نقشبندیہ
نقشبندیہ سلسلہ نقشبندیہ یا طریقتِ نقشبندیہ روحانیت کے مشہور سلاسل میں سے ہے۔ اس سلسلے کے پیروکار نقشبندی کہلاتے ہیں جو پاکستان، ہندوستان کشمیر کے علاوہ وسطِ ایشیا اور ترکی میں کثیر تعداد میں آباد ہیں اور اس سلسلے کے بانی کا نام خواجہ بہاؤ الدین نقشبند تھے جو بخارہ (ازبکستان) کے رہنے والے تھے۔
نقشبندیہ | |
---|---|
نام | نقشبندیہ |
عام نام | سلسلہ نقشبندیہ |
بانی | بہاء الدین نقشبند |
نظریہ | ہمیشہ خدا کا ذکر کرنا |
ابتدائیہ
نقشبندیہ سلسلے کا قیام سب سے پہلے ترکستان میں ہوا اور یہ اپنی تعلیم محبت کے باعث ان کی اجتماعیت کا اہم جز بن گیا۔ خواجہ احمد یسوی (متوفی1166ء)اس سلسلہ کے سرخیل تھے۔ جنھیں لوگ خواجہ عطا کہتے تھے۔ ان کے بعد خواجہ عبد الخالق غجدوانی (متوفیٰ 1179ء) کے ذریعہ اس سلسلے کے روحانی نظام کو اِستحکام ملا۔ ان کے بعد بہا الدین نقشبند (1389ء-1318ء) کی ذات با برکات تھی جن کی وجہ سے اس سلسلے کو قُبولیتِ عام اور شہرت تام ملی۔ ان کی بے پناہ جدوجہد کی وجہ سے ہی آپ کے بعد اس سلسلہ کا نام سلسلۂ نقشبندیہ کے طور پر مشہور ہو گیا۔
محمد بہاء الدین نقشبند
اس سلسلے کے بانی محمد بہاالدین نقشبند کی پیدائش بُخارا شہر کے قریب ایک قصبے قصر عرفان میں 1318 میں ہوئی۔ آپ سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ نقشبندی صوفی سلسلہ وہ واحد سلسلہ ہے جس کی نسبت خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق سے ہے جبکہ باقی سلسلوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ مولا مشکل کشا سے منسوب کیا جا تا ہے۔ برصغیر(ہند و پاک) میں نقشبندیہ سلسلے کے سب سے بڑے بزرگ حضرت احمد شیخ سرہندی مجدد الف ثانی ہیں۔ بہا الدین نقشبند کے روحانی شیخ کا نام خواجہ امیر کُلال ہے جن کا مزار آپ کے مزار سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ امیر کُلال ؒ کے مزار کے علاوہ حضرت بہاالدین کے پانچ اور روحانی شیخ بھی اسی علاقے میں آرام فرما ہیں۔
شیخ احمد سرہندی
شیخ احمد سرہندی سلسلہ نقشبندیہ سے وابستگی کے لئے پوری طرح یک سو ہو گئے۔ مجدد الف ثانی 1603ءمیں پھر دہلی تشریف لے گئے اور اپنے مرشد خواجہ باقی باللہ کی خدمت اقدس میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔ بعد از آں مُجدد الف ثانی لاہور تشریف لے گئے، جہاں صوفیاءاور علماء نے ان کا دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کیا۔ لاہو رمیں قیام کے دوران آپ کو اپنے روحانی پیشوا حضرت خواجہ باقی باللہ کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی، جس پر آپ نے لاہور کا قیام مختصر کر دیا اور دہلی تشریف لے گئے، جہاں انہیں سلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی کا اعزاز عطا کیا گیااور اس حیثیت میں آپ کی دستاربندی ہوئی۔
