سید قطب

ویکی‌وحدت سے

سید قطب قطب ان کا خاندانی نام ہے اور ان کے آباء و اجداد جزیرۃ العرب کے رہنے والے تھے۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وہاں سے ہجرت کرکے بالائی مصر کے علاقے میں آباد ہو گئے۔

خاندانی پس منظر

ان کا کنبہ ایک زمیندار گھرانہ تھا اور آپ کے والد محترم کا شمار اپنے خاندان اورعلاقہ کے بڑے بزرگوں میں ہوتا تھا، جملہ سیاسی وسماجی و انتظامی مسائل میں آپ کے والدبزرگوار کی رائے کوایک طرح سے فیصلہ کن مقام حاصل تھا۔ گویا قیادت کی صلاحیت سید قطب کوخاندانی وراثت سے ہی ملی تھی۔آپ کے والد کی ایک خاص بات ہفتہ وار مجالس ہیں جن میں اس وقت کے سیاسی وقومی معاملات کوقرآن کی روشنی میں سمجھاجاتاتھا۔ اس طرح گویاقرآن فہمی بھی آپ کو اپنے بابا کی طرف سے علمی وراثت میں ملی تھی۔ اسی کے باعث لڑکپن سے ہی روایتی ملائیت کے خلاف ان کے اندر شدید نفرت کی آگ بھڑک اٹھی تھی،کیونکہ روایتی مذہبی تعلیم کے مدارس قرآن مجید کی انقلابی تعبیر سے بہت بعید ہوتے ہیں آپ بچپن سے ہی کتب کے بہت شوقین تھے،اپنی جیب خرچ سے پیسے بچاتے ہوئے اپنے ہی گاؤں کے کتب فروش ’المصالح‘سے کتابیں خرید لیتے تھے اور بعض اوقات شوق مطالعہ انہیں ادھار پر بھی مجبور کر دیتا تھا۔

بارہ سال کی عمرمیں ان کے پاس پچیس کتابوں کی لائبریری مرتب ہو چکی تھی ،گویا امت مسلمہ کا یہ یکے از مشاہیر اپنی جسمانی عمر سے دوہری نوعیت کی ذہنی و فکری عمرکا حامل تھا ۔اس چھوٹی عمر میں بھی لوگ ان سے اپنے سوالات کیاکرتے تھے اور بعض اوقات بڑی عمرکے لوگوں کی ایک مناسب تعدادان سے اجتماعی طور پرکسب فیض بھی کرتے تھے تاہم خواتین کوان کی اسکول کی چھٹی کا انتظارکرنا پڑتاتھااور خواتین سے خطاب کے دوران ان پر شرم غالب رہتی تھی۔

سوانح عمری

ان کی پیدائش 9 اکتوبر 1906ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم گاؤں میں اور بقیہ تعلیم قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی اور بعد میں اسی یونیورسٹی کے پروفیسر ہو گئے۔ کچھ دنوں کے بعد وزارت تعلیم کے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس کے بعد اخوان المسلمین سے وابستہ ہو گئے اور آخری دم تک اسی سے وابستہ رہے۔ ان کے والد ایک سمجھدار اور عاقل اور نیشنل پارٹی کی کمیٹی کے رکن تھے، اور ان کے خاندان کے بزرگ تھے، جو کہ ان کی عزت اور زندہ دل تھے، اس کے علاوہ وہ اپنے طرز عمل میں بھی مذہبی تھے۔ جب سید قطب نے اپنی کتاب "مشاهد القيامة في القرآن"قرآن میں قیامت کے مناظر میں اپنے والد کے نام ایک وقف لکھا تو فرمایا: " تم نے مجھ میں یوم آخرت کا خوف نقش کر دیا تھا، اور تم نے مجھے نصیحت نہیں کی اور نہ ہی ملامت کی، بلکہ تم میرے سامنے رہتے تھے، اور آخرت کا دن تمہارے ضمیر میں اور تمہارے دلوں میں اس کی یاد ہے۔ اور آپ کی تصویر میرے تخیل میں نقش ہے جب ہم ہر شام رات کا کھانا ختم کرتے تھے تو آپ سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں اور اسے آخرت میں اپنے والد کی روح کے لیے ہدیہ کرتے، اور ہم، آپ کے چھوٹے بچے، آپ کی طرح، متفرق آیات اس سے پہلے کہ ہم انہیں مکمل طور پر حفظ کرنے میں اچھے ہوں [1]۔

