حدیث کساء (حديث الكساء) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک مشہور حدیث ہے جس کی مستند روایات بے شمار کتابوں میں موجود ہیں۔ یہ حدیث حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے اور بے شمار لوگوں نے اسے مزید روایت کیا ہے جن میں جابر بن عبد اللہ انصاری نمایاں ہیں۔ یہ حدیث صحیح مسلم، صحیح ترمذی، مسند احمد بن حنبل، تفسیر طبری، طبرانی، خصائص نسائی اور دیگر کتابوں میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اسے ابن حبان، حافظ ابن حجر عسقلانی اور ابن تیمیہ وغیرہ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ یہ حدیث قرآن کی ایک آیت کی وجہ نزول بھی بتاتی ہے جسے آیہ تطہیر کہتے ہیں۔ تمام حوالوں کی فہرست نیچے درج کی جائے گی۔حدیث کساء پیغمبر خدا، علی، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام کی فضیلت میں وارد ہونے والی حدیث کو کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ زوجۂ رسول ام المؤمنین ام سلمہ کے گھر میں رونما ہوا۔ آیت تطہیر کے نزول کے وقت رسول اللہؐ اونی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور حضرت امام علی ،حضرت فاطمہ ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام بھی اس چادر تلے موجود تھے ۔ اس چادر کو "کساء" کہا جاتا تھا۔ ائمۂ شیعہ نے بارہا اپنی فضیلت اور امت مسلمہ پر ان کے حق خلافت کے اثبات کے لئے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔

اصحاب کساء

واقعۂ کساء

علامہ حلی کہتے ہیں: آیت تطہیر کا ام سلمہ کے گھر میں نزول، ایسے مسائل میں سے ہے جس پر امت اسلام کا اجماع ہے اور یہ حدیث تواتر کے ساتھ ائمہ اطہار(ع) اور متعدد صحابہ سے نقل ہوئی ہے [1].

ابن حجر کہتے ہیں: یہ آیت (آیت تطہیر) ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے [2]

اصحاب کساء

صحیح مسلم یوں نقل ہوئی ہے: عائشہ کہتی ہیں: "ایک دن رسول خداؐ باہر آئے جبکہ ایک سیاہ اون سے بُنی ہوئی منقش عبا کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے حسن آئے اور آپؐ نے انہیں عبا میں جگہ دی اور پھر حسین آئے اور آپؐ نے انہیں بھی عبا میں جگہ دی؛ بعدازاں فاطمہ(س) آئیں اور عبا میں چلی گئیں اور آخر میں امام علی(ع) آئے اور آپؐ نے انہیں بھی اپنی عبا میں جگہ دی اور فرمایا: إنّما یُریدُ اللّه‏ُ لِیُذْهِبَ عَنْکُم الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطْهِیراً [3]

جابر بن عبد اللہ انصاری نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے۔ وہ ایک بڑی یمنی چادر اوڑھ کر آرام فرمانے لگے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح نورانی تھا۔ تھوڑی دیر میں نواسہ رسول حضرت حسن بن علی گھر آئے تو انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ بعد میں انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا اور انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ کچھ دیر بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے نواسے حضرت حسین بن علی آئے۔ انہوں نے بھی نانا کی موجودگی محسوس کی سلام کیا اور چادر اوڑھ لی۔ کچھ دیر کے بعد حضرت علی ابن ابوطالب کرم اللہ وجہہ تشریف لائے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا جنھوں نے انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں بھی اجازت لے کر چادر میں داخل ہو گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چادر پکڑی اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اے خدا یہ ہیں میرے اہل بیت ہیں، یہ میرے خاص لوگ ہیں، ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے۔ جو انہیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انہیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے۔ جو ان سے لڑے میں بھی ان سے لڑوں گا اور جو ان سے صلح کرے میں ان سے صلح کروں گا۔ میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمتیں اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے لیے اور ان کے لیے قرار دے۔ ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو پاک کر بہت ہی پاک [4].[5]. [6]. [7]

شیعہ ائمہ علیہم السلام نے اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے کئی صورتوں میں حدیث قصہ کا حوالہ دیا ہے۔ بشمول: امام علی اپنے حق خلافت اور پیغمبر اکرم کی جانشینی کی ایک وجہ بیان کرتے ہوئے حدیث قصہ کا ذکر کرتے ہوئے خلیفہ کو یاد دلاتے ہیں: آیا تزکیہ کی آیت میرے اور میرے اہل و عیال اور اولاد کے لیے نازل ہوئی تھی یا آپ اور آپ کے اہل و عیال اور اولاد کے لیے؟ اس نے کہا: لیکن تم اور تمہارے گھر والے۔ اس نے کہا: خدا تم پر رحم کرے! کیا میں اور میرے اہل و عیال اور بچے قربانی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار کے تابع تھے: "اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں جو آپ کی طرف سفر کر رہے ہیں آگ کی طرف نہیں" یا آپ؟ [8]

جب اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے پر ان کی فضیلت پر فخر کر رہے تھے تو امام علی علیہ السلام نے اپنی اور اپنے اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت کے اظہار میں قصہ کی حدیث کا ذکر کیا [9]

حدیث کساء اهل تشیع منابع مین

  • تفسیر قمی [10]
  • تفسیر فرات کوفی [11].
  • مجمع البیان [12].
  • البرهان فی تفسیر القرآن [13].
  • اصول کافی [14].
  • امالی شیخ طوسی [15].
  • الاقبال سید ابن طاووس [16].
  • بحار الانوار علامه مجلسی [17].