یہ وہ گھڑی تھی جب شیخ احمد سرہندی کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور دور دور سے لوگ ان سے کسب فیض کے لئے حاضر ہونے لگے۔ انہوں نے لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے فیض یاب کیا۔ اس وقت ہندوستان میںدین اسلام کو بے شمار مسائل اور مشکلات کا سامنا تھا۔ اسلام کی تعلیمات پر ہندو دھرم کے اثرات ہویدا ہونے لگے تھے، اسلام کے اصل چہرے کو ہندومت کی دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور یہ محسوس کیا جانے لگا کہ اہل اسلام کو اسلام کی اصل تصویر سے آشنا کیا جائے۔ اکبر کا دین الٰہی بھی اپنا کام دکھانے لگا تھا۔
انہوں نے ان تمام فتنوں کے خلاف مسلمانوں کو شعور اور آگہی عطا کی۔ علمائے سوء اور بھٹکے ہوئے صوفیاء نے اپنے اپنے مفادات کے تابع شیخ احمد کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن شیخ احمد نے اپنے مرشد باقی باللہ کے سونپے ہوئے مشن اور نصب العین کو پورا کرنے کا پختہ عزم کر لیا تھا۔ اکبر اور جہانگیر کے دربار میں دوہزاری اور پنج ہزاری خلعتیں رکھنے والے متعدد درباری ان کے خلاف کھل کر سامنے آنے لگے۔
تبلیغی خدمات اور اثرات
ادھر حضرت کی تبلیغ کے ثمرات سامنے آنے لگے اور کئی اعلیٰ افسر شیخ احمد سرہندی کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ان کے مرید بن گئے۔ سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے متاثر ہو کر جہانگیر نے مجدد الف ثانی کے حامی کئی فوجی جرنیلوں کو دور دراز علاقوں میں تبدیل کر دیا اور آپ کے ایک خاص مرید جرنیل مہابت خان کو انتقام کے طور پر کابل بھیج دیا، لیکن ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آنے پائی اور انہوں نے لوگوں کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف بلانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
جہانگیر کے دربار میں حاضری
جہانگیر نے حکم دیا کہ مجدد الف ثانی ان کے دربار میں حاضر ہوں اور دربار کی روایت کے مطابق بادشاہ کو سجدئہ تعظیمی بجا لائیں۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ سجدہ صرف خدا تعالیٰ کو رواہے اور وہ اس کے سوا نہ کسی کے سامنے جھکے ہیں اور نہ جھکیں گے، کوئی فانی شخص سجدے کا سز اوار نہیں۔ بادشاہ مجدد الف ثانی کے اس اعلان حق پر مشتعل ہو گیا اور اس نے غصے میں بپھر کر یہ حکم دے دیا کہ حضرت مجدد الف ثانی کو گوالیار کے قلعہ میں بند کر دیا جائے۔ جہانگیر کے اس اقدام نے حضرت مجدد الف کے پیروکاروں کو سخت مضطرب کر دیا۔
بر صغیر پاک و ہند میں ان کی خدمات
حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا وصال63سال کی عمر میں 26نومبر1624ءکو ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے وصال سے تبلیغ، تصوف، معاشرتی اصلاح، تزکیہ و تقویٰ کا وہ سورج غروب ہو گیا جو خواجہ باقی باللہ کے بقول صوفیاء میں مانند ماہتاب تھا اور جس نے ہندوستان میں تصوف کے وہ چراغ روشن کئے، جن سے وہ آج تک منور چلا آرہا ہے۔ بعض بزرگ یہ فرماتے ہیں کہ عرب کے صحراؤں میں پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلمتوں کو اسلام کے نور سے کافور کرنے کا جو فرض سرانجام دیا تھا، ہندوستان میں ہزارہ دوم کے دوران اسے نئی زندگی اور نئی روح بخشنے کا شرف مجدد الف ثانی نے حاصل کیا۔
