اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان

اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان قرآن اور سنت کی روشنی میں مروجہ قوانین پر نظر ثانی کے لئے نظریاتی کونسل کے قیام کو آئین کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ مشاورتی ادارہ کی حیثیت سے اہم فریضہ مجلس شوری اور صوبائی اسمبلیوں کو ایسے اقدامات کی سفارش کرنا ہے جس کے ذریعے پاکستانی مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز اس کونسل کا موجودہ چیئرمین

تعارف

اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان کا ایک اہم آئینی ادارہ ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ نظریہ پاکستان کی صحیح تعبیر و تشریح کو پاکستانی معاشرہ میں فروغ دیا جائے۔ وطن عزیز میں بنائے گئے اور نافذ کئے گئے قوانین کی تشکیل میں اسلامی تعلیمات سے روگردانی نہ ہونے پائے اور نئی قانون سازی میں قانون ساز اداروں کی رہنمائی کی جا سکے یا ممکنہ تعاون فراہم کیا جا سکے [1]۔

قیام

اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام ۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت عمل میں لایا گیا تھا جو ممتاز ماہرینِ قانون اور جید علماء کرام پر مشتمل ایک آئینی ادارہ ہے۔ اور دستور کی دفعہ ۲۳۰ کے تحت اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ اپنی تشکیل کے بعد سات سال کے اندر ملک میں رائج قوانین کا جائزہ لے کر انہیں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے سفارشات مرتب کرے۔ آئین کی رو سے ہر سال قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا پیش ہونا اور ان کے مطابق قانون سازی ضروری ہے [2]۔ اس وقت اس ادارے کا نام اسلامی مشاورتی کونسل رکھا گیا۔

1973ء کے آئین کے مطابق اس ادارے کا نام تبدیل کر کے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ دیا گیا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 228 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈھانچے کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 228 کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران آٹھ سے کم نہیں ہوں گے اور 20 سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ممبران کا تقرر صدر پاکستان کی صوابدید پر ہو گا اور وہ ایسے افراد کو نامزد کریں گے جو اسلامی قوانین اور فلسفے کو قرآن پاک اور سنت نبوی ص کے تحت سمجھتے ہوں اور انھیں پاکستان کے اقتصادی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی معاملات کے زمینی حقائق کے بارے میں مکمل آگاہی ہو [3]۔

فرائض

کونسل کے اہم فرائض حسب ذیل ہیں: مجلس شوری اور صوبائی اسمبلیوں کو ایسی سفارشات پیش کرنا جن پر عمل پیرا ہوکر مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال سکیں۔ مجلس شوری اور صوبائی اسمبلیوں کی رہنمائی کے لئے کسی مناسب شکل میں ایسے اسلامی اصولوں کو جمع کرنا جنہیں قانونی شکل دی جا سکے۔ صدر، گورنر، مجلس شوری ( قومی اسمبلی اور سینٹ) اور صوبائی اسمبلیوں کو مشورہ طلب کرنے پر مشورہ فراہم کرنا اور انہیں کسی مخصوص بل کے بارے میں مطلع کرنا کہ بل اسلام کے اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں [4]۔

اراکین

نظریاتی کونسل کے اراکین میں تمام فقہی مکاتب ِفکر کی مساوی نمائندگی ضروری ہے اور اس میں کے کم از کم چار ارکان ایسے ہوں گے جنھوں نے اسلامی تعلیم وتحقیق میں کم وبیش 15 برس لگائے ہو اور اسکے موجودہ اراکین حسب ذیل ہیں:

  • ڈاکٹر قبلہ ایاز موجودہ چیئرمین ہیں
  • ڈاکٹر قاری عبدالرشید، ممبر بلوچستان
  • ملک اللہ بخش کلیار، ممبر پنجاب
  • مولاناحافظ فضل رحیم، ممبر پنجاب
  • مولانا امدداللہ یوسفزئی، ممبر۔سندھ
  • ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، رکن حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان [5]۔

حوالہ جات

  1. محمد نصیرالحق ہاشمی، اسلامی نظریاتی کونسل، dailypakistan.com.pk
  2. اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کا مقصد اور کارکردگی، http://zahidrashdi.org
  3. سید ذکی عباس، اسلامی نظریاتی کونسل تعارف، ڈھانچہ اور ذمہ داریاں، islamtimes.org
  4. محمد اعظم چوہدری، جدید حکومتیں، 2002م، ص518
  5. اسلامی نظریاتی کونسل کے 8 ارکان کی تین سال کیلئے تقرری، jang.com.pk/news