بلاغ القرآن

نظرثانی بتاریخ 08:21، 13 جنوری 2024ء از Mahdipor (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (Mahdipor نے صفحہ مسودہ:بلاغ القرآن کو بلاغ القرآن کی جانب بدون رجوع مکرر منتقل کیا)

بلاغ القرآن مسلک چاہتا ہے کہ دنیا میں کتاب اللہ ( قرآن ) کی حکومت ہو افراد انسانیہ پر حق حکومت صرف اللہ تعالی کی ہو اس کے سوا کسی کی عبودیت ( محکومیت ) التیار نہ کرو یہ ہے محکم و استوار نظام حیات۔ اس نظام حیات کو ( قرآن نے الاسلام کہا ہے ( ۱۳/۴۰) سنی، شیعہ، فقہ حنفی، مالکی ، شافعی جنیلی تصوف میں ( قادری چشتی سہروردی ، نقش ہندی وغیرہ تمام سلسلوں کی نفی کرتا ہے۔ اس مسلک کا عقیدہ ہے کہ جہاں دین اسلام ہوگا وہاں فرقے نہیں ہوں گے اگر وہ فرقوں میں بٹ جاتا ہے تو وہ مذہب بن جاتا ہے جس سے لڑائی جھگڑے اور فساد کی بنیاد ہے لہذا اسلام میں فرقوں کا وجود بے معنی بات ہے اسلام مذہب نہیں کہ چند رسوم کا مجموعہ ہے بلکہ یہ ایک نظام حیات ہے یعنی ( دین السلام) بلاغ القرآن مسلک صرف قرآن حکیم کی تعلیم کو لوگوں تک پہنچانا بلکہ افرادِ انسانیہ کو دعوت فکر و عمل دینا چاہتا ہے ۔ ۳۴/۴۶ اور اعمال صالح ٹھیک کرنا چاہتا ہے جس سے انسانیت کے بگڑے ہوئے معاملات سنور جائی‏ں۔

بلاغ القرآن
نامبلاغ القرآن
عام نامقرآنیوں
بانی
  • احمد خان
نظریہصرف قرآن کی پیروی

نظام صلوٰۃ

نظام صلوٰۃ قائم کرو اور نظام زکوۃ عمل میں لاؤ یہی دین قیم ہے یعنی اس نظام کا قیام عمل میں لاؤ جس سے اتباع کتاب اللہ کا ہو۔ کتاب اللہ کے بتائے ہوئے الاسلام (دین) کی روشنی میں ان باتوں کی نشاندہی کرنا جن کا الاسلام (دین) سے کوئی تعلق واسطہ نہیں قرآن مجید کی تفسیر خود قرآن حکیم کی روشنی میں تصریف آیات سے پیش کرنا

قرآن کی تفسیر

قرآن کریم چونکہ کتاب اللہ تعالی کی ہے اور کوئی فرد و بشر علم کی رو سے نہ اس سے افضل ہو سکتا ہے نہ اس علمی سطح کا لہذا اس چیز کا سوال تک پیدا نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا مفسر کوئی بشر ہو یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا ہے کہ اپنی کتاب ( قرآن ) کے مفسر بھی ہم خود ہیں یہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کہ کسی کتاب کی تفسیر وہ شخص کر سکتا ہے جو علمی لحاظ سے یا تو صاحب کتاب سے افضل حیثیت کا حامل ہو یا کم از کم اس اعلیٰ سطح پر فائز ہو جو خود صاحب کتاب کی ہو۔ قرآن کتاب ہے اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی فرد و بشر علم کے لحاظ سے اللہ سے جو افضل ہے نہ برابر اس لئے اس کی کتاب کا مفسر کوئی بشر نہیں ہو سکتا۔

نظام مصطفی

عام فہم نام ہے نظام الہیہ کا یہ مقدس متوازن ضابطہ حیات ہے جو خاتم النبین و رحمته اللعلمین علیہ السلام پر خود باری تعالیٰ نے بصورت قرآن حکیم نازل فرمایا پس قرآنی نظام، اسلامی نظام یا نظام الہیہ جو بھی کہا جائے درست ہے اس نظام الہیہ کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم کی روشنی میں پوری نوع انسانی کے بنیادی حقوق میں معاشرے کا ہر فرد بحیثیت نوع آدم واجب الکریم ہے کیونکہ ضابطہ حیات ( قرآن ) میں ارشاد ہوا ہے ادنی و اعلی کی کوئی تمیز روا نہیں رکھ گئی نہ کوئی آقا ، نہ غلام، نہ مالک نہ نوکر، نہ کوئی راٹھ پوری نوع آدم کا ہر فرد خواہ عورت ہو یا مرد کالا ہو یا گورا دیہاتی ہو یا شہری مسافر ہو یا مقیم ایک ہی سطح کا کرم معظم شمار ہوتا ہے حضرت محمد ﷺ پر نازل کردہ ضابطہ حیات قرآن کریم عربی زبان میں نازل فرمایا عربی زبان نازل نہیں کی بلکہ دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان پہلے موجود تھی اور اس کے مختلف الفاظ کے معنی بھی لوگوں کے علم میں تھے۔

