محمد علی مرزا
محمد علی مرزا انجینئر محمد علی مرزا (انگریزی: Muhammad Ali Mirza) (پ۔ 1977ء) ایک پاکستانی محقق ہیں جو یوٹیوب کے ذریعہ درس دیتے ہیں۔ وہ بلحاظ پیشہ ایک میکینیکل انجینئر ہیں۔ان کی وجہ شہرت مذہبی تعلیمات پر مبنی بیانات ہیں۔
محمد علی مرزا | |
---|---|
پورا نام | محمد علی مرزا |
دوسرے نام | انجینئر محمد علی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش کی جگہ | پاکستان، جھلم |
مذہب | اسلام بریلوی، سنی |
سوانح عمری
سنہ 1977ء میں پنجاب کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے۔ وہ جہلم میں مشین محلہ نمبر 1 کے رہائشی ہیں۔ علی پاکستان میں مروجہ نظام کے مطابق کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں نہ ہی کوئی امامِ مسجد ہیں۔ وہ ایک سرکاری محکمہ میں انیسویں اسکیل کے انجینئر ہیں۔ وہ آن لائن مذہبی درس دیتے ہیں، جہاں وہ مختلف معاشرتی و مذہبی موضوعات پر مبنى گفتگو کرتے ہیں۔لیکن ان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ حساس موضوعات پر کھل کر بات کرتے ہیں، صحابہ کے خلاف تنقیدی الفاظ استعمال کرتے ، جبکہ ان کے خیالات سے اختلاف کرنے والے لوگ ان کے اندازِ گفتگو کو شدید تنقیدی انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کی بیشتر تقریروں پر بہت سے تنازعات کھڑے ہو چکے ہیں تاہم لوگوں میں خصوصاً نوجوان نسل میں وہ مشہور ہیں۔ علی کا دعویٰ ہے کہ ”میں مذہبی خدمات سے روزگار نہیں کماتا بلکہ اپنی تنخواہ سے اخراجات چلاتا ہوں۔“ وہ جہلم میں ایک ریسرچ اکیڈمی چلاتے ہیں. مئی 2020ء میں انہیں مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔6 مئی 2020ء کو ضمانت پر رہا ہو گئے۔
تنقید
علی نے اپنی ایک وڈیو میں قادیانیوں کو یہود اور دوسرے مذاہب سے بدتر سمجھنے کی مخالفت کی جس کے بعد ان پر قادیانیت کی حمایت کا بھی الزام لگایا گیا۔ ان کے خلاف مذہبی حلقوں کی جانب سے رد عمل آتے رہتے ہیں۔ ان پر صحابہ، اولیا اور علما کی توہین کا الزام ہے۔ علی کا دعویٰ ہے کہ ان کے موقف کی تائید میں کتب حدیث کے ساتھ ساتھ قرآن سے بھی حوالے دیے جاتے ہیں اور ناقدین ان کے جواب میں قرآن اور حدیث کے کوئی حوالے پیش نہیں کرتے۔ علی پر تنقید کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ آپ کو کسی دوسرے کے مزھب کے اکابرین کو برا بھلا کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
گرفتاری اور رد عمل
مئی 2020ء میں جہلم پولیس نے آن لائن مذہبی لیکچر دینے پر ان کو اس وقت گرفتار کیا جب ان کی ایک پرانی ویڈیو وائرل ہوئی۔ کیونکہ ان کے خلاف سیکشن 153 اے (جو کسی ایسے شخص کے خلاف لگایا جاتا ہے جو نفرت انگیز گفتگو اور کسی دوسرے کے خلاف اشتعال دلانے کا مرتکب ہو) کے تحت مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم انھوں نے جلد عدالت سے رجوع کیا اور انھیں وہاں سے چھ مئی کو ضمانت مل گئی۔ اور دو روزہ گرفتاری کے بعد ان کو رہا کیا گیا۔ علی کا موقف تھا کہ ان کے لیکچر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اپنے موقف کی تائید میں کئی کتب کے ساتھ ساتھ قرآن سے بھی حوالے دیے۔
محمد علی مرزا کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی گرفتاری اور وائرل ہونے والی ویڈیو زیر بحث آ گئیں، جس کے بعد ٹویٹر پر ان کے نام سے ٹرینڈ بھی چلنے لگے اور محمد علی مرزا کی گرفتاری پر عوام کے ردِ عمل کے ساتھ ساتھ دیگر چند نامور شخصیات کی جانب سے ٹویٹس سامنے آئیں۔ اداکار حمزہ علی عباسی نے ان کی گرفتاری پر لکھا کہ ”یاد رہے دوسروں کو ان کے عقیدوں کی وجہ سے دبانے پر ہمیں اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا، جبکہ محمد علی مرزا کی گرفتاری پاکستانیوں کے لیے ایک لمحۂ فکر ہے۔“ اینکر شفاعت علی نے اپنے ٹویٹر پر محمد علی مرزا کی گرفتاری کی مذمت کی۔ جہاں لوگوں کی بڑی تعداد ان کے حق میں اپنے سوشل میڈیا پر لکھا، وہیں دوسری طرف کچھ لوگوں کی جانب سے محمد علی مرزا کی گرفتاری کو سراہا بھی گیا اور ان پر تنقید بھی کی گئی۔[1]