تجدید و اصلاح دین کے اس کام میں مجدد الف ثانی کا کوئی ثانی نہیں۔ انہوں نے اپنے مکاتیب ، دینی تصانیف اور ان کے خلفاءاور مریدوں کی تحریری کاوشوں نے متحدہ ہندوستان میں جو اب پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش پر پھیلا ہوا ہے۔ لاکھوں لوگوں کے قلوب و اذہان کو اسلام کے سانچے میںڈھالا اور انہیں اس پیغام کی طرف بلایا جو بانی اسلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہ انسانیت کو صراط مستقیم پر لانے کے لئے لوگوں تک پہنچایا تھا۔
برصغیر پاک و ہند میں نقشبندی سلسلے کے مزارات
خانقاہ عالیہ روضہ شریف برصغیر پاک و ہند میں نقشبندی سلسلے کے مزارات مقدسہ میں مقدس ترین مقام ہے۔ اس چشمہ۔ فیض کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ برصغیر کے طول و عرض سے ہزاروں افراد جوق در جوق فیض حاصل کرنے روضہ شریف آتے ہیں، اس وقت روضہ شریف کے سجادہ نشین سید محمد یحییٰ نقشبندی مجددی کے صاحبزادے سے محمد صادق رضا ہیں۔ روضہ شریف فتح گڑھ صاحب کے قریب سرہند بسی پٹھاناں روڈ پر واقع ہے[1]۔
اولیاء کے مزارات
پاکستان سے واپسی پر مُجھے دو ہفتے کے لئے قرنطینہ ہونا پڑا جس کے لئے میں نے اپنے دوست غُلام مصطفٰی کے ہمراہ اُزبکستان کا انتخاب کیا۔ اس کی ایک وجہ ان بزرگ ہستیوں کے آستانوں پر حاضری دینا بھی تھی جس کیلئے ہم تاشقند سے بذریعہ ٹرین بُخارا پہنچے۔ اُزبک گورنمنٹ نے نقشبندیہ سلسلے کے اِن صُوفی بزرگوں کے مزارات پر خاص کمپلیکس تعمیر کروا دئیے ہیں جن میں ایک حصہ مسجد ، دوسرا حصہ مزار اور تیسرا حصہ گارڈن پر مشتمل ہے۔ زائرین ان سات مزاروں پر حاضری دیتے ہیں اور روحانی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اس کے لیے اُزبک گورنمنٹ نے ایک نقشہ جاری کیا ہے جس پر ایک مزار سے دوسرے مزار کا فاصلہ اور سمت درج ہے[2]۔
وجہ تسمیہ
سلسلہ نقشبندیہ شیخ بہاء الدین محمد بن محمد بخاری سے منسوب ہے جن کا لقب نقشبند تھا۔ بعض تذکروں میں وجہ تسمیہ کپڑوں کی رنگ ریزی یا نقش اندازی بتایا گیا ہے جسے ممکن ہے حلال ذریعہ معاش کے طور پر آپ نے یا آپ کے والد نے اختیار کیا ہو اور بعض میں قلب سالک پر اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم یا اللہ تعالیٰ کے ذکر کی نقش اندازی بتایا گیا ہے۔ آپ کی ولادت بخارا سے کچھ فاصلہ پر واقع ایک گاؤں کشک ہندواں یا کو شک ہندواں میں ہوئی جسے بعد میں قصرعافاں سے موسوم کیا گیا۔
آپ کے ولادت کے تیسرے روز آپ کے جد امجد آپ کو خواجہ محمد بابا سماسی کی خدمت میں لے گئے، بابا سماسی نے آپ کی تربیت کی ذمہ داری اپنے عزیز خلیفہ خواجہ شمس الدین امیر کلال (کوزہ گر ) کے سپرد کی۔ اٹھارہ برس اس کی عمر ہوئی تو بہاء الدین نقشبند کے جد امجد کو آپ کے نکاح کی فکر ہوئی اور اس مجلس نکاح میں برکت کے نزول کی غرض سے آپ کو بابا سماسی کی خدمت میں بھیجا[3]۔
نقشبندیہ کے شاخیں
