آیت اللہ سید محمد باقر رضوی آپ کا تعلق بر صغیر بلکہ عالم تشیع کے مشہور و معروف دینی اور علمی خانوادہ سے ہے۔ سید محمد باقر سلمہ درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔ درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اکثر اسلامی علوم عربی ادب، فقہ، اصول، فلسفہ، منطق، حدیث، تفسیر اور درایت میں کامل تسلط کے باوجود جب تک نجف اشرف جا کر باب مدینۃ العلم کی بارگاہ میں کسب فیض نہیں کیا تب تک کسی کو اپنی تقلید کی اجازت نہیں دی۔1302 ہجری میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ نجف اشرف تشریف لے گئے لیکن عام طلاب کے برخلاف اپنی علمی استعداد کے سبب ابتدائی دروس کے بجائے رس خارج میں شرکت کی۔

سید محمد باقر رضوی
پورا نامسید محمد باقر رضوی
دوسرے نامباقر العلوم
ذاتی معلومات
یوم پیدائش7صفر
پیدائش کی جگہہندوستان
یوم وفات16شعبان
وفات کی جگہکربلا
اساتذہآیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف آغا ابّو، مولانا شیخ تفضل حسین فتح پوری، ، آخوند خراسانی و آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی
شاگردآیۃ اللہ سید احمد علی موسوی،

آیۃ اللہ سید ظفرالحسن و

آیۃ اللہ سید راحت حسین گوپالپوری
مذہباسلام، شیعہ
مناصب
  • سلطان المدارس

حالات زندگی

آیۃ اللہ سید محمد باقر رضوی شب جمعہ7/ صفر المظفر 1286 ہجری شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد آیت اللہ سید محمد ابو الحسن اور جد پدری آیت اللہ سید علی شاہ کشمیری لکھنوی تھے [1]۔ دادیہال اور نانیہال دونوں اعتبار سے آپ کا تعلق بر صغیر بلکہ عالم تشیع کے مشہور و معروف دینی اور علمی خانوادہ سے ہے۔ آپ کے دادا آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی شاہ کشمیری، والد ماجد فقیہ احسن نادرۃ الزمن آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو تھے اور آپ کے نانا آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفران مآب کے پوتے جنت مآب آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد تقی قوی تھے۔ باقرالعلوم نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو سے حاصل کی۔ اسکے بعد فقہ و اصول کی مقدماتی تعلیم فقیہ اعظم مفتی سید محمد عباس موسوی کے شاگردان رشید محقق کامل مولانا شیخ تفضل حسین طاب ثراہ فتح پوری اور عالم جلیل مولانا سید حیدر علی طاب ثراہ سے حاصل کی اور اپنے والد ماجد کے درس میں شامل ہوئے اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ جیسا کہ آپ کے والد ماجد نے بعض اکابرین سے فرمایا تھا کہ “الحمد للہ سید محمد باقر سلمہ درجہ اجتہاد پر فائز ہیں۔” درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اکثر اسلامی علوم عربی ادب، فقہ، اصول، فلسفہ، منطق، حدیث، تفسیر اور درایت میں کامل تسلط کے باوجود جب تک نجف اشرف جا کر باب مدینۃ العلم کی بارگاہ میں کسب فیض نہیں کیا تب تک کسی کو اپنی تقلید کی اجازت نہیں دی۔1302 ہجری میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ نجف اشرف تشریف لے گئے لیکن عام طلاب کے برخلاف اپنی علمی استعداد کے سبب ابتدائی دروس کے بجائے رس خارج میں شرکت کی آپ نے حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تقریبا 11 / سال فقہاء و مجتہدین کے درس خارج میں شرکت کی اور ان سے سند اجتہاد و روایت حاصل کرکے 1316ھ میں لکھنؤ واپس آۓ[2]۔

اساتذہ

والد ماجد آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف آغا ابّو مولانا شیخ تفضل حسین فتح پوری مولانا سید حیدر علی لکھنوی صاحب کفایۃ الاصول آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد کاظم خراسانی المعروف بہ آخوند خراسانی آیۃ اللہ العظمیٰ مرزا خلیل تہرانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب (کتاب) عروۃ الوسقیٰ آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی رحمۃ اللہ علیہ آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ شریعت فتح اللہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مستدرک الوسایل آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ میرزا حسین بن محمد تقی بن علی محمد نوری طبرسی المعروف بہ محدث نوری رحمۃ اللہ علیہ آیۃ اللہ العظمیٰ محمد حسین شهرستانی۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تقریبا 11 برس مذکورہ فقہاء و مجتہدین کے درس خارج میں شرکت کی اور ان سے سند اجتہاد حاصل کی۔ نجف اشرف میں قیام کے دوران ہی آپ کے والد ماجد نے 1312 ہجری کو کربلائے معلی میں رحلت فرمائی اور امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہوئے۔ باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ جب لکھنو آئے تو آپ کے والد کے مقلدین نے آپ کی جانب رجوع کیا۔ نیز ملک کی مشہور شیعہ دینی درس گاہ سلطان المدارس جو آپ کے والد مرحوم کی یادگار ہے اس کے مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔ آپ کے علم، زہد و تقویٰ کی شہرت ہوئی تو پورے ملک (ہند و پاک) سے علوم آل محمد علیہم السلام کے مشتاقان کا لکھنو آنے کا سلسلہ جاری ہو گیا۔

