رشید ترابی
علامہ رشید ترابیرضا حسین المعروف علامہ رشید ترابی عالم اسلام کے بلند پایہ خطیب، عالم دین اور شاعر تھے اور تشیع پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسے بے بدل عالم دین ہیں جنہوں نے خطابت اور عزاداری سید الشہدا میں منبر پہ ذکر حسین ع کے وسیلے سے تعارف دین حق کا ایسا تبلیغی و تحقیقی انداز اپنایا کہ ان کا طریق خطابت برصغیر میں مقبول ترین انداز بن گیا۔
رشید ترابی | |
---|---|
پورا نام | رشید ترابی |
دوسرے نام | آفتاب خطابت |
ذاتی معلومات | |
یوم پیدائش | 9جولائی |
پیدائش کی جگہ | حیدر آباد دکن ہندوستان |
یوم وفات | 18دسمبر |
وفات کی جگہ | کراچی پاکستان |
اساتذہ | سید علی شوستری، محمد محسن شیرازی و آغا سید حسن اصفہانی |
مذہب | اسلام، شیعہ |
مناصب |
|
سوانح عمری
ولادت، ابتدائی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم اور اساتذہ۔: عالم اسلام کے عظیم خطیب، عالم دین اور شاعرعلامہ رشید ترابی 9 جولائی 1908ء کو حیدرآباد دکن برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولوی شرف الدین ایک اعلٰی سرکاری عہدے پھر فائز تھے۔ان کا اصل نام رضا حسین تھا لیکن رشید ترابی کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم علامہ سید علی شوستری، آغا محمد محسن شیرازی، آغا سید حسن اصفہانی اور علامہ ابوبکر شہاب عریضی سے حاصل کی، شاعری میں نظم طباطبائی اور علامہ ضامن کنتوری کے شاگرد ہوئے اور ذاکری کی تعلیم علامہ سید سبط حسن صاحب قبلہ سے اور فلسفہ کی تعلیم خلیفہ عبدالحکیم سے حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے اور الٰہ آباد یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ علامہ رشید ترابی نے 10 برس کی عمر میں اپنے زمانے کے ممتاز ذاکر مولانا سید غلام حسین صدر العلماء کی مجالس میں پیش خوانی شروع کردی تھی اور 1942ء میں انہوں نے آگرہ میں شہید ثالث کے مزار پر جو تقاریر کیں وہ شہرت کا باعث بنیں [1]۔ سولہ برس کی عمر میں انہوں نے عنوان مقرر کرکے تقاریر کرنا شروع کیں۔ تقاریر کا یہ سلسلہ عالم اسلام میں نیا تھا اس لیے انہیں جدید خطابت کا موجد کہا جانے لگا۔ 1942ء میں انہوں نے آگرہ میں شہید ثالث کے مزار پر جو تقاریر کیں وہ ان کی ہندوستان گیر شہرت کا باعث بنیں۔ قرآن فہمی و قرآن شناسی تو اُن کا خصوصی میدان تھا ہی، جب کہ حدیث، تاریخ، فقہی تقابل، ادیانِ عالم، ادب، علم الکلام اور عالمی سیاسی و سماجی مسائل پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ دینی تعلیم کی اسناد علّامہ نائینی، آیت اللہ برد جردی، آقائے محسن الحکیم طباطبائی مجتہدِ اعظم صدر حوضۂ علمیہ نجفِ اشرف آیت اللہ العظمیٰ آقائے الخوئی سے حاصل کیں۔نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین کے پلیٹ فارم پر بھی فعال رہے۔ آپ کے بھائی مظہرعلی خان پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے جبکہ دیگر تین بھائی بھی قابلیت کے مدارج پر فائز رہے۔
سیاست سے وابستگی اور قائد اعظم سے ملاقات