نقشبندیہ کے بانی شیخ بہاؤ الدین نقشبندی تھے۔ نقشبندیہ کی بہت سی شاخیں ہیں اور اسی طرح آج کل سلسلہ سیفیہ بھی اسی کی ایک شاخ ہے۔ جس کے بانی آخوندزادہ سیف الرحمن مبارک لاہوری ہیں۔ شیخ خالد کردی سے سلسلہ خالدیہ بنا اسی طرح سلسلہ حقانیہ یورپ میں مشہور و معروف ہے یہ بھی سلسلہ نقشبندیہ کی شاخیں ہیں۔
اسباق طریقہ عالیہ نقشبندیہ
خواجہ احمد سعید اربع انہار میں قیوم ربانی مجدد الف ثانی کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں: انسان دس لطائف سے مرکب ہے جن میں سے پانچ کا تعلق عالم امر سے ہے اور پانچ کا تعلق عالمِ خلق سے ہے۔ لطائف عالم امر یہ ہیں:
- قلب
- روح
- سر
- خفی
- اخفیٰ
لطائف عالمِ خلق یہ ہیں:
- لطیفۂ نفس اور لطائف عناصر اربعہ یعنی:
- آگ
- پانی
- مٹی
- ہوا۔
لطائف عالم امر کے اصول (مرکز) عرش عظیم پر ہیں اور لامکانیت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ان جواہر مجردہ کو انسانی جسم کی چند جگہوں پر امانت رکھا ہے۔
دنیوی تعلقات اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے یہ لطائف اپنے اصول کو بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ شیخ کامل و مکمل کی توجہ سے یہ اپنے اصول سے آگاہ و خبردار ہوجاتے ہیں اور انکی طرف میلان کرتے ہیں۔ اس وقت کشش الٰہی اور قرب ظاہر ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی اصل تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اصل کی اصل تک، یہاں تک کہ اس خالص ذات یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں جو صفات و حالات سے پاک و مبرّا ہے۔ اس وقت ان سالکین کو کامل فنائیت اور اکمل بقا حاصل ہوجاتی ہے [4]۔
اصلاحات نقشبندیہ
طریقہ نقشبندیہ کے چند اصول ہیں جن پر طریقہ نقشبندیہ کا دارومدار ہے اور ان پر عمل کیے بغیر نقشبندی سلسلہ کی نسبت حاصل نہیں ہوتی۔ اصطلاحات نقشبندیہ کے نام سے مشہور ان پرتاثیر و مفید اصول میں سے ہیں:
- ہوش دردم
- نظر بر قدم
- سفر در وطن
- خلوت در انجمن
- یاد کرد
- باز گشت
- نگہداشت
- یادداشت۔
یہ آٹھ اصطلاحات خواجۂ خواجگان حضرت عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہیں، جبکہ انکے بعد تین اور اصطلاحات
- وقوف زمانی
- وقوف عددی
- وقوف قلبی
کا خواجہ خواجگان شاہ نقشبند بخاری نے اضافہ فرمایا ہے۔ اس طرح اصطلاحات سلسلہ نقشبندیہ کی تعداد گیارہ ہے۔
تشریح اصلاحات
ہوش در دم
ہوش در دم کا مطلب یہ ہے کہ سالک اپنی ہر سانس کے متعلق ہوشیار و بیدار رہے کہ خدا کی یاد میں صرف ہو یا غفلت میں، اور یہ کوشش کرے کہ ایک سانس بھی اس کی یاد سے غفلت میں نہ گذرے۔ اس لیے چاہئے کہ ہر ساعت کے بعد اس طرح غور کرتا رہے تا وقتیکہ اسے دائمی حضور حاصل ہوجائے۔ غور کرنے پر اگر کبھی غفلت معلوم ہو تو استغفار کرے اور آئندہ کے لیے توبہ کرے اور اس سے بچنے کا پختہ ارادہ کرلے۔ دم بدم دم را غنیمت دان و ہمدم شو بدم
واقفِ دم باش در دم ہیچ دم بیجا مدم
ہر وقت ہر سانس کو غنیمت جان اور دم کے ساتھ ہمدم ہوجا۔ اپنے ہر ایک سانس سے باخبر رہ کوئی ایک سانس بھی بے مقصد نہ لے۔
حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند قدس سرہٗ نے فرمایا ہے ”اس طریقہ کا دارو مدار ہی دم یعنی سانس پر ہے۔ سانس اندر آتے یا باہر جاتے وقت غفلت میں ضایع نہ ہونے پائے۔ ہر ایک سانس حضورِ دل سے ہو۔“