حدیث کساء اهل سنت منابع مین

یہ حدیث بے شمار جگہ مستند روایات کے ساتھ مروی ہے۔ یہاں صرف ان مرتبین و مصنفین ایک ایسی فہرست درج ہے جنہوں نے اس حدیث کو آیت تطہیر کی شان نزول میں لکھا ہے اور اس میں پنجتن پاک کے نام لے کر ان کے حوالے سے روایت بیان کی ہے۔ یاد رہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔

  • علامہ ولی الدین محمد ابن عبد اللہ الخطیب الامری تبریزی [18]
  • علامہ فخر الدین الرازی [19]
  • علامہ جلال الدین سیوطی [20]
  • حافظ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی المعروف بہ احمد بن حنبل [21]
  • علامہ ابو عبد الرحمان احمد ابن شعیبون [22]
  • حافظ محمد ابن جریر طبری [23]
  • حافظ احمد بن حسین بن علی بیہقی [24]
  • حافظ حاکم ابوعبداللہ محمد ابن عبد اللہ نیشاپوری [25]
  • حافظ دیلمی [26]
  • حافظ ابوبکر احمد بن علی ثابت الخظیب ابغداد۔ [27]
  • علامہ محمود ابن عمر الزمخشری [28]
  • علامہ علی ابن حسین ابن عبد اللہ ابن عساکر دمشقی [29]
  • علامہ یوسف الواعظ ابن عبد اللہ المشتحربہ ابن جوزی [30]
  • شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد الذہبی [31]
  • الشیخ احمد ابن حجر المکی [32]
  • علامہ شیخ محمد ابن علی شوکانی [33]
  • شہاب الدین محمود آلوسی [34]

حوالہ جات

  1. علامہ حلی، نہج الحق وکشف الصدق، ص 174
  2. ابن حجر، صواعق المحرقہ، ص 144
  3. مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج15، ص190
  4. حدیث 5595 صحیح مسلم
  5. مسند احمد بن حنبل۔ حافظ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی۔ جلد اول صفحہ 331 مطبوعہ مصر
  6. الخصائص (نسائی) صفحہ 4۔ علامہ ابو عبد الرحمان احمد ابن شعیبون نسائی
  7. تفسیر طبری جلد 22 صفحہ 5۔ مطبوعہ مصر۔ حافظ محمد ابن جریر طبری
  8. صدوق، الخصال، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۳۳۵
  9. صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۶ق، ج۱، ص۲۷۸۔
  10. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۱۹۳.
  11. فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰ق، ص۱۱۱، ص۳۳۲-۳۳۷
  12. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۵۹
  13. بحرانی، البرهان، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۱۰۶
  14. کلینی،الکافی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۸
  15. طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ق، ص۳۶۸و۵۶۵
  16. سید ابن طاووس، الاقبال، ج 3، ص 370
  17. بحارالانوار، ج 98، ص 334
  18. مشکوۃ المصابیح۔ علامہ ولی الدین محمد ابن عبد اللہ الخطیب الامری تبریزی
  19. تفسیر معروف از علامہ فخر الدین الرازی
  20. در منثور از علامہ جلال الدین سیوطی
  21. مسند احمد بن حنبل۔ حافظ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی۔ جلد اول صفحہ 331 مطبوعہ مصر
  22. نسائی الخصائص (نسائی) صفحہ 4۔ علامہ ابو عبد الرحمان احمد ابن شعیبون نسائی
  23. تفسیر طبری جلد 22 صفحہ 5۔ مطبوعہ مصر۔ حافظ محمد ابن جریر طبری
  24. سنن الکبری جلد 2 صفحہ 149۔ حافظ احمد بن حسین بن علی بیہقی
  25. مستدرک حاکم۔ از حافظ حاکم ابوعبداللہ محمد ابن عبد اللہ نیشاپوری۔ جلد 2 صفحات 416،146،159،172
  26. کتاب الفردوس (دیلمی) از حافظ دیلمی۔ جسے صواعق نے نقل کیا
  27. تاریخ بغداد از علامہ حافظ ابوبکر احمد بن علی ثابت الخظیب ابغداد۔ جلد 10
  28. کشاف (زمخشری) جلد اول صفحہ 193۔ از علامہ محمود ابن عمر الزمخشری
  29. تاریخ دمشق (عساکر) از علامہ علی ابن حسین ابن عبد اللہ ابن عساکر دمشقی
  30. تاریخ خواص عامہ از ابن جوزی۔ علامہ یوسف الواعظ ابن عبد اللہ المشتحربہ ابن جوزی
  31. تلخیص المستدرک (ذہبی) شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد الذہبی
  32. صواعق المحرقہ از الشیخ احمد ابن حجر المکی
  33. فتح القدیر از علامہ شیخ محمد ابن علی شوکانی
  34. روح المعانی از شہاب الدین محمود آلوسی