نہج البلاغہ(کتاب)

نہج البلاغہامیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کلام کا وہ مشہور ترین مجموعہ ہے جسے جناب سید رضیؒ برادر شریف مرتضیٰ علم الہدیٰ نے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مرتب فرمایا تھا اور امام علیہ السلام کے خطبات اور خطوط کا ایک مجموعہ ہے گرچہ آپ علیہ السلام کے تمام خطبات اس میں شامل نہیں بلکہ سید رضی کچھ خطبات اور خطوط منتخب کیے تھے جن کی حیثیت مستند و مصدقہ تھی۔ اس کتاب کا مقام عربی ادب اور صحافت و بلاغت میں بہت بلند ہے۔ شیعوں کے نزدیک اسے قرآن و حدیث کے بعد اعلیٰ مذہبی مقام حاصل ہے۔

نهج‌البلاغه.jpg

تعارف

نہج البلاغہ میں علی ابن ابی طالب کے 241 خطبات، 79 خطوط اور 489 مختلف چھوٹی تقریریں اور حکمت بھری مختصر کلمات شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر ان کی اپنی خلافت کے زمانہ میں مسجد کوفہ میں دیے جانے والے خطبات ہیں۔ خطبات کے بنیادی موضوعات توحید، قیامت کی نشانیاں، دنیا کی پیدائش، حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور امام مہدی علیہ السلام کا ظہور وغیرہ ہیں۔

جارج جرداق و نہج البلاغہ

جارج جرداق ایک مشہور عیسائی عرب مصنف ہے۔ اس نے اپنی کتاب "روائع نہج البلاغہ" میں لکھا ہے کہ قرآن پاک کے بعد یہ سب سے زیادہ فصیح کلام صحیح البخاری ہے۔

دانشمندان جہان و نہج البلاغہ

معروف مصری عالم اور مفتی مصر شیخ محمد عبدہ (م: 1905 ء) نے کہا کہ : کلام اللہ اور کلام النبی کے بعد حضرت علی کا کلام سب سے بلیغ اور برگزیدہ (اشرف)ہے. عزالدین عبد الحمید ابن ابی الحدید معتزلی جو ساتویں صدی میں اہل سنت کے مشہور ترین دانشور ہیں۔

انھوں نے اس کتاب کو 20 جلدوں میں لکھا ہے اور کہا ہے کہ میں نے یہ کتاب پانچ سال سے کم میں لکھی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ میں نے یہ کتاب اتنے ہی سال میں لکھی ہے جتنے سال مولی علی (علیہ السلام) کی خلافت ظاہرہ رہی ہے ۔ انھوں نے اس سلسلہ میں نہج البلاغہ کی شرح میں بارہا کہا ہے اور نہج البلاغہ کی فصاحت و بلاغت کے سلسلہ میں بارہا سر تعظیم خم کیا ہے۔

نہج البلاغہ سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے اقوال کے مختلف مجموعات ترتیب دئے جاچکے تھے جیسے زیدبن وہب الجہنی (م:۱۶ھ)کا ترتیب کردہ ’’خطب امیر المؤمنین علیہ السلام ‘‘ ، اسی طرح الأصبغ بن نباتۃ (م:۱۰۰ ھ کے بعد) نے ایک مجموعہ ترتیب دیا تھا۔ نصر بن مزاحم النقری (م: ۲۰۲ھ) ، اسماعیل بن مہران (م:۵۰۲ھ)، الواقدی(م:۷۰۲ھ) اور مسعدۃ بن صدقۃ نے بھی حضرت علی کے اقوال کے مجموعات ترتیب دئے ہیں۔ الخطیب الراؤندی نے ایک حجازی عالم سے روایت کی ہے کہ انہوں مصر میں حضرت علی کے اقوال کاتقریباً اجزاء میں مجموعہ دیکھا ہے۔ یہ بات آقا بزرگ طہرانی نے بھی بیان کی ہے۔ اس طرح کے مختلف مجموعوں کی تعداد ( ۶۲) بتائی گئی ہے[1]۔

انھوں نے ایک جگہ (برزخ کے متعلق 221 ویں خطبہ کے ذیل میں) حضرت علی کے بعض کلام کی شرح کے بعد کہا ہے: ”و ینبغی لو اجتمع فصحاء العرب قاطبة فی مجلس و تلی علیھم ، ان یسجدوا لہ کما سجد الشعراء لقول عدی ابن الرقاع: قلم اصاب من الداوة مدادھا ․․․ فلما قیل لھم فی ذلک قالوا انا نعرف مواضع السجود فی الشعر کما تعرفون مواضع السجود فی القرآن “ ۔