نظر بر قدم
نظر بر قدم سے یہ مراد ہے کہ سالک چلتے پھرتے وقت اپنی نظر پاؤں پر یا اسکے قریب رکھے۔ آگے دور دور تک بلا وجہ نہ دیکھے اور بیٹھنے کی صورت میں اپنے سامنے دیکھے، دائیں یا بائیں نہ دیکھے۔ نہ ہی عام لوگوں کی بات چیت کی طرف متوجہ ہو کہ ممکن ہے ادھر ادھر دیکھنے سے کسی غیر محرم پر نظر پڑجائے یا نامناسب کلام سن لے اور اس طرف متوجہ ہوجائے اور مقصد اصلی سے توجہ ہٹ جائے جو کہ بہت بڑا خسارہ ہے۔
شرع شریف میں بحالت نماز قیام کے وقت سجدہ کی جگہ اور رکوع میں پشت قدم اور سجدہ میں ناک کی چوٹی پر اور قعدہ میں اپنی جھولی پر نظر رکھنے کا حکم بھی اس لیے ہے کہ نمازی کو جمعیۃ قلبی حاصل رہے اور اسکے خیالات منتشر نہ ہونے پائیں۔
سفر در وطن
سفر در وطن سے باطنی و روحانی سفر مراد ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ سالک گھر بیٹھے بری بشری صفات مثلاً حسد، تکبر، کینہ، حب جاہ و مال وغیرہ کو ترک کرکے مَلکی یعنی فرشتوں والی صفات مثلاً صبر و شکر، رضا بالقضا، اعمالِ صالحہ اور ان میں اخلاص اختیار کرلے۔ ایسا کرنے سے غیر اللہ کی محبت دل سے ختم ہوجائیگی اور روحانی ترقی حاصل ہوگی۔ اگر کبھی دل میں غیر کی محبت معلوم ہو تو اس کو اپنے لیے خسارہ کا باعث جان کر کلمہ ”لا“ سے اسکی نفی کرے اور ”الَّا اللہ“ کے کلمہ مبارکہ سے محبت الٰہی کا اثبات کرے۔
خلوت در انجمن
اس کا مطلب یہ ہے کہ سالک کا دل ہمیشہ یاد الٰہی میں مشغول رہے، خواہ خاموش ہو یا بات چیت کر رہا ہو یا کھا پی رہا ہو، لیکن اس کا دل پلک جھپکنے کی دیر بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہو۔ شاہ نقشبند فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ " رِجَالٌ لَاتُلْہِیْھِم ْتِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہ"(وہ ایسے لوگ ہیں جن کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی) اسی مذکورہ حالت کی طرف اشارہ ہے۔ یہ آیت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جس میں انکے ہر وقت ذکر کرنے اور متوجہ الی اللہ رہنے کا ذکر اور ساتھ ہی بعد والوں کے لیے اسکی ترغیب ہے۔
یاد کرد
یاد کرد کا مطلب یہ ہے کہ سالک کو مرشد کامل نے جس طرح بھی ذکر اسم ذات کی تلقین کی ہو، اسی کے مطابق ذکر میں مشغول رہے۔ خواہ وہ ذکر قلبی ہو یا جہری یانفی و اثبات۔ اس میں سستی و کوتاہی نہ کرے۔ دل کی محبت اور لگن کے ساتھ مسلسل ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ حضورِ حق تعالیٰ حاصل ہوجائے۔
بازگشت
بازگشت یعنی رجوع کرلینا اور اسکا مطلب یہ ہے سالک کچھ دیر ذکر کرنے کے بعد بارگاہ الٰہی میں یہ مناجات کرے
نگہداشت