شاگرد

آپ کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے سلطان المدارس میں آپ کی 30 سالہ دور تدریس میں کسب فیض کیا جو اپنے زمانے کے جید علماء میں شمار ہوتے تھے۔ ذیل میں ان میں سے چند کے اسمائے گرامی ملاحظہ فرمائیں: سید شبیر حسین (سابق استاد وثیقہ عربی کالج فیض آباد) آیۃ اللہ سید احمد علی موسوی آیۃ اللہ سید ظفرالحسن آیۃ اللہ سید راحت حسین گوپالپوری شمس العلماء آیۃ اللہ سید سبط حسن نقوی مولانا سید محمد رضا مولانا سید عالم حسین طاب ثراہ (سابق استاد سلطان المدارس لکھنو) مولانا سید کلب حسین نقوی طاب ثراہ (کبن صاحب) سید العلماء مولانا سید علی نقی نقوی (نقن صاحب) مولانا سید وصی محمد آیۃ اللہ سید محمد رضوی (فرزند سرکار باقر العلوم رہ) مولانا ڈاکٹر سید مجتبیٰ حسن کامونپوری۔ مولانا سید ابن حسن صاحب نونہروی مولانا زین العابدین طاب ثراہ (ملتان) مولانا سید حیدر حسین نکہت (صدر الافاضل) مولانا محسن نواب مولانا سید نجم الحسن رضوی کراروی مذکورہ اسمائے گرامی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب شاگردان ایسے جید علماء تھے تو استاد کس منزل پر ہوں گے۔ خدا رحمت نازل فرماے [3]۔

ہندوستان میں خدمات

آیۃ اللہ باقر العلوم جب لکھنؤ آئے تو آپ کے والد کے مقلدین نے آپ کی جانب رجوع کیا، بر صغیر کے علاوہ افریقہ اور یوروپ تک آپ کے مقلدین پھیلے ہوۓ تھے ،1313ھ میں آپ کے والد علام "آیت اللہ ابو الحسن ابو "نے رحلت فرمائی ، انکے انتقال کے بعد آپ انکے وصی اور جانشین مقرر ہوئےآپ ہندوستان کی مشہور و معروف درس گاہ مدرسہ سلطان المدارس میں مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔ آپ کے علم اور زہد و تقویٰ کی شہرت ہوئی تو پورے برصغیر سے علوم آل محمد علیہم السلام کے مشتاق افراد کا لکھنو آنے کا سلسلہ جاری ہو گیا۔

سلطان المدارس

ملت جعفریہ کا عظیم سرمایہ سلطان المدارس ہے۔ آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابو رحمۃ اللہ علیہ نے 1892 عیسوی میں اس مدرسہ کی بنیاد رکھی اور تا حیات اس کی بقاء اور ارتقاء کے لئے کوشاں رہے۔ بانی مدرسہ کی رحلت کے بعد آپ کے فرزند باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ اس کے مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔انہوں نے بھی اپنے والد مرحوم کی طرح طلاب کی تعلیم و تربیت کے علاوہ مدرسہ کو نمایاں ترقی دی۔1892 عیسوی سے 1911 عیسوی تک تقریبا بیس برس مدرسہ سلطان المدارس کی اپنی کوئی عمارت نہیں تھی۔ ابتداء میں گول دروازہ چوک کے قریب کرائے کے مکانات میں، اس کے بعد آصفی مسجد کے حجروں میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا۔ باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے نمایاں کارناموں میں سے ایک میڈکل کالج کے سامنے مدرسہ سلطان المدارس کی ذاتی عمارت ہے جسمیں آج بھی مدرسہ قائم ہے۔ اسی طرح آپ نے کربلائے معلی عراق میں مدرسہ ایمانیہ کی بنیاد رکھی۔ اسی مدرسہ میں مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تعلیم حاصل کی۔اسی طرح آپ نے دوران سفر مشہد مقدس میں بھی ایک مدرسہ اور حسینیہ کی بنیاد رکھی۔