اگر عرب کے تمام فصحاء ایک مجلس میں جمع ہوجائیں اور اس خطبہ کا یہ حصہ ان کے سامنے پڑھا جائے توان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس کے سامنے سجدہ کریں (جیسا کہ روایت بیان ہوئی ہے) جس وقت عرب کے شعرا نے ”عدی بن الرقاع“ کے مشہور شعر کو سنا تو اس کے لیے سجدہ کیا جب ان سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ہم شعر میں سجدہ کی جگہ کواسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح تم قرآن مجید میں سجدہ کی جگہ کوپہچانتے ہو

دوسری جگہ جب حضرت علی کے بعض کلام کا چوتھی صدی ہجری کے مشہور خطیب ”ابن نباتہ “ کے کلام سے اجمالی مقایسہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں :

”فلیتامل اھل المعرفة بعلم الفصاحة والبیان ھذا الکلام بعین الانصاف یعلموا ان سطرا واحدا من کلام نہج البلاغة یساوی الف سطر منہ بل یزید و یربی علی ذلک“۔

علم فصاحت وبلاغت سے آشنا افراد اگر علی کرمﷲ وجہہ کی اس گفتگو کو انصاف کی نظر سے دیکھیں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ نہج البلاغہ کی ایک سطر ، مشہور مولف ابن نباتہ کی ہزار سطروں سے زیادہ بہتر ہے بلکہ اس کے اوپر اس ایک سطر کو برتری حاصل ہے ۔

پھر اسی سلسلہ میں انھوں نے ایک عجیب بات کہی ہے جب یہ ابن نباتہ کے جہاد کے سلسلہ میں ایک خطبہ کو نقل کرتے ہیں جس میں حضرت علی کے خطبہ جہاد کے کلمات سے استفادہ کیا ہوا ہے ” ما غزی قوم فی عقر دارھم الا ذلوا“۔ کسی بھی قوم و ملت کے گھروں میں دشمنوں نے ان پر حملہ نہیں کیا مگر یہ کہ وہ ذلیل ہو گئے ۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں : اس جملہ میں غور و فکر کرو اور دیکھو کہ ابن نباتہ کے پورے خطبہ کے درمیان یہ جملہ کس طرح فریاد کررہا ہے اور اپنی فصاحت و بلاغت کو سننے والوں کے سامنے اعلان کررہا ہے کہ یہ اس خطبہ کے خزانہ کا حصہ نہیں ہے ، خدا کی قسم اسی ایک جملہ نے ابن نباتہ کے خطبہ کو ایسی زینت بخشی ہے جس طرح کسی خطبہ میں قرآن کریم کی ایک آیت پورے خطبہ پر نور افشانی کرتی ہے [2]۔

آخر کار ان کی بات کو ان کی کتاب کے مقدمہ میں ایک جملہ پر ختم کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : ”و امام الفصاحة فھو (علیہ السلام) امام الفصحاء و سید البلغاء و فی کلامہ قیل : دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوقین و منہ تعلم الناس الخطابة والکتابة “ ۔

ان کی فصاحت ،فصحاء اور بلغاء کی فصاحت کی سردار ہے لہذا ان کے کلام کے متعلق کہا گیا ہے : کہ یہ خالق کے کلام سے کم اور مخلوق کے کلام سے زیادہ ہے اور لوگوں نے خطابت کی راہ و رسم اسی کتاب سے سیکھی ہے [3]

جارج جرداق: لبنان کے مشہور عیسائی مصنف نے اپنی قیمتی کتاب ”الامام علی صوت العدالة الانسانیة“ میں حضرت علی (علیہ السلام) کی شخصیت کے متعلق اس طرح کہا ہے : بلاغت میں آپ کا کلام سب سے بلیغ ہے ، آپ کا کلام ، قرآن کے مقام سے کم ہے جس میں عربی زبان کی تمام خوبصورتیاں جمع ہو گئی ہیں [4] ،یہاں تک کہ مولی علی (علیہ السلام) کے متعلق کہاہے : ان کا کلام ، خالق کے کلام سے کم اور مخلوق کے کلام سے زیادہ ہے [5]۔

جاحظ جن کا شمار عرب کے بزرگ ادبا اور نوابغ میں ہوتا ہے، انھوں نے اپنی مشہور و معروف کتاب "البیان والتبیین" میں حضرت علی کے کچھ کلمات کو نقل کیا ہے اور آپ کی تعریف و توصیف بیان کی ہے ،جس وقت اپنی کتاب کی پہلی جلد میں مولی کے ایک کلمات قصار(قیمة کل امرء ما یحسنہ انسان کی قیمت وہ ہنر ہے جو اس شخص میں ہے پر پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں :

اگر اس کتاب میں صرف یہی جملہ ہوتا تو کافی تھا ، بلکہ کفایت کی حد سے زیادہ کہا ہے : کیونکہ بہترین بات یہ ہے کہ آپ کو اس کی کم مقدار ، زیادہ سے بے نیاز کر دے اور اس کا مفہوم ظاہر اور آشکار ہو ،گویا خداوند عالم نے اپنی عظمت و جلالت کا جامہ اور نور و حکمت کا پردہ اس کے اوپر ڈال رکھا ہے جو بولنے والے کی پاک و پاکیزہ نیت، بلندفکر اور بے نظیر تقوی سے سازگار ہے [6]۔

کتاب ”الطراز “ کے مصنف (امیر یحیی علوی) نے اپنی کتاب میں جاحظ کا یہ جملہ نقل کیا ہے جس میں کہا ہے : یہ مرد جو فصاحت و بلاغت میں بے مثال ہے، انھوں نے اپنے بیانات میں اس طرح کہا ہے : مولی علی علیہ السلام کے کلام کے علاوہ کبھی بھی میرے کانوںنے خدا اور پیغمبر اکرم کے کلام کے بعد ایسا کلام نہیں سنا جس کا میں نے مقابلہ نہ کیا ہو لیکن مولی علی کے کلام سے مقابلہ کرنے کی مجھ میں کبھی ہمت نہیں ہوئی۔

مولی کا ایساکلام جس میں آپ نے فرمایا : ” ما ھلک امرء عرف قدرہ“۔ جو اپنے وجود کی قیمت کو پہچان لے وہ کبھی ہلاک نہیں ہوگا ۔ ” من عرف نفسہ عرف ربہ“ ۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کوپہچان لیا ۔ ” المرء عدو ما جھل“ ۔ انسان جس چیز کو نہیں جانتا اس کا دشمن ہوتا ہے ۔ ” و استعن عمن شئت تکن نظیرہ و احسن الی من شئت تکن امیرہ و احتج الی من شئت تکن اسیرہ“۔جس سے بھی تم کچھ چاہتے ہو اس سے بے نیاز ہوجاؤ تاکہ اسی کے جیسے ہو جاؤ اور جس کے ساتھ چاہو نیکی کرو تاکہ اس کے امیر اور سردار ہوجاؤ اور جس کے چاہو اس کے محتاج ہوجاؤ تاکہ اس کے غلام اور سیر بن جاؤ !۔

اس کے بعد مزید کہتے ہیں : جاحظ اپنی اس بات میں انصاف کے ساتھ نظر کرو اوراس کی کوئی دلیل نہیں ہے مگر یہ کہ علی کرمﷲ وجہہ کی بلاغت نے ان کے کانوں کے پردے ہلا دیے ہیں اور اعجاز و فصاحت کی وجہ سے ان کی عقل حیران ہو گئی ہے ، جب جاحظ جیسے آدمی کا یہ حال ہے جن کو بلاغت میں ید بیضا حاصل ہے تو پھر دوسروں کی تکلیف واضح اور روشن ہے [7]

امام محمد غزالی نے اپنی مشہور کتاب ”نظرات فی القرآن“ میں سازجی کی سفارش کو نقل کیا ہے اس کی عین عبارت یہ ہے : ” اذا شئت ان تفوق اقراتک فی العلم والادب صناعة الانشاء فعلیک بحفظ القرآن و نہج البلاغہ“ ۔ اگرتم چاہتے ہو کہ علم ،ادب اور تحریر میں سب سے برتر و بلند ہوجاؤ تو قرآن کریم اور نہج البلاغہ کو حفظ کرنے کی کوشش کرو۔

یقینا اسی دلیل کی وجہ سے مشہور مفسر شہاب الدین آلوسی نے ( نہج البلاغہ کا تذکرہ کرتے ہوئے) کہا ہے ، اس کتاب کا یہ نام اس لیے ہے کہ یہ ایسے کلمات پر مشتمل ہے جس کے بارے میں انسان تصور کرتا ہے کہ یہ مخلوق کے کلام سے بلند اور خالق کے کلام سے کم ہے ، یہ ایسے کلمات ہیں جو اعجاز سے نزدیک ہیں اور حقیقت ومجاز میں ایجادات اور ابتکار سے کام لیا گیا ہے۔

نہج البلاغہ کے مشہور و معروف شارح شیخ محمد عبد،اہل سنت کے بزرگ اور مشہور عالم ، عرب کے مشہور مصنف نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس بات کا اعتراف کرنے کے بعد کہ نہج البلاغہ سے ان کی آشنائی اتفاقی طور پر ہوئی ہے، نہج البلاغہ کے متعلق بہت بلند مطالب بیان کیے ہیں جیسے :

میں نے جب نہج البلاغہ کے بعض صفحات کا مطالعہ کیا اور اس کی بعض عبارتوں میں غور و فکر کیا اور اس کے مختلف موضوعات پر توجہ کی تو میری نظر میں اس طرح سے مجسم ہو گیا کہ گویا اس کتاب میں عظیم جنگ بپا ہے وحکومت بلاغت کے ہاتھ میں اور قدرت فصاحت کے اختیار میں ہے ، اوہام اور نصیحتیں بے ارزش ہیں ، خطابت کی فوج اور فصاحت کے لشکر نے اوہام پر حملہ کیا ہے اور قوی دلایل کے اسلحہ سے وسوسوں اور اوہام پر حملہ کیا ہے ۔

باطل قدرت کو ہر جگہ شکست دی ہے ، شک و تردیک کو درہم و برہم کر دیا ہے، اوہام کے فتنوں کو خاموش کر دیا ،میں نے دیکھا کہ اس حکومت کا حاکم اور کمانڈر اور اس کا کامیاب علمبردار صرف اور صرف امیرالمومنین علی بن ابی طالب ہیں۔

سبط بن جوزی جو خود اہل سنت کے ایک خطیب، مورخ اور مفسر ہیں ، نے اپنی کتاب تذکرة الخواص میں ایک چھوٹا سا جملہ تحریر کیا ہے : ” وقد جمع اللہ لہ بین الحلاوة والملاحة والطلاوة والفصاحة لم یسقط منہ کلمة و لا بارت لہ حجة ، اعجزالناطقین و حاز قصب السبق فی السابقین الفاظ یشرق علیھا نور النبوة و یحیر الافھام والالباب“۔

خداوند عالم نے حلاوت، خوبصورتی اور فصاحت کے امتیازات کو حضرت علی کے وجود میں جمع کر دیا ہے ،کوئی کلمہ ان سے ساقط نہیں ہوا ہے اورکوئی حجت و دلیل ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹی ہے ۔ انھوں نے تمام خطباء کو ناتوان کر دیا ہے گو یا انھوں نے سب پر سبقت حاصل کرلی ہے ،ایسے کلمات جن پر نبوت کا نور چمک رہا ہے ، افکار و عقول ان کلمات سے حیران ہو گئے ہیں.

شیخ بہائی نے اپنے کشکول میں کتاب الجواہر سے ابو عبید کا قول نقل کیا ہے : علی (علیہ السلام) نے نو جملے کہے ہیں ، عرب کے فصیح اور بلیغ علما ان جیساایک جملہ بھی نہیں لا سکتے ، آپ نے تین جملہ مناجات میں ، تین جملہ علوم میں اور تین جملہ ادب میں بیان فرمائے ہیں پھر ان نو جملوں کی وضاحت کی ہے جن میں سے بعض نہج البلاغہ اور بعض کلمات دوسری کتابوں میں موجود ہیں [8]۔

سید رضی مؤلف نہج الطلاغہ

نے اس کتاب میں جگہ جگہ پر نہج البلاغہ کے مضامین کی عظمت کی طرف اشارہ کیا ہے جو قابل ملاحظہ ہے ، آپ اکیسویں خطبہ کے ذیل میں کہتے ہیں : ”ان ھذا الکلام لو وزن بعد کلام اللہ سبحانہ و بعد کلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بکل کلام لمال بہ راجحا و برز علیہ سابقا “ ۔ سید رضی فرماتے ہیں کہ کلام خدا و رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میں ان کا پلہ بھاری رہے گا اور ہر حیثیت سے بڑھے چڑھے رہیں گے ۔

انھوں نے اکیسویں خطبہ ”فان الغایة امامکم و ان ورائکم الساعة تحدوکم، تخفوا تلحقوا فانما ینتظر باولکم آخرکم “ ۔ تمھاری منزل مقصود تمھارے سامنے ہے ،موت کی ساعت تمھارے عقب میں ہے جو تمھیں آگے کی طرف لے جارہی ہے ،ہلکے پھلکے رہو تاکہ آگے بڑھنے والوں کو پا سکو ، تمھارے اگلوں کو پچھلوں کا انتظار کرایا جارہا ہے ۔ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کلام خدا و رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میں ان کا پلہ بھاری رہے گا ۔

کلمات قصارکی 81 ویں حکمت کے ذیل میں بھی اسی معنی کے مشابہ بیان کیے ہیں اور کہا ہے : یہ ایک ایسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہو سکتا ہے۔

  1. ڈاکٹر ظفرالاسلام خان ’حضرت علیؓ سے بغض رکھنے والا مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ہے- شائع شدہ از: 6 جون 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 جنوری 2025ء۔
  2. شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ج2، ص 84۔
  3. شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ج1، ص 24۔
  4. ترجمہ و تنقید از کتاب الامام علی ندای عدالت انسانیت
  5. الطراز، ج 1، ص 165 ۔ 168۔
  6. الطراز، ج 1، ص 165 ۔ 168۔
  7. الطراز، ج 1، ص 165 ۔ 168۔
  8. کشکول، شیخ بہائی، ج 3، ص 397۔