نگہداشت کا مطلب یہ ہے کہ سالک ذہنی تصورات اور وسوسوں کو دل سے نکال باہر کردے اور ہر وقت ان خیالات و خطرات کے دل میں آنے سے بیدار و ہوشیار رہے تاکہ کوئی خطرہ دل میں جاکر گھر نہ بنالے کہ پھر اس کے نکالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ جب بیرونی خطرات و خیالات کا آنا ختم ہوجائے گا تو سالک کو ملکہ جمعیت و طمانیت یعنی ایک طرح سے سکون و فرحت حاصل ہوجائے گی اور وہ فناء قلب کا مقام حاصل کرلیگا۔ البتہ اگر پھر بھی خیالات پیدا ہوں یا زائل نہ ہوں تو سالک کو چاہیے کہ ذکر اللہ میں محو ہوجائے اور اپنے شیخ کامل و مکمل کا تصور کرلے تو انشاء اللہ تعالیٰ غیر کے خیالات اور وسوسوں سے چھٹکارہ حاصل ہوجائے گا۔
یاد داشت
نگہداشت کی مسلسل کوشش کے بعد سالک کا قلب بلاتکلف خود بخود بے مثل و بے مثال ذات حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور وہ آیت مبارکہ "وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ" یعنی وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو۔ اسے یادداشت کہتے ہیں اور یادداشت کا ملکہ حاصل ہوجانے کے بعد سالک کا دل ذکر حق میں اس قدر محو و مستغرق ہوجاتا ہے کہ خیالات کو پراگندہ و منتشر کرنیوالی چیزوں کا دل پر گذر بھی نہیں ہوتا [5]۔
برصغیر میں آمد
اکبر باشاہ کے دور میں خواجہ باقی باللہ نے نقشبندی سلسلے کو ہندوستان میں اِستحکام بخشا تھا اور ان کے حلقۂ مرید ین میں سے ایک بڑی ہی نام ور شخصیت شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانی ہیں۔ اس سلسلہ کی ترویج و اشاعت میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ تحریک تصوف میں مجدّد کی ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے شریعت اور سنت کی اِتباع پر زور دے کر رسمی طور پر داخل ہو جانے والے غیر اِسلامی عناصر کو اسلا می فکر سے بالکل الگ کردیا۔
انہوں تحریک تصوف میں پھر سے نئی جان ڈال دی تھی اور اس سلسلے کے مشہور بزرگوں نے مثلاً: خواجہ محمد معصوم خواجہ سیف الدین، شاہ ولی اللہ، مرزا مظہر جان جاناں اور شاہ غلام علی دہلوی، خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری، میاں شیر محمد شرقپوری، دور حاضر میں سید میر طیب علی شاہ بخاری، گنج عنایت خواجہ سید عبدالمالک شاہ سید محمد اسماعیل شاہ بخاری خواجہ نور محمد فنا فی الرسول بابا نظام الدین اولیاء کیانوی وغیرہ نے سلسلے کی ترویج و اِشاعت میں بے حد کامیاب کوششیں کیں۔
اسلام کو پھیلانے میں سلسلہ نقشبندیہ کے اسلاف کا اہم کردار
ادارہ تعلیمات اسلامیہ راولپنڈی کے زیر اہتمام ہفتہ وار محفل صدائے محراب میںبرصغیر کی تاریخ پر سلسلہ نقشبندیہ کے دعوتی اثرات کے عنوان پر محفل کا انعقاد کیا گیا، سرپرست اعلی علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ نے اپنے خطاب میں کہا اسلام کو پھیلانے اور تزکیہ نفس میں سلسلہ نقشبندیہ کے اسلاف کا اہم کردار رہا ہے۔ آپ کے اصولوں کی روشنی مقام انسانیت کو متعین کرتی ہے۔ تمام سلاسل کی عظمت یہ ہے کہ ان سے وابستہ ہستیوں کا تعلق سادات کے گھرانے سے رہا ہے اور نقشبندیوں کے وجود میں اللہ نے بردباری، للہیت اور کثرت ذکر رکھ دی ہے۔ خواجہ بھاؤالدین نقشبند ہر وقت ذکر میں مشغول رہتے تھے اور ان کا قول ہے کہ نفس مرشد کی توجہ اور اللہ کے ذکر سے ٹھیک ہوتا ہے[6]۔
سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے پیر دین اسلام تبلیغ کے لیے برطانیہ کے دورہ پر
سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے امیر پیر عبد القدیر اعوان دین اسلام تبلیغ کے لیے برطانیہ کے دورہ پر۔ برطانیہ کے شہر شیفیلڈ میں سراج المنیرا کانفرنس کے تحت ممتاز کاروباری کمیونٹی و مذہبی شخصیت محمد یوسف کی رہائش گاہ پر روحانی محفل کا انعقاد ہوا اہل ایمان کی بھرپور شرکت کی۔ امیر پیر عبد القدیر اعوان نے کہا کہ نوجوان نسل کے ساتھ والدین کو اپنا وقت دینا چاہیے تاکہ وہ منفی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنیں۔ آقائے کائنات بھی اپنے نواسوں کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا ہم آقائے کائنات کے امتی ہیں انکے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے ہی ہماری نجات ہے۔
مولانا محمد یوسف نے کہا: کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے روحانی محفل میں شرکت کی اور پیر عبد القدیر اعوان کے بیان سے استفادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں ہم جسمانی اور ذہنی طور پر اپنا علاج کرواتے ہیں اور روحانیت سے دور ہیں۔ پیر عبد القدیر اعوان ہمیں اسکی تعیلم دیتے ہیں جس پر ہم انکے مشکور ہیں۔ جہانگیر خان کا کہنا تھا کہ قبلہ پیر عبد القدیر اعوان کے بیان سے نوجوانوں کو سیکھنے کا موقع ملا۔ معاشرے کے بہتر شہری بننے کے لیے ہم سب کو سیکھنے کا بھی موقع ملا۔ عمران مرزا زاکھیان اور عمیر حسین نے کہا کہ پیر عبد القدیر اعوان نے ہمیں آقائے کائنات کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا درس دیا اسی سے ہماری نجات ہے اور پیر صاحب نے مذہب سے بالاتر ہو کر معاشرے کے لیے مفید شہری بننے کی بھی تلقین کی[7]۔
- ↑ سر ہند شریف، اللہ والوں کی سرزمین(2)-dailypakistan.com.pk- شائع شدہ از: 12جون 2013ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29مئی 2024ء۔
- ↑ نقشبندی صُوفی سلسلہ-siasat.pk/threads-شائع شدہ از: 8ستمبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29مئی 2024ء۔
- ↑ سلسلہ نقشبندیہ-falahemillat.com-اخذ شدہ بہ تاریخ:27مئی 2024ء۔
- ↑ اسباق طریقہ عالیہ نقشبندیہ-islahulmuslimeen.org-اخذ شدہ بہ تاریخ: 27مئی 2024ء۔
- ↑ اصطلاحات طریقہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ-islahulmuslimeen.org-شائع شدہ از: 20 اپریل 2010ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:29مئی 2024ء۔
- ↑ اسلام کو پھیلانے ، تزکیہ نفس میں سلسلہ نقشبندیہ کے اسلاف کا اہم کردار رہا ہے، پیر سید ریاض حسین شاہ-nawaiwaqt.com.pk-شائع شدہ بہ تاریخ : 25فروری 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27مئی 2024ء۔
- ↑ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے امیر حضرت پیر عبد القدیر اعوان دین اسلام تبلیغ کے لیے برطانیہ کے دورہ پر ہیں-undergroundnews.co.uk-شائع شدہ از:17جون 2023ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 27مئی 2024ء۔