درس خارج

بر صغیر میں درس خارج کا رواج نہیں تھا ؛ سطحی تعلیم کے بعد اگر کسی کو درس خارج میں شرکت کا ارادہ ہوتا تو عراق کا رخ کرتا تھا باقر العلوم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے مدرسہ سلطان المدارس میں درس خارج دینا شروع کیا ،جس میں ہادی الملت سید محمد ہادی صاحب مرحوم کے چھوٹے بھائی شمس العلماء سید سبط حسن اور عمدۃ المحققین سید عالم حسین شرکت کرتے تھے- موصوف نے بہت زیادہ طلاب کو زیور علم وادب سے آراستہ کیا جن میں سے: مولانا سید شبیر حسن (سابق استاد وثیقہ عربی کالج فیض آباد) مفتی اعظم آیۃ اللہ سید احمد علی موسوی ، ظفرالملت آیۃ اللہ سید ظفرالحسن ، آیۃ اللہ سید راحت حسین گوپالپوری ، آیۃ اللہ سید سبط حسن نقوی وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ باقر العلوم نے طلاب کو دروس دینے کے لئے کربلائے معلیٰ میں مدرسہ ایمانیہ کی بنیاد رکھی جس میں آیت اللہ العظمیٰ سید شھاب الدین مرعشی نجفی نے بھی آپ سے کسب فیض کیا ، باقر العلوم علم و عمل زہدو ورع کے مرقع تھے جس کے سبب اپنے تو اپنے ہندو بھی متاثر ہوتے تھے -

تحریک تعمیر و تجدید مساجد

باقر العلوم نے مساجد کی تعمیر و تجدید کی تحریک چلائی تا کہ مساجد آباد ہوں اور انمیں نماز جماعت کا سلسلہ جاری ہو۔ آپ نے بہت سی مساجد کی تجدید فرمائی۔ اسی طرح بہت سی مساجد آپ کے ذریعہ تعمیر ہوئیں جنمیں ردولی کے حسینیہ ارشاد حسین مرحوم کی مسجد آپ ہی کے حکم پر تعمیر ہوئی اور اس کا سنگ بنیاد 1925 عیسوی میں آپ ہی کے دست مبارک سے رکھا گیا۔

حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے رابطہ

باقرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے مولا و آقا حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے خاص لگاو تھا۔ ظاہر ہے امام معصوم سے رابطہ یقین، ایمان و عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنی زندگی معصومین علیہم السلام کی سیرت و احادیث کی روشنی میں بسر کرے۔ اس کے سیرت و کردار سے معصومین علیہم السلام کے سیرت و کردار کی خوشبو آئے۔ سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا اخلاص، زہد و تقویٰ اس منزل پر تھا کہ آپ کو دیکھ کر لوگوں کو اہلبیت علیہم السلام کی یاد آتی تھی۔ آپ انتہائی درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے کہ ایک بار ناظم صاحب کے امام باڑے میں وعظ فرما رہے تھے کہ کسی سامع نے متاثر ہو کر کہا “کیا عالمانہ بیان ہے۔” کوئی اور ہوتا تو خوش ہو جاتا لیکن یہ سنتے ہی آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو گیا اور فرمایا: عالم صرف اہلبیت علیہم السلام ہیں۔

ظاہر ہے ایک فقیہ اعظم کا بیان اقوال معصومین علیہم السلام کا ائینہ دار ہوتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: لوگوں کی تین قسمیں ہیں۔ علماء، متعلمین اور غثاء (یعنی جو ہر ہوا پر حرکت کرے اور ہر آواز کے پیچھے چل پڑے) ہم (آل محمد علیہم السلام) علماء ہیں، ہمارے شیعہ متعلم ہیں اور باقی لوگ غثاء ہیں۔اسی طرح منقول ہے کہ ایک بار اہل سنت کے کچھ علماء سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے شریعت کدہ پر حاضر ہوئے، سلام و احوال پرسی کے بعد ان لوگوں نے کہا کہ آپ شیعوں کے یہاں جو امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ بھیجا جاتا ہے کافی مضحکہ خیز ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دریا میں عریضہ ڈالا جائے اور وہ ان تک پہنچ جائے۔ مچھلیاں کھا لیتی ہوں گی یا پانی میں گل جاتا ہوگا۔ آپ نے حکم دیا کہ شیشہ کے برتن میں پانی لایا جائے۔ جب وہ لایا گیا تو آپ نے ان لوگوں کے سامنے عریضہ لکھا اور شیشہ میں موجود پانی کے سپرد کر دیا اور مہمانوں سے محو گفتگو ہو گئے تھوڑی دیر بعد مہمانوں سے کہا کہ ابھی آپ کے سامنے ہی میں نے عریضہ لکھ کر اپنے مولا کی خدمت میں بھیجا۔ یہ برتن اور پانی آپ کے سامنے ہے بتائیے میرا عریضہ کہاں ہے؟ اب جو سب نے غور سے پانی میں دیکھا تو عریضہ کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اعتراض کرنے والے شرمندہ ہوئے۔ اس واقعہ میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے اگر آپ چاہتے تو عریضہ کے سلسلہ میں زبانی عقلی اور نقلی دلیلیں دے سکتے تھے لیکن آپ نے عملی نمونہ پیش کیا کہ جس کے بعد مشاہدہ کرنے والوں کے دل میں انکار تو بڑی بات شک بھی نہ پیدا ہو۔ لیکن یہ عملی نمونہ وہی پیش کر سکتا تھا اور پیش کر سکتا ہے جو نہ صرف زبان بلکہ اپنے عمل سے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے نزدیک ہو اور مستقل اپنے امام سے رابطے میں ہو۔

