یمن جزیرہ نما عرب کے جنوب میں ایک عرب اور ایشیائی اور ایک مسلم ملک ہے۔ اس ملک کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور عمان، جنوب میں بحیرہ عرب ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔ یمن کا دار الحکومت صنعاء ہے اور عربی اس کی قومی زبان ہے۔ یمن کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے بیشتر عربی بولتے ہیں۔ یمن کے لوگوں نے بغیر کسی جنگ کے پیغمبر اسلام اور امام علی علیہ السلام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اسلام قبول کر لیا۔ یمنی مسلمانوں نے واقعہ سقیفہ کے بعد شیعیت کو مضبوط کرنے اور عثمان بن عفان کے قتل کے بعد امام علی علیہ السلام کو خلافت کے لیے بلانے میں کردار ادا کیا۔ یمن کے لوگ معاویہ کے شدید ترین مخالفین میں سے تھے۔ کربلا کی جنگ میں یمن کے کچھ مسلمان امام حسین علیہ السلام کے دفاع میں پیش پیش تھے۔ موجودہ یمن کا دار الحکومت "صنعاء"ہے۔ یمن کو عرب تمدن کا سب سے قدیم اور متمدن خطہ قرار دیا جاتا ہے۔

جغرافیا

یمن، جزیرۃ العرب کا جنوبی وشرقی حصہ ہے اور عربستان میں اس سے زیادہ زرخیز، شاداب اور آباد کوئی خطہ نہیں تھا [1]۔ یہ عرب کا ایک قدیم اور اہم خطہ ہے اور یہ سرزمین عرب میں شروع سےہی ایک خاص مقام کا حامل رہا ہے۔ قبل از مسیح دور میں اس کا نام سبا اور اس کا دار الحکومت " مآرب " تھا۔ یہ نام کئی صدیوں تک رائج رہا لیکن پھر اس کا نام " یمن " پڑگیا۔ عہدِنبوی ﷺ اور اس کے بعد سے آج تک اس کا نام یمن ہی ہے [2]۔ یہ نجد سے شروع ہو کر جنوب کی طرف بحر ہند اور مغرب میں بحر احمر (Red Sea) کی طرف پھیلا ہواہے۔ مشرق کی طرف اس کی سرحد حضرموت، الشحر (Al-Shahr)اور عمان سے ملتی ہے جبکہ یاقوت حموی نے اصمعی کے حوالہ سے جزیرہ نما عرب کو چار(4) حصوں میں تقسیم کیا [3]۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: اصمعی نے کہا: جزیرہ عرب چار اقسام پر ہے یعنی یمن، نجد، حجاز اور غور نیز یہی تہامہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک ان میں عمان اور بحرین پہلے جزیرہ عرب سے علیحدہ تھے اور اسی وجہ سے یاقوت حموی کی طرح سمہودی بھی جزیرۃ العرب کے ذکر میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ سمہودی لکھتے ہی اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک ان میں عمان اور بحرین پہلے جزیرہ عرب سے علیحدہ تھے اور اسی وجہ سے یاقوت حموی کی طرح سمہودی بھی جزیرۃ العرب کے ذکر میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ سمہودی لکھتے ہیں: اس جزیرہ (عرب) میں چار مقام شامل ہیں، یمن، نجد، حجاز اور غور جسے تہامہ کہتے ہیں [4]۔ عرب مؤرخین اور تاریخ دانوں کے مطابق پورے جزیرہ نمائے عرب میں تہذیب وتمدن اور علوم وفنون میں کوئی خطہ اس کا مقابل نہیں تھا۔ قدیم تاریخوں میں اسے الیمن السعیدۃ یعنی خوش وخرم یمن یا زرخیز عرب بھی کہا جاتا رہا ہے [5]۔

وجہ تسمیہ

یمن کی وجہ تسمیہ سے متعلق بھی کئی اقوال منقول ہیں۔ مختلف روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یمن کے کئی نام تھے جو مختلف زمانوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر رکھے گئے تھے۔ مؤرخین نے اس نام کی ایک وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ بنو قحطان چونکہ کعبہ کے دائیں جانب آباد ہوئے تھے اسی لیے ان کے خطے کا نام یمن پڑ گیا تھا۔ ابن سعداس حوالہ سے لکھتے ہیں: یقطن بن عابر کی اولاد دیارِ یمن میں آباد ہوئی اور اسی وجہ سے اس کا نام یمن پڑا کیونکہ اس قوم نے اس طرف تیامن (دائیں جانب کا سفر)کیا تھا[6]۔ بنو قحطان (بنویقطن بن عابر) مکہ سے دائیں جانب سفر کرکے یمن آئے تھے اور یہاں آباد ہوئے تھے اس لیے اس علاقے کو یمن کہاجانے لگا [7]۔ یمین عربی زبان میں دائیں طرف کو کہتے ہیں اور دائیں سمت مبارک خیال کی جاتی ہے۔ جب مکّہ مکّرمہ میں آبادی زیادہ ہوگئی اور عرب یہاں سے ہجرت کرنے لگے تو جو لوگ اس سمت گئے یعنی بیت اﷲ شریف کے دائیں جانب تو اس دائیں جانب کا نا م یمن پڑگیا اور اسی طرح بائیں جانب کا نام شام پڑ گیا۔ اس حوالے سے یاقوت حموی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں:

  1. ڈاکٹر گستاؤلی بان، تمدن عرب (مترجم: سید علی بلگرامی)، مطبوعہ: الفیصل ناشران وتاجران کتب، لاہور، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص11
  2. ڈاکٹر شوقی خلیل، اٹلس سیرت نبوی ﷺ، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص31
  3. پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبیﷺ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1415ھ، ص: 246-248
  4. ابو الحسن علی بن عبداﷲ السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰﷺ، ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 49
  5. ول دیورانت، قصۃ الحضارۃ، ج-11، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1988م، ص116
  6. ابو عبداﷲ محمد بن سعد بصری، الطبقات الکبریٰ(مترجم: علامہ عبداللہ العمادی)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص54
  7. ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-1، دار التراث العربی، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص209