اخوان المسلمین شام

اخوان المسلمین شام ایک اسلام پسند سنی تنظیم هے- جو مصر کی بین الاقوامی تنظیم اخوان المسلمین کا شاخ هے ۔ یه تنظیم شام کے سیاسی اور ثقافتی حالات پر گهری نظر رکھتی هے اور تنظیمی ڈھانچه اور نظم کے اعتبار سے ایک منظم تنظیم هے ۔ شام پر مسلط سیاسی نظام کے مخالف هونے کے باوجود اس تنظیم نے شام کے تمام سیاسی اور معاشرتی امور پر گهرا اثر چھوڑا هے . اس تنظیم پر پابندی اور اهم ممبران اور راهنماوں کی جلاوطنی کے با وجود شام میں هونے والی خانه جنگی کے ایک سال بعد اس نے شام کی قومی اسمبلی کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا هے ۔ اخوان المسلمین کے ممبران همیشه شام کی حکومت کے بڑےبڑے عهدوں پر فائز رهے هیں۔ [1]

اخوان المسلمین شام
اخوان المسلمین سوریه.png
قیام کی تاریخ1949 ء، 1327 ش، 1367 ق
بانی پارٹیمحمد ریاض الشقفه
پارٹی رہنما
  • اسلام مخالف عناصر سے مقابله
  • محمد فاروق طیفور
  • محمد حاتم الطبشی
  • علی صدرالدین البیانونی
  • محمود یونس الشریبنی
  • جلال‌الدین ابراهیم سعده
مقاصد و مبانی
  • اسلام مخالف عناصر سے مقابله
  • سماجی اور سیاسی امور میں اسلامی احکام کا نفاذ

تاسیس

اخوان المسلمین کے نظریات کی بنیاد ، ان طلبا ء کے توسط سے رکھی گئی جو مصر کے دارالحکومت قاهره سے- اخوان المسلمین مصر کے بانی حسن البنا کے نظر یات سے متاثر هو کر واپس شام آئے تھے . انهی طلبا میں سے ایک مصطفی سباعی تھے تاهم مصطفی سباعی نے شام کے شهر حلب میں اخوان المسلمین مصر کی پیروی کرتے هوئے سنه 1945ء کو شام پر قابض فرانسیسی استعمار سے مقابله کرنے، شام کی معیشتی صورت حا ل کو درست کرنے اور عرب دنیا کے حلفشار کو اسلام کےاحیاء کے زریعے دور کرنے کی خاطر اخوان المسلمین شام کی بنیاد رکھی ۔ السباعی اپنی تحریک کو ایک نیا انقلاب تصور کرتا تھا جس کا هدف- اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔

حقیقت میں شام کی اخوان المسلمین تنظیم کی تشکیل کا آغاز سنه 1930ء میں فرانسیسی استعمار کے خلاف هوا - سنه 1935 ء کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں اخوان المسلمین مصر کے اهداف کو مصر سے باهر فروغ دینے پر گفتگو کی گئی جس کے نتیجے میں اسلامی ممالک میں اسی نظریه سے متاثر افراد کی جدو جهد سے مختلف ناموں کی تنظیمیں وجود میں آئیں اور مصر کی اخوان المسلمین تنظیم کے سربراه حسن البنا کے نظریات سے متاثر طلبا شام کے قدیم شهروں جیسے دمشق، حمص اور حلب میں چھوٹی تنظیموں کی تشکیل میں کامیاب هوئے ۔ جب شام میں ایک منظم تنظیم کی تشکیل کے مقدمات فکری اور نظریاتی طور پر فراهم هوئے تو اخوان المسلمین کے راهنماؤں نے سنه 1944ء میں منعقده کانفرانس میں- اخوان مسلمین شام کی تشکیل کو یقینی بنائی اور اس کانفرانس میں جمعیت جوانان محمد نامی تنظیم کو اخوان المسلمین کے نام پر متحد کرنے اور مصطفی السباعی جو که جمعیت انجمن دینی کے سکریٹری جنرل تھے- اخوان المسلمین کے سرپرست اعلی کے طور پر مقرر کرنے کی بات طے هوگئی ۔ اس طرح اس تنظیم کی بنیاد وں کو نیے سرے سے تعمیر کی گئی اور تنظیمی ڈھانچے پر نظر ثانی کی گئی اور اس نے ایک فلاحی گروپ سے نکل کر ایک مکمل پارٹی کی شکل اختیار کی اور سنه 1945 ء کو با قاعده طور پر اپنی سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

اخوان المسلمین شام نے ترقی کے مراحل تیزی سے طے کی یها ں تک که جب سنه 1949 میں اخوان المسلمین مصر کے موسس حسن البنا کا قتل هوا تو اس تنظیم کے تمام ممبران اور حامیوں کی نگاه اخوا ن مسلمین شام کی طرف گئی اور مصطفی السباعی تنظیم کے سرابراه کے طورپر منتخب هونے والے امید واروں میں پهلے نمبر پر تھے۔ [2]

شام کی اخوان المسلمین تنظیم پر انقلاب اسلامی ایران کے اثرات

ایران میں انقلاب اسلامی اس وقت وقوع پذیر هوا جب دنیا میں کوئی بھی- دین کو ایک آئیڈیالوجی کے طور پر ماننے کو تیار نهیں تھا اور صرف دو آئیڈیالوجی سوشلزم سوشلزم اور لبرلزم کی تحت کائنات کی تفسیر هوتی تھی اور سب لوگ تمام سیاسی ، معیشتی اور سماجی امور میں انهی دو نظریات کی پیروی کرتے تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اسلام کو سیاسی اور اجتماعی میدان میں ایک مکمل آئیڈیالوجی کے طور پر متعارف کرایا۔ کیونکه یه انقلاب اسلامی نظریات کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا لهذا اس نے دین کو- انسانی سماج کے تمام سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی امور میں موثر نظریے کے طورپر متعارف کرایا۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے نه صرف شما لی افریقا اور مشرق وسطی میں موجود اسلامی دنیا کے تمام تحریکوں اور نهضتوں میں ایک نیا شوق اور جذبه پید ا کیا اور ان کو جمود اور مایوسی سے نکال کر بلند اهداف تک پهنچنے کے لئے پر امید بنا یا بلکه مسلم ممالک میں بهت ساری موثر تحریکوں اور نهضتوں کی تاسیس کا باعث بنا۔ ایران کےاسلامی انقلاب نے شام کی اخوان المسلمین تنظیم پر غیر مستقیم طور پر اثرات چھوڑا وه اس طرح که اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اخوان المسلمین مایوسی اور نا امیدی سے نکل کر پر امید انداز میں اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کو وسیع پیمانے پر سرانجام دینے کے لئے پر عزم هوئی اور خاص کر ظالم حکمرانوں سے مقابله کرنے اور استعماری طاقتوں سے جهاد کرنے کا نیا راسته اپنایا اور بعث حکومت کے خلاف ان کی کاروائیوں میں جدت اور حدت دیکھنے کو ملتی هے. اخوان المسلمین شام کے راهنماؤں نے شروع سے هی اسلامی انقلاب کی حمایت کا اعلان کیا ۔ سنه 1980ء کو النذیر نامی رسالے میں ایک بیان منتشر هوا اس میں اخوان المسلمین شام کی طرف سے کها گیا تھا که ایران کے اسلامی انقلاب اسلامی دنیا کےتمام نهضتوں کا انقلاب هے اگر چه ان نهضتوں کا مکتب فکر مختلف هی کیوں نه هو۔ اس بیان کے میں یه بھی آیا تھا که ایران کے اسلامی انقلا ب سے کسی قسم کی خیانت- تمام مسلم تحریکوں کے لئے نقصان کا باعث هے۔ کها گیا تھا که هم ایران میں امریکا کے سفارت کاروں کی گرفتاری کی حمایت کرتے هیں اور امریکا کو اسلامی انقلاب کے خلاف جنگ بند کردینی چاهئے۔۔۔ شام کی اس اسلامی تحریک نے تاکید کی تھی که امام خمینی کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب نے مسلمانوں کے درمیان وحدت کا بهترین نمونه پیش کیا جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نهیں ملتی۔ اخوان المسلمین شام نے پهلی بار اپنے لئےانقلاب کا لفظ استعمال کیا اور اپنے نشریات میں "شام کے اسلامی انقلاب" جیسی عبارتوں کا استعمال ان کا ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر هونے کی دلیل هے۔ [3]

حوالہ جات

  1. جماعةالإخوان المسلمين في سورية (شام کی اخوان المسلمین تنظیم)-carnegie-mec.org (زبان عربی)- تاریخ اخذ شده به تاریخ 17 اپریل 2024ء-
  2. تقوی، لیلا- وحید فر، سعیده ، بررسی نقش اخوان المسلمین در تحولات سیاسی سوریه ص 74تا 76۔
  3. بازتاب انقلاب اسلامی بر جنبش اخوان المسلمین سوریه (شام کے اخوان المسلمین تنظیم پر انقلاب اسلامی کے اثرات )-https://www.sid.ir(زبان فارسی)- درج شده به تاریخ 1391- اخذ شده به تاریخ 20 اپریل 2024ء-