تعلیم

جب آپ اسکول گئے تو ایک نئی خوبی نمودار ہوئی، اس کے علاوہ اس کی والدہ کی طرف سے خود اعتمادی اور والد کی طرف سے یہ ایک پختہ ارادہ تھا، جس کا ثبوت ان کا پورا قرآن پاک حفظ کرنا تھا۔ ، دس سال کی عمر میں۔ احساس اور خود اعتمادی کے عروج میں، 1919 کے انقلاب کی راہ ہموار کرنے والی سیاسی اور سماجی جدوجہد نے ان پر وطن کی محبت کے جذبے کے ساتھ اثر ڈالا اور وہ آزادی کے جذبے سے بھی متاثر ہوئے۔ ان کے گھر میں رائے کا سمپوزیم تھا، جس میں سید قطب نے نیشنل پارٹی کا اخبار پڑھا اور پھر تقریریں اور نظمیں لکھ کر عبادت گاہوں اور مساجد میں پھینکتے تھے۔

قاہرہ کی طرف ہجرت

سید قطب چودہ سال کی عمر میں قاہرہ گئے اور تقدیر نے انہیں ایک باضمیر خاندان کے ساتھ رہائش کی ضمانت دی جس نے انہیں تعلیم کی ہدایت کی، جو کہ ان کے چچا کا خاندان تھا، جو ایک استاد اور صحافی کے طور پر کام کرتے تھے، اس لڑکے میں سیکھنے کا شدید شوق تھا۔ 1929ء سے 1933 کے دوران برطانوی تعلیمی اداروں سے عصری تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک معلم کی حیثیت سے کیا۔ پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدامیں ہی ادیب اور نقاد ہونا آپ کی پہچان بن گئی تھی۔ اگرچہ کچھ ناول بھی لکھے لیکن زیادہ تر ادیبوں ،شاعروں اور عربی ناول نگاروں کی مددکرتے رہے۔ علوم و معارف میں ترقی آپ کی پیشہ ورانہ ترقی کا باعث بھی بنی اور 1939ء میں مصر کی وزارت تعلیم جس کا مقامی نام ’وزارت معارف‘ہے، میں انتظامی عہدوں پر تعینات ہو کراعلی افسر بن گئے۔

امریکہ کا سفر

1948 تا1950 سید قطب نے امریکہ میں قیام کیا جس کا مقصد وہاں کے تعلیمی نظام سے آگاہی حاصل کرنا تھا۔ ان کا کسی بھی مغربی ملک میں یہ پہلا دورہ تھا۔ نام نہاد سیکولرمعاشرہ کی قباحتیں آپ نے بہت گہرائی سے محسوس کیں اور خاص طورپر مغربی دنیاکا جوروشن چہرہ سارے عالم کے سامنے ہے اس کے اندرون میں چنگیزسے تاریک تر تاریکی آپ نے بنظر خود مشاہدہ کی، دل میں موجود ایمان بھڑک اٹھا اور اسی دورہ کے موقع پر آپ کی پہلی شہرہ آفاق تصنیف العدل الاجتماعیہ فی الاسلام1949ء میں شائع ہوگئی۔ امریکہ میں دوسالہ قیام کے دوران کے تاثرات اور مشاہدات بھی امریکہ ،جو میں نے دیکھا کے عنوان سے کتاب میں شائع ہوئے۔ علامہ اقبال کی طرح انتہائی دیانتداری سے سید قطب نے امریکی معاشرے کا تجزیہ پیش کیا،جہاں خامیوں اور کمزوریوں پر تنقید کی جبکہ اس معاشرے کی خوبیوں کوبھی واضح کردیا۔

