبی تحریک کا تھا۔ مسلم نوجوانوں کی یهی تحریک بعد میں اخوان المسلمین کے نام سے مشہور ہوئی۔ اگرچہ اخوان المسلمین کی افغانستان میں کبھی سرکاری شاخ نہیں رہی۔ اخوان المسلمین افغانستان میں اسلامی تحریک کے ایک حصے کے طور پر ابھری، اس تحریک کا پس منظر 1336 ش کے لگ بھگ ہے۔ لیکن 1348ش تک منظم انداز میں اس تحریک کے سیاسی ، ثقافتی اور فکری کارکردگی کے حولے سے خاص معلومات فراهم نهیں ہے لیکن واضح طور پر جو کها جا سکتا هے وہ یہ ہے کہ اخوان المسلمین کی تحریک "مسلم یوتھ" کے عنوان سے مسلم طلبا ء کا سٹریٹ مارچ اور مظاهروں کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ اگرچہ اس کے آغاز کی صحیح تاریخ واضح نہیں ہے، لیکن افغانستان کی اسلامی جماعت 14 حمل 1348ش کو "مسلم یوتھ" گروپ کا یوم تاسیس سمجھتی ہے اور اسے مناتی ہے۔ اخوان المسلمون کی تحریک کے حامیوں کی طرف سے پہلا مظاہرہ، جسے اس تنظیم کی تاسیس کا اعلان سمجھا جاتا ہے، 21 رمضان 1349 ش کو کمیونسٹوں کی طرف سے قرآن پاک کی توہین کے خلاف احتجاج میں کیا گیا۔ ’’مسلم یوتھ‘‘ گروپ (جو کہ افغان معاشرے میں اخوان المسلمین کے نام سے مشہور ہوا ) کی قیادت عبدالرحیم نیازی نے سنبھالی، جنہوں نے ان حلقوں کو اکٹھا کیا اور مسلم یوتھ موومنٹ کے نام سے ایک واحد تحریک بنائی۔ اس کے بانی ارکان میں ڈاکٹر محمد عمر، مولوی حبیب الرحمن، سیف الدین نصرتیار، برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار، اور عبدالرسول سیاف شامل ہیں۔ [1]
افغانستان میں اخوان المسلمین تحریک کی کامیابی کے اسباب
اخوان المسلمین، افغانستان میں ایسے حالات میں وجود میں آیی جب ملک سیاسی، سماجی ، مذهبی اور اقتصادی اعتبار سے بهت ساری مشکلات کا شکار تھا . سنه 1970 ء کی دهائی میں عوامی ڈیمو کریٹک پارٹی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ یه تنظیم سیاسی اعتبار سے ا یک نئے مرحلے میں داخل هوئی اور اپنے اهداف تک پهنچنے کے لئے جهاد کو ایک حکمت عملی کے طور پر پیش کیا اور اس طرح اس دور میں سیاسی نظم و نسق میں تبدیلی اور اسلامی بیداری میں اهم اور موثر کردار ادا کیا اور انهی دنوں میں بر سر اقتدار پارٹی کی ریاست کا خاتمه کرکے اسلامی حکومت کی تشکیل میں کامیاب هوئی۔ اخوان المسلمین کا نظریه ایک بین الاقوامی نظریه تھا لیکن افغانستان کے عوام اور خواص میں اس اسلامی نظریه کو بهت پزیرائی ملی اور اس تنظیم نے بهت جلد ترقی کی اور انهی جدو جهد کے تسلسل میں اس نے بهت سے شعبوں ، خاص طور پر سوویت فوج کی مداخلت اور مارکستی حکومت کے خلاف جہاد میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ ذیل میں ان کامیابیوں کے اسباب کی طرف مختصر طور پر اشاره کیا جائے گا ۔
اسلام خواهی کا جذبه اور دینی اعتقادات
افغانستان چونکہ ایک اسلامی ملک ہے اس لیے اس کے لوگ مکتب اسلام کے اصولوں اور اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ افغانستان کے عوام نے اسلام کا عنوان رکھنے والی اور اسلامی نعرے لگانے والی تمام تحریکوں کو مثبت انداز میں دیکھا اور اس کا کھلے دل سے استقبال کیا ہے۔ اخوان المسلمین نے افغانستان میں اسلامی نعرے کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اس وقت افغانستان میں سیکولر جماعتیں خاص طور پر یونیورسٹیوں اور ثقافتی مراکز میں سرگرم تھیں اور لوگوں کے عقائد اور اسلامی رسومات پر شدید حملے کرتی تھیں۔ اس کی وجہ سے مسلم پروفیسرز اور طلباء ردعمل دیکھانے پر مجبور هوئے اور یه اخوان المسلمین کی کامیابی کا سبب بنا۔
سیاسی بحران اور ریاست کی ناکامی
ایک طرف ملکی اور خارجہ پالیسی کے مسائل کو حل کرنے میں داؤد کی حکومت کی ناکامی تو دوسری طرف اسلامی دنیا میں جمهوریت کی طرف بڑھتا هوا عوامی رجحان نے ظاہر شاہ کو داؤد کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر آئینی بادشاہت کا اعلان کرنے پر مجبور کیا ۔ انہوں نے ڈاکٹر محمد یوسف کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروا کر درباری نظام کا خاتمہ کیا۔ ڈاکٹر یوسف کا وزارت عظمی کا عهده سنبھالنے کے ساتھ،مختلف سماجی جماعتوں کی سرگرمیوں، خاص طور پر اسلام پسند تحریکوں کے لیے موزوں سیاسی ماحول پیدا ہوا۔ اخوان کے رہنماؤں نے بھی اس فرصت سے خوب فائده اٹھا یا اور یونیورسٹی میں اپنی سرگرمیوں کے تسلسل کو جاری رکھا اور انسانی طاقت میں اضافه کرنے کی کوشش کی۔