دین اور مذہب میں فرق

اسلام ایک مذہب نہیں جو چند رسوم کا مجموعہ ہے بلکہ ایک نظام حیات ہے یعنی دین ہے۔ یہودیت، عیسائیت، بدھ مت، مذہب ہیں دین نہیں۔ دین کسی کام کے کرنے پر زور دیتا ہے دین میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے وہ اس لیئے پڑھا جاتا ہے کہ ان پڑھے جانے والے الفاظ میں جو احکام ہوتے ہیں ان کو عملی جامہ پہنایا جائے جبکہ مذہب میں ان الفاظ کو محض پڑھنے اور رٹنے کو عمل قرار دیتا ہے قرآن مجید کے الفاظ جو حکم کا درجہ رکھتے ہیں جن کو عملی جامہ پہناتا تھا انہیں محض پڑھ کر ثواب حاصل کیا جانے لگا دین میں مخصوص حرکات و سکنات پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ ٹھوس اعمال کا اور ان سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے دین وحدت قائم رکھتا ہے قرآن مجید پڑھنے کا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کا بھی حکم دیتا ہے اور عمل نہ کرنے والوں کو کفر کے خانے میں رکھتا ہے۔

کافر کا مطلب

جس طرح چوری کرنے والا چور ہوتا ہے خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اسی طرح کفر کرنے والا کافر ہوتا ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم جو لوگ تمام غیر مذاہب یا غیر مسلموں کو یکسر کافر کہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ کافر کا مطلب غیر مسلم نہیں ہوتا بلکہ کافر اللہ تعالیٰ کی آیات کا قول و فعل سے انکار کرنے والا ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو ۔ (سورۃ البقرہ 2/62) مطلب کافر وہ ہوتا ہے جو ہدایت ملنے کے باوجود اس کا انکار کر دے قرآن مجید سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کافر کوئی قوم نہیں بلکہ کفر ایک جرم کی نوعیت ہوتی ہے اور کفر کا یہ جرم مسلمان بھی کر سکتا ہے اور غیر مسلم بھی۔ اسلام اور کفر ایک دوسرے کی ضد ہیں کوئی بھی عمل نیک ہوتا ہے۔ یا بد، اسلام ہوتا ہے یا کفر چونکہ نیکی اور اچھی سوچ پر عمل میں تعاون کا اللہ تعالی کم دیتا ہے لہذا اسلام کے نظام معیشت و معاشرت میں انسانیت کی بہتری میں مدد گار ہر اچھی سوچ اور اچھا نظریہ نیک عمل ہونے کی وجہ سے حدود السلام میں داخل ہو گا جس کی خلاف ورزی کفر ٹھہرے گی۔ دوزخ کی آگ کفر کے جرم کی سزا دینے کے لیئے تیار کی گئی ہے خواہ اس جرم کا مرتکب مسلم ہو یا غیر مسلم۔

کتابوں پر ایمان

قرآن مجید تمام انبیاء اور اُن کی کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے توریت، زبور، انجیل اور قرآن ہیں بیشک ہم نے تورات کو نازل کیا اس میں ہدایت اور نور ہے اور ہم نے مسیح (عیسی) کو انجیل رحمت فرمائی اس میں ہدایت اور نور ہے ۔ پس اللہ اُس کے رسول اور اُس نور قرآن کریم پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کیا ہے۔ قرآن نبیوں میں فرق کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ اسلام ان کی توہین کی اجازت دیتا ہے۔ اللہ تعالی کسی جھوٹے اللہ کو بُرا کہنے کی اجازت نہیں دیتا اسی طرح ان کے بُرے عقائد کی بھی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا انہیں سمجھانے کا حکم کے معاملے میں زبردستی نہیں اسلام کسی کے عقیدے پر وار کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا ۔ سمجھانے کا حکم دیتا ہے اسلام تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا درس دیتا ہے مذہبی کتابوں اور ان کے مذہبی شعائر کی دانستہ توہین کرنا کفریہ شیطانی فعل ہے۔ دین اس کی اجازت نہیں دیتا اگر کوئی مشرک میدان جنگ میں بھی پناہ کا خواہشمند ہو تو اللہ تعالی اسے محفوظ امن کی جگہ پہنچانے کا حکم دیتا ہے۔

اداب صلوة

بلاغ القرآن مسلک کے ہاں صلوۃ کے معنی صرف آمار لیے جاتے ہیں۔ نماز (صلوۃ) کی جگہ مسجد کے کمرہ اور صحن کو پاک رکھنا لازم ہے مسجد زمان و مکان ہے۔

طہارت نامہ

ایمان والوں جب تم صلوٰۃ کا ارادہ کرو تو اپنے چہرے اور کہنیوں سمیت بازو دھولیا کرو۔ سر کا مسح کر لیا کرو اور تختوں سمیت پاؤں دھولیا کرو ہر نماز (صلوة) سے قبل وضو کا حکم ہے۔ حضور الہی میں ہاتھ باندھ کر قبلہ رخ کھڑے ہوا بھی اداب صلوۃ میں سے ہے۔ سینے پر ہاتھ باندھتے وقت دائیں ہا تھا وہیں ہو گا اور بایاں نیچے قرآن کریم کی روشنی میں نمازوں کے وقت صرف تین میں دو دن کے حصوں میں اور ایک رات کی ابتدائی گھڑیوں میں صاحب قرآن آپ اپنے تمنان اونچی نہ تھی بلکہ درمیانی آواز کے ساتھ ادا کیا کریں ۔ پس ہر نماز یعنی حضور اللہ کی حاضری کے ہر وقت پر زینت برقرار رکھنا آداب صلوۃ میں سے ہے۔ صلوة ( نماز) میں بغیر سر ڈھانکے نماز پڑھتی ہے [1]۔

حوالہ جات

  1. نعیم اختر سندہو، مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 2009م،ص 336