انہیں ایک پرائمری اسکول ٹیچر کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی تنخواہ اور اپنی پرانی وراثت کے علاوہ کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرلیے یہ تبدیلی کمیونٹی کے ساتھ براہ راست رابطے کی ایک وجہ تھی، جس سے نمٹنے کا طریقہ گاؤں والوں کے انداز اور تجربے سے مختلف تھا۔ جس نئے معاشرے میں انہوں نے زندگی گزاری اس نے صحت مند شہر میں زندگی کے ترازو کو بدل دیا اور قاہرہ میں غیر ملکی قبضوں کی برائیاں اور سیاست کی خرابیاں عیاں ہوئیں، جہاں طبقاتی تقسیم اور متعصبانہ تصادم کے عوامل غالب تھے، اور خود غرضی اور اس کے نتیجے میں منافقت اور طرفداری مروجہ روح بن گئی۔

آزمائشیں

1950ء کے آغاز سے ہی اس ذہین انسان کو مذہب نے اپنی طرف کھینچ لیا اور انہوں نے اخوان المسلمین میں شمولیت اختیارکرلی۔ ابتداء آپ کی علمی استعداد کے باعث کے اخوان المسلمین کے ہفتہ وار رسالے کا مدیر اور مسوول مقررکیا گیا بعدد میں ان کو میں اخوان المسلمین کے مرکزی ذمہ دار برائے نشرواشاعت منتخب ہوئے اور پھر ان کا خلوص اور تقویت ایمان انہیں اس تنظیم کے اعلی ترین مشاورتی ادارے کی رکنیت تک لے آئے۔ ان دنوں جمال عبدالناصر نے حکومت کے خلاف تحریک چلارکھی تھی پہلے اخوان المسلمین اور جمال عبدالناصر کے تعلقات بہت اچھے رہے تھے اور ایک بار تو جمال عبدالناصرخود چل کر سید قطب کے گھربھی گئے تاکہ انقلاب کی کامیابی کیلئے تفصیلی منصوبہ تیارکیاجائے۔

اس کے بعد بارہ بارہ گھنٹے طویل نشستوں میں جزیات پر بھی بحث کی جاتی رہی اوراس دوران شہید قطب کو آنے والی حکومت میں وزارتوں کی پیشکش بھی کی جاتی تھی۔ جمال عبد الناصرکے ان اقدامات کے باعث اخوان المسلمین کی اکثریت بہت خوش ہو گئی تھی کہ شاید اب نفاذ اسلام کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔1952ء کے دوران جمال عبدالناصرنے ایک بغاوت کے ذریعے مصری حکومت کو چلتاکردیااورخود اقتدارکے ایوانوں پرقابض ہوگئے اور نفاذ شریعت کے تمام وعدوں سے منحرف بھی ہو گئے۔ بہت جلد جمال عبدالناصر کو سیکولرازم کی روایتی بدعہدی نے اخوان المسلمین سے بہت دور کردیا کہ مسلمانوں کو پہلے دن سے ہی لکم دینکم ولی دین کا سبق پڑھا دیا گیا تھا۔

اسلام اورسیکولرازم اکٹھے نہ چل سکے۔اس کے باوجود بھی اخوان المسلمین عوام کے اندر نظریاتی اور خدمت خلق کا کام کرتی رہی اور عوام الناس میں مقبول تر ہوتی رہی۔ بہت جلد مصر کے سیکولر حکمرانوں کیلئے ’اخوان المسلمین‘کاوجودہی ناقابل برداشت ہوگیا اور 1954ء کے دوران بغاوت کے جھوٹے الزامات کے تحت سیدقطب شہید سمیت ’اخوان المسلمین‘کے ہزارہاکارکنوں اور مقتدررہنماؤں کو قیدوبندمیں ڈال دیاگیااور انہیں بدترین تشدداور انتہائی غیراخلاقی اور غیرانسانی بہیمانہ مارپیٹ کانشانہ بنایا گیاکہ سیکولرازم کویہی رویہ ہی زیب دیتا تھا۔

عدالتی شکنجہ

تین سال کی طویل مدت تک جب طاغوت اپنی پوری کوشش کے باوجود اخوان المسلمین کے پائے استقامت میں لغزش پیدانہ کرسکا تو استعمار کی رگیں ڈھیلی پڑ گئیں اور سید قطب کومحدود نقل و حرکت اور لکھنے کی اجازت مل گئی۔ مصر میں فی ظلال القرآن پس دیوار زنداں سے منظر عام پر آئی اور آہنی سلاخون کا دوسراعرق معالم الطریق کے عنوان سے امت کو میسرآیا۔ اب تک ان کتب کے بے شمار طباعتیں اور کتنی ہی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔

1964ء کے دوران انہیں عراق کے صدرعبدالسلام عارف کی سفارش پر رہا کر دیا گیا یہ ایک اورامر تعجب ہے کہ پاکستان اور مصر کے مشاہیرکو عالمی حمایت تو حاصل ہوتی ہے لیکن اپنے ہی وطن کے حکمران ان کی نہایت نا قدری پر ہی کمربستہ رہتے ہیں۔ محض آٹھ ماہ کی مختصرمدت کے بعد ہی انہیں معالم الطریق جیسی کتاب لکھنے کے جرم میں دھر لیاگیا جبکہ اس مرد مجاہد نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرعدالت میں اپنی تحریرکردہ کتاب پرکسی طرح کامعذرت خواہانہ رویہ اختیارکرنے کی بجائے ڈنکے کی چوٹ پراپنے موقف کے حق میں پرزوردلائل پیش کئے۔

معالم الطریق کا تعارف

معالم الطریق 12 ابواب پر مشتمل 160صفحات کی مختصرسی کتاب ہے، لیکن محققین کے مطابق گزشتہ صدی میں عربی زبان میں اس سے عمدہ کتاب شاید نہیں لکھی گئی۔اس کتاب میں امت کو جھنجوڑاگیاہے کہ قرآن مجید کی فراہم کردہ بنیادوں پرایک نئی فکراور نئے معاشرے کاقیام عمل میں لایا جائے۔ اس کتاب کے مضامین کافی حد تک محمداقبال کے خطبات فکراسلامی کی تجدیدنو سے ملتے جلتے ہیں ۔ان کی بنیادی اٹھان توادیب اور شاعرکی حیثیت سے ہی تھی اور قرآن مجید جیسی الہامی کتاب میں بھی صرف ایک چیلنج ہے اور ادیبوں اور شاعروں کو ہے کہ اس جیسی کوئی کتاب یا سورہ یا آیت ہی بناکردکھادو۔ مصر کی تاریخ گواہ ہے کہ جب ادب و نقد اورقرآن مجید یکجا ہوگئے تو معالم الطریق جیسی مختصر کتاب سے ہی باطل شکست کھاگیا۔ سیکولرازم جیسے انسان دشمن نظریہ کی عدالتوں سے انصاف کی توقع رکھناگویااپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

علمی آثار

  • مهمة الشاعر في الحياة، وشعر الجيل الحاضر
  • الشاطئ المجهول (شعر)
  • نقد كتاب مستقبل الثقافة في مصر
  • التصوير الفني في القرآن
  • مشاهد القيامة في القرآن.
  • العدالة الاجتماعية في الإسلام.
  • في ظلال القرآن.
  • طفل من القرية.
  • خصائص التصور الإسلامي.
  • مقومات التصور الإسلامي.
  • أمريكا التي رأيت
  • كتب وشخصيات.
  • النقد الأدبي: أصوله ومناهجه.
  • السلام العالمي والإسلام.
  1. ترجمة الأستاذ الشهيد سيد قطب (شہید سید قطب کی زندگی نامہ)-odabasham.net (عربی زبان)- شا‏ئع شدہ از:25 اکتوبر 2010ء - اخذ شدہ بہ تاریخ :20اپریل 2024ء۔