سیاسی کھلی فضا اور جمهوریت خواهی کا دور
افغانستان میں اخوان المسلمین کو کامیابی حاصل هونے کی اهم وجوهات میں سے ایک یه هے که اس دور میں افغانستان کی سیاسی اور مذهبی جماعتوں کے لئے سیاسی کھلی فضا میسر تھی اور جمهوریت خواهی کا جذبه جو عوام خاص کر جوان نسل اور تعلیم یافته طبقه میں محسوس انداز میں پایا جاتا هے ان کے لئے مددگار ثابت هوا.ایک مفکر نے سنه 1960 ء کی دهائی کو سیاسی نشئه ثانیه کا نام دیا هے کیونکه اس دور میں پوری دنیا میں سیاسی اور سماجی آزادی کی لهر نظر آتی هے . افغانستان میں بھی یه دور جوان طبقه اور تعلیم یافته افراد کی بیداری اور سیاسی هیجانات کا دور تھا .اس خاص حالات میں مسلم یوتھ آرگنائزیشن(اخوان المسلمین ) متحرک ترین تحریکوں میں سے تھی جس کے ارکان نے اس مناسب ماحول سے فائده اٹھاتے هوئے اپنی فعالیتوں کو وسعت دی اور یونیورسٹیوں اور تمام تعلیمی مرکز میں حاضر هوئے.
بین الاقوامی اخوان المسلمین کے نظریات کا اثر
اخوان المسلمین افغانستان کا پهلا نام مسلم یوتھ آرگنائزیشن تھا اور یه ان کا اخوان المسلمین مصر اور حسن البنا کے نظریات سے متاثر هونے کی پهلی دلیل هے کیونکہ 1927 ءمیں مصر میں اسی نام سے ایک تحریک چلی تھی۔حسن البنا اخوان المسلمین کی تاسیس سے پهلے مصر کی مسلم تحریک کے ممبر تھے اس لئے ان دونوں کے نام کی مشابهت اتفاقی نهیں هوسکتا۔ وه کتابیں جو اخوان المسلمین مصر کے راهنماوں جیسے سید قطب اور ان کا بھائی محمد قطب نے لکھی تھی اور ایران میں نشر هوئی تھیں افغانستان میں آئی اور افغانستان کے مسلم جوانوں کی فکری پیاس بجھانے میں مددگار ثابت هوئیں اورمصری اخوان المسلمین کے رہنماؤں کی کتابیں اور تحریریں افغانستان کی اسلام پسند تنظیموں کےلئے فکری منبع قرار پائیں . چونکہ یہ لوگ اسلامی معاشرے میں خاص منزلت رکھتے تھے ، اس لیے افغانستان کی اخوان المسلمین نے ان کے اسلامی نظریات کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان کے لوگوں میں بہت جلد ایک خاص مقام حاصل کر لیا۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح
افغانستان میں کمیونسٹ بغاوت کے ایک سال بعد ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کامیاب هوا . ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح نے پوری دنیا کو هلاکر رکھ دی اور خاص کر تمام اسلامی ممالک پر گهرا اثر چھوڑا . اس واقعه نے افغانستان کے مسلم عوام کو یقین دلایا که خالی هاتھ الله پر بھروسه کرتے هوئے ظالم حکومت کے خلاف قیام کرکے کامیابی حاصل کرسکتے هیں. افغانستان اخوان المسلمین کے راهنماوں میں سے ایک نے اپنی تقریر میں کها : ایران میں اسلامی انقلاب کا سب سے بڑا کارنامه یه تھا که اس نے مسلم دنیا سے مایوسی کی فضا کو ختم کیا اور ثابت کیا که ظلم اور بربریت، عوام کے غصے کی آگ کو نهیں بھجا سکتا اور توپیں اور ٹینک ایمان و یقین کو نہیں روک سکتے. ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے افغانستان کی قوم کو ایک نئی زندگی ملی اور اخوان المسلمین افغانستان نے انقلاب اسلامی ایران اور اس کے نعروں سے متاثر ہوکر اپنی جہادی اور اسلامی سرگرمیوں کو وسعت دی اور کامیابی حاصل کی۔ [2]
حوالہ جات
- ↑ اخوان المسلمین در افغانستان ( اخوان المسلمین افغانستان میں)-ofoghandisha.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده:22 جون 2022ء۔ تاریخ اخذ شده: 23مئی 2024ء-
- ↑ ارزیابی کارنامه جنبش اخوان المسلمین در افغانستان معاصر ( معاصر دور میں افغانستان میں اخوان المسلمین تحریک کی سرگرمیوں کا جائزہ)-www.sid.ir (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 2021ء۔ تاریخ اخذ شده: 27مئی 2024ء-