منقول ہے کہ کثرت مطالعہ کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا سینہ زخمی ہو گیا تھا اور مستقل درد رہتا تھا لیکن یہ درد آپ کو مطالعہ سے نہ روک سکا۔ آخر ایک دن امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا کرم ہوا اور درد کافور ہو گیا۔

تالیفات

درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور مدرسہ سلطان المدارس کے جیسے دیگر انتظامی امور میں مصروفیات کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کو تصنیف و تالیف کے لئے وقت نکال پانا مشکل تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ آپ کی ہر تالیف اپنی مثال آپ ہے جنمیں سے چند کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں: الافادات الباقریہ، مجالس باقریہ، منہج الیقین و صحیفۃ المتقین، المواعظ الباقریہ، صوب الدیم النوافث، القول المصون فی فسخ نکاح المجنون، اجوبۃ المسائل (شرعی سوالات کے جوابات)، اجوبۃ المسائل (فتاویٰ)، الروضۃ الغناء فی عدم جواز استماع الغناء ، سوال و جواب اسداء الرغایب بکشف الحجاب عن وجہ السنۃ والکتاب، تصحیح الاعمال، رسالہ صومیہ اور شہادت ولایت ۔ اسکے علاوہ آپ کی کچھ کتابیں مفقود بھی ہو گئیں ہیں۔ باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ عظیم شاعر بھی تھے۔ آپ نے عربی زبان میں اشعار کہے ہیں۔ منقول ہے کہ سلطان المدارس لکھنو کے سابق استاد سبط حسن نے ایک دن ناساز طبیعت کے سبب چھٹی کی درخواست بھیجی جو منظوم عربی زبان میں تھی۔ باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ نے منظوم عربی میں ہی درخواست کی منظوری تحریر فرمائی۔

اولاد

اللہ نے آپ کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کی۔ آیۃ اللہ سید محمد رضوی (سابق پرنسپل سلطان المدارس لکھنو) حافظ نہج البلاغہ، مفسر صحیفہ سجادیہ آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ (سابق پرنسپل سلطان المدارس لکھنو) مولانا سید رضی رضوی طاب ثراہ بڑی بیٹی آیۃ اللہ العظمیٰ سید حسن رحمۃ اللہ علیہ (ساکن کربلائے معلی عراق) کی زوجہ تھیں۔ منجھلی بیٹی آیۃ اللہ سید حسین رحمۃ اللہ علیہ کی زوجہ تھیں۔ چھوٹی بیٹی آقائے شریعت حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید کلب عابد نقوی طاب ثراہ کی زوجہ اور آفتاب شریعت مولانا سید کلب جواد نقوی صاحب قبلہ امام جمعہ لکھنو کی والدہ گرامی تھیں۔

غروب آفتاب

16 شعبان المعظم 1346 ہجری بروز جمعرات صبح دس بجے یہ آفتاب علم و عمل کربلائے معلی میں غروب ہو گیا۔ مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں قتل گاہ کے قریب دفن ہوئے [4]۔

حوالہ جات

  1. ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | آیۃ اللہ سیدمحمد باقر لکھنؤی اعلیٰ اللہ مقامہ، hawzahnews.com
  2. مولانا سید علی ہاشم عابدی، آیت اللہ علامہ سید محمد باقر رضویؒ باقر العلوم
  3. علمای ہند، آیت اللہ محمد باقر رضوی، ulamaehind.in
  4. آیت اللہ علامہ سید محمد باقر رضویؒ باقر العلوم، maablib.org

سانچہ:ہندوستان علماء