نقشبندیہ سلسلہ نقشبندیہ یا طریقتِ نقشبندیہ روحانیت کے مشہور سلاسل میں سے ہے۔ اس سلسلے کے پیروکار نقشبندی کہلاتے ہیں جو پاکستان، ہندوستان کشمیر کے علاوہ وسطِ ایشیا اور ترکی میں کثیر تعداد میں آباد ہیں اور اس سلسلے کے بانی کا نام خواجہ بہاؤ الدین نقشبند تھے جو بخارہ (ازبکستان) کے رہنے والے تھے۔

ابتدائیہ

نقشبندیہ سلسلے کا قیام سب سے پہلے ترکستان میں ہوا اور یہ اپنی تعلیم محبت کے باعث ان کی اجتماعیت کا اہم جز بن گیا۔ خواجہ احمد یسوی (متوفی1166ء)اس سلسلہ کے سرخیل تھے۔ جنھیں لوگ خواجہ عطا کہتے تھے۔ ان کے بعد خواجہ عبد الخالق غجدوانی (متوفیٰ 1179ء) کے ذریعہ اس سلسلے کے روحانی نظام کو اِستحکام ملا۔ ان کے بعد بہا الدین نقشبند (1389ء-1318ء) کی ذات با برکات تھی جن کی وجہ سے اس سلسلے کو قُبولیتِ عام اور شہرت تام ملی۔ ان کی بے پناہ جدوجہد کی وجہ سے ہی آپ کے بعد اس سلسلہ کا نام سلسلۂ نقشبندیہ کے طور پر مشہور ہو گیا۔

وجہ تسمیہ

سلسلہ نقشبندیہ شیخ بہاء الدین محمد بن محمد بخاری سے منسوب ہے جن کا لقب نقشبند تھا۔ بعض تذکروں میں وجہ تسمیہ کپڑوں کی رنگ ریزی یا نقش اندازی بتایا گیا ہے جسے ممکن ہے حلال ذریعہ معاش کے طور پر آپ نے یا آپ کے والد نے اختیار کیا ہو اور بعض میں قلب سالک پر اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم یا اللہ تعالیٰ کے ذکر کی نقش اندازی بتایا گیا ہے۔ آپ کی ولادت بخارا سے کچھ فاصلہ پر واقع ایک گاؤں کشک ہندواں یا کو شک ہندواں میں ہوئی جسے بعد میں قصرعافاں سے موسوم کیا گیا۔

آپ کے ولادت کے تیسرے روز آپ کے جد امجد آپ کو خواجہ محمد بابا سماسی کی خدمت میں لے گئے، بابا سماسی نے آپ کی تربیت کی ذمہ داری اپنے عزیز خلیفہ خواجہ شمس الدین امیر کلال (کوزہ گر ) کے سپرد کی۔ اٹھارہ برس اس کی عمر ہوئی تو بہاء الدین نقشبند کے جد امجد کو آپ کے نکاح کی فکر ہوئی اور اس مجلس نکاح میں برکت کے نزول کی غرض سے آپ کو بابا سماسی کی خدمت میں بھیجا[1]۔

اسباق طریقہ عالیہ نقشبندیہ

خواجہ احمد سعید اربع انہار میں قیوم ربانی مجدد الف ثانی کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں: انسان دس لطائف سے مرکب ہے جن میں سے پانچ کا تعلق عالم امر سے ہے اور پانچ کا تعلق عالمِ خلق سے ہے۔ لطائف عالم امر یہ ہیں:

  • قلب
  • روح
  • سر
  • خفی
  • اخفیٰ

لطائف عالمِ خلق یہ ہیں:

  • لطیفۂ نفس اور لطائف عناصر اربعہ یعنی:
  • آگ
  • پانی
  • مٹی
  • ہوا۔

لطائف عالم امر کے اصول (مرکز) عرش عظیم پر ہیں اور لامکانیت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ان جواہر مجردہ کو انسانی جسم کی چند جگہوں پر امانت رکھا ہے۔

دنیوی تعلقات اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے یہ لطائف اپنے اصول کو بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ شیخ کامل و مکمل کی توجہ سے یہ اپنے اصول سے آگاہ و خبردار ہوجاتے ہیں اور انکی طرف میلان کرتے ہیں۔ اس وقت کشش الٰہی اور قرب ظاہر ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی اصل تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اصل کی اصل تک، یہاں تک کہ اس خالص ذات یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں جو صفات و حالات سے پاک و مبرّا ہے۔ اس وقت ان سالکین کو کامل فنائیت اور اکمل بقا حاصل ہوجاتی ہے۔

برصغیر میں آمد

اکبر باشاہ کے دور میں خواجہ باقی باللہ نے نقشبندی سلسلے کو ہندوستان میں اِستحکام بخشا تھا اور ان کے حلقۂ مرید ین میں سے ایک بڑی ہی نام ور شخصیت شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانی ہیں۔ اس سلسلہ کی ترویج و اشاعت میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ تحریک تصوف میں مجدّد کی ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے شریعت اور سنت کی اِتباع پر زور دے کر رسمی طور پر داخل ہو جانے والے غیر اِسلامی عناصر کو اسلا می فکر سے بالکل الگ کردیا۔

انہوں تحریک تصوف میں پھر سے نئی جان ڈال دی تھی اور اس سلسلے کے مشہور بزرگوں نے مثلاً: خواجہ محمد معصوم خواجہ سیف الدین، شاہ ولی اللہ، مرزا مظہر جان جاناں اور شاہ غلام علی دہلوی، خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری، میاں شیر محمد شرقپوری، دور حاضر میں سید میر طیب علی شاہ بخاری، گنج عنایت خواجہ سید عبدالمالک شاہ سید محمد اسماعیل شاہ بخاری خواجہ نور محمد فنا فی الرسول بابا نظام الدین اولیاء کیانوی وغیرہ نے سلسلے کی ترویج و اِشاعت میں بے حد کامیاب کوششیں کیں۔

  1. سلسلہ نقشبندیہ-falahemillat.com-اخذ شدہ بہ تاریخ:27مئی 2024ء۔