سید حسن نصر اللہ

ویکی‌وحدت سے

{{Infobox person | title = سید حسن نصر اللہ | image = | name = سید حسن نصر اللہ | other names = سید مقاومت | brith year = 1960 | brith date = | birth place = لبنان | death year = | death date = | death place = | teachers = سید عباس موسوی | students = | religion = اسلام | faith = شیعہ | works = {{افقی باکس کی فہرست}

| known for =

  • حزب اللہ

}}

سوانح عمری

سید حسن نصر اللہ 1960ء میں جنوبی لبنان میں بیروت کے قریب ایک کیمپ میں ایک غریب خاندان کے گھر میں پیدا ہوا۔ آپ کے والد سید عبد الکریم پھیری لگا کر سبزی اور پھل فروخت کیا کرتے تھے۔ مالی حالت بہتر ہونے پر انہوں نے اپنے گھر کے قریب پھل اور سبزیوں کی ایک دکان کھول لی۔ ان کے والد نے دکان میں امام موسی صدر کی ایک تصویر آویزاں کر رکھی تھی۔ نصر اللہ فارغ وقت میں اپنے والد کا کاروبار میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ آپ دکان پر بیٹھنے کے دوران امام موسی صدر کی تصویر کو بڑے غور سے دیکھا کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا دھیان اس تصویر پر رہا کرتا تھا۔ سید نصر اللہ کے بقول تصویر کو دیکھنے کے دوران وہ خوابوں کی وادی میں اتر جایا کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ امام صدر کے نقش قدم پر چلیں۔

سید حسن بچپن سے ہی اپنے ہم عمر بچوں سے مختلف تھے۔ وہ عام بچوں کی طرح فٹ بال کھیلنے یا تیراکی میں کو‏ئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے بچپن کے زمانے میں قارطینہ میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت نواحی علاقوں سن الفیل، باروج، حمود اور نابع کے علاقے میں موجود مساجد میں گزارتے تھے۔ اپنے خاندان کے باقی ارکان کے برعکس وہ انتہائی مذہبی نوجوان تھے۔ جب حسن کی عمر نو سال ہوئی تو بیروت کے شہر کے شہداء چوک میں سڑک کے فٹ پاتھوں پر ایرانی کتابوں کی دکانوں سے کتابیں خریدا کرتے تھے۔ ہر وہ کتاب پڑھنے کے شوقین تھے جو اسلام کے بارے میں ہو جب وہ ایک کتاب پڑھتے ہو‎‎ئے تھک جاتے تو اسے دوسری طرف رکھ کر نئ کتاب پڑھنا شروع کر دیتے۔ کتابیں پڑھتے پڑھتے یہ بچہ ایک خصوبصورت نوجوان میں تبدیل ہو گیا [1]۔

تعلیم

انہوں نے نجف سکول سے میڑک کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران 1975ء میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ان کا خاندان قاراطینہ سے ہجرت کرکے اپنے آبائی گاؤں منتقل ہو گیا۔ حسن نصر اللہ نے صور پبلک سکول سے بارہویں کا امتحان پاس کیا۔

تنظیمی زندگی

قاراطینہ سے ہجرت سے قبل ان کا خاندان ایک غیر سیاسی خاندان تھا۔ حالانکہ اس زمانے میں اس علاقے میں بہت ہی فلسطینیوں اور لبنانی سیاسی پارٹیاں سرگرم تھیں۔ بصوریہ میں قیام کے دوران انہوں نے الامل میں شرکت کرلی۔ الامل میں شرکت کا فیصلہ ایک فطری عمل تھا کیونکا وہ امام موسی صدر کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے۔ 15 سالہ لڑکا جلد ہی الامل میں اہم مقام حاصل کر گیا۔ انہیں تنظیم نے ان کے گاؤں کا نمائندہ منتخب کرلیا۔

حوزہ علمیہ نجف میں

صور کی مسجد میں ان کی سید محمد الغاراوی سے ملاقات ہوئی جو اس زمانے میں مسجد سے ملحقہ مدرسے کے سرابراہ تھے۔ انہوں نے الغاراوی سے عراق کے شہر نجف میں واقع ممتاز مذہبی تعلیم کے ادارے اہواز میں قرآنی تعلیمات کے حصول کے لیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اہواز کے مدرسے کی خوبی یہ ہے کہ وہاں ہر طالب علم کو اپنی مرضی کے مطابق استاد کے انتخاب کا حق حاصل ہوتا ہے۔ الغاراوی ممتاز عراقی مذہبی راہنما سید محمد باقر الصدر کے دوست تھے۔ انہوں نے نو عمر طالب علم کو ان کے نام کا ایک سفارش خط دیا۔ وہ بذریعہ ہوائی جہاز بغداد اور وہاں سے بس میں بیٹھ کر نجف پہنچے جب وہ نجف پنہچے تو ان کے پاس روٹی کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔

اس اجنبی شہر میں اللہ کے سوا کسی کی مدد حاصل نہ تھی۔ حسن نصر اللہ کے بقول اللہ ہمیشہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے جو انکساری اور پاکپازی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ پانی کےساتھ روٹی کھاتے اور مسجد کی صف پر رات کو سوتے۔ اہواز پہنچنے پر لبنانی شہریوں سے ملاقات کی اور سید محمد باقر الصدر تک خط پہنچانے کے طریقے کے بارے میں دریافت کرنا شروع کیا۔ ان کے ہم وطنوں نے مشورہ دیا کہ سید عباس موسوی واحد شخصیت ہیں جو سفارشی خط سید صدر تک پہنچا سکتے ہیں۔ انہون نے موسوی سے ملاقات کا فیصلہ کرلیا۔ پہلی نظر میں گہری رنگت کے حامل موسوی انہیں عراقی لگے۔ انہوں نے نہایت کلاسیک عربی زبان میں ان سے گفتگو شروع کی۔ موسوی کو جلد اندازہ ہو گیا کہ نوارد شاگرد انہیں عراقی تصور کر رہا ہے۔ انہوں نے سید حسن کو کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ لبنانی ہیں۔ نصر اللہ کی خواہش پر سید باقر الصدر نے موسوی کو ان کا استاد مقرر کیا۔ سید محمد الغاراوی کے سفارشی خط دیکھنے کے بعد شہید صدر نے ان سے پوچھا کہ ان کے پاس ضروریات زندگی کے لیے پیسے ہیں؟ حسن نصر اللہ نے جواب دیا کہ ان کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ نصر اللہ کا جواب سن کر شہید صدر نے موسوی کو ہدایت کی انہیں رہنے کے لیے کمرہ مہیا کیا جائے اور ان کا خیال رکھا جائے۔ پھر سید باقر الصدر نے کپڑے اور کتابیں خریدنے کے لیے انہیں پیسے دئیے اور ان کی ضروریات زںدگی کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا۔

جید علماء سے ملاقاتیں

حسن نصر اللہ نے جید علماء اور سیاسی شخصیت سے ملاقاتیں کیں، ان میں روح اللہ خمینی جیسی عہد ساز شخصیت بھی شامل ہے۔ نجف میں قیام کے دوران مقتدی الصدر کے والد سید صادق الصدر سے بھی ملاقات ہوئی جو ان کے استاد تھے۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات آیت اللہ سید علی سیستانی سے بھی ہوئی۔

شادی

انہوں نے 1979ء میں شادی کی، ان کی بیوی کی ننھیالی عزیزہ ہیں، ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے ہادی نے 1997ء میں جنوب لبنان میں یہودیوں سے ایک جھڑپ میں جام شہادت نوش کیا۔

عراق سے ملک بدر

1978ء میں عراقی حکومت نے عراق میں تعلیم حاصل سینکڑوں لبنانی طلباء اور اساتذہ کو ملک بدر کردیا، ان میں نصر اللہ اور عباس موسوی بھی شام تھے۔ موسوی نے لبنان میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔ نصر اللہ نے اس مدرسے سے تعلیم حاصل کی اور یہاں استاد بھی رہے۔ حوزہ علمیہ نجف میں 2 سالہ قیام نے نصر اللہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

اسرائیل کے مسلح جد و جہد کا آغاز

1982ء میں اسرائیل کے لبنان پر حملے کے خلاف مسلح جد و جہد کا باقاعدہ آغاز کیا۔ انہوں نے منتشر جہادی گروپوں کو متحد کیا اور حزب اللہ کا جہادی ونگ ترتیب دیا اور اسرائیل مخالف جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔

حوزہ علمیہ قم ایران میں

1987ء لبنان میں ایک بار پھر تشدد کی لہر پھیل گئی۔ انہوں نے حالات سے مایوس ہوکر اپنی مذہبی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایران چلے گئے جہاں انہوں نے قم کے عالمی شہرت کے حامل ادارے سے اسلامی قانون اور فقہ کی ڈگری حاصل کی۔ 1989ء میں لبنان واپس آگئے اور اپنی جہادی سرگرمیوں میں دوبارہ مصروف ہوگئے۔ انہیں ممتاز لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھنے کا انتہائی شوق ہے جن میں اسرائیلی رہنما ایریل شیرون اور ناتن یاہو بھی شامل ہیں۔ وہ اسرائیلی رہنماؤں کی سوانح عمریاں اس لیے پڑھتے تھے تاکہ وہ اپنے دشمن کے مقاصد اور ان کے کام کرنے کے انداز کو سمجھ سکیں۔ لبنان واپسی پر شام کے لبنان میں کردار کے حوالے سے ان کے اپنے استاد اور حزب اللہ کے رہنما عباس موسوی کے ساتھ اختلافات شروع ہوگئے۔ موسوی لبنان میں شام کے کردار کے حامی جبکہ نصر اللہ اس کے مخالف تھے۔ نصر اللہ کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ حزب اللہ نے پارٹی کے دو گروپوں میں تقسیم ہونے کے اندیشے کے پیش نظر، نصر اللہ کو حزب اللہ کا تہران میں نمائندہ مقرر کرکے ایران بھیج دیا۔ 1991ء میں عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ اسی سال نصر اللہ بھی واپس آگئے لیکن اب شام کے بارے میں ان کے خیالات میں اعتدال آچکا تھا۔ 1992ء میں حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری موسوی اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں شہید ہوگئے اور ان کی جگہ حسن نصر اللہ کو حزب اللہ کا نیا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔

حوالہ جات

  1. محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء،ص47