علامہ رشید ترابی اس دوران عملی سیاست سے بھی منسلک رہے اور قائد ملت نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین کے پلیٹ فارم پرفعال رہے۔قائد اعظم کی ہدایت پر انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1940ء میں حیدرآباد (دکن) کی مجلس قانون ساز کے رکن بھی منتخب ہوئے اور قائد اعظم محمد علی جناح نے انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کا سیکریٹری اطلاعات بنایا [2]۔ دسمبر 1947ء میں علامہ رشید ترابی کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان مدعو کیا تاکہ حضرت مالک اشتر کے نام لکھے گئے حضرت علی ابن ابی طالب کے مشہور خط کا انگریزی میں ترجمہ کریں۔
خطابت
وہ قرآن پاک کی تلاوت سے مجلس کا آغاز کرتے،پھر احادیث سے دلائل دیتے اور قرآن پر بات سمیٹ دیتے۔اُن کی مجالس میں ہر طبقے سے وابستہ افراد شرکت کرتے۔قیامِ پاکستان کے بعد قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کی خواہش پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مالک اشتر کے نام لکھے گئے معروف خط کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، جو بے حد مقبول ہوا۔ صدر ایّوب خان نے اپنے دورِ حکومت میں اسے 10 لاکھ کی تعداد میں چَھپوا کر انتظامیہ میں تقسیم کیا تھا [3]۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کراچی سے مجلس شام غریباں سے آپ کے خطاب نے پورے پاکستان کو ذکر حسین ؑ کی جانب ایسا متوجہ کیا کہ مجلس ِ شام غریباں کا براہ راست نشر ہونا ایک ایسی روایت بن گئی کہ جس کا سامع پاکستان کا ہر صاحبِ درد مسلمان ہوتا ہے۔ آپ نے مجلس شام غریباں میں روایتی عزائی طریق میں ایک نئی بنیاد فضائل و مصائب کا ایسا انداز و طریق اختیار کیا کہ آپ کے بعد آنے والے ہر خطیب نے اسی طریق کو اپنایا،تقاریر کا یہ سلسلہ عالم اسلام میں نیا تھا اس لیے انہیں جدید خطابت کا موجد کہا جانے لگا۔ علامہ رشید ترابی برصغیر کے آفتابِ خطابت تھے ۔لفظ آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے ۔سامعین میں ہر شخص کی آرزو ہوتی تھی کہ وہ علامہ کے ایک ایک لفظ کو اپنی سماعتوں میں محفوظ کر لے ۔
علامہ صاحب بیان کے دھنی اور الفاظ کے غنی تھے – ان کے نطق پر الفاظ و معنی سحر آگیں کیفیت رکھتے تھے – انسان مبہوت ہو جاتا تھا – آواز میں کڑک بھی تھی – گفتگو میں رنگینی بھی اور لہجے میں شیرینی بھی – ایک مرتبہ دستہ سخن کھلتا اور فلسفہ شہادت بیان ہوتا تو مجمع مسحور ہو جاتا ۔ علامہ صاحب داستان گونہ تھے مگر ان کے طرز گفتار میں بلا کا سحر تھا – اپنی وسعت نظر و وسعت زبان کے باوجود وہ اپنے سامعین کو چند لمحوں میں اس طرح کر لیتے تھے کہ ایک ایک فقرے پر مجمع تڑپ اٹھتا تھا – وہ قرآن ، رومی ، حافظ اور اقبال کے مکمل حافظ تھے – انھیں نہج البلاغہ کے مکمل علم کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پر بھی تقریباً دسترس حاصل تھی۔ رشید ترابی اعلٰی اللہ مقامہٗ کی داستان نہ صرف فصاحت و بلاغت کی داستان ہے بلکہ ایک غیر معمولی حافظے کی داستان بھی ہے – یہ ایک اجتماعی شعور کی پرورش کی داستان ہے – یہ زندگی کے نصب العین سے وفا اور ایثار کی داستان ہے – یہ نہ صرف عزا ے حسین (ع) کی داستان ہے بلکہ یہ اردو زبان و ادب ، فلسفہ و منطق ، رجال ، کلام ، حرف و نحو اور اسلام کی داستان بھی ہے [4]۔
تقاریر کے اثرات
قائداعظم کی رحلت کے بعد انہوں نے عملی سیاست کو ترک کردیا اور مجالس و محافلِ سیرت کے ذریعے فکری سطح پر اتحاد ملت کے خود کو وقف کردیا۔ علامہ رشید ترابی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ شاخ مرجان کے نام سے اشاعت پزیر ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ 12 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں جو کہ عوام میں بہت مقبول ہوئیں۔ وہ ایک طرز کے خطیب تھے، محرم الحرام میں موضوعات کے تحت عشرہ ہائے مجالس سے خطاب کرتے تھے۔ قرآن، حضرت ختمی المرتبتؐ اور نہج البلاغہ ان کی فکر کے مرکز تھے۔ رمضان المبارک میں کسی ایک سورہ پر تفسیر کی ابتداء میں مسقط (عمان) سے ہوئی۔ پھر تفسیر کا یہ سلسلہ کراچی میں 1973ء تک جاری رہا۔ پاکستان میں انہوں نے اپنی پچیس سالہ زندگی میں پانچ ہزار سے زیادہ تقریریں کیں اور اب تک ان کی تقریبا دو ہزار تقریریں آن لائن دستیاب ہیں۔ ان کی وفات کے بعد بعض ناشرین نے ان کی تقاریر کو مجالسِ ترابی کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ علامہ رشید ترابی کی تقاریر اور علمی صلاحیتوں کے ماننے والے صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ عرب امارات، ایران، عراق، برما، جنوبی افریقہ اور برطانیہ میں بھی موجود تھے جہاں علامہ نے اپنی علمی صلاحیتوں کے موتی بکھیرے۔ خطابت کا یہ آفتاب 18 دسمبر 1973ء کو کراچی میں غروب ہوگیا۔ ان کے پس ماندگان میں لاکھوں چاہنے والوں کے ساتھ قابل اور باصلاحیت اولاد بھی شامل ہے، جس نے مختلف شعبوں میں خود کو منوایا۔ علامہ رشید ترابی نے کراچی کے علاقے، نارتھ ناظم آباد میں امام بارگاہ حسینیہ سجادیہ کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا، ان کی آخری آرام گاہ امام بارگاہ حسینیہ سجادیہ میں واقع ہے۔ ان کی پچاسویں برسی کے موقع پر علامہ رشید ترابی میموریل سینٹر کی جانب سے ان کی زندگی اور علمی خدمات پر ایک مستند ویب سائٹ کا آغاز کیا جارہا ہے خطابت کے [5]۔
عشرہ مجالس ،پاکستان آمد
عشرہ مجالس
یہ صفر کا مہینہ تھا، رشید ترابی کی کراچی میں موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کراچی کے ایک مہتممِ مجالس سید محمد عسکری نے رشید ترابی کو خالق دینا ہال کراچی میں صفر کے دوسرے عشرہ مجالس سے خطاب کرنے کی درخواست کی۔ علامہ نے یہ درخواست قبول کرلی اور 10 صفر، 1367ھ (24 دسمبر، 1947ء) سے چہلم تک خالق دینا ہال میں اپنے پہلے عشرہ مجالس سے خطاب کیا۔ اس کے بعد (سے 26 سال تک) وہ جب تک زندہ رہے وہ خالق دینا ہال میں ہر برس مجالس کے عشرے سے مستقل خطاب کرتے رہے۔
پاکستان آمد
1949ء میں علامہ رشید ترابی پاکستان آگئے یہاں انہوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو ذکرِ حسین ع کے لیے وقف کردیا۔ انہوں نے 1951ء سے 1953ء تک کراچی سے روزنامہ المنتظرکا اجرا کیا۔ اس سے قبل انہوں نے حیدرآباد دکن سے بھی ایک ہفت روزہ انیس جاری کیا تھا۔ 1957ء میں ان کی مساعی سے کراچی میں 1400 سالہ جشن مرتضوی بھی منعقد ہوا۔ 1956ء میں 1400 سالہ یادگارِ مرتضویٰ کا پروگرام ایک ہفتہ کے لئے منعقد کیا اس میں پہلی اور شا ید آخری بار صدر پاکستان اسکندر مرزا اور وزیر اعظم حسین شہید سروردی نے شرکت کی ۔ علامہ رشید ترابی نے اپنی زندگی میں 2مجلس میں حدیث کا شجرہ پڑھا جس میں جناب سعید الملت ہندوستان سے آئے ہوئے تھے یہ تقریر مارٹن روڈ کے امام بارگاہ میں پڑھی تھی ۔ دوسری مجلس رضویہ کالونی میں آیتہ اللہ محسن حکیم کے صاحبزادے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں دو تقریریں تقریباً ڈھائی گھنٹہ کی پڑھیں۔ پہلی تقریر لکھنو میں 1942 ء میں جس میں تمام بزرگ علماء موجود تھے اور اس تقریر کے بعد علماء نے رشید ترابی کو علامہ کا خطاب دیا تھا۔ دوسری تقریر لاہور میں کی، اس تقریر کے بعد جناب شورش کاشمیری صاحب ایڈیٹر چٹان اخبار نے علامہ رشید ترابی کے بارے میں لکھا کہ ’’عالم کو اپنی حد کا پتہ ہوتا ہے اور اس حد میں رہتے ہوئے اپنی بات کو کہتا ہے جس کی وجہ سے وہ حکومت کی گرفت میں نہیں آتا”۔ یہ خوبی تمام تر علامہ رشید ترابی کی موجود تھی جس کی وجہ سے وہ کبھی بھی جیل نہیں گئے ، جناب مولانا احتشام الحق تھانوی ، جناب مولانا شفیع اکاڑوی اور دوسرے علماء پاکستان کے ہر سربراہ نے جب بھی اقتدار میں آئے انہوں نے علامہ سے خاص تعلق رکھا اور ہر ایک نے کچھ نہ کچھ دینا چاہا مگر علامہ رشید ترابی نے کبھی بھی کسی سے کوئی استفادہ نہیں لیا۔
نامور شعراء کے ساتھ
استاد قمر جلا لوی کی چہلم کی مجلس مرکزی امام بارگاہ لیاقت آباد میں ہوئی اس میں کراچی کے تمام اہم شیعہ و غیر شیعہ شعراء شریک تھے اس مجلس میں علامہ رشید ترابی نے شعراء کے بارے میں تقریر کی۔ بعد مجلس کے تمام سنی شعراء جو پہلی بار شریک ہوئے وہ بڑے شوق سے علامہ رشید ترابی سے ہاتھ ملاتے اور تعریف کرتے رہے۔ جناب مصطفی زیدی کی چہلم کی مجلس رضویہ کالونی کے امام بارگاہ میں منعقد ہوئی۔ اس مجلس میں جناب جوش صاحب نے سلام پڑھا۔ فیض صاحب اور تمام شعراء کرام شریک ہوئے وہ تقریر بھی ایک یادگار تقریر تھی جو کیسٹ میں محفوظ ہے ۔ علامہ رشید ترابی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ شاخ مرجان کے نام سے اشاعت پزیر ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی مرتب کردہ کتابیں طب معصومین‘ حیدرآباد کے جنگلات اور دستور علمی و اخلاقی مسائل بھی شائع ہوچکی ہیں [6]۔
تالیفات
شاخ مرجان طب معصومین حیدرآباد کے جنگلات دستور علمی و اخلاقی مسائل
وفات
علامہ رشید ترابی 18 دسمبر 1973ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور حسینیہ سجادیہ کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ہے تیرے ذکر کی عطا ذکر رشید ہے یہاں سب کو میں یاد رہ گیا صدقے تیری یاد کے
حوالہ جات
- ↑ علامہ رشید ترابی کی آج 50ویں برسی ،وجہ شہرت اور اصل نام کیا تھا ؟ جانیے، 24urdu.com
- ↑ علامہ رشید ترابی کی 50 ویں برسی کل منائی جائے گی، jang.com.pk
- ↑ سید ثقلین علی نقوی، علامہ رشید ترابیؒ کا یوم وفات، حالات زندگی پر طائرانہ نظر، shianews.com.pk
- ↑ سید انجم رضا، جمع آوری و تدوین، ہفتہ روزہ رضا کار ، لاہور ، 10 جولائی بروز جمعۃالمبارک، 2020
- ↑ آفتاب علامہ رشید ترابی کی پچاسویں برسی، islamtimes.org
- ↑ علامہ رشید ترابی، maablib.org