مسودہ:گلگت

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 05:57، 15 دسمبر 2023ء از Heydari (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («== گلگت == شمالی علاقہ جات دور دارز اور دنیا کے بلندترین علاقوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے زمانہ قدیم میں دنیا سے اوجھل رہے۔ یہ خطہ اپنے جغرافیائی لحا‍‍ظ سے دنیا کے ایسے حصے میں واقع ہے، جو انتہائی اہم ہے۔ زمانہ عتیق میں وسط ایشیاء اور چین کو دنیا س...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

گلگت

شمالی علاقہ جات دور دارز اور دنیا کے بلندترین علاقوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے زمانہ قدیم میں دنیا سے اوجھل رہے۔ یہ خطہ اپنے جغرافیائی لحا‍‍ظ سے دنیا کے ایسے حصے میں واقع ہے، جو انتہائی اہم ہے۔ زمانہ عتیق میں وسط ایشیاء اور چین کو دنیا سے ملانے والا یہ واحد راستہ تھا۔ آزادی سے پہلے یہ علاقے دنیا کی تین بڑی سلطنتوں، چین، روس، اور ہندوستان کے مابین بحیثیت بفر سٹیٹ (Buffer State) واقع تھے۔ انگریزوں کی جب کشمیر کے بارے میں ڈوگروں سے سودے بازے ہو گئی تو گلگت بلتستان کے علاقے ڈوگروں کی تحویل میں چلے گئے، لیکن یہاں کی ریاستیں بدستور یہاں کے میروں اور راجوں کے قبضے میں رہیں۔ 1935ء میں ان علاقوں کی سرحدوں کی حفاظت کے تناظر میں انگزیوں ںے گلگت بلتستان کو 60 سالہ لیز پر ڈوگروں سے حاصل کر لیا اور یہاں پر مقامی جوانوں پر مشتمل ایک ملیشیا فوج گلگت سکاؤٹسکے نام سے بنا ڈالی، جس نے یکم نومبر 1947ء کو یہاں علم بغاوت بغاوت بلند کرتے ہوئے ڈوگروں کی غلامی کا طوق اتار پھینکا [1]۔ مہاراجہ کی فوج متعین بونجی کے سکستھ کشمیر انفنٹری کے کیپٹن حسن خان (بعد میں ریٹائرڈ کرنل) نے گلگت کی آزادی کے بعد پاکستان سے الحاق کرنے بجائے گلگت بلتستان کو ایک الگ شیعہ ریاست بنانے کی کوشش کی تھی، جس کے لیے اس نے باقاعدہ ایک عبوری کیبنٹ بھی تشکیل دی تھی۔

مذہبی صورتحال

یہ علاقے اپنے حدود اربعہ کے لحاظ سے سنی فرقہ سے تعلق رکھنے والی آبادیوں میں گھرے ہوئے ہیں، جو کچھ یوں ہے کہ گلگت سے پاکستان کی جانب اگر باہر نکلیں تو گلگت کے مضافاتی گاؤں سکوار کے بعد سنی علاقہ شروع ہوجاتا ہے، جبکہ دوسری جانب بلتستان کے لوگ بے شک شیعہ ہیں، لیکن بلتستان اس پار کشمیر بھی سنیوں کا علاقہ ہے۔ علاوہ از این تیسری طرف ضلع غذر میں بھی زیادہ آبادی اسماعیلی اور سنی فرقوں کی ہے، شیعہ تعداد میں کم ہیں، جبکہ ضلع غذر کی سرحدوں کی ایک طرف چترال میں بھی اسماعیلی اور سنی ہی آباد ہیں اور دوسری جانب روس واقع ہے۔ بلاشک کہ گلگت کی چوتھی جانب ریاست نگر شیعوں کی ہے، لیکن اس کے سامنے ریاست ہنزہ کی آبادی اسماعیلی ہے، جہاں ان کے مقابلے میں شیعہ انتہائی قلیل ہے، جبکہ ان دونوں ریاستوں اک سرحدیں

  1. میجر ولیم الیگزنڈر براؤن، بغاوت گلگت، مترجم، ظفر حیات پال، 